Thursday, April 6, 2023
عمران خان کا منصوبہ - حصہ اول
Thursday, February 23, 2023
Javed sb, You Didn’t Have to Eat Your Heart Out Here
I used to be a fan of you, your rationality, your humanism, the way you thrashed unreasonable people such as Sadh Guru in debates, your bravery in the face of orthodoxy and all, despite your aloofness, which I think comes naturally with age and experiences of life. But there was no need to act dense at a place where you were invited as a guest.
Looks like this is not novel of you. Bushra Ansari’s sister
Neelum Ahmad Bashir in her travelogue on India recalls her visit to your house
accompanied by your sister - the way you acted impolitely to your sister in the
presence of guests and to the guests themselves, even though you were warmly
welcomed by Bushra in the past where your wife was laden with gifts by her as
well. People must not have taken that account seriously when it was first
published. Maybe you had your reasons. But guess what, that will make sense to
people now.
You complained that Indian icons, poets or showbiz legends,
are not welcomed warmly in Pakistan the way Pakistani ones are welcomed in India.
You said this in a ceremony where you were invited and in the country where you
were being celebrated at that very moment. You even received applause on your
statement. Not so rational of you. This was also the ceremony held in the name
of someone whose daughter was deported by Indian government. Let’s be more
honest about it. Indian icons who have visited Pakistan have always been
welcomed here, from Dillip Kumar to Raj Kapoor, Naseeruddin Shah, Mahesh Butt,
Pooja Bhatt, Salman Khan, Nawazuddin Siddiqui, Emraan Hashmi, Arbaaz Khan, Johnny
Lever, Urmila Matondkar, Kalki Koechlin, Kim Sharma, Preeti Jhangiani to your
highness among many. You complained Pakistan doesn’t celebrate Indian legends
such as Lata G. People love Hollywood movies and music legends here, from Kishore
Kumar to Arjit Singh. And truth be told, Pakistani actors are only invited in
India when they have some commercial value. In the wake of recent events, they
are also banned from working there (Fawad, Mahira and others) while you were sitting
in the cultural capital of Pakistan.
"You were denied accommodation in Mumbai because of your Muslim identity despite you being an ardent secular and an open atheist. Please fix your own house before lecturing others. There are enough people in Pakistan who are vocal against extremism and at a very high cost unlike you."
You were right about extremism but again you were not honest
about it. Who is roaming free in Pakistan? The main culprit of 26/11 was hanged
in your country, the rest were killed, and the masterminds are behind bars in Pakistan.
You know who is roaming free? The perpetrators of APS attack. We, the Pakistani
people, are suffering to the levels unimaginable to you. The audience sitting
in front of you who applauded your comment are the ones who are against this
extremism and terrorism. You didn’t need to say that to them in their face.
They were your allies. And bitter truth be told, you are in no moral position
to lecture us on that when your own house is collapsing under the weight of extremism
and your premiere has a shady history. You were denied accommodation in Mumbai
because of your Muslim identity despite you being an ardent secular and an open
atheist and that too, long before BJP came in power. Please fix your own house before lecturing others. There are enough
people in Pakistan who are vocal against extremism and at a very high cost unlike
you. I do not disagree with your stance, but I disagree with the occasion.
And to those who are saying that Javed sb’s comments are a
mirror etc, please open your eyes. You know who is endorsing his stance? People
like Kangana Ranaut – Bhakts and Sanghis, RSS and BD goons, the extremists on
the other side – even when Javed sb “doesn’t consider them important.” The
damage is done. The hate won. Ghus kay maara. Have some self-respect. Stop
blindly following ideological icons (just like the ones you criticize) in order
to show off your rebellious nature and to look different. You don’t need to be
politically correct about it. This was plain stupid. It will also damage the
future prospects of visitors to both countries. It will damage peace. Nobody
will invite anyone anymore.
Only when things start to get better, some idiocy ruins the
whole thing. The people were happy. They welcomed you and you had to ruin it.
Please, remain vocal on matters of concern but be wise about it. More is
expected from you. Don’t lose your admirers and don’t benefit the haters.
Wednesday, February 22, 2023
لہندا کیا ہے؟ کیا ہندکو، سرائیکی اور پوٹھوہاری لہندا یا مغربی پنجابی زبانیں ہیں؟
لہندا، جسے لہندی بھی کہتے ہیں شمال مغربی آریائی زبانوں کے گروہ کا نام ہے جو کہ پاکستان اور بھارت میں بولی جاتی ہیں۔ لہندا کی جینیاتی گروپنگ متعین نہیں ہے۔ یعنی یہ ثابت نہیں ہے کہ یہ زبانوں کے کس خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔
لہندا یا مغربی پنجابی کی اصطلاحیں “ایگزونم” ہیں جو کہ ماہرین لسانیات (کالونیل آقاوں) نے اپنی سہولت کے تحت ان زبانوں کے لیے استعمال کی ہوئی ہیں اور ان زبانوں کے بولنے والے لوگ یہ لہندا یا مغربی پنجابی کی اصطلاحیں اپنی زبانوں کے لیے ہرگز استعمال نہیں کرتے۔
ایگزونم اس نام کو کہتے ہیں جو باہر کے لوگ کسی چیز کے لیے اپنی سہولت کے لیے استعمال کرتے ہیں جیسے جرمن جرمنی کو ڈچ لینڈ پکارتے ہیں مگر انگریزی میں اسے جرمنی کہا جاتا ہے یا جیسے پختونوں کو باہر کے لوگ پٹھان پکارتے ہیں۔
فیسبک پوسٹ کے لیے نیچے والے لنک پر کلک کریں
کچھ داستان مدرسے کے دنوں کی
فیسبکی دانشور کیسے بنا جائے - حصہ چہارم
صوبہ ہزارہ، ہندکو اور اے این پی
جب صوبوں کی بات آتی ہے تو پھر یاد آ جاتا ہے کہ صوبہ سرحد یا “کے پی کے” میں بیس سے زاہد زبانیں بولی جاتی ہیں اور ہزارہ میں بھی پختون بستے ہیں جو ہندکو کے ساتھ ساتھ پشتو بھی بولتے ہیں اور کوہاٹ، صوابی اور پشاور میں بھی ہندکو بولی جاتی ہے۔
اے این پی ہزارہ کی سینکڑوں بلدیاتی، صوبائی اور وفاقی نشستوں سے ایک سیٹ نہیں جیت سکتی (شاید بٹگرام سے کبھی ایک صوبائی سیٹ جیتی تھی دو ہزار آٹھ میں)۔
اگرچہ میں اصولی طور پر لسانی بنیادوں پر صوبوں کا مخالف ہوں اور ان دلائل سے اتفاق کرتا ہوں مگر آپ کو صرف وسائل سے دلچسپی ہے۔ تربیلا اور شمالی علاقہ جات کا ٹورزم ہاتھ سے نکل جائے گا۔
انتظامی بنیادوں پر صوبے بنانے میں کوئی حرج نہیں۔ چترال،
مالاکنڈ اور فاٹا کو بھی چارسدہ، صوابی، مردان اور پشاور کے ساتھ رہنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یہاں دو نہیں پانچ چھ صوبے بن سکتے ہیں۔ کوہستان الگ، بشام، بٹگرام، کالا ڈھاکہ الگ، سوات دیر الگ، مالاکنڈ الگ، فاٹا کی ایجنسیوں کے الگ۔
https://www.dawn.com/news/710080/abbottabad-killings-anniversary-rallies-renew-demand-for-separate-hazara-province-2
زبان کون بناتا ہے؟
وسیم الطاف صاحب نے پوسٹ لگائی کہ اردو کی مفلسی کا یہ عالم ہے کہ اس میں لفظ سٹیک ہولڈر کا متبادل نہیں ہے۔
عرض ہے کہ چینی اور جاپانی زبان میں جب کسی لفظ کا متبادل موجود نہیں ہوتا تو اس کا چینی جاپانی متبادل بنا دیا جاتا ہے۔ یہ مفلسی نہیں ہوتی۔ ہر زبان میں ایسا ہوتا ہے۔ جیسے چائینیز میں میکڈونلڈز کو مائے دی لو یا جاپانی میں مائیکروفون کو مائیکو بولا جاتا ہے۔ اردو میں ہاسپیٹل کو ہسپتال یا اسپتال، عربی میں پیپسی کو بیبسی۔ یہ تب کیا جاتا ہے جب متبادل صوتی کیریکٹر یا الفاظ نہیں ہوتے یا آسانی سے ادا نہیں ہو پاتے۔
انگریزی کے سٹیک ہولڈر کو سٹیک ہولڈر استعمال کرنا اردو ہی کہلائے گی یا سٹیکر کہا جا سکتا۔ جیسے کمپلینٹ کو شکایت کے بجائے کمپلین لکھا جاتا ہے اکثر۔ زبان جامد نہیں ہوتی۔ اس میں ارتقاء ہوتا رہتا ہے۔ اردو اور ہندی میں پہلے سے بہت سے انگریزی اور خاص طور پر پرتگیزی کے الفاظ شامل ہیں جیسے گلاس، بالٹی۔ اب انگریزی میں کوزے یا لوٹے کے لیے کوئی لفظ نہیں تو کیا انگریزی مفلس ہو گئی؟ جب زبان بنی تب جو کلچر تھا وہی چلے گا۔
اسی طرح انگریزی نے بہت سے الفاظ اردو اور ہندی یعنی ہندوستانی سے مستعار لیے جیسے مصالحہ۔ اب جو جس کلچر سے چیز آئے گی اس کو آپ اپنا خودساختہ نام دیں گے تو مزاحیہ لگے گا۔ جیسے کنڈوم کو کچھ لوگ آلہ بندش تولید کہتے اور اب یہ بھی فارسی کے الفاظ ہیں۔
زبان عوام بناتی ہے۔ جو وہ استعمال کریں وہی زبان ہے چاہے جہاں سے بھی آئے۔ الفاظ سے زبان نہیں بنتی۔ زبان گرائمر، رسم الخط اور انشاپردازی سے بنتی ہے۔ اسی میں آپ کوئی بھی لفظ مستعار لے کر استعمال کر سکتے ہیں۔ کیونکہ سب زبانیں ایک دوسرے سے الفاظ مستعار لیتی ہیں اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
مزید یہ کہ زبان عوام ہی بناتی ہے۔ روزمرہ محاورہ اور جو عمومی ہو گا وہی چلے گا۔ ورنہ ہمارا ایک پورا ادارہ ہے ادارہ فروغ قومی زبان جو ستر سالوں سے عوام کے ٹیکس پر پل رہا ہے اور اردو میں الفاظ کے متبادل بنا بنا کر لسٹیں شائع کرتا رہتا ہے مگر کوئی ان الفاظ کو پوچھتا بھی نہیں۔ اب لسٹ کی اردو بھی موجود ہے اور پرانی ہے۔ کسی کو معلوم ہے یا کوئی استعمال کرتا ہے؟ وہی لفظ چلے گا جو عوام میں آسان اور مقبول ہو گا۔
ڈاکٹر عاکف خان
عدنان خان کاکڑ کا جوابی کمنٹ: بندہ مشکل میں پڑے تو کسی پینڈو سے پوچھ لے. جیسے موٹر سائیکل کے سائیڈ بورڈ کا آپ چاہے جتنا مرضی نستعلیق ترجمہ کر لیں لیکن جو بات ٹاپا میں ہے وہ نہیں بنے گی. اسی طرح انگریز چاہے پک اپ کہیں اور امریکی ٹرک، لیکن اردو لفظ ڈالا ہی ہے
کیا ہندکو، پوٹھوہاری اور سرائیکی پنجابی کے لہجے ہیں؟
ڈاکٹر عاکف خان
اگر اس منطق سے جائیں کہ سب لہندا اور چڑھدا لہجے ہیں اور سب پنجابی ہی کے لہجے ہیں تو پھر زبانیں تاریخ میں کبھی جدا نہ ہوں نہ ان کا ارتقاء ہو۔ دری اور فارسی، پرتگالی اور ہسپانوی، ہندی اور اردو حتی کہ سرائیکی اور سندھی میں بھی اتنی مشابہت ہی ہے۔
یہ فیصلہ کرنا کہ کس کی زبان الگ ہے یا نہیں یہ عوام کا ہوتا ہے مرکز کا نہیں۔ یہ مرکزیت کی سیاست مقتدرہ کی سیاست ہے۔ اس سے حتی الامکان بچنا ہی چاہیے۔ وزیرستان کی پشتو بٹگرام کے پشتون کو سمجھ نہیں آتی، مگر پھر بھی وہ پشتو ہے۔ کیوں؟ کیونکہ وزیرستان والا بھی اسے پشتو ہی کہتا ہے اور بٹگرام والا بھی۔ اسی طرح ہرات میں دری بولنے والوں کو کبھی تہران سے کسی نے نہیں دھمکایا کہ یہ تو فارسی کا لہجہ ہے، تم گستاخ نے اس کو الگ زبان کیوں بولا؟ اور کیا مجال ہندکو سرائیکی پہاڑی پوٹھوہاری غلام قوموں اور غلام لہجوں کی کہ پنجابی کے تسلط کو چیلنج کریں۔ بہت بری بات۔ اپنی اوقات میں آ جائیں۔ ہمیں زیادہ پنجابی لوگ اور علاقہ چاہیے۔ زبردستی کوئی کسی شناخت میں شامل ہو سکتا ہے بھلا؟ کتنی مضحکہ خیز بات ہے۔
ایک اعتراض ہے کہ ہندکو سرائیکی بولنے والا کینیڈا جا کر خود کو پنجابی کہتا ہے کیونکہ وہاں اسے سکھ کمیونٹی کا “آشیرباد” چاہیے۔ جس کو جس زبان سے فائدہ ہو گا وہ بولے گا۔ اس میں برا منانے والی کون سی بات؟ مجھے لگتا ہے کہ کوئی خوش ہوتا ہے اچھا دوستانہ ماحول پیدا ہوتا ہے میں اس کے ساتھ اس موقع کے حساب سے چینی، اردو، پنجابی، سرائیکی، انگریزی، ٹوٹی پوٹھی عربی فارسی ہسپانوی تک ٹھوک جاتا ہوں۔ ایسے ہی لوگ ایک دوسرے سے کمیونیکیٹ کرتے ہیں۔
کسی ہندکو والے نے فیسبک میں اصرار کیا کہ ہندکو کا اساں تساں والا لہجہ پنجابی ہے جو فیسبک کو اپنانا چاہیے تو ایک بہت پیارے دوست جو وہاں کام کرتے تھے انہوں نے بڑی مشکل سے سب کو سمجھایا کہ لاہور امرتسر والی پنجابی سٹینڈرڈ ہے۔ تو ایک تضاد تو یہیں پر آ گیا، ہندکو بولنے یا ہزارہ والے نے جب کہا کہ اس کی زبان پنجابی ہے تو آپ کو سٹینڈرڈ لہجہ یاد آ گیا کہ یہ وت، اساں، تساں، کرساں کہاں سے پنجابی ہو گئی؟ پہلے خود ہی اسے بتاتے ہیں کہ یہ پنجابی ہے۔ جب وہ کہہ رہا ہے یہ پنجابی ہے تو کہتے ہیں نہیں یہ پنجابی نہیں ہے یا اصل پنجابی نہیں ہے۔ یہیں سے دیکھ لیں تضاد۔ تضاد نہ بھی ہو، چلیں لہجہ ہی مان رہے ہیں مگر ایک کمتر اور غیر سٹینڈرڈ۔ تو اس سے بہتر نہیں اس کو الگ ہی زبان ماننے دیں یا پھر وہ برابری پر آ جائے گی اور فیسبک کو ہندکو کو الگ سے لانا پڑے گا؟ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ ارادی طور پر ایسا کر رہے ہیں مگر یہی غیرارادی تعصب اور احساس برتری ہے پنجابی زبان اور سیاست کا جس کے باعث سرائیکی، پوٹھوہاری، پہاڑی اور ہندکو اپنی الگ لسانی شناخت پر مصر ہیں۔ آپ کھلم کھلا ڈیکلیئر کر دیں کہ یہ زبانیں الگ ہیں تا کہ کینیڈا میں بیٹھے سکھوں کو بھی علم ہو جائے کہ ہندکو پنجابی نہیں ہے۔ وہاں تو ایک پختون بھی سکھ کے ساتھ پنجابی ہی بول رہا ہوتا ہے، سکھ کو کوئی ٹینشن نہیں کہ اصلا پنجابی ہے یا یہ تو کشمیری بٹ ہے جو سو سال سے لاہور میں بسا ہے۔
نیشنلزم تو ایکسکلوزو اور پیوریٹن ہوتا ہے، یہ ریاستی ون یونٹ والا پنجابی نیشنلزم جو زبردستی سب کو ایک اور مرکز میں شامل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس کو کم از کم ہمارے پڑھے لکھے سمجھدار دوستوں کو سیکنڈ نہیں کرنا چاہیے۔ زبانوں کا ارتقاء بیشک ڈسکس ہونا چاہیے، پنجابی بھی کبھی سندھی کا لہجہ تھی مگر یہ حاکمیت، مرکزیت اور غیرضروری تسلط کوئی ترقی پسند اور ریشنل اپروچ نہیں ہے۔
اور کسی نے پنجابی کا مذاق نہیں اڑایا۔ یہ جذباتیت ہے۔ ایک سٹیٹ سپانسرڈ پراجیکٹ کا مذاق اڑایا گیا جو کہ بلوچوں اور پختونوں کے جائز مطالبات کو لسانیت کے نام پر کرش کرنے کے لیے بنا ہے۔ پنجابی زبان یا پنجابیوں کو کس سے خطرہ ہے؟
(ڈاکٹر عاکف خان)
اسی پر کچھ مزید کمنٹس جو فیسبک پوسٹس میں کیے گئے۔
سٹیٹ سپانسرڈ پنجابی نیشنلزم جس کے سربراہ عمار شاہ کاظمی پنجابی ہیں دنیا کا وہ واحد نیشنلزم ہے جو زبردستی دوسری قوموں اور زبانوں کو بھی اپنے اندر شامل کرنے پر مصر ہے۔
———————————
پختون نسل پرست ہزارہ والوں کو نفرت سے پنجابیان کہتے ہیں، پنجاب والے محبت سے۔ نہ یہ پورا چھوڑتے ہیں نہ وہ پورا اپناتے ہیں۔ بیچ میں چمگادڑ بنایا ہوا ہے۔ جب اپنی الگ شناخت کی بات کریں تو اے این پی والوں کو یاد آتا ہے کہ ہزارہ میں تو ہندکو بولنے والے نسلا پختون ہیں اور پنجابی نسل پرستوں کو یاد آتا ہے کہ ہندکو تو پنجابی کا لہجہ ہے۔ اجی جو پوٹھوہاری اور پہاڑی پنجاب میں آتے ہیں، ان کو تو پورا اور برابر کا پنجابی مانیے پہلے۔ پھر ہندکووانوں یا ہزارہ والوں کی باری آئے گی۔ سرائیکیوں سے بھی یہی مخمصہ ہے۔ یا تو پھر چھوڑیں سب فضول ایسی بحثیں، ہر ایک کو سمجھنے دیں جو وہ خود کو سمجھتا ہے۔ ڈائیورسٹی کو سیلیبریٹ کریں۔
——————————
سبحان احمد صاحب کا کمنٹ
پنجابی نیشنلسٹ اس ملک میں سب سے زیادہ مضحکہ خیز لوگ ہیں۔ پنجابی قوم پاکستان کی سب سے زیادہ پریولیجڈ قوم ہے اب وہ اپنے قومی حقوق کا مطالبہ کس سے کریں؟ اگر انکی زبان اپنا جائز مقام حاصل نہیں کر سکی تو اس کا گلہ وہ کس سے کریں؟ ایک بیرونی دشمن تو درکار تھا لہذٰا انہوں نے ہندوستانی اور افغانی مہاجروں کی صورت میں دو دشمن تلاش کیے جو مبینہ طور پر پنجابی قوم کے مفادات کو نقصان پہنچانے میں سب سے آگے ہیں۔ مزید ایک دشمن جنوبی پنجاب کے بلوچوں کی صورت میں دریافت ہوا جو پنجاب کی تقسیم کی سازشیں کر رہے ہیں۔
بجائے یہ کہ یہ اپنی زبان کی بحالی کے لیے کام کرتے، تراجم کرتے، ادب تخلیق کرتے، پنجابی میں معیاری فلمیں بناتے جو لبیکیوں کی مذہبی انتہا پسندی کو کاونٹر کرتی، یہ ایک فسطائی تحریک بننے کی جانب گامزن ہیں۔
پاکستان میں لسانی و نسلی شناخت کی متقاطعیت یا انٹرسیکشنالیٹی
پاکستان میں لسانی و نسلی شناخت کی متقاطعیت یا انٹرسیکشنالیٹی
ڈاکٹر عاکف خان
سب سے بڑا مسئلہ پاکستان میں زبانوں کا یہ ہے کہ لائنیں کلیئر نہیں ہیں۔ اس کو تنوع کہیں یا خوبصورتی لیکن مسئلہ تب اجاگر ہوتا ہے جب شناختی سیاست اجاگر ہوتی ہے، اسے کوئی خود کرے یا وہ خود ہو وہ بہرحال اپنی جگہ موجود ہے اور اس منہ نہیں موڑا جا سکتا۔ یہ اچھی بات ہے یا بری یا یہ لائنیں کلیئر کی جا سکتی ہیں، چلیے دیکھتے ہیں۔
اس مسئلے پر بات نہیں کی جاتی جس کی دو بڑی وجوہات سمجھی جاتی ہیں۔ ایک یہ ہے کہ مقتدرہ ناراض ہو گی یا نسل پرست دوسری یہ کہ مرکز کا کنٹرول کمزور پڑے گا۔ لیکن یہ بلی کو دیکھ کر کبوتر کی آنکھیں بند کرنے والی بات ہے۔ پچھلے دنوں مریم نواز نے صوبہ ہزارہ کی بات کی تو ایمل ولی نے نعرہ لگایا کہ یہ صوبہ سرحد کو تقسیم کرنے کی سازش ہے۔ صوبے بنانا پنجاب سے شروع کریں۔ جب پنج آب سے یہ بات شروع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہی عذر سامنے آتا ہے کہ پنجاب کو تقسیم کرنے کی سازش ہے۔ بھارت میں آدھا پنجاب رہ گیا تھا جسے انہوں نے مزید صوبوں میں تقسیم کر دیا، کیا اس سے پنجاب تقسیم ہو گیا؟
خیر شناخت کی طرف آتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی پیچیدہ اور انٹرسیکشنل معاملہ ہے جس کے لیے لائنیں نہیں کھینچی جا سکتیں۔ جیسے پختون نیشنلسٹوں کا دعوی ہے کہ ہزارہ میں ہندکو بولنے والے پختون آباد ہیں جبکہ پشتو بولنے والوں کی بھی کثیر تعداد ہے۔ پنجابی نیشنلسٹوں کا دعوی ہے کہ ہندکو، پہاڑی اور پوٹھوہاری پنجابی کے لہجے ہیں۔ اب پہلے یہی طے نہیں ہو سکتا کہ یہ نسلی شناخت ہے یا لسانی۔ صوبہ سرحد میں پشتو بولنے والوں کو پختون یا پشتون سمجھا جاتا ہے۔ اے این پی کے دوست کہتے ہیں کہ پختون علاقوں میں بسنے والے سب پختون ہیں۔
اب اگر پہلی بات درست ہے تو ہزارہ میں بسنے والے ہندکو سپیکنگ نسلا پختون پختون کہلائیں گے اور اگر دوسری بات درست ہے تو کیا پنجاب میں بسنے والے آفریدی، کاکڑ اور نیازی پختون نہیں کہلائیں گے؟ اسی طرح اگر ہزارہ میں بانے والے پختون ہندکو بول رہے ہیں اور اگر ہندکو پنجابی کا لہجہ ہے اور الگ زبان نہیں ہے تو کیا وہ پختون پنجابی ہو گئے؟ کیا پنجاب میں بسنے والے پختون نسلا پنجابی ہیں اگر وہ پنجابی مادری زبان کے طور پر بولتے ہیں؟ اسی طرح نسلا بلوچ سرائیکی بولنے والے بھی ہیں اور سندھی بولنے والے بھی، پختون بھی سندھی بولنے والے ہیں، انہیں کیا کہا جائے گا؟ یو کے میں پیدا ہونے والا پاکستانی بچہ جو صرف انگریزی سمجھتا اور بولتا ہے، کیا وہ انگریز ہو جائے گا؟
اے این پی کی مرکزی قیادت میں بلور خاندان پیش پیش ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ پشاور کے ہندکو سپیکرز ہیں۔ کیا وہ پنجابی ہیں یا پختون ہیں۔ اسی طرح کراچی میں مہاجروں کو اردو سپیکر کہا جاتا ہے مگر ان میں گجراتی، بنگالی، پنجابی اور کئی دوسری زبانیں بولنے والے لوگ بھی موجود ہیں۔ سب مہاجر یو پی سے نہیں آئے۔
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ زبان ایک دم تبدیل نہیں ہوتی۔ جنوب کی سرائیکی مختلف ہے، ڈی آئی خان کی مختلف۔ پنجابی شمال میں جاتے جاتے پوٹھوہاری اور ہندکو کے نزدیک ہو جاتی ہے اور جنوب میں سرائیکی سے ملتی جلتی ہے۔ ہری پور، ایبٹ آباد اور مانسہرہ کی ہندکو ایک دوسرے سے بھی مختلف ہے اور مغرب میں موجود تناول اور مشرق میں موجود گلیات کی ہندکو سے بھی۔ شنکیاری، بفہ، ڈوڈھیال اور چھتر میں ہندکو اور پشتو مکس بولی جاتی ہے۔ ایبٹ آباد، حویلیاں اور ہری پور کے نسلا پختون لوگوں کی ہندکو میں پشتو کے الفاظ اور چھاپ ہیں اور ان کی ہندکو ہزارہ کے قدیم قبائل جیسے گجر، عباسی، کڑلال، مغلوں اور اعوانوں سے تھوڑی مختلف ہے، جبکہ کلچر بھی کافی مختلف ہے۔
کیا صوبے بنانے سے شناخت کا یہ انٹرسیکشنکل شناختی مخمصہ حل ہو سکتا ہے؟ اس کا ایک سادہ حل ہے جو کہ کوئی بھی ماننے کو تیار نہیں۔ وہ یہی ہے کہ جو خود کو جو سمجھتا ہے سمجھنے دیجیے۔ کسی کو زبردستی نہ اپنے میں شامل کریں نہ کسی کو زبردستی اپنے میں سے نکالیں۔ تو عرض ہے کہ یہ انٹرسیکشنل شناخت ہے۔ اپنی زبان اور بولی کو منانے والے دن دوسروں کی بولیوں پر ڈاکے نہ ڈالیں، اپنی زبان اور کلچر کو منائیں، پھر کسی کو کسی پر تنقید یا ایک الزام کے تحت “مذاق اڑانے” کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
(ڈاکٹر عاکف خان)
مادری زبان اور معاشرتی ارتقاء
مادری زبان اور معاشرتی ارتقاء
تحریر: ڈاکٹر عاکف خان
اگرچہ مادری زبان کو زندہ رکھنا ضروری ہے لیکن ضروری نہیں کہ زبان ہی شناخت کو طے کرے۔ شناخت کو طے کرنے میں زبان کے ساتھ ساتھ اور بہت سارے عوامل ہیں جیسا کہ ہجرت کرنے والے بڑے بڑے قبیلوں کی مثالیں دیکھ لیں۔ ضرورت کے تحت وہ نئی جگہ کی زبان کے ساتھ اپنی زبان کو منطبق کر لیتے ہیں۔ لیکن رسوم و رواج، رہن سہن، معاشرتی اصول، لباس، مذہب وغیرہ وہی رہتے ہیں۔ جیسے ہزارہ ڈویژن یا پنجاب اور کراچی میں بسنے والے پختون پشتو نہیں بول سکتے لیکن باقی رسوم و رواج کافی حد تک وہی ہیں جو پشتو بولنے والوں یا پشتون علاقوں کے ہیں۔ اسی طرح پشتون علاقوں میں بسنے والے دوسری زبانیں بولنے والوں کے کلچر پشتون کلچر جیسے ہیں جیسے کوہستانی، پشاور اور کوہاٹ کے ہندکو سپیکر بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگ جیسے خیبر پختونخواہ اور افغانستان کے سکھ، ہندو اور یہودی مذاہب کے لوگ۔ نئی زبان میں پرانے الفاظ کی آمیزش سے زبان کا کلچر بھی قائم رہتا ہے جیسا کہ اردو میں فارسی، عربی، ہندی، انگریزی اور پرتگیزی زبانوں کے الفاظ اور اثر ابھی تک موجود ہیں۔ اور یہ ضروری نہیں کہ زبان کی تبدیلی کسی جبر (opression) یا استحصال کا نتیجہ ہو۔ جیسے ہزارہ ڈویژن کے پختون تو حملہ آور تھے باہر سے آئے تھے لیکن مقامی لوگوں کی زبان اپنانی پڑی اگرچہ کلچر قائم رکھا۔ آج بھی اس علاقے میں ہندکی (ہندکو بولنے والے مقامی قبائل جیسے گجر، مغل، عباسی، سردار اور اعوان وغیرہ) اور پٹھان (ہندکو بولنے والے دوسرے علاقوں سے آنے والے پختون قبائل، تنولی، جدون، ترین، یوسفزئی، سواتی وغیرہ) کی مخاصمت موجود ہے جبکہ اٹک پار والے پختون ان دونوں گروپس کو پنجابی گردانتے ہیں۔ اسی طرح مانسہرہ ڈویژن، بٹگرام یا ہری پور (سری کوٹ) کے پشتو بولنے والے علاقوں کے لوگوں کی دو مادری زبانیں ہیں، ہندکو بولنے اور پشتو اگرچہ ایک کا اثر زیادہ ہوتا ہے اور دوسری دوستوں اور پڑوسیوں کے ساتھ بولی جاتی ہے۔ اسی طرح پشتون علاقوں میں ہندکو بولنے والے بھی موجود ہیں جیسے صوابی (ہیملٹ)، پشاور، کوہاٹ اور بنوں وغیرہ میں یا ڈیرہ اسماعیل خان والی سرائیکی جو ہندکو اور سرائیکی کا درمیانی لہجہ ہے۔
اسی طرح بعض لوگ باقی کلچرل عناصر کو بھول کر صرف زبان کو یاد رکھتے ہیں۔ جیسے مغرب میں بسنے والے ایرانی جو پوری طرح مغرب زدہ ہونے کے باوجود گھروں میں فارسی بولتے ہیں۔
لہذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک بچہ جس کو شروع سے اردو سکھائی گئی گھر میں لیکن اس کے ماں باپ کی مادری زبانیں ایک یا دو ہیں، جیسا کہ اکثر گھرانوں میں ہے اور بچے اردو بول رہے ہوں۔ انہیں اپنی مادری زبانیں سیکھنے میں دس پندرہ سال لگتے ہیں۔ کیا وہ اردو میں سوچیں گے یا اپنے ماں یا باپ میں سے کسی کی زبان میں؟ یقینا اردو میں۔ لیکن ان کو کیا آپ دو تین زبانیں اکٹھی سکھا سکتے ہیں؟ اگر سکھا بھی دیں تو مادری زبان کونسی ہو گی اور کیا ایک شخص بہت ساری مادری زبانوں کا حامل ہو سکتا ہے؟ کیا وہ بیک وقت کئی زبانوں میں نہیں سوچ سکتا اور کیا یہ ضروری ہے کہ صرف ایک بالغ اور کئی زبانیں بولنے والا صرف مادری زبان میں سوچے؟ اس پر کوئی تحقیق موجود نہیں یہ صرف ایک مشاہداتی رائے ہے جو کافی حد تک درست ہے لیکن مطلق نہیں ہے۔ سائنسدانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ زبان دماغ کا فریم ورک تبدیل کرتی ہے۔ نئی زبانیں سیکھنے اور بولنے سے آپ کے دماغ کے نیورل پیٹرن تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ملٹی لنگوئل بچے حساب اور سائنس یا پرابلم سالونگ میں تیز ہوتے ہیں۔ تو کیا بچوں کو ایک زبان پر محدود کرنا درست ہے؟
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک گجراتی بولنے والی فیملی نے 75 سال پہلے پاکستان کا رخ کیا اور وہ کراچی میں آن بسے اور ان کے نئی نسل صرف اردو بولتی ہے تو کونسا ایسا لمحہ ہو گا جہاں ان کی مادری زبان گجراتی سے اردو میں تبدیل ہوئی اور جہاں بچوں نے اردو میں سوچنا شروع کیا؟ اسی طرح وہ پختون قبائل جو پنجاب، ہندوستان یا ہزارہ ڈویژن میں ایک دو یا تین صدیوں پہلے جا کر بسے اور جو کلچرلی پشتون ہی ہیں مگر زبان تبدیل ہو گئی تو کیا ان کی شناخت بھی تبدیل ہو گئی؟ مادری زبان کا شناخت یا قومیت سے تعلق کس حد تک ہے اور شناخت طے کرنے میں کس حد تک فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے یہ کوئی بھی طے نہیں کر سکا نہ کر سکتا ہے۔
مزید براں وہ زبانیں جو وقت کے ساتھ معدوم ہوتی جا رہی ہیں ان کو محفوظ کرنے کے لیے کیا سدباب کیے جائیں؟ کیا بچوں کو ان زبانوں میں تعلیم دینا ہی واحد حل ہے؟ کیا وہ ایسی زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے معاشرے میں پیچھے نہیں رہ جائیں گے جس میں کوئی تراجم، لٹریچر اور کتب موجود نہیں؟ کیا ماہرین لسانیات (لنگوئسٹس) کا کام کسی زبان کو اس طرح محفوظ کرنا ہے؟ ماہرین لسانیات ایسی زبانوں کے رسم الخط تجویز کر کے اس زبان کی کہانیاں، حکایات، محاورے، لہجہ اور تحفظ وغیرہ ہی محفوظ کرتے ہیں وہ زبان کے ایک قدرتی معاشرتی ارتقاء کو روکنے کی کبھی بھی ترویج نہیں کرتے نہ اس کو ایک معاشرتی طور پر صحت مندانہ عمل سمجھتے ہیں۔ بعض ادبی حلقے اور زبان دان زبانوں کے حوالے سے رجعت پسندی اور زبان کی حفاظت اور "پاکیزگی اور طہارت" پر یقین رکھتے ہیں (جس کا میں بالکل حامی نہیں ہوں) لیکن وہ ماہرین لسانیات نہیں ہوتے وہ صرف ایک زبان کے ماہر ہو سکتے ہیں زبانوں کی سائنس اور علم کے ماہر نہیں ہوتے۔ یہ ایسا ہے جیسے ایک شخص فوٹو شاپ کا ماہر ہو، آپ اسے سافٹ ویئر انجینئر نہیں کہہ سکتے۔
مادری زبان کی احیاء کی تحریکیں بالکل درست ہیں ضروری ہیں اور بالکل چلنی چاہیئں۔ ریاست کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ایک زبان کو عوام پر مسلط کیا جائے۔ اپنے بچوں کو مادری زبان بھی سکھانی چاہیے لیکن یہاں پر یہ خیال بھی رکھنا چاہیے کہ معاشرتی ارتقاء نہ تو ریاست کا تابع ہوتا ہے نہ قوم پرستی کا۔ ریاست تسلط سے زبان کو تبدیل کر سکتی ہے بالکل بجا، تحریکیں زبان کا احیاء بھی کر سکتی ہیں یہ بھی درست ہے اور میں اس دوسری والی پوزیشن کا حامی بھی ہوں۔ لیکن پاکستان جیسے ملک جہاں زبان اور کلچر کا تنوع بہت زیادہ ہے وہاں اگر ریاست کا زبان مسلط کرنے کا جبر درست نہیں تو قومیت پسندوں کا ایک زبان کا نفاذ ہی درست ماننا بھی درست نہیں بلکہ اوپر بیان کیے گئے عوامل جیسے کہ معاشرے میں تنوع، ارتقاء، علم کی ترویج اور پیچیدہ معاشرتی ساخت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے اور ایک ترقی پسند اور ریشنل پوزیشن کو اپنانا چاہیے۔ کسی بھی زبان کی سیاست اچھی بری ہو سکتی ہے، افادیت بھی کم زیادہ ہو سکتی ہے لیکن کوئی زبان بحیثیت خود اچھی بری نہیں ہوتی۔
Thursday, February 16, 2023
سائنسی تھیوری کیا ہے؟
تحریر: ڈاکٹر عاکف خان
ایک ہوتی ہے انگریزی والی تھیوری جس کو آپ سوچ یا نظریہ کہتے ہیں۔ ایک ہوتی ہے سائنٹیفک تھیوری۔ یہ الگ چیزیں ہیں۔ سائنٹیفک تھیوری فزیکل لاز کی وضاحت کو کہتے ہیں جو تجربات اور مشاہدات کے بعد وضع کی جاتی ہے۔ لاز اور پرنسپلز وہ مشاہدات ہیں جو ہم کائنات میں دیکھتے ہیں۔ جیسے ارتقاء، گریویٹی، وقت کی سمت ، تھرموڈائینیمکس، انرجی کی کنزرویشن، قانون بقائے مومینٹم، انرجی ماس کنورژن۔ اکثر لوگ تھیوری کی ان دو تعریفوں کو مدغم کرتے ہیں یا ان کو سائینٹفک تھیوری کا علم نہیں ہوتا۔
اب ان لاز میں سے کچھ ہر کوئی دیکھ اور سمجھ سکتا ہے۔ جیسے آپ کبھی بھی دسویں مالے سے چھلانگ نہیں لگائیں گے کیونکہ آپ کو علم ہے کہ نیچے گر کر کام ہو جانا ہے۔ آپ کو تھیوری آف گریویٹی کا کوئی علم نہ بھی ہو تب بھی آپ ایسا نہیں کریں گے۔ کیونکہ گریویٹی کا لاء سب کی سمجھ میں آتا ہے۔ مگر کچھ لاز تھوڑے کمپلیکیٹڈ ہوتے ہیں جیسے تھرموڈائینیکمس کا لاء یا انرجی کنزرویشن یا ارتقاء۔ ان کا مشاہدہ ہر کوئی نہیں کر سکتا یا جانچ نہیں سکتا۔ یا تو وہ سست ہوتے ہیں یا مبہم۔
جیسے ارتقاء ایک لاکھوں کروڑوں اربوں صدیوں پر محیط مشاہدہ ہے جسے آپ اپنی زندگی میں نہیں کر سکتے۔ ہاں آپ چھوٹے جانداروں یا پھر ایک لمبے عرصے کے دوران کیے گئے مشاہدات جیسے فوسلز وغیرہ یا ڈی این اے کو دیکھ کر کر سکتے ہیں۔ اب اس کے لیے ہر بندے کے پاس وقت تو نہیں ہوتا لہذا سائنسدان ہی یہ کام کرتے ہیں۔ عام شخص کو سمجھ نہیں آتی وہ اسے جھوٹ یا سازش قرار دیتا ہے۔ اسی طرح تھرموڈائنیمکس یا انرجی کنزرویشن کے لاء اگرچہ مشاہداتی بھی ہیں۔ سب کو علم ہے کہ ٹھنڈی چیز سے گرم چیز کو مزید گرم نہیں کیا جا سکتا۔ مگر مبہم ہے۔ اسی لیے لوگ پانی سے چلانے والی گاڑیاں بنانے کے دعوے کرتے ہیں۔
اب تھیوری یہ کرتی ہے کہ ان مشاہدات یعنی لاز کی وضاحت کرتی ہے کہ یہ کیسے اور کیوں ہو رہا ہے۔ یہ کام تجربات اور سائنٹیفیک میٹھڈ سے کیا جاتا ہے۔ تھیوری کو وقت کے ساتھ ساتھ بہتر بھی بنایا جا سکتا ہے اور نئی تھیوری بھی لائی جا سکتی ہے جو اسی عمل کو کسی اور طرح واضح کرے۔
وضاحت کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ آپ اس علم سے فائدہ اٹھا کر ٹیکنالوجی یا انسانی استعمال میں لا سکیں اس قدرتی عمل، لاء یا پرنسپل کو۔ جیسے آگ ایک قدرتی عمل ہے۔ پرنسپل ہے فیول، آکسیڈنٹ اور حرارت آگ بنائیں گے۔ مگر کیا ہے کیسے لگتی ہے یہ سمجھ آ گیا تو آپ ایک حرارت کی تھیوری بنا لیں گے جس سے آپ کو علم ہو گا کہ آگ کیسے لگتی ہے خود کیسے لگائے جا سکتی ہے اس کو کنٹرول کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اس علم اور سائنسی تھیوری کی بنیاد پر آپ چولہا بنا سکتے ہیں ہیٹر بنا سکتے ہیں گھر اور اپنے بچوں کو گرم رکھ سکتے ہیں۔ کوئی اور شخص آ کر آگ لگنے کے عمل پر مزید تفصیلی وضاحت دے کر اس سے اور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اس نے نئی حرارت کی وضاحت دی جو آپ کی وضاحت سے بہتر ہے۔ اب اس وضاحت یا تھیوری کے نتیجے میں آپ آگ کو مزید اچھے طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں اور لوہے کو پگھلا سکتے ہیں جس سے آپ جہاز بنا کر اپنے بچوں کو سردی سے دور گرم علاقے میں لے جا سکتے ہیں۔
اسی طرح نیوٹن نے گریویٹی کی ایک بنیادی تھیوری پیش کی۔ وہ اب بھی کام کرتی ہے۔ جب آئن سٹائن آیا اس نے بہتر تھیوری دی جو زیادہ بہتر کام کرتی ہے اور ان جگہوں تک کام کرتی ہے جہاں نیوٹن کی تھیوری کام نہیں کر سکتی۔
اسی طرح ارتقاء کا قانون ہے۔ جب سائنسدانوں کو ارتقاء کے قانون کی سمجھ آ گئی نیچرل سلیکشن وغیرہ تو میڈیکل سائنس نے ترقی کر لی۔ بیکٹیریا، پھپھوندی، وائرسز وغیرہ سے ہونے والی بیماریوں، جینیاتی بیماریوں پر قابو پا لیا گیا۔ اینٹی بائیوٹکس ایجاد ہوئیں۔ جانداروں کے درمیاں مشابہت کے باعث جانداروں پر تجربات کرنا ممکن ہوا۔ ویکسینز ایجاد ہوئیں۔ گھوڑے کے خون سے انسولین تیار کی جاتی ہے جو ذیابیطس کی بیماری کے علاج میں استعمال ہوتی ہے (اگرچہ اب دوسرے طریقوں سے بھی بنتی ہے)۔ اسی طرح ویکسینز بھی اسی علم کی بدولت ممکن ہوئیں، اناٹومی، فزیالوجی اور میڈیکل سائنس اتنا ترقی کر گئی کہ آج آپ ٹیسٹ ٹیوب بے بیز اور جانوروں کے اعضاء کی انسانوں میں پیوند کاری تک کر سکتے ہیں۔
یہ سب سائینٹیفک میٹھڈ اور سائنسی تھیوریز ہی کی بنیاد پر ہوا جو ان حقائق کی وضاحتیں ہیں اور یہ وضاحتیں مشاہدات، انفارمڈ مفروضوں اور پھر ان کی انتہائی باریک بینی سے کی گئے بار بار پڑتال اور تجربات کے نتائج سے آتی ہیں جنہیں پھر دوسرے سائنسدان دوبارہ آزادانہ طور پر جانچتے ہیں اور تب جا کر ان کو قابل عمل یا درست سمجھا جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ لاء تو وہی رہتے ہیں مگر تھیوریز میں مزید بہتری کی گنجائش ہوتی ہے۔ اگر آپ کسی قدرتی عمل کی بہتر سائنٹیفک تھیوری مشاہدات، انفارمڈ مفروضے، تجربات اور پھر اس کی آزادانہ جانچ سے لا سکتے ہیں تو سو بسم اللہ۔ آپ کو کوئی بھی نہیں روکے گا۔ بلکہ آپ کو شاید نوبیل کے لیے نامزد کر دیا جائے۔ مگر یاد رہے آپ کو پورے سائنٹیفک میٹھڈ کے پراسس سے اپنی تھیوری کو گزارنا ہو گا۔
تنبیہہ: اس ویب سائٹ پر موجود تمام کانٹینٹ اوریجنل اور ڈاکٹر عاکف خان کی ملکیت ہے۔ بغیر اجازت اس کانٹینٹ کو چھاپنے، چوری اور سرقہ بازی کی صورت میں کاپی رائٹ لاز مجوزہ 1966/2000 حکومت پاکستان یا دائرہ کار کے قوانین کے مطابق کاروائی کی جا سکتی ہے۔