تحریر: ڈاکٹر عاکف خان
پاکستان میں سوشل میڈیا کے خودساختہ دانشوران (جنہیں ہم پیار سے فیسبکی دانشگرد بھی کہتے ہیں) کی سمجھ بوجھ کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اپنے ملک میں جس قسم کے سیاستدانوں، سیلبرٹیز، یوٹیوبرز اور دیگر عناصر کے خلاف ایکٹوزم کر رہے ہوں گے، بالکل اسی سوچ کے دوسرے ممالک کے سیاستدانوں، سیلیبرٹیز اور دیگر عناصر کے فین ہوں گے۔ یا تو اس وجہ سے کہ ان عناصر کا رائٹ ونگ ایکٹوزم ان کے چوہا دماغ کے مطابق ان کے اپنی طرح مذہبی شدت پسندی کے خلاف ایک ریشنل ڈسکورس کا حصہ ہے جیسے مودی اور آر ایس ایس کا مسلمان اقلیتوں کے خلاف رویہ یا فلسطین کا معاملہ یا ٹرمپ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دہشتگردی اور شدت پسندی کے خلاف تحریک میں ہمارے اتحادی ہیں اور بالکل حق بجانب ہیں کیونکہ ایل ای ٹی یا حم اس کی وجہ ہیں۔ جبکہ بات نہ تو اتنی سادہ ہے اور نہ ہی مودی اور یاہو جیسے لوگ ان کے اتحادی ہیں۔ آپ کے ساتھ نسلی تعصب کرنے سے پہلے کوئی آپ سے نہیں پوچھے گا کاپی پیسٹ کر کے سیکولرزم پر کتنی کتب لکھی ہیں۔
اسی طرح خواتین کے حقوق کے معاملے میں اکثر کی سوچ ایک جاہل الباکستانی والی ہے۔ یہ بالکل اسی طرح خواتین کے بارے میں بھی منفی آراء کا اظہار کرتے ہیں۔ جیسے خواتین کو آبجیکٹیفائی کرنا، جارڈن پیٹرسن کی والی مساجنی، خواتین کو کمتر سمجھنا، مینز پلیننگ کرنا، پدرشاہی کا دفاع کرنا، وہی گندی گالم گلوچ گشتی کنجری چالو یہ وہ، آن لائن اور آف لائن ہراساں کرنا، خواتین کو بدنام کرنا، مذاق اڑانا یا آرٹ کے نام پر بیہودہ تصویریں شیئر کرنا، سیکس اکیڈمیاں بنانا اور ورجنٹی بیچنے کے اشتہار دینا۔
کچھ ایسا ہی طرزعمل ان کا ایل جی بی ٹی مائنارٹیز کی طرف بھی ہے۔ اس معاملے میں یہ مغربی رائٹ ونگ والا پروپیگینڈہ دوہراتے ہیں۔ اپنی عقل اتنی نہیں ہے کہ کوئی دلیل دی سکیں یا بحث کر سکیں۔ آپ نے اختلاف کیا تو آپ کو گالیاں دیں گے، بونگیاں ماریں گے، منطقی مغالطے کریں گے، جاہل اور لاعلم بولیں گے، اپنی انا پر ضرب سمجھ کر غصہ کریں گے یا بلاک کر دیں گے۔
ان میں اسی طرح انسانی حقوق اور معاشرتی طرزعمل کی سمجھ بوجھ بھی نہیں ہے۔ تہذیب اور برتاو، جس پر یہ سارا دن بھاشن دیتے ہیں، اس کا بھی فقدان ہے۔ کریڈٹ کے چکر میں اپنے دوستوں کو ہی خطرے میں ڈال دیں گے۔ مثال کے طور پر وہ فلاں جو بڑا دلیر آدمی ہے بڑا اچھا سوال کر کے مشہور ہوا میرا چیلا اور شاگرد تھا۔ فلاں جو مر گیا وہ میرے کاز پر یقین رکھتا تھا میرے والی سوچ تھی۔ اور یہ سب یہ سوچے سمجھے بغیر کریں گے کہ ان زندہ و مردہ لوگوں اور ان کے اقرباء کے لیے ایسے تنگ نظر معاشرے میں کیا مصیبت کھڑی ہو سکتی ہے۔ یہ نہ صرف ایک خودغرضانہ بلکہ بیوقوفانہ عمل بھی ہے۔ اور پھر اس بات پر ڈھٹائی اور اناپرستی سے ڈٹنا پرلے درجے کی سفاکی، خودغرضی اور کمینہ پن ہے۔ اس کے بعد آپ خود کو لبرلزم اور سیکولرزم کا امام، باوا اور چاچا کہلوانا بند کر دیں تو بہتر۔
اسی طرح اگر یہ خود بیوروکریسی، وکالت، صحافت، تدریس، بزنس یا اسٹیبلشمنٹ حتی کہ فلم یا کھیل سے کسی طرح سے وابستہ ہیں تو اپنے شعبے کی ہر اچھی بری بات کا بغیر میرٹ کے دفاع کریں گے۔ بزنس کامیاب ہو گیا تو ایلون مسک ان کا ہیرو چاہے وہ جتنا بھی بیہودہ ہو اور سوشلزم اور مارکس پر پھبتیاں کسنا چاہے کتنی ہی علمی بات کیوں نہ ہو۔ چین، کیوبا، روس سے خدا کا بیر بالکل ایسے جیسے بائیں بازو والوں اور مذہبیوں کو امریکہ اور یورپ سے ہے۔ فرق کیا ہوا؟ کالونیلزم، امپیریلزم اور سفید فام ریسزم کا دفاع کریں گے اور اپنے احساس کمتری کا بھرپور مظاہرہ۔
وکیل ہے تو عدلیہ کی بیہودگیوں، ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہے تو بیوروکریسی کی چولوں اور چاچا ماما فوج میں ہے تو اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی مداخلت کا دفاع کرنا ان کا وتیرہ ہے۔ کچھ لوگ اپنے معاشی حالات اور گھریلو ناچاکیوں کی فرسٹریشن سوشل میڈیا پر دانشوری کی آڑ میں جھاڑنے لگے ہوتے ہیں۔ کچھ تو باقاعدہ ڈھٹائی سے بھیک مانگنے لگے ہوتے ہیں۔ دوسرے ممالک جا کر دو دن میں وہاں کے لوگوں اور ملک کے ایکسپرٹس بن جاتے ہیں۔ کچھ کو کوئی کاز نہیں ملتا تو نسل اور لسانیت پرستی کو پکڑ کر لوگوں کی درگت بنانا شروع کر دیتے ہیں چاہے تاریخ اور لسانیت کی الف بے نہ پتا ہو۔ پھر نتیجتا اس عمل میں سازشی تھیوریوں اور بونگیوں کا ہی سہارا لیتے ہیں۔ کوئی علمی کام یا حقوق کی بامقصد تحریک نہیں چلتی۔
اسی طرح کوئی ان کے پسندیدہ شاعر، گائیک، موسیقار، کرکٹر، فٹبالر حتی کہ اس فلم پر بھی اعتراض کر دے جس میں ان کے کسی رشتہ دار نے کیٹرنگ کا ٹھیکا لیا ہو تو بھی بات پرسنل لے لیتے ہیں۔ اس وقت ان کی دانشوری اور ریشنلزم بڑے اطمینان سے گھاس چرنے چلی جاتی ہیں اور تسلی سے ہی واپس باڑے میں تشریف لاتی ہیں اس کے باوجود کہ اس میں پہلے سے ہی کافی چارہ اور بھوسا موجود ہے۔
ایک مشہور خودساختہ دانشور صاحبہ بیک وقت اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کی دلدادہ ہیں۔ ایک بزنس مین دانشور ایلون مسک کو والد محترم کا درجہ دیتے ہیں اور کوئی نظریاتی اختلاف کرے تو اس کو سرخا کہتے ہیں۔ ایک فرماتے ہیں کہ میرے والدین کی بالکل اس طرح عزت کرو جیسے میں کرتا ہوں ورنہ آپ میرے بدخواہ ہو۔ ابھی ایک دوست حسنین بھائی نے مزے کی ایڈیشن کی کہ کچھ اپنی ضعیف الاعتقادی اور اندھی عقیدت کو کلچرلزم اور پوسٹ ماڈرنزم وغیرہ کے چکر میں چھپا رہے ہوتے ہیں۔ کچھ روحانیات اور سوڈوسائنس میں گھس جاتے ہیں۔
ایک اور ہیں لکھنے کا شوق ہے سب کچھ لکھ مارتے ہیں جو دماغ میں چلتا ہے صحیح ہو یا غلط، حتی کہ دہائیوں پرانی میڈیکل ایڈؤائس بھی اپنی تحاریر میں دے ڈالتے ہیں بغیر سوچے سمجھے کہ اس سے کسی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اعتراض کرو تو دشنام ٹھہرے گا۔ پاکستانی خواتین دانشوروں سے مکالمہ کرنے کی کوشش کرو یا اختلاف کرو تو فیمنزم کے کورٹ میں پیشیاں لگ جائیں گی۔ پورا گروہ بن کر سکرین شاٹس اور الزامات کی بوچھاڑ کرے گا یہ سوچے سمجھے بغیر کہ شیر آیا شیر آیا کے مصداق کل کو کسی اصلی ریپسٹ اور خطرناک آدمی کے خلاف آپ کی بات پر کون یقین کرے گا؟ لوگ اندھے تو نہیں کہ وہ یہ نہ دیکھ سکیں کہ آپ یہاں محض اپنے ذاتی جھگڑے یا انا کی ٹھیس کے بدلے کو کسی کاز کی آڑ میں چھپا رہی ہیں۔ حتی کہ کچھ ٹرانس رائٹس کے ایکٹوسٹ بھی یہ حرکات کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔
ریئکشنری بننا ہماری سرشت میں کیوں ہے؟ جذباتیت، اناپرستی اور حماقت کا دامن پکڑ کر آپ خود کو جہالت سے الگ کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ اوصاف تو وہی ہیں۔ ٹھیک ہے ہم سب انسان ہیں، غلطیاں ہوتی ہیں، مگر ایک ہی غلطی بار بار اور پھر اس پر ڈٹ جانا، انا پرستی کرنا، دوسروں کو برداشت، رواداری، تنوع اور ان لرن ری لرن (غلط سیکھا ہوا ان سیکھا کرنا اور دوبارہ سے نیا سیکھنا) کے بھاشن جھاڑ کر خود ہی اس پر عمل نہ کرنا، دوغلا پن اور منافقت چہ معنی دارد؟
اس عمل میں یہ خود کو انسانی حقوق کے علمبردار، سیکولر اور لبرل کہنے کے باوجود اقلیتوں کے حقوق، انسانی حقوق، خواتین اور دیگر جینڈر یا سیکشوئل مائناریٹیز کو نہ صرف نظر انداز کرنے میں تعامل نہیں برتتے بلکہ ان کا مذاق بھی اڑاتے ہیں اور جاہل لوگوں کی طرح منفی سوچ کا بھی کھل کر اظہار کرتے ہیں۔ یہ ایسا رویہ ہے جو کہ ان کی دانشوری کے کھوکھلے پن، سیاسی، معاشرتی اور عالمی معاملات کی کم سمجھ بوجھ اور کم مطالعہ کی نشاندہی کرتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے طالبعلم شروع میں ہی ان سے دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں یا کسی ایک لیول پر پہنچ کر اور اسی لیے سنجیدہ، مدرس/استاد یا صاحب مطالعہ لوگ ان کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ ان کو علمی بونے سمجھتے ہیں جو پاکستان کے سوشل میڈیا کے علمی ٹک ٹاکیے ہیں جن کو انہی ٹک ٹاکرز کی طرح بس لائکس، فالوونگ اور ریچ کی بھوک ہے، ایکو چیمبرز پسند ہیں اور رواداری، برداشت اور علم سیکھنے سکھانے سے کوئی غرض نہیں۔
پس نوشت: یہ تحریر دوسروں پر تنقید سے زیادہ میں نے اپنے لیے ایک ریمائنڈر کے طور پر لکھی ہے کہ ایسا نہیں بننا۔ اس تحریر میں کسی کا نام نہیں لیا گیا اور اس کا مقصد سیکھنا اور سکھانا ہے۔ کوئی خود اپنے آپ کو یہاں آ کر ایکسپوز کرنا چاہتا ہے تو خوش آمدید اور دشنام طرازی کا ارادہ رکھتا ہے تو بھی فدوی تیار ہے۔
پس پس نوشت: اس طرح کے دیگر مسائل پر ایک سیریز لکھی تھی کہ پاکستانی فیسبکی دانشور کیسے بنا جائے۔ اس سیریز کا لنک کمنٹس میں ہے۔
No comments:
Post a Comment