تحریر: ڈاکٹر عاکف خان
کوئی بھی واقعہ ہو ہم لوگ فورا اپنے سازشی دماغ لڑانا شروع کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ حال ہی میں ایک خاتون کا ٹی وی پر مکالمہ ہوا تو دو تین دن میں لوگوں نے اس میں بھی سازش تلاش کر لی کہ یہ سب سکرپٹڈ تھا۔ اسی طرح چاند پر جانا، فلیٹ ارتھ، کووڈ کے حوالے سے سازشی تھیوریاں وغیرہ۔ آئیے اس رویے کا سائنسی، نفسیاتی اور فسلسفیانہ رخ سمجھنے کی کوشش کریں کہ لوگ سازشی نظریات یا کانسپریسی تھیوریز کی طرف زیادہ رجحان کیوں رکھتے ہیں۔
سازشی تھیوریوں کے متعلق نفسیات دانوں کا خیال ہے کہ یہ سست ذہن کی پیداوار ہوتی ہیں۔ یعنی جو لوگ سوچنا نہیں چاہتے وہ اس طرح کی سہل پسندی والی توجیہات کو ماننا بہتر سمجھتے ہیں جو آسانی سے دستیاب بھی ہوتی ہیں اور جس کے لیے زیادہ علم یا مطالعہ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔
کینٹ یونیورسٹی کی سوشل سائیکالوجی کی پروفیسر ڈگلس کینٹ کے مطابق سازشی نظریات یا کانسپریسی تھیوریز بنانے اور ماننے والے زیادہ تر کم پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ذہین نہیں ہوتے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کی تربیت ایسے نہیں کی گئی کہ وہ غلط اور درست معلومات میں فرق کر سکیں۔ اور کم پڑھا لکھا ہونے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان کے پاس ڈگریاں نہیں ہوں گی۔ پاکستان کے تعلیمی نظام میں مثال کے طورپر جیسے بنیادی سائنسی یا معاشرتی علوم کی تعلیم مفقود ہے وہاں آپ یہ سمجھ لیں کہ سوشل سائنسز یا معاشرتی علوم کے لوگ سائنسی علوم سے نابلد ہوتے ہیں اس لیے وہ سائنسی علوم سے متعلق مواد میں سازشی نظریات کا شکار بن جاتے ہیں جبکہ سائنسی علوم والے معاشرتی علوم جیسے عمرانیات، پولیٹیکل سائنس، تاریخ یا نفسیات سے نابلد ہوتے ہیں تو معاشرتی مسائل و معاملات جیسے جمہوریت، خواتین کے حقوق، مذہبی تقسیم اور رجعت پسندی، انٹرنیشنل ریلیشنز اور معاشیات وغیرہ کے معاملات میں سازشی نظریات پر یقین کر لیتے ہیں اگرچہ دونوں گروپس کے پاس اپنی فیلڈ میں پی ایچ ڈی تک کی ڈگریاں بھی موجود ہو سکتی ہیں۔ آپ نے اپنے اردگرد دیکھا ہو گا کہ سائنس میں پی ایچ ڈیز معاشی و معاشرتی معاملات میں جذباتیت اور جہالت کا مظاہرہ کرتے ہیں جبکہ معاشرتی علوم کے ایکسپرٹس اور ڈگری ہولڈرز میڈیکل سائنس کے بجائے جادو ٹونے پر یقین رکھتے ہیں اور ویکسینز وغیرہ کو سازش سمجھتے ہیں۔ اگرچہ یہاں تو کایا ہی پلٹ ہے، میں نے کیمسٹری کے پی ایچ ڈیز کو ہومیوپیتھی جیسے فراڈ پر یقین کرتا اور ساشل سائنسز والوں کو بابوں سے دم کرواتا پایا ہے۔
اب لوگ سازشی تھیوریوں پر یقین کیوں کرتے ہیں اور کیا اب یہ رجحان ذیادہ ہو گیا ہے؟ ڈاکٹر ڈگلس کے مطابق ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ یہ رجحان بڑھا ہو، مگر چند بڑے واقعات کے دوران اس رویے میں اضافہ دیکھا جاتا ہے جیسے مون لینڈنگ یا کوووڈ کے وقت۔ اگرچہ سازشی نظریات پر یقین کرنے والے لوگ ہمیشہ معاشرے میں اسی تناسب سے اکثریت میں موجود رہے ہیں۔ چاہے سقراط کی سزا ہو، ہپاشیا کے جسم کی کھال کھینچنا، ابن رشد کو مسجد کے ستون سے باندھ کر اس کے منہ پر تھوکنے والے، برونو کو جلانے والے، گلیلیو سے معافی منگوانے والے یا ڈاکٹر عبدالسلام کے نوبیل کو جعلی قرار دینے والے۔
موٹیوز یا محرکات پر آئیں تو اس کے تین نفسیاتی محرکات ہوتے ہیں۔ پہلا ہوتا ہے علمی محرک، یعنی کہ ہر انسان کے اندر موجود تجسس۔ چونکہ لوگوں کو یہ نہیں سکھایا جاتا کہ درست معلومات کہاں سے لینی ہیں یا ان کی درست معلومات تک رسائی مشکل بنائی جاتی ہے تو وہ آسانی سے دستیاب غلط معلومات جیسے سوشل میڈیا کی وائرل ویڈیوز اور فیک نیوز جو کہ سمجھنے میں بھی آسان ہوتی ہے اور اس کے لیے زیادہ مطالعہ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، اس پر یقین کر لیتے ہیں۔ اور چونکہ اپنے ریشنل مائنڈ یا سوچنے والے ذہن کو بیوقوف بنا کر اور لاعلم رکھ کر خود کو سوچنے کی اذیت سے بچانا بھی ہوتا ہے جو کہ ہمیں دوسرے محرک پر لے کر جاتا ہے۔
دوسرا نفسیاتی محرک وجودیت سے متعلق ہے۔ میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں۔ ہر انسان کو اپنے آپ کو محفوظ رکھنے اور سمجھنے کی طلب ہوتی ہے۔ یہ انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ جسے بچاو یا سروائیول بھی کہتے ہیں۔ اس کے لیے انسان کو اپنے ماحول میں ایک طاقت اور کنٹرول کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب کوئی شاکنگ یا انہونا واقعہ ہوتا ہے تو انسان کو اپنا وجود، طاقت اور معاملات پر گرفت یا کنٹرول خطرے میں لگتا ہے۔ لہٰذا وہ یا تو وہ کنٹرول واپس لینے کی سہی کرتا ہے یا یہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ کنٹرول اور طاقت اس کے ہاتھ سے کیسے اور کس نے چھینی اور کیا وہ اس کے بارے میں کچھ کر سکتا ہے؟ اگر کچھ نہیں کر سکتا تو کم از کم کوئی ایسی توجیح موجود ہے جو یہ بتائے کہ اس کے پاس کنٹرول کیوں نہیں ہے۔ یہاں پر سب سے آسان توجیح سازشی تھیوریوں کی شکل میں موجود ہوتی ہے۔ ریسرچ نے یہ ثابت کیا ہے کہ توہم پرست، یا عرف عام میں وہمی اور وہ لوگ جن کے اختیار محدود ہو سازشی نظریات کی طرف زیادہ جھکاو رکھتے ہیں۔ خیر سے مملکت خداداد میں دونوں خصوصیات کے حامل لوگ بدرجہ اتم موجود ہیں۔
تیسرا نفسیاتی محرک معاشرتی ہے۔ ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ اسے معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ ہر انسان اپنے آپ کو اچھا سمجھنا چاہتا ہے جسے عزت نفس بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی اپنے آپ کو بہتر سمجھنا، اپنے بارے میں بہتر گمان رکھنا۔ اس کا ایک طریقہ سب معلومات کا ہونا ہے اور خاص طور پر ان معلومات کا ہونا جو دوسروں کے پاس نہیں ہیں۔ سازشی معلومات بکثرت موجود ہوتی ہیں اور ہر کوئی سمجھ رہا ہوتا ہے کہ صرف اسی کو یہ والی خبر معلوم ہے۔ باقی سب بھیڑیں ہیں کھوتے ہیں ناسمجھ ہیں کم عقل ہیں یا جاہل ہیں۔ خودپرست یا نرگسیت کے شکار گروپ اور معاشرے سازشی نظریات پر زیادہ یقین کرتے ہیں۔ اسی طرح ریسرچ نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ کم عمر لوگوں کئ بہ نسبت بڑی عمر کے لوگ بھی سازشی نظریات پر زیادہ یقین کرتے ہیں۔ واٹس ایپ انکلز کی اصطلاح آپ نے یقینا سنی ہو گی جن کے علم کی سورس واٹس ایپ فارورڈڈ میسجز ہوتے ہیں جن کا کوئی سر پیر، سائنسی ساکھ یا حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا۔ اور یہ لوگ اپنی عمر کو ان معلومات کی ترویج اور منوانے کے لیے اتھارٹی اور طاقت کے طور پر استعمال کرتے ہیں جیسا کہ دوسرے محرک میں بیان کیا گیا۔ اور وپ لوگ جو ایک سازشی نظریے پر یقین کرتے ہوں ان کا دوسرے سازشی نظریات پر یقین کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ یعنی کہ وہ لوگ جو چاند کی لینڈنگ کو فیک سمجھتے ہیں انہی کی اکثریت ویکسینز کو غیرمحفوظ اور زمین کو فلیٹ سمجھتی ہے اور مستقبل میں بھی یہی لوگ باآسانی سازشی نظریات کا شکار ہوتے ہیں۔ یعنی یہ ایک نفسیاتی امر ہے۔
آپ نے اکثر لوگوں کو عام طور پر پھیلی ہوئی جھوٹی خبریں انتہائی وثوق سے بتاتے ہوئے سنا ہو گا۔ آپ نے اکثر سیاسی پارٹیوں کے لوگوں کو خاص بیانیے اس طرح بیان کرتے دیکھا ہو گا جیسے یہ ان کے اپنے ذہن کی اختراع یا سوچ کا نتیجہ ہیں۔ مثال کے طور پر اسی واقعہ کے تناظر میں میری ایک دوست سے بات ہو رہی تھی۔ موصوف مائیکروبیالوجی میں پی ایچ ڈی ہیں اور این آئی ایچ میں کئی برس سے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے فورا ایک ہی رٹ پکڑ لی کہ لڑکی بدتمیز تھی، میں ساحل عدیم کی پرواہ نہیں کرتا۔ پھر انہوں نے وہی مثال دی جو ساحل عدیم نے پروگرام میں دی تھی، ابوجہل والی۔ اور ایسے جیسے یہ مثال انہوں نے خود ان کے ذہن کی تخلیق ہو۔ اس کا ہرگز یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ جھوٹ بولنا چاہ رہے ہوں۔ بعض اوقات جب آپ کسی بات پر اندھا یقین کر لیتے ہیں تو وہ بات آپ کو اپنی ہی تخلیق لگنا شروع ہو جاتی ہے۔ آپ نے اکثر یہ بھی دیکھا ہو گا کہ آپ کسی کو کوئی بات بتاتے ہیں تو وہ شخص کچھ عرصے بعد وہی بات دوسروں کو حتی کہ آپ کو انتہائی اعتماد سے ایسے بتا رہا ہوتا ہے جیسے وہ اس کی اپنی سوچ کا نتیجہ ہو۔ ہو سکتا ہے جس بات کو آپ اپنی سوچ کا نتیجہ اور اس کی چوری سمجھ رہے ہوں وہ بات آپ نے بھی کسی سے ایسے ہی سنی ہو مگر آپ کے دماغ نے محض معلومات کو رجسٹر کیا ہو سورس کو نہیں۔
یہاں یہ بھی نوٹ کریں کہ سورس کی افادیت، اہمیت اور ساکھ کو نہ سمجھنے سے یہ رویہ جنم لیتا ہے۔ جب آپ سورس کو یاد رکھنا، اس کی ساکھ اور اہمیت کو پرکھنا سیکھیں گے تو آپ کا ذہن/دماغ اس طرح ہر بات/معلومات کو بغیر سوچے سمجھے آگے نہیں پھیلائے گا۔ اس سے آپ کے اند سیلف اوئیرنیس بھی آئے گی کہ میں کر کیا رہا ہوں اور کیوں کر رہا ہوں اور کیا یہ عقلی، سائنسی یا معاشرتی طور پر مناسب اور سودمند ہے یا نہیں؟
اب چلتے ہیں اس سوال پر کہ ان سازشیوں کا علاج کیسے کیا جائے؟ نفسیات دانوں کے مطابق اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو پہلے متنبہ یا وارن کیا جائے۔ کہ ڈس انفارمیشن یا مس انفارمیشن کا چانس ہے اور آپ اس پر یقین کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ پرکھ لیں۔ مگر بعض اوقات اس کام میں بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور لوگ اپنا ذہن بنا چکے ہوتے ہیں۔ اس صورتحال میں بہتر طریقہ لوگوں کے سامنے حقائق رکھنے کا ہے۔ چند لوگ جو علمی بددیانتی کے مرتکب ہوں، جن کے لیے اپنے اعتقادات سے ہٹنا مشکل ہو یا جو خودپسندی اور اناپرستی میں مبتلا ہوں، ان کے علاوہ باقی لوگ حقائق کو دیکھ سمجھ کر اصل بات مان لیتے ہیں اور سازشی نظریے کو مسترد کر دیتے ہیں، اگرچہ ایسے لوگ تعداد میں کم ہوتے ہیں۔
چنانچہ اگلی مرتبہ جب آپ کے سامنے کوئی سازشی نظریہ حتی کہ کوئی ببی بات کی جائے تو اس کو اچھی طرح سوچ سمجھ کر پرکھیں اور پھر تسلیم یا مسترد کریں۔ اگرچہ یہ مشکل کام ہے اور ہمیں بچپن سے کریٹیکل تھنکنگ نہیں سکھائی جاتی مگر انٹرنیٹ اور جی پی ٹی ماڈلز کے ٹول کو استعمال کر کے حقائق تک پہنچا جا سکتا ہے۔ یہاں پر اکثر لوگوں کے ذہن میں یہ سوال آئے گا کہ ہمیں کیسے علم ہو گا کہ کون سا سورس یا انفارمیشن درست ہے۔ انٹرنیٹ پر فیکٹ چیکنگ کے کئی کورسز موجود ہیں آپ ان سے استفادہ کر سکتے ہیں جیسا کہ رائٹرز کا جرنلزم کا بنیادی فیکٹ چیک کورس۔ اس کے علاوہ سائنسی طرز عمل اور سائنسی طریقہ کار کی سمجھ بوجھ بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ امید ہے کہ اس تحریر سے لوگوں کو سازشی نظریات سے بچنے میں مدد ملے گی۔