Showing posts with label Social Media. Show all posts
Showing posts with label Social Media. Show all posts

Thursday, November 21, 2024

دانشوران ملت کے مسائل

تحریر: ڈاکٹر عاکف خان


پاکستان میں سوشل میڈیا کے خودساختہ دانشوران (جنہیں ہم پیار سے فیسبکی دانشگرد بھی کہتے ہیں)  کی سمجھ بوجھ کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اپنے ملک میں جس قسم کے سیاستدانوں، سیلبرٹیز، یوٹیوبرز اور دیگر عناصر کے خلاف ایکٹوزم کر رہے ہوں گے، بالکل اسی سوچ کے دوسرے ممالک کے سیاستدانوں، سیلیبرٹیز اور دیگر عناصر کے فین ہوں گے۔ یا تو اس وجہ سے کہ ان عناصر کا رائٹ ونگ ایکٹوزم ان کے چوہا دماغ کے مطابق ان کے اپنی طرح مذہبی شدت پسندی کے خلاف ایک ریشنل ڈسکورس کا حصہ ہے جیسے مودی اور آر ایس ایس کا مسلمان اقلیتوں کے خلاف رویہ یا فلسطین کا معاملہ یا ٹرمپ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دہشتگردی اور شدت پسندی کے خلاف تحریک میں  ہمارے اتحادی ہیں اور بالکل حق بجانب ہیں کیونکہ ایل ای ٹی یا حم اس کی وجہ ہیں۔ جبکہ بات نہ تو اتنی سادہ ہے اور نہ ہی مودی اور یاہو جیسے لوگ ان کے اتحادی ہیں۔ آپ کے ساتھ نسلی تعصب کرنے سے پہلے کوئی آپ سے نہیں پوچھے گا کاپی پیسٹ کر کے سیکولرزم پر کتنی کتب لکھی ہیں۔ 


اسی طرح خواتین کے حقوق کے معاملے میں اکثر کی سوچ ایک جاہل الباکستانی والی ہے۔ یہ بالکل اسی طرح خواتین کے بارے میں بھی منفی آراء کا اظہار کرتے ہیں۔ جیسے خواتین کو آبجیکٹیفائی کرنا، جارڈن پیٹرسن کی والی مساجنی، خواتین کو کمتر سمجھنا، مینز پلیننگ کرنا، پدرشاہی کا دفاع کرنا، وہی گندی گالم گلوچ گشتی کنجری چالو یہ وہ، آن لائن اور آف لائن ہراساں کرنا، خواتین کو بدنام کرنا، مذاق اڑانا یا آرٹ کے نام پر بیہودہ تصویریں شیئر کرنا، سیکس اکیڈمیاں بنانا اور ورجنٹی بیچنے کے اشتہار دینا۔ 


کچھ ایسا ہی طرزعمل ان کا ایل جی بی ٹی مائنارٹیز کی طرف بھی ہے۔ اس معاملے میں یہ مغربی رائٹ ونگ والا پروپیگینڈہ دوہراتے ہیں۔ اپنی عقل اتنی نہیں ہے کہ کوئی دلیل دی سکیں یا بحث کر سکیں۔ آپ نے اختلاف کیا تو آپ کو گالیاں دیں گے، بونگیاں ماریں گے، منطقی مغالطے کریں گے، جاہل اور لاعلم بولیں گے، اپنی انا پر ضرب سمجھ کر غصہ کریں گے یا بلاک کر دیں گے۔ 


ان میں اسی طرح انسانی حقوق اور معاشرتی طرزعمل کی سمجھ بوجھ بھی نہیں ہے۔ تہذیب اور برتاو، جس پر یہ سارا دن بھاشن دیتے ہیں، اس کا بھی فقدان ہے۔ کریڈٹ کے چکر میں اپنے دوستوں کو ہی خطرے میں ڈال دیں گے۔ مثال کے طور پر وہ فلاں جو بڑا دلیر آدمی ہے بڑا اچھا سوال کر کے مشہور ہوا میرا چیلا اور شاگرد تھا۔ فلاں جو مر گیا وہ میرے کاز پر یقین رکھتا تھا میرے والی سوچ تھی۔ اور یہ سب یہ سوچے سمجھے بغیر کریں گے کہ ان زندہ و مردہ لوگوں اور ان کے اقرباء کے لیے ایسے تنگ نظر معاشرے میں کیا مصیبت کھڑی ہو سکتی ہے۔ یہ نہ صرف ایک خودغرضانہ بلکہ بیوقوفانہ عمل بھی ہے۔ اور پھر اس بات پر ڈھٹائی اور اناپرستی سے ڈٹنا پرلے درجے کی سفاکی، خودغرضی اور کمینہ پن ہے۔ اس کے بعد آپ خود کو لبرلزم اور سیکولرزم کا امام، باوا اور چاچا کہلوانا بند کر دیں تو بہتر۔ 


اسی طرح اگر یہ خود بیوروکریسی، وکالت، صحافت، تدریس، بزنس یا اسٹیبلشمنٹ حتی کہ فلم یا کھیل سے کسی طرح سے وابستہ ہیں تو اپنے شعبے کی ہر اچھی بری بات کا بغیر میرٹ کے دفاع کریں گے۔ بزنس کامیاب ہو گیا تو ایلون مسک ان کا ہیرو چاہے وہ جتنا بھی بیہودہ ہو اور سوشلزم اور مارکس پر پھبتیاں کسنا چاہے کتنی ہی علمی بات کیوں نہ ہو۔ چین، کیوبا، روس سے خدا کا بیر بالکل ایسے جیسے بائیں بازو والوں اور مذہبیوں کو امریکہ اور یورپ سے ہے۔ فرق کیا ہوا؟ کالونیلزم، امپیریلزم اور سفید فام ریسزم کا دفاع کریں گے اور اپنے احساس کمتری کا بھرپور مظاہرہ۔ 


وکیل ہے تو عدلیہ کی بیہودگیوں، ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہے تو بیوروکریسی کی چولوں اور چاچا ماما فوج میں ہے تو اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی مداخلت کا دفاع کرنا ان کا وتیرہ ہے۔ کچھ لوگ اپنے معاشی حالات اور گھریلو ناچاکیوں کی فرسٹریشن سوشل میڈیا پر دانشوری کی آڑ میں جھاڑنے لگے ہوتے ہیں۔ کچھ تو باقاعدہ ڈھٹائی سے بھیک مانگنے لگے ہوتے ہیں۔ دوسرے ممالک جا کر دو دن میں وہاں کے لوگوں اور ملک کے ایکسپرٹس بن جاتے ہیں۔  کچھ کو کوئی کاز نہیں ملتا تو نسل  اور لسانیت پرستی کو پکڑ کر لوگوں کی درگت بنانا شروع کر دیتے ہیں چاہے تاریخ اور لسانیت کی الف بے نہ پتا ہو۔ پھر نتیجتا اس عمل میں سازشی تھیوریوں اور بونگیوں کا ہی سہارا لیتے ہیں۔ کوئی علمی کام یا حقوق کی بامقصد تحریک نہیں چلتی۔ 


اسی طرح کوئی ان کے پسندیدہ شاعر، گائیک، موسیقار، کرکٹر، فٹبالر حتی کہ اس فلم پر بھی اعتراض کر دے جس میں ان کے کسی رشتہ دار نے کیٹرنگ کا ٹھیکا لیا ہو تو بھی بات پرسنل لے لیتے ہیں۔ اس وقت ان کی دانشوری اور ریشنلزم بڑے اطمینان سے گھاس چرنے چلی جاتی ہیں اور تسلی سے ہی واپس باڑے میں تشریف لاتی ہیں اس کے باوجود کہ اس میں پہلے سے ہی کافی چارہ اور بھوسا موجود ہے۔ 


ایک مشہور خودساختہ دانشور صاحبہ بیک وقت اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کی دلدادہ ہیں۔ ایک بزنس مین دانشور ایلون مسک کو والد محترم کا درجہ دیتے ہیں اور کوئی نظریاتی اختلاف کرے تو اس کو سرخا کہتے ہیں۔ ایک فرماتے ہیں کہ میرے والدین کی بالکل اس طرح عزت کرو جیسے میں کرتا ہوں ورنہ آپ میرے بدخواہ ہو۔ ابھی ایک دوست حسنین بھائی نے مزے کی ایڈیشن کی کہ کچھ اپنی ضعیف الاعتقادی اور اندھی عقیدت کو کلچرلزم اور پوسٹ ماڈرنزم وغیرہ کے چکر میں چھپا رہے ہوتے ہیں۔ کچھ روحانیات اور سوڈوسائنس میں گھس جاتے ہیں۔ 


ایک اور ہیں لکھنے کا شوق ہے سب کچھ لکھ مارتے ہیں جو دماغ میں چلتا ہے صحیح ہو یا غلط، حتی کہ دہائیوں پرانی میڈیکل ایڈؤائس بھی اپنی تحاریر میں دے ڈالتے ہیں بغیر سوچے سمجھے کہ اس سے کسی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اعتراض کرو تو دشنام ٹھہرے گا۔ پاکستانی خواتین دانشوروں سے مکالمہ کرنے کی کوشش کرو یا اختلاف کرو تو فیمنزم کے کورٹ میں پیشیاں لگ جائیں گی۔ پورا گروہ بن کر سکرین شاٹس اور الزامات کی بوچھاڑ کرے گا یہ سوچے سمجھے بغیر کہ شیر آیا شیر آیا کے مصداق کل کو کسی اصلی ریپسٹ اور خطرناک آدمی کے خلاف آپ کی بات پر کون یقین کرے گا؟ لوگ اندھے تو نہیں کہ وہ یہ نہ دیکھ سکیں کہ آپ یہاں محض اپنے ذاتی جھگڑے یا انا کی ٹھیس کے بدلے کو کسی کاز کی آڑ میں چھپا رہی ہیں۔ حتی کہ کچھ ٹرانس رائٹس کے ایکٹوسٹ بھی یہ حرکات کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ 


ریئکشنری بننا ہماری سرشت میں کیوں ہے؟ جذباتیت، اناپرستی اور حماقت کا دامن پکڑ کر آپ خود کو جہالت سے الگ کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ اوصاف تو وہی ہیں۔ ٹھیک ہے ہم سب انسان ہیں، غلطیاں ہوتی ہیں، مگر ایک ہی غلطی بار بار اور پھر اس پر ڈٹ جانا، انا پرستی کرنا، دوسروں کو برداشت، رواداری، تنوع اور ان لرن ری لرن (غلط سیکھا ہوا ان سیکھا کرنا اور دوبارہ سے نیا سیکھنا) کے بھاشن جھاڑ کر خود ہی اس پر عمل نہ کرنا، دوغلا پن اور منافقت چہ معنی دارد؟ 


اس عمل میں یہ خود کو انسانی حقوق کے علمبردار، سیکولر اور لبرل کہنے کے باوجود اقلیتوں کے حقوق، انسانی حقوق، خواتین اور دیگر جینڈر یا سیکشوئل مائناریٹیز کو نہ صرف نظر انداز کرنے میں تعامل نہیں برتتے بلکہ ان کا مذاق بھی اڑاتے ہیں اور جاہل لوگوں کی طرح منفی سوچ کا بھی کھل کر اظہار کرتے ہیں۔ یہ ایسا رویہ ہے جو کہ ان کی دانشوری کے کھوکھلے پن، سیاسی، معاشرتی اور عالمی معاملات کی کم سمجھ بوجھ اور کم مطالعہ کی نشاندہی کرتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے طالبعلم شروع میں ہی ان سے دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں یا کسی ایک لیول پر پہنچ کر اور اسی لیے سنجیدہ، مدرس/استاد یا صاحب مطالعہ لوگ ان کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ ان کو علمی بونے سمجھتے ہیں جو پاکستان کے سوشل میڈیا کے علمی ٹک ٹاکیے ہیں جن کو انہی ٹک ٹاکرز کی طرح بس لائکس، فالوونگ اور ریچ کی بھوک ہے، ایکو چیمبرز پسند ہیں اور رواداری، برداشت اور علم سیکھنے سکھانے سے کوئی غرض نہیں۔ 


پس نوشت: یہ تحریر دوسروں پر تنقید سے زیادہ میں نے اپنے لیے ایک ریمائنڈر کے طور پر لکھی ہے کہ ایسا نہیں بننا۔ اس تحریر میں کسی کا نام نہیں لیا گیا اور اس کا مقصد سیکھنا اور سکھانا ہے۔ کوئی خود اپنے آپ کو یہاں آ کر ایکسپوز کرنا چاہتا ہے تو خوش آمدید اور دشنام طرازی کا ارادہ رکھتا ہے تو بھی فدوی تیار ہے۔ 


پس پس نوشت: اس طرح کے دیگر مسائل پر ایک سیریز لکھی تھی کہ پاکستانی فیسبکی دانشور کیسے بنا جائے۔ اس سیریز کا لنک کمنٹس میں ہے۔

Thursday, July 13, 2023

The Psychology of Online Vocalization: Exploring Reasons and Patterns

By Dr. Akif Khan

There are three types of people. One, who are vocal in real life (RL). Second ones who are vocal on both social media (SM) and RL. Third type is that is only vocal on SM. 

There are multiple reasons behind it. Many people are not confident in writing stuff (posts, comments or anything else) for multiple reasons again. 

Some people don’t like to express themselves publicly. Some are shy. Some purposely hide their feelings and thoughts. Then there are some who are afraid of alphas, over-smart people and bullies. Then there are over-sharers of course, who have opinions on everything and they don’t care if those opinions are right or wrong. 

A personality with a balanced and wise outlook is hard to come, sometimes it’s privilege, sometimes it’s good upbringing, sometimes it’s luck when people have better lifestyle and no mental stress, depression or traumatic experiences. This can make people expressive sometimes and sometimes shut them down. 

For some people writing is catharsis and interacting online is a form of connecting. Some don’t need that at all and just enjoy reading and listening to other people. Some believe they are learning only for themselves and they don’t owe anyone else any sharing of ideas or helping them. Some just keep tabs on other people and think they’re wiser this way by remaining silent or anonymous. 

Some are scared for various reasons that their thoughts could be used against them and sharing or expressing on SM/online world is not a wise thing to do. They don’t trust the internet/system. Some people believe in conspiracy theories and are obsessive about keeping a low profile online and even in RL. Some prefer to remain anonymous while opining on SM.

Some people love fame and showing off. Some just think it’s their responsibility to share what they know and some have a nature to help people according to their capacity and knowledge. 

Some hate the closed circles/groups and the few people who dominate those spaces due to right or wrong reasons. They feel like left out but since they get enough (knowledge/content/recommendations) from those groups, they tend to stay, in silence. 

Then there are shitposters, attention seekers and those who get hooked up to SM and want to stay relevant by opining on everything even when their opinion is not so good or is just a variant of someone else’s opinion (sometimes it’s exact copy). There are also people who would steal content and reshare it without giving proper credit or shamelessly ascribing the content to their own selves. Some try to stay relevant and act smart by making controversy out of everything. They will read opinions of other people and purposely concoct something that is spicy and different no matter how contradictory it is to their own previous opinions. Some people are adamant on converting other people to their own ideologies. Some woulf just comment on everything according to their own worldview and would not listen to any different opinion. These types often include intellectually dishonest people and those who only seek attention, want to stay relevant or think that the world only revolves around them. Then there are flatterers and fans, of course, who love everything that is written by their beloved influencers. The addiction to likes and following is another topic on which much has been written and can’t be covered here. But we must also not forget the importance of SM, especially its role in decentralising information and brining it to ordinary people’s approach. There is an interesting book titled Twitter and Tear Gas by Zeynep Tufekci on the pros and cons of SM especially in the context of dissent. 

In short, SM is an alternate of real world and the dynamics of human interaction, communication and psychology work here as well as they work in the real life albeit differently sometimes. 

There has been much research being carried out on the communication and interaction on SM. I was just reading a paper (thanks to a friend who shared it) the other day where the researchers studied the way Pakistani women express themselves on TikTok without exposing their identity and the dynamics both social and religious that govern their interaction and communication style. Here is the link to that paper. 

The realm of social media has become a parallel universe where human interactions, communication, and psychological dynamics take on new forms. The reasons behind vocalisation patterns are multifaceted, ranging from shyness and fear to the desire for privacy, attaining fame or the need for catharsis. It is essential to acknowledge that the online world offers a platform for diverse voices to be heard, while also recognizing the complexities that arise, such as the fear of judgment, information privacy concerns, and the dominance of certain groups. As ongoing research delves into the intricacies of social media communication and interaction, the process of unraveling the fascinating ways in which individuals navigate these digital spaces, shaping their online personas and influencing the broader social landscape will be ever evolving and interesting to study.