Showing posts with label Urdu Blog. Show all posts
Showing posts with label Urdu Blog. Show all posts

Friday, July 5, 2024

ہومیوپیتھی فراڈ کیوں ہے؟

 
Homeopathy is a pseudoscience

For English version of this article, click on the link at the end of this article.

ہومیوپیتھی، ایک ایسی پریکٹس جو 18ویں صدی میں وجود میں آئی، آج کی جدید طب میں تنازع کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ اس کے وسیع پیمانے پر استعمال کے باوجود، سائنسدان اور طبی ماہرین اسے جھوٹی سائنس تصور کرتے ہیں۔ یہاں ہم ہومیوپیتھی کے اصولوں کو پرکھیں گے اور یہ جانچنے کی کوشش کریں گے  کہ ہومیوپیتھی سائنسی معیاروں پر کیوں پورا نہیں اترتی۔


ہومیوپیتھی کا تاریخی پس منظر

ہومیوپیتھی کو پہلی بار جرمن ڈاکٹر سیموئیل ہانیمن نے 1700 کی دہائی میں ایجاد کیا۔ انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ وہ اشیاء جو صحت مند لوگوں میں بیماری کی علامات پیدا کرتی ہیں، وہ بیمار لوگوں میں انہی علامات کو ٹھیک کرسکتی ہیں — اس اصول کو انہوں نے "مثل علاج مثل" کہا۔ یہاں یہ یاد رہے کہ یہ نظریہ ہانیمن کے ذاتی مشاہدات پر مبنی تھا، جیسے کہ ان کا سنکونا درخت کی چھال کے ساتھ تجربہ، جس کے بارے میں انہوں نے سمجھا کہ چونکہ یہ چھال ملیریا جیسا بخار پیدا کرتی ہے اود اس کا علاج بھی کرتی ہے تو ایک بیماری جیسی علامات پیدا کرنے والی کوئی بھی چیز اس بیمادی کا علاج بھی کرے گی۔ یہ ایسے ہو گیا کہ اگر آگ سے چھالے بنتے ہیں تو چھالے آگ میں جلانے سے ٹھیک ہو جائیں گے۔ تاہم، یہ نظریہ تجرباتی تصدیق اور سائنسی توثیق سے عاری تھا۔ اود ان کی اپنی بغیر کسی علم مشاہدے یا تجربے کی بنیاد پر ایک گپ تھی۔   

ہومیوپیتھی کے اصولوں میں خامیاں

مثل علاج مثل

"مثل علاج مثل" کا اصول یہ تجویز کرتا ہے کہ جو اشیاء صحت مند افراد میں بیماری کی علامات پیدا کرتی ہیں، وہ بیمار افراد میں انہی علامات کو ٹھیک کرسکتی ہیں۔ یہ تصور بنیادی طور پر ناقص ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کسی کو زہریلی گیس سے زہر دیا جائے، تو یہ غیر منطقی ہے کہ اس گیس کو مزید داخل کرنے سے انہیں ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ اس خیال کی سائنسی ثبوت کی کمی ہے اور یہ بنیادی طبی اصولوں کی مخالفت کرتا ہے۔ اتنا کامن سینس ایک جانور میں بھی موجود ہوتا ہے کہ اگر اسے کسی چیز سے نقصان ہو تو وہ اس کے پاس نہیں جاتا  

ہومیوپیتھ اکثر اپنی اس پریکٹس کی توجیح ویکسینیشن سے موازنہ کر کے کرتے ہیں۔ تاہم، یہ موازنہ گمراہ کن ہے۔ ویکسینز مدافعتی نظام کو اینٹی باڈیز پیدا کرنے کے لئے متحرک کرتی ہیں، جو ایک مکمل طور پر مختلف عمل ہے اس غیر تصدیق شدہ دعویٰ سے کہ مشابہ اشیاء بیماریوں کا علاج کرسکتی ہیں۔ ویکسینز میں مخصوص حیاتیاتی مالیکیول ہوتے ہیں جو مدافعتی ردعمل کو متحرک کرتے ہیں، جب کہ ہومیوپیتھک حل میں یہ خصوصیات نہیں ہوتیں۔

ڈیلویشن کے ذریعے طاقتور بنانا

ہومیوپیتھی کا دوسرا اصول یہ ہے کہ کسی مادے کو ڈائیلوٹ یعنی لطیف بنانے سے اس کی طاقت بڑھ جاتی ہے۔ یعنی رنگ میں زیادہ تیل ڈالیں تو وہ گاڑھا ہو جائے گا۔ کیا اس کو عقل تسلیم کرتی ہے؟ ہومیوپیتھز مسلسل ڈائلوشین کے ذریعے دوائی کو اتنا لطیف بنا دیتے ہیں کہ اس میں پیچھے کچھ بھی نہیں بچتا۔ مثال کے طور پر، 20C  میں ایک مادے کو 1 حصے میں 100^20 میں ڈائیلوٹ کیا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس میں اصل مادے کا ایک بھی مالیکیول موجود ہونے کا امکان نہیں ہے۔

یہ اصول کیمسٹری اور فزکس کے قوانین کی مخالفت کرتا ہے۔ تصور کریں کہ تھوڑی مقدار میں چینی کو پانی کی ایک جگ میں ڈال کر اسے بار بار ڈیلویٹ کریں۔ نتیجے میں آنے والا محلول میٹھا نہیں ہوگا؛ یہ صرف زیادہ لطیف یا ڈائیلوٹ ہو جائے گا۔ اس طرح، ہومیوپیتھک علاجوں میں کوئی فعال اجزاء نہیں ہوتے اور ان سے علاج کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

واٹر میموری ایفیکٹ کی تردید

ہومیوپیتھی کے حامی اکثر اپنے دعووں کو جواز فراہم کرنے کے لئے "واٹر میموری" ایفیکٹ کا حوالہ دیتے ہیں۔ یہ تصور جیکس بین وینسٹ کی شائع شدہ ایک مطالعہ سے مشہور ہوا، جس نے تجویز کیا کہ پانی ایک خاص حد سے آگے ڈیلویٹ ہونے والے مادوں کی یاد رکھ سکتا ہے۔ تاہم، اس مطالعہ کو سائنسی کمیونٹی نے بڑے پیمانے پر اور عوامی طور پر مسترد کر دیا۔

بی بی سی کے پروگرام ہورائزن کے ایک قابل ذکر تجربے نے واٹر میموری ایفیکٹ کی حمایت میں کوئی ثبوت نہیں پایا۔ مطالعے نے ظاہر کیا کہ عام پانی اور ہومیوپیتھک محلول میں فزیولوجیکل اثرات کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں تھا۔ بین وینسٹ کے نتائج کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوششیں بھی ناکام ہوئیں، جس سے اس نظریے کو مزید بدنامی ملی۔ نیچر کے جس آرٹیکل کا حوالہ دیا جاتا ہے وہ بعد میں کافی متنازعہ ثابت ہوا اور اس کے رزلٹ دوبارہ حاصل نہیں کیے جا سکے  اسی طرح ایک جاپانی سائنسدان کے پانی پر کام کا حوالہ دیا جاتا ہے جو کہ مشکوک کام ہے اور اس کا بھی کوئی ثبوت  ریسرا ثبوت نوبیل لاریٹ لیوک مانٹنیئر کے کام کا دیا جاتا ہے۔ وہ کام لیوک کے اپنے جریدے میں شائع ہوا جس کا وہ ایڈیٹر تھا۔ اور یہ لیوک کی اپنی فیلڈ بھی نہیں ہے۔ نہ ہی اس کے کام سے کچھ وضع ہوتا ہے۔ لہذا یہ تیسرا کام جسے سائنسی سمجھا جاتا ہے بے بنیاد ہے۔  

پلیسیبو ایفیکٹ اور مؤثریت کی تصوراتی

بہت سے لوگ ہومیوپیتھک علاج سے مثبت نتائج کی گواہی دیتے ہیں، یہ اکثر پلیسیبو ایفیکٹ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جب لوگوں کو یقین ہوتا ہے کہ علاج کام کرے گا، ان کا دماغ کیمیائی اور ہارمونل عمل کو متحرک کرسکتا ہے جو عارضی طور پر علامات کو راحت پہنچاتا ہے۔ یہ نفسیاتی اثر کبھی کبھی لوگوں کو یہ یقین دلانے کا باعث بن سکتا ہے کہ ہومیوپیتھک علاج مؤثر ہیں، حالانکہ علاج میں خود کوئی فزیالوجیکل اثر نہیں ہوتا۔

مثال کے طور پر، ہومیوپیتھز گردے کی پتھریوں کا علاج کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، جو اکثر علاج کے بغیر قدرتی طور پر ہی نکل جاتی ہیں۔ مریضوں کو زیادہ پانی پینے کی ہدایت دے کر، ہومیوپیتھز غیر ارادی طور پر پتھریوں کے قدرتی گزرنے میں مدد کر سکتے ہیں، پھر غلط طور پر اس علاج کی کامیابی کا سہرا لوگ ہومیوپیتھوں کو دیتے ہیں۔

ہومیوپیتھی کے ممکنہ نقصانات

جبکہ ہومیوپیتھک علاج عام طور پر ان کی زیادہ ڈائیلوشن کی وجہ سے محفوظ سمجھے جاتے ہیں، کہ چلو فائدہ نہیں نقصان بھی تو نہیں، سائیڈ ایفیکٹ نہیں یہ وہ۔ مگر یہ یقین مزید اور اہم خطرات پیدا کرسکتا ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں، جہاں قوانین نرم ہوتے ہیں، ہومیوپیتھ عام دستیاب ادویات جیسے پیراسیٹامول یا اسپرین کو ہومیوپیتھک علاج کے طور پر فروخت کرتے ہیں۔ یہ خطرناک ہوسکتا ہے، خاص طور پر ان افراد کے لئے جنہیں معدے کے السر یا ذیابیطس جیسی بیماریاں ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہومیوپیتھ سٹیرائیڈز استعمال کرتے بھی پائے گئے ہیں۔ گلوکوز کی بنی گولیوں سے شوگر کے مریضوں کو ہائپرگلیسیمیا ہو سکتا ہے اور ان کی بینائی تک جا سکتی ہے جو کہ کئی دفعہ ہو بھی چکا ہے۔ بعض ہومیوپیتھ شوگر کے مکمل علاج جا دعوی کرتے ہیں اور وہ چینی کے محلولوں گولیوں اور پاؤڈر سے مریضوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ، سنگین طبی حالات کے لئے ہومیوپیتھی پر انحصار کرنا مؤثر علاج میں تاخیر کا سبب بن سکتا ہے، جس سے صحت کے نتائج خراب ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر ایک مریض ایک شدید انفیکشن کے ساتھ ہومیوپیتھی کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ ضروری اینٹی بایوٹکس کو چھوڑ سکتا ہے، جس کے نتیجے میں سنگین پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ اس طرح سرطان یا شوگر کے مریض ہومیوپیتھی کی ادویات لیتے لیتے اصل علاج میں بہت دیر کر دیتے ہیں  بعض اوقات ہومیوپیتھ لوگوں کو اصل ادویات بند کرنے کی بھی ترغیب دیتے ہیں کہ ہماری دوا کے ساتھ انگریزی یا جسے یہ ایلوپیتھک دوائی کہتے ہیں (جو کہ ان کا اپنا گڑھا ہوا لفظ ہے) مت لو ورنہ ہماری دوا اثر نہیں کرے گی۔ اس سے بھی مریض کو زیادہ نقصان پہنچنے کا احتمال ہوتا ہے۔


ہومیوپیتھی کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے اور یہ پلیسیبو ایفیکٹ سے زیادہ کبھی مؤثر ثابت نہیں ہوئی۔ طبی ماہرین، جو برسہا برس تعلیم، کئی سال ہاوس جاب، مریضوں کے علاج، تجربے اور مشائدات سے گزرے ہوتے ہیں، علاج ہمیشہ انہی سے کروانا چاہیے۔ اگرچہ پاکستان اور دوسرے تعقی پذیر ممالک میں میڈیکل سائنس اور ڈاکٹرز کی کوتاہیاں اود سسٹم کی خرابی موجود ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بالکل عطائیوں کے ہتھے چڑھ کر اپنی اور اپبے پیاروں کی زندگی خطرے میں ڈال دیں۔


About the Author: The author holds a PhD in Chemistry with over 18 years of experience in research, teaching, and pharmaceutical industry. For more about his background and credentials, please visit his Google Scholar and ResearchGate profiles.

References

  1. Luc Montagnier's Journal: Wikipedia
  2. French Nobelist Escapes 'Intellectual Terror' to Pursue Radical Ideas in China, Science
  3. Benveniste's Paper on Water Memory Effect, Wikipedia
  4. The Horizon Test, BBC
  5. The Horizon Homeopathic Dilution Experiment, Wiley
  6. A Talk with a Homeopathic Practitioner - Part 1, YouTube
  7. A Talk with a Homeopathic Practitioner - Part 2, YouTube

Further Readings:


Click here for English version of this article.


Sunday, June 25, 2023

گرم ٹھنڈی تاثیر، مچھلی اور یرقان (جانڈس)


پروٹین کو میٹابولائز کرنے کے لیے جسم کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے گرمی لگتی ہے اور پھر پروٹین کے میٹابولزم سے مزید حرارت پیدا ہوتی ہے اس کے بعد امائینو ایسڈز جو کہ پروٹین کے بریک ڈاون یا میٹابولزم سے بنتے ہیں وہ نئے پروٹین بناتے ہیں یہ عمل بھی ایگزوتھرمک یعنی حرارت زا عمل ہے۔ اسی لیے حرارت پیدا ہوتی ہے اور جسم کو گرمی محسوس ہوتی ہے۔ چونکہ یہ سارا کام جگر میں ہوتا ہے تو جن لوگوں کا جگر کمزور ہوتا ہے ان کو یرقان ہو جاتا ہے۔ اس کو گرم تاثیر بھی کہا جاتا ہے۔ یہی کام چاکلیٹ یا زیادہ پروٹین والی کوئی بھی چیز کرے گی جیسے پروٹین شیک۔ جبکہ پھل سبزیاں کم کیلوریز پیدا کرتی ہیں۔ بعض سبزیوں جیسے کھیرے میں زیرو کیلوریز ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کی تاثیر ٹھنڈی بتائی جاتی ہے۔ 

 ڈرائی فروٹس میں شوگر کی مختلف اقسام بہت ذیادہ کنسنٹریشن میں ہوتی ہیں جیسے گلوکوز یا فرکٹوز وغیرہ۔ اس لیے وہ جسم کو بہت کیلوریز، حرارت یا انرجی دیتے ہیں۔ گرمیوں میں مسام بند ہونے کی وجہ سے پسینہ باہر نہیں نکلتا تو پھر ریش یا دانے نکلتے ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ گرم چیزیں کھانے سے ایسا ہوا۔ جبکہ مصالحے کھانے سے جسم کے ہیٹ ریسیپٹرز ایکٹیویٹ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے گرمی لگتی ہے۔ گوشت اور مصالحوں کے نتیجے میں محسوس ہونے والی حرارت مختلف قسم کی ہے۔ ایک میں واقعی حرارت پیدا ہوتی ہے جبکہ مصالحوں کے چکر میں صرف محسوس ہوتی ہے بنتی نہیں ہے۔ لیکن حکیم آپ کو یہ بتائیں گے کہ ایک ہی بات ہے جبکہ یہ غلط ہے۔ جن لوگوں کا جگر کمزور ہوتا ہے انہیں پروٹین ڈائجیسٹ کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔ اگر جگر کو ذیادہ پروٹین ڈائجیسٹ کرنے پر لگایا جائے گا تو وہ کام کرنا بند کر دے گا جس کی وجہ سے یرقان کی علامات ظاہر ہوتی ہیں جیسے کسی کو لیور سروسیس یا جگر کا سرطان ہو یا فیٹی لیور ہو جائے ایل ایف ٹی کی تعداد بڑھ جائے پروٹین لوڈ زیادہ ہونے سے۔ اسی لیے پیلے یرقان یا جانڈس کی صورت میں ڈاکٹر پروٹین کھانے سے منع کرتے ہیں اور جسم کی انرجی گلوکوز سے ایکسٹریکٹ کرنے کا کہتا ہیں کیونکہ گلوکوز کی بریک ڈاون آسان ہوتی ہے پروٹین کی بہ نسبت اور جسم پر کم بوجھ ڈالتی ہے۔ شراب نوشی کی صورت میں بھی یہی ہوتا ہے کیونکہ ایتھانول کی بریک ڈاون بھی جگر میں ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ ایک سمپل کمپاونڈ ہے مگر ہائی کنسنٹریشن پر جگر کو ذیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ شراب کو معتدل انداز میں پینا چاہیے تا کہ جگر پر بوجھ نہ پڑے۔ اسی طرح گوشت بھی سبزیوں کے ساتھ بیلنسڈ طریقے سے کھانا چاہیے۔ ایک کھانے میں 220 گرام یا ایک پاو سے زیادہ گوشت نہیں کھانا چاہیے ورنہ جگر پر بوجھ پڑتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی بھی چیز کی کثرت سے جسم کے حصے متاثر ہوتے ہیں۔ زیادہ تمباکو نوشی سے پھیپھڑے زیادہ کھانا کھانے سے معدہ۔ 

 یہاں پر تین باتیں ذہن نشین رکھیں۔ حرارت محسوس ہونا، حرارت کا پیدا ہونا اور جگر پر بوجھ پڑنا تین مختلف عمل ہیں۔ مصالحوں سے حرارت محسوس ہوتی ہے، گلوکوز، ڈرائی فروٹ، پروٹین اور شراب نوشی سے حرارت پیدا ہوتی ہے جبکہ ذیادہ پروٹین اور ذیادہ شراب نوشی کی صورت میں جگر پر بوجھ پڑ سکتا ہے۔ لہذا صرف حرارت محسوس یا پیدا ہونے کی صورت میں آپ کو یرقان نہیں ہو گا یعنی گرم تاثیر صرف ایک عرف عام ہے اور اس کو ایک مغالطے کے طور پر پرانے وقتوں سے ہر کلچر میں علم کی کمی کی وجہ ان کھانوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جن سے حرارت پیدا ہو چاہے یرقان ہونے کا احتمال ہو یا نہ ہو۔ جو کھانے ہضم ہونے میں زیادہ وقت لگاتے ہیں وہ زیادہ حرارت پیدا کرتے ہیں۔ اسی لیے گرمیوں میں بھوک بھی کم لگتی ہے اگر آپ کثیف کھانا یا پروٹین ڈائیٹ کھائیں۔ چنانچہ لوگ ہلکی غذا کھاتے۔ جبکہ سردیوں میں بار بار بھوک لگتی ہے۔ اب نیوٹریشن سائنس بہت ترقی کر چکی ہے لہذا روزانہ علم میں اضافہ ہوتا ہے اور نئے اور بہتر سے بہتر علم کے ساتھ نئی اور بہتر ادویات بھی آتی ہیں جو پرانے علم اور پرانی ادویات کو ریپلیس کر دیتی ہے۔ 

 پس نوشت: یرقان کی اور بہت سی وجوہات بھی ہوتی ہیں ضروری نہیں وہ اس وجہ سے ہو۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب جگر پہلے سے کمزور ہو۔ یہاں صرف پیلے یرقان یا یرقان کی علامات کی بات ہو رہی بلکہ اصل اور وائرل یرقان کی نہیں۔ ویسے ہیپاٹائٹس اے کو یرقان کہتے۔ یہ اور اے بی سی یرقان وائرل بیماریاں ہیں جو جگر کو متاثر کرتی ہیں۔ یرقان اچانک اور کم عرصے کے لیے ہوتا ہے اور ریسٹ کرنے اور اچھی غذا، جگر پر مرغن غذاوں اور پروٹین لوڈ نہ ڈالنے سے جلدی ٹھیک ہو جاتا ہے۔ ہیپاٹائٹس بی اور سی وائرس کے لیے اینٹی وائرل ادویات لینی پڑتی ہیں۔ ہیپاٹائٹس بی کے لیے پہلے سے ویکسین بھی لگتی ہے جو چھ ماہ کا کورس ہوتا ہے۔ یرقان یا ہیپاٹائٹس اے گندے پانی اور گندی خوراک سے پھیلتا ہے۔ جبکہ بی اور سی جسمانی مرطوبات یعنی خون وغیرہ سے پھیلتے ہیں۔ بی سب سے زیادہ متعدی ہے اور سی سب سے زیادہ خطرناک۔ اس کے علاوہ ڈی اور ای بھی ہیں لیکن وہ اتنے عام نہیں ہیں۔ 

 یرقان ضروری نہیں ہیپاٹائٹس اے ہی ہو یعنی ضروری نہیں وائرس کی وجہ سے ہی ہو۔ یہ جگر کی کسی اور بیماری یا کمزوری کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ اس میں رنگ پیلا پڑ جاتا ہے کیونکہ خون کی خلیے ٹوٹنے سے جو پیلا بائیلیروبین کمپاونڈ بنتا ہے اس کو کلیئر کرنا جگر کا کام پوتا ہے۔ اگر جگر صحیح کام نہیں کر رہا تو وہ جسم میں واپس جاتا ہے اور جسم کا رنگ پیلا پڑ جاتا ہے۔ نو مولود بچوں میں جن میں جگر نے اپنا کام صحیح طور پر شروع نہیں کیا ہوتا ان میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ جگر کے کینسر میں بھی یرقان کی علامات نظر آتی ہیں۔ سیروسس میں بھی۔ مزید: میں میڈیکل ڈاکٹر نہیں ہوں، یہ ایک سائنسی تناظر ہے۔ اگر آپ کو کوئی علامات ہوں تو اپنے معالج سے رجوع کریں۔ شکریہ۔

Saturday, April 15, 2023

عمران خان کا منصوبہ (حصہ دوم)

 

سڑکوں پر تصادم غیر معینہ مدت تک جاری رہ سکتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے قبل از وقت انتخابات کرانے کے خان کے مطالبے کو مستردکرتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات سال  میں شیڈول کے مطابق ہوں گے۔ لیکن یاسمین کہتی ہیں کہ "ہر بیانیہ [حکومت کے لیےانتخابات کو ملتویکرنے کا جواز پیش کرنے کے لیے بنایا جا رہا ہے۔” 22 مارچ کو، پاکستان کے الیکشن کمیشن نے ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبےپنجاب میں مقامی ووٹنگ کو 30 اپریل سے 8 اکتوبر تک موخر کر دیا۔


عمران خان مزید کہتے ہیں، “پاکستان میں سیاسی استحکام الیکشن سے آئے گا۔ یہیں سے معاشی بحالی کا بھی آغاز ہو گا۔” امریکی نقطہنگاہ سے عمران خان شاید ایک معاشی طور پر بدحال اور دہشتگردی کی لپیٹ میں آئی ہوئی اسلامی مملکت کے لیے مثالی انتخاب نہیں ہیں۔خان کے مطابق آج تک کسی واحد شخص نے مقتدرہ یا اسٹیبلشمنٹ کو اس طرح خوفزدہ نہیں کیا ہے جیسے میں نے۔ وہ اس بات پر ڈٹے ہیںکہ کیسے مجھے باہر رکھیں اور عوام اس بات پر کہ کیسے مجھے واپس لائے۔


یہ پاکستان کی بدحالی کا مظہر ہے کہ ملک کا عرصہ دراز بعد ایک مقبول سیاست دان بننے والا شخص گھر میں نظربند بیٹھا ہے۔مگر اسجنوبی ایشیاء کی ریڑھ کی ہڈی نما قوم جو کہ آنکھیں خیرہ کرنے والی خلیج عرب سے شروع ہوتی ہے اپنی ہمالیہ کی بلندیوں پر جا پہنچتیہے اس کا دنیا میں کوئی مقابلہ نہیں بنتا۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست ہے، اگرچہ یہ اپنی آدھی تاریخ میں خاکیوں کے تسلط میںرہی ہے، اس کے باوجود دنیا میں اقتدار کے حتمی ثالث کے طور پر اپنا نمایاں کردار رکھا ہے۔


پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی عمران خان، 5 اکتوبر 1952 کو لاہور کے ایک متمول پشتون گھرانے میں پیدا ہوا۔ خان نے آکسفورڈ یونیورسٹی سےسیاست، فلسفہ اور معاشیات کی تعلیم حاصل کی، اور برطانیہ میں ہی پہلی بار اس نے 18 سال کی عمر میں پاکستان کے لیے کرکٹ کھیلی۔یہ برطانیہ کی کڑویلی زمین تھی جس نے خان کے سیاسی شعور کو بنیاد فراہم کی۔ عمران خان کہتے ہیں، “جب میں انگلستان آیا تھا اسوقت تک ملک پر ایک فوجی آمر دس سال سے قابض تھا۔ طاقتور کا راج تھا۔ باقی لوگ غلامی میں تھے۔ قانون کا راج ہی انسان کو آزادی دےسکتا ہے۔ قانون کی پاسداری ہی کسی قوم کی پوشیدہ صلاحیتوں کو نکھار سکتا ہے۔ میں نے یہی دریافت کیا۔


کرکٹ کی پچ پر، خان ایک ایسا جادوگر تھا جس نے قابل اور منجھے کھلاڑیوں کو یکجا کر دیا، اور ایک ایسے ٹیم بنائی جو 1992 کرکٹ ورلڈکپ میں غیر معمولی حالات کے اندر فتح یاب ہوئی۔ جب خان وزیراعظم بنا تو انہی قائدانہ خصوصیات کی جھلک نظر آئی۔ اس نے ایک انوکھےفارمولے پر چلتے ہوئے طلباء، مزدوروں، اسلامی شدت پسندوں اور ملک کی طاقتور فوج کو ساتھ ملا کر شریف خاندان کا بڑا سیاسی بیڑہ تباہکر ڈالا۔ اگرچہ خان کا سب سے بڑا کارنامہ لاہور کا شوکت خانم کینسر ہسپتال ہے (جس کی زمین نواز شریف کی حکومت نے ہی خان کو دیتھی)، جسے انہوں نے 1994 میں اپنی والدہ کی یاد میں کھولا، جو اسی بیماری سے کئی برس قبل چل بسی تھیں۔ یہ پاکستان کے غریبوںکی خدمت کرنے والا سب سے بڑا کینسر ہسپتال ہے اور خان کی انتظامی صلاحیتوں کا ایک ثبوت بھی۔


 دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں کامیابی سے قبل خان نے بائیس سال سیاست کے صحراوں میں ٹھوکریں کھائیں۔ لیکن ایک بار اقتدار میںآنے کے بعد، خود ساختہ جرات مندانہ مصلح غیر متزلزل ہو گیا۔ حکومت کے مقابلے میں اپوزیشن آسان ہے۔ خان کے پلان ختم ہو گئے اور وہاپنے ناپسندیدہ لوگوں کو اپنا شراکت دار بناتے بناتے ان میں گھر گیا، یہاں تک کہ کالعدم مذہبی انتہاپسند جماعت تحریک لبیک پاکستان جوکہ کھلم کھلا بلاسفیمی کے ملزموں کے ازخود سر قلم کرنے کی بات کرتی ہے اس کی خوشنودی تک حاصل کرنے لگا۔ کچھ کامیابیاں ملیں جنمیں پاکستان کی کورونا وائرس سے نمٹنے کی دنیا بھر نے تعریف کی، جس میں فی کس اموات پڑوسی ملک بھارت سے صرف ایک تہائی رہیں۔اس کے علاوہ "دس ارب درختوں کا سونامیجنگلات کی بحالی کی مہم مقبول تھی۔ اس کے علاوہ دو ہزار انیس میں پاکستان میں بینالاقوامی ٹیسٹ کرکٹ کی واپسی تھی، جو کہ سری لنکا کی ٹیم پر دہشت گرد حملے کے بعد سے تقریبا دس سال سے رکی تھی۔ 


خان کی نجی زندگی شاذ و نادر ہی سرخیوں سے باہر رہی ہے۔ ان کی پہلی بیوی برطانوی صحافی اور سوشل آئکن جمائما خان گولڈ اسمتھتھیں،  جو کہ ویلز کی شہزادی لیڈی ڈیانا کی قریبی دوست بھی تھیں۔ جمائما نے شادی کے لیے اسلام قبول کیا، اگرچہ یہ شادی نو سال بعددو ہزار چار میں ٹوٹ گئی، اس کے علاوہ جمائما کا یہودی ورثہ خان کے لیے سیاسی بارود تھا۔ (ان کے دو بیٹے لندن میں رہتے ہیں۔خان کیبرطانوی پاکستانی صحافی ریحام خان سے دوسری شادی نو ماہ تک جاری رہی۔ کیلیفورنیا کی عدالت کے انیس سو ستانوے کے فیصلے کےمطابق، خان کی ایک اور بیٹی بھی ہے، جو کہ شادی کے بغیر پیدا ہوئی جبکہ کئی اور بچوں کے بارے میں بھی عموما افوائیں پھیلتی رہتی ہیںجن کو عمران خان ساری عمر دبانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ دو ہزار اٹھارہ میں، اقتدار سنبھالنے سے چھ ماہ قبل، انہوں نے اپنی موجودہبیوی بشریٰ بی بی خان جو کہ ایک مذہبی خاتون ہیں سے شادی کی۔


(جاری ہے)


پہلا حصہ:- https://azkworld.blogspot.com/2023/04/blog-post.html