پروٹین کو میٹابولائز کرنے کے لیے جسم کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے گرمی لگتی ہے اور پھر پروٹین کے میٹابولزم سے مزید حرارت پیدا ہوتی ہے اس کے بعد امائینو ایسڈز جو کہ پروٹین کے بریک ڈاون یا میٹابولزم سے بنتے ہیں وہ نئے پروٹین بناتے ہیں یہ عمل بھی ایگزوتھرمک یعنی حرارت زا عمل ہے۔ اسی لیے حرارت پیدا ہوتی ہے اور جسم کو گرمی محسوس ہوتی ہے۔
چونکہ یہ سارا کام جگر میں ہوتا ہے تو جن لوگوں کا جگر کمزور ہوتا ہے ان کو یرقان ہو جاتا ہے۔ اس کو گرم تاثیر بھی کہا جاتا ہے۔ یہی کام چاکلیٹ یا زیادہ پروٹین والی کوئی بھی چیز کرے گی جیسے پروٹین شیک۔ جبکہ پھل سبزیاں کم کیلوریز پیدا کرتی ہیں۔ بعض سبزیوں جیسے کھیرے میں زیرو کیلوریز ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کی تاثیر ٹھنڈی بتائی جاتی ہے۔
ڈرائی فروٹس میں شوگر کی مختلف اقسام بہت ذیادہ کنسنٹریشن میں ہوتی ہیں جیسے گلوکوز یا فرکٹوز وغیرہ۔ اس لیے وہ جسم کو بہت کیلوریز، حرارت یا انرجی دیتے ہیں۔ گرمیوں میں مسام بند ہونے کی وجہ سے پسینہ باہر نہیں نکلتا تو پھر ریش یا دانے نکلتے ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ گرم چیزیں کھانے سے ایسا ہوا۔
جبکہ مصالحے کھانے سے جسم کے ہیٹ ریسیپٹرز ایکٹیویٹ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے گرمی لگتی ہے۔ گوشت اور مصالحوں کے نتیجے میں محسوس ہونے والی حرارت مختلف قسم کی ہے۔ ایک میں واقعی حرارت پیدا ہوتی ہے جبکہ مصالحوں کے چکر میں صرف محسوس ہوتی ہے بنتی نہیں ہے۔ لیکن حکیم آپ کو یہ بتائیں گے کہ ایک ہی بات ہے جبکہ یہ غلط ہے۔
جن لوگوں کا جگر کمزور ہوتا ہے انہیں پروٹین ڈائجیسٹ کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔ اگر جگر کو ذیادہ پروٹین ڈائجیسٹ کرنے پر لگایا جائے گا تو وہ کام کرنا بند کر دے گا جس کی وجہ سے یرقان کی علامات ظاہر ہوتی ہیں جیسے کسی کو لیور سروسیس یا جگر کا سرطان ہو یا فیٹی لیور ہو جائے ایل ایف ٹی کی تعداد بڑھ جائے پروٹین لوڈ زیادہ ہونے سے۔ اسی لیے پیلے یرقان یا جانڈس کی صورت میں ڈاکٹر پروٹین کھانے سے منع کرتے ہیں اور جسم کی انرجی گلوکوز سے ایکسٹریکٹ کرنے کا کہتا ہیں کیونکہ گلوکوز کی بریک ڈاون آسان ہوتی ہے پروٹین کی بہ نسبت اور جسم پر کم بوجھ ڈالتی ہے۔ شراب نوشی کی صورت میں بھی یہی ہوتا ہے کیونکہ ایتھانول کی بریک ڈاون بھی جگر میں ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ ایک سمپل کمپاونڈ ہے مگر ہائی کنسنٹریشن پر جگر کو ذیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ شراب کو معتدل انداز میں پینا چاہیے تا کہ جگر پر بوجھ نہ پڑے۔
اسی طرح گوشت بھی سبزیوں کے ساتھ بیلنسڈ طریقے سے کھانا چاہیے۔ ایک کھانے میں 220 گرام یا ایک پاو سے زیادہ گوشت نہیں کھانا چاہیے ورنہ جگر پر بوجھ پڑتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی بھی چیز کی کثرت سے جسم کے حصے متاثر ہوتے ہیں۔ زیادہ تمباکو نوشی سے پھیپھڑے زیادہ کھانا کھانے سے معدہ۔
یہاں پر تین باتیں ذہن نشین رکھیں۔ حرارت محسوس ہونا، حرارت کا پیدا ہونا اور جگر پر بوجھ پڑنا تین مختلف عمل ہیں۔ مصالحوں سے حرارت محسوس ہوتی ہے، گلوکوز، ڈرائی فروٹ، پروٹین اور شراب نوشی سے حرارت پیدا ہوتی ہے جبکہ ذیادہ پروٹین اور ذیادہ شراب نوشی کی صورت میں جگر پر بوجھ پڑ سکتا ہے۔ لہذا صرف حرارت محسوس یا پیدا ہونے کی صورت میں آپ کو یرقان نہیں ہو گا یعنی گرم تاثیر صرف ایک عرف عام ہے اور اس کو ایک مغالطے کے طور پر پرانے وقتوں سے ہر کلچر میں علم کی کمی کی وجہ ان کھانوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جن سے حرارت پیدا ہو چاہے یرقان ہونے کا احتمال ہو یا نہ ہو۔ جو کھانے ہضم ہونے میں زیادہ وقت لگاتے ہیں وہ زیادہ حرارت پیدا کرتے ہیں۔ اسی لیے گرمیوں میں بھوک بھی کم لگتی ہے اگر آپ کثیف کھانا یا پروٹین ڈائیٹ کھائیں۔ چنانچہ لوگ ہلکی غذا کھاتے۔ جبکہ سردیوں میں بار بار بھوک لگتی ہے۔
اب نیوٹریشن سائنس بہت ترقی کر چکی ہے لہذا روزانہ علم میں اضافہ ہوتا ہے اور نئے اور بہتر سے بہتر علم کے ساتھ نئی اور بہتر ادویات بھی آتی ہیں جو پرانے علم اور پرانی ادویات کو ریپلیس کر دیتی ہے۔
پس نوشت: یرقان کی اور بہت سی وجوہات بھی ہوتی ہیں ضروری نہیں وہ اس وجہ سے ہو۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب جگر پہلے سے کمزور ہو۔ یہاں صرف پیلے یرقان یا یرقان کی علامات کی بات ہو رہی بلکہ اصل اور وائرل یرقان کی نہیں۔ ویسے ہیپاٹائٹس اے کو یرقان کہتے۔ یہ اور اے بی سی یرقان وائرل بیماریاں ہیں جو جگر کو متاثر کرتی ہیں۔ یرقان اچانک اور کم عرصے کے لیے ہوتا ہے اور ریسٹ کرنے اور اچھی غذا، جگر پر مرغن غذاوں اور پروٹین لوڈ نہ ڈالنے سے جلدی ٹھیک ہو جاتا ہے۔ ہیپاٹائٹس بی اور سی وائرس کے لیے اینٹی وائرل ادویات لینی پڑتی ہیں۔ ہیپاٹائٹس بی کے لیے پہلے سے ویکسین بھی لگتی ہے جو چھ ماہ کا کورس ہوتا ہے۔ یرقان یا ہیپاٹائٹس اے گندے پانی اور گندی خوراک سے پھیلتا ہے۔ جبکہ بی اور سی جسمانی مرطوبات یعنی خون وغیرہ سے پھیلتے ہیں۔ بی سب سے زیادہ متعدی ہے اور سی سب سے زیادہ خطرناک۔ اس کے علاوہ ڈی اور ای بھی ہیں لیکن وہ اتنے عام نہیں ہیں۔
یرقان ضروری نہیں ہیپاٹائٹس اے ہی ہو یعنی ضروری نہیں وائرس کی وجہ سے ہی ہو۔ یہ جگر کی کسی اور بیماری یا کمزوری کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ اس میں رنگ پیلا پڑ جاتا ہے کیونکہ خون کی خلیے ٹوٹنے سے جو پیلا بائیلیروبین کمپاونڈ بنتا ہے اس کو کلیئر کرنا جگر کا کام پوتا ہے۔ اگر جگر صحیح کام نہیں کر رہا تو وہ جسم میں واپس جاتا ہے اور جسم کا رنگ پیلا پڑ جاتا ہے۔ نو مولود بچوں میں جن میں جگر نے اپنا کام صحیح طور پر شروع نہیں کیا ہوتا ان میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ جگر کے کینسر میں بھی یرقان کی علامات نظر آتی ہیں۔ سیروسس میں بھی۔
مزید: میں میڈیکل ڈاکٹر نہیں ہوں، یہ ایک سائنسی تناظر ہے۔ اگر آپ کو کوئی علامات ہوں تو اپنے معالج سے رجوع کریں۔ شکریہ۔
No comments:
Post a Comment