Showing posts with label Satire. Show all posts
Showing posts with label Satire. Show all posts

Sunday, April 28, 2024

سائنس کیسے کام کرتی ہے اور ہمارے سوشل میڈیا دانشور

 

Science Experiment Vectors by Vecteezy

تحریر: ڈاکٹر عاکف خان

مختصراً سائنس ایسے کام کرتی ہے کہ جب آپ کوئی مشاہدہ کرتے ہیں اور اپنے سابقہ علم کی بنیاد پر کوئی مفروضہ بناتے ہیں تو سائنسی طریقہ کار کے مطابق آپ یہ نہیں کرتے کہ اس مفروضے کے حق میں ثبوت اور شواہد اکٹھے کرنا شروع کر دیں۔ یہ طریقہ کار بیسویں صدی سے پہلے استعمال ہوتا تھا اور اسے انڈکشن میتھڈ (Induction Method) کہتے تھے لیکن سائنس کی دنیا میں ایک فلسفی کارل پاپر (Karl Popper) آیا جس نے اس طریقہ کار پر اعتراضات اٹھائے اور سائینٹیفک میتھڈ (Scientific Method) کو نئے سرے سے ڈیفائن کیا۔ 


اب سائنس میں یہ ہوتا ہے کہ جب آپ کوئی مفروضہ بناتے ہیں تو اول اس کو رد کرنے کی سہی کرتے ہیں۔ یعنی ایسے تجربات اور مشاہدات نہیں کرتے جس سے وہ مفروضہ درست ثابت ہو بلکہ ایسے تجربات اور مشاہدات ڈیزائن کرتے ہیں جس سے وہ مفروضہ غلط ثابت ہو سکے۔ اس کو فالسیفیکیشن میتھڈ (Falsification Method or Falsifiability) یا رد کرنے کا طریقہ کہتے ہیں۔ اس طرح کئی تجربات بار بار کیے جاتے ہیں۔ اگر وہ مفروضہ غلط ثابت ہو جائے تو اس کو وہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ مگر اگر وہ بدستور غلط ثابت نہ ہو سکے تو اسے درست سمجھا جاتا ہے۔ لیکن مستقبل میں بھی اس بات کی گنجائش ہوتی ہے کہ کوئی نئے تجربات یا نئی ٹیکنالوجی سے کوئی ایسا تجربہ کرے جو اس مفروضے کو غلط یا مزید بہتر بنا سکے۔ 


دوسرا ضروری کام یہ کرنا ہوتا ہے کہ اپنے سارے طریقہ کار کو للھ کر متعلقہ سائنسی جریدے کو بھیجا جاتا ہے جہاں فیلڈ کا ایک بڑا ایکسپرٹ/سائنسدان بیٹھا ہوتا ہے جو اس کام کو پرکھتا ہے کہ کیا یہ واقعی سائنسی معیار پر پورا اترتا ہے یعنی کیا ان لوگوں نے تمام شواہد فالسیفیکیشن سے اکٹھے کیے ہیں۔ کیا بنیادی تجربات کے ساتھ سپورٹنگ تجربات بھی کیے گئے ہیں جسے کوروبوریٹیو ایویڈنس (Corroborative Evidence) یا تائیدی شواہد/تجربات کہا جاتا ہے جو کہ مفروضے کی نہیں ان تجربات کی تائید کرتے ہیں۔ 


تیسرے نمبر پر وہ ایکسپرٹ یہ سب متعین کرنے کے بعد بھی اس کام کو مزید دو سے چار اور بعض اوقات زیادہ ایکسپرٹس کو بھیجتا ہے جو اس کام کو تفصیل سے پڑھ کر اس میں سے غلطیاں نکالتے ہیں، اسے ریجیکٹ کرتے ہیں یا مزید بہتر بنانے کے لیے مزید کوروبوریٹیو ایویڈنس پر مبنی تجربات پروپوز کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ کام شائع ہوتا ہے۔ اس عمل کو پیئر ریویو (Peer Review) کہتے ہیں۔ ان پیئر ریویور (Reviewer) کو کام کرنے والے سائنسدان نہیں جانتے تا کہ وہ ان پر اثرانداز نہ ہو سکیں۔ اس کو سنگل بلائنڈ ریویو (Single Blind Review) کہا جاتا ہے۔ کچھ جریدے ڈبل بلائنڈ ریویو (Double Blind Review) استعمال کرتے ہیں۔ جس میں ریویور بھی کام کرنے والوں کو نہیں جانتے۔ مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی دوست۔ 


اس کے بعد یہ ہوتا ہے کہ کچھ سائنسی جریدے اس کام میں بہت سختی دکھاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی ساکھ مضبوط ہوتی ہے۔ جبکہ کچھ جریدے اس کام میں نرمی دکھاتے ہیں جس سے ان کی ساکھ تھوڑی کمزور ہوتی ہے۔ اس ساکھ کو اس جریدے کے کوارٹائیل، امپیکٹ فیکٹر، سائتیشن سکور، ایچ انڈیکس (یعنی دوسرے جرائد نے اس جریدے کے کام کے آزاد حوالے یعنی دوسرے سائئنسدانوں کی طرف سے حوالے کتنے دیے ہیں)۔ لیکن ان اعداد و شمار پر بھی بھروسہ نہیں کیا جاتا۔ بعض اوقات ایک کم ساکھ والے جریدے میں اچھا کام اور ایک اچھی ساکھ والے جریدے میں ایوریج کام بھی شائع ہو جاتا ہے۔ سائنسدانوں کی کمیونٹی کے اندر بھی اس بات کا علم ہوتا ہے کہ کونسا جریدہ بہتر ہے اور کونسا نہیں۔ ایکسپرٹس کو یہ بھی علم ہوتا ہے کہ کون سا کام اچھے طریقے سے کیا گیا ہے اور کونسا نہیں۔ 


اس کے بعد ان شائع شدہ مقالوں کو ہزاروں مزید ایکسپرٹس پڑھتے ہیں ریپیٹ اور ریپروڈیوس کرتے ہیں یعنی وہ کام اپنی لیب میں آزادانہ طور پر نئے سرے سے کرتے ہیں۔ یہ کام عموما ماسڑرز اور پی ایچ ڈی سٹوڈنٹس اپنا کام سیکھنے کے لیے کرتے ہیں یا اگر کسی نے کنفرم کرنا ہو وہ کرتا ہے۔ پھر اسی کام سے متعلقہ کئی دوسرے کام یا اس کے اگلے مراحل کا کام کیا جاتا ہے۔  اس کے بعد اگر وہ سائنس ایپلائیڈ ہو تو اس کے مطابق نئی ٹیکنالوجی بنتی ہے جو کہ واقعی میں کام کرتی ہے اور اس میں وقت اور ضرورت کے مطابق ٹیکنالوجسٹ اور انجینیئر مزید بہتری لاتے ہیں۔ تھیوری آف گریویٹی اور ارتقاء کے نظریات اس طریقہ کار سے ہو کر گزرے ہوئے ہیں اور ابھی تک ان کو رد کرنے والے تمام تجربات غلط ثابت ہوئے ہیں، اس لیے ان کو درست تسلیم کیا جاتا ہے۔ اگر آج بھی کوئی دسویں مالے سے چھلانگ لگا کر اوپر کو اڑے یا یا کوئی ایسا فاسل دریافت کر دے جو ارتقاء کے نظریے کے برخلاف ہو یعنی آپ اگر انسان کا فاسل چھ کروڑ سال پہلے کا دریافت کر لیں تو باآسانی ان نظریات کو رد کر سکتے ہیں اور سائنسدان بخوشی آپ کی بات کو مانیں گے بلکہ آپ کو یقینا نوبیل پرائز سے بھی نوازا جائے گا۔ 


کارل پاپر کے اس طریقے کو وضع کرنے کے بعد محض سو سالوں میں سائنسی ترقی کا حال آپ نے دیکھ لیا ہے۔ جنرل ریلیٹیوٹی کی بنیاد پر پوری دنیا کا کمیونیکشن نظام کام کرتا ہے۔ ساری میڈیکل سائنس ارتقاء کے نظریے کی وجہ سے کام کرتی ہے۔ 


سائینٹیفیک میتھڈ کی ایک اولین مثال ایڈنگٹن (Eddington) کا وہ تجربہ تھا (اس پر ایک فلم بھی بن چکی ہے Einstein and Eddingtonکے نام سے) جس نے آئن سٹائن کی تھیوری آف جنرل ریلیٹیویٹی کو درست ثابت کیا۔ حقیقت میں وہ تجربہ آئن سٹائن کی تھیوری کو رد کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ یعنی کہ اگر ایڈنگٹن کو سورج گرہن کے وقت ستارے اپنی جگہ سے ہلے ہوئے نظر نہ آتے تو آئن سٹائن کی تھیوری کہ گریویٹی سپیس کو موڑتی ہے اور روشنی بھی اس کے ساتھ مڑتی ہے غلط ثابت ہو جاتا۔ 


مختلف سائنسز میں یہ طریقہ کار مختلف طریقوں اور ناموں سے استعمال ہوتا ہے۔ میتھیمیٹکس میں کانٹراڈکشن سے، سوشل سائنسز اور تھیوریٹیکل سائنسز میں شماریات یعنی سٹیٹیسٹکس سے کانفیڈنس لمٹ معلوم کی جاتی ہے۔ شماریات نیچرل اور فزیکل سائنسز میں بھی کوروبوریٹیو ایویڈنس کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ چونکہ میں ایک فزیکل سائنسز کا طالبعلم ہوں تو اسی حوالے سے مثالیں دیں۔


اب ایسے علوم جن کو غلط ثابت کرنے کے تجربات نہیں کیے جا سکتے جیسے مثال کے طور پر آسٹرالوجی، پامسٹری، نیومرالوجی، ہومیوپیتھی وغیرہ۔ آپ کو ان کے ماننے والے ہمیشہ تائیدی ثبوت دیتے نظر آئیں گے۔ فلاں کے برج میں یہ تھا تو یہ ہوا۔ فلاں نے ہومیوپیتھی کی دوائی لی تو پتھری نکل گئی۔ مگر نہ تو وہ خود اپنے مفروضوں کے لیے رد کرنے والے تجربات کریں گے، نہ کسی کو کرنے دیں گے نہ کسی سے پیئر ریویو کروائیں گے کہ کیا سب برجوں کے ساتھ یہ ہوا کیا پتھری محض پانی کے استعمال سے تو نہیں نکل آئی، بہت سے لوگوں کو ہومیوپیتھی کی دوائی دیے بغیر چیک کر کے شماریاتی تجزیہ کیا جائے وغیرہ۔ اس لیے ان چیزوں کو سوڈو سائنس کہا جاتا ہے۔ 


اصل میں یہ پوسٹ لکھنے کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر کچھ دانشور خواتین و خضرات اپنے نظریات کے تائیدی شواہد ہی اکٹھے کرتے نظر آتے ہیں۔ کلاوٹ، فالوورز اور وہ لوگ جو کمنٹس میں واہ واہ، مور پاور ٹو یو، کیا بات ہے، بہت اعلی، لکھتے/لکھتی رہا کریں، وغیرہ جیسی گردانیں کرتے ہیں۔ مگر جونہی کوئی ان کے مفروضوں کے برخلاف شوائد یا دلیل دے تو اس کو لیبل لگا کر بلاک کر دیا جاتا ہے۔ اناپرستی اور خودپرستی کا رقص شروع ہو جاتا ہے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ تضحیک اور ذاتی حملے اس میں شمار نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں کو نہ صرف بلاک کرنا چاہیے بلکہ پچھلی پوسٹ کی وضاحت کی روشنی میں گھر پہنچا کر بھی آنا چاہیے۔ 


(ڈاکٹر عاکف خان)


#docakkh #ڈاکٹر_عاکف_خان #akifonymous

Wednesday, February 22, 2023

فیسبکی دانشور کیسے بنا جائے - حصہ چہارم


بڑا فیسبکی دانشور کیسے بنا جائے سلسلے میں خوش آمدید۔ چونکہ بڑا فیسبکی دانشور بننا آسان کام نہیں ہے اسی طرح اس کو سمجھنا بھی آسان کام نہیں ہے۔ لہذا ہر کچھ عرصے بعد فیسبکی دانشوروں کا ایک نیا پرتو سامنے آتا ہے۔ چونکہ ساتھ ساتھ ان جانداروں کا ارتقاء بھی ہوتا رہتا ہے تو سلسلے کو اپڈیٹ کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ طلباء اور احباب بھرپور طریقے سے باہم مستفید ہو سکیں۔ 

تو چلیے، چلتے ہیں نئے چیپٹر کی طرف۔ حال ہی میں تین نئی اقسام یا خصوصیات کا مشاہدہ کیا گیا ہے جن میں سے دو کا تعلق سرقہ بازوں جبکہ تیسری کا انتہائی بڑے دانشوروں کے ایک نادر عمومی رویے سے ہے۔ آپ پہلے دو پڑھے بغیر تیسرے پر چھلانگ لگانے کا مت سوچیں کیونکہ اس درجے پر پہنچنے کے لیے آپ کو پہلی دو اجناس میں ممکنہ طور پر تبدیل ہونا پڑ سکتا ہے۔ 

۱- دوسرے فیسبکی دانشوروں کو اپنا دوست بنائیں۔ نام میں حتی الامکان طور پر ایڈووکیٹ، ڈاکٹر نہیں تو کوئی ڈاڈی قوم یا تخلص ٹھوک دیں۔ اس کے بعد دوسرے فیسبکی دانشوروں کی تحاریر ڈھٹائی سے چوری کر کے اپنی بنا کر لگا دیں۔ کوئی اعتراض کرے تو ان کے کمنٹس کو اگنور یا ڈیلیٹ کر دیں۔ ڈھٹائی پر کمر کسنا ضروری ہے۔ 

۲- اس کا اگلا لیول یہ ہے کہ کسی غیرمعروف لکھاری کی تحریر چوری مگر تبدیل کر کے اپنے باقی سرقہ شدہ مال میں مستعمل طریقے سے شامل کر لیں اور ایک ناول چھاپ دیں۔ یاد رہے اس کے لیے آپ کو چند وفاداروں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اگر مسئلہ زیادہ بڑھ جائے تو اپنے کمنٹس بند کر دیں اور زیادہ شور مچانے والوں کو بلاک کر دیں۔ آپ اس تحریر کے انیس سو سینتالیس کے سکرین شاٹس فوٹو شاپ کر کے یہ بھی ثابت کر سکتے ہیں کہ وہ تحریر پہلی مرتبہ آپ یا آپ کے دادا نے ہی لکھی تھی۔ 

۳- آپ کا ہر موضوع پر رائے دینا انتہائی ضروری ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کو اس کا کوئی علم ہے یا نہیں۔ گوگل کا استعمال کریں یا چیٹ جی پی ٹی سے مستفید ہوں، یہ آپ کی اپنی مہارت پر منحصر ہے۔ مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ کام آپ نے فورا کرنا ہے چاہے آپ کے پاس کوئی خاص رائے ہے یا نہیں۔ اگر آپ لیٹ ہو جائیں یا آپ کو خبر ہونے تک باقی فیسبکی دانشور اپنی اپنی رائے کا وائرل اظہار کر چکے ہوں تو کچھ ایسی طنزیہ پوسٹ کر کے اپنے فالوورز کو دوبارہ گھیر لیں۔ ”اب ہر کوئی ہی کامسیٹس کے پرچے پر رائے دے رہا ہے تو چلو میں رہنے دیتا/دیتی ہوں” وغیرہ۔ اس سے یہ ہو گا کہ دوسرے تمام معمولی فیسبکی دانشور آپ کے فیسبکی دانشوری کے منصب سے مرعوب بھی ہو جائیں گے اور آپ کوئی رائے دیے بغیر بھی اپنی رائے دے چکے ہوں گے۔ ریلیونٹ رہنا ازحد ضروری ہے۔ 

Thursday, May 19, 2022

فیسبکی دانشور کیسے بنا جائے - حصہ سوئم

 

فیسبکی دانشور کے خدشات - ایک نظم

(پارٹ تھری: منظوم، امجد اسلام امجد سے معذرت کے ساتھ)


دانشور کی طبیعت میں


یہ کیسا بچپنا فیسبک نے رکھا ہے


کہ یہ جتنا بڑا، جتنا بھی مضبوط ہو جائے


اسے تائیدِ تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے


یقیں کی آخری حد تک دلوں میں لہلہائے


نگاہوں سے ٹپکتا ہو، لہو میں جگمگائے


ہزاروں طرح سے دلکش، حسیں حالے بنائے


اسے اظہار کے ریئکٹس کی حاجت پھر بھی رہتی ہے !


دانشور مانگتا ہے یوں گواہی اپنے ہونے کی


کہ جیسے طفلِ سادہ شام کو اک پوسٹ کرے


اور شب میں بارہا اٹھے


فیسبک کو کھول کر دیکھے


کہ لائیکس اب کہاں تک پہنچے !


دانشور کی طبیعیت میں عجب تکرار کی خو ہے


کہ یہ اقرار کے لفظوں کو سننے سے نہیں تھکتا


پوسٹ کرنے کی گھڑی ہو یا کوئی انٹرویو کی ساعت ہو


اسے بس ایک ہی دھن ہے


"کہو میں دانشور ہوں !"


"کہو مجھ سے میں دانشور ہوں !"


"تمہیں مجھ میں دانشور دکھتا ہے !"


کچھ ایسی بے سکونی ہے دانشوری کی سر زمینوں میں


کہ جو اہلِ دانش کو سدا بے چین رکھتی ہے


کہ جیسے پھول میں خوشبو، کہ جیسے ہاتھ میں پارہ،


کہ جیسے شام کا تارہ !


دانش کرنے والوں کی سحر راتوں میں رہتی ہے


گماں کی شاخ پر پوسٹ بنتا ہے دانش والی


یہ عین وصل میں بھی ارریلیونٹ ہونے کے خدشوں میں رہتے ہیں


دانش کے مسافر زندگی جب کاٹ چکتے ہیں


تھکن کی لائیکیں چنتے، دانشوری کے ریئکٹ سمیٹتے


سمے کی راہگزر کی آخری سرحد پہ رکتے ہیں


تو کوئی ڈوبتی سانسوں کی ڈوری تھام کر


دھیرے سے کہتا ہے


" یہ سچ ہے ناں !


ہماری زندگی فالوورز کے نام لکھی تھی


یہ دھندلکا سا جو نگاہوں سے قریب و دور پھیلا ہے


اسی کا نام دانشوری ہے !


تمہیں مجھ میں دانشور دکھتا تھا !


تمہیں مجھ  میں دانشور دکھتا ہے !"


دانشور کی طبیعت میں یہ کیسا بچپنا فیسبک نے رکھا ہے !


(ڈاکٹر عاکف خان)

یہ نظم پہلی مرتبہ فیسبک پر چھبیس اکتوبر دو ہزار بائیس کو چھپی۔ لنک درج ذیل ہے۔ 

https://www.facebook.com/534596120/posts/pfbid02t6jprP5JSHroR6xwSwxzcpjBUda5ngwQo191PoBVM1seUcsGMxosY4UK2da9Tyefl/?mibextid=q5o4bk

Friday, March 18, 2022

فیسبکی دانشور کیسے بنا جائے - حصہ دوئم

 

اس پر کچھ عرصہ پہلے ایک پوسٹ لکھی تھی۔ مگر طالبعلم اور وانا بی فیسبک دانشور یعنی معمولی دانشور یا دانشوڑ ہونے کے ناتے روزانہ کچھ نیا سیکھنے کو ملتا ہے۔ 


بڑے دانشور یا دانشور بننے کے چند مزید گر حاضر خدمت ہیں۔ 


دانشور کی ایک پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی دانشوڑ کی پوسٹ کے نیچے کمنٹ نہیں کرتا۔ 


ایک اور پہچان یہ ہے کہ کسی دوسرے دانشور کی پوسٹ کے نیچے بھی کمنٹ نہیں کرتا بلکہ ایک نئی پوسٹ بنا کر اس کو جواب دیتا ہے۔ ٹویٹر پر یہ کام دوسروں کی پوسٹ کو کوٹ کر کے کمنٹ کرنے سے کیا جاتا ہے۔ 


اس کے علاوہ اپنی پوسٹ پر کسی کمنٹ کا جواب دینا بھی دانشور کے شایان شان نہیں۔ 


اور ہاں ریئکٹ تو بالکل بھی نہیں کرنا کسی کی پوسٹ پر۔ 


ان باتوں کے بہت سے فوائد ہیں۔ دانشوڑ آپ کے کمنٹ پر آپ سے اعتراض کر کے آپ کی بڑی شان گھٹا سکتا ہے۔ یہی کام اس کو جواب دینے سے بھی ہو سکتا ہے۔ 


ہاں وہ آپ کی اپنی پوسٹ کے نیچے جتنا مرضی آپ کو گالیاں دیتا رہے، اس سے آپ کی شان بڑھے گی، گھٹے گی نہیں۔ اس سے یہ ثابت ہو گا کہ آپ کو کتنی گالیاں پڑ رہی ہیں مگر آپ پھر بھی اپنے عزم پر ثابت قدم ہیں۔ یہی گالیاں اگر آپ کو دانشوڑ کی پوسٹ کے نیچے پڑیں تو فائدہ؟ الٹا اس دانشوڑ کا فائدہ ہو گا کہ اس کے اتنے جانثار فالوور ہیں کہ اس کا دفاع کر رہے ہیں۔ 


ریئکٹ نہ کرنے کا یہ فائدہ ہے کہ دانشوڑ آپ کے ریئکٹ لوگوں کو دکھا کر اپنی دانشوری کا لیول اونچا کر سکتا ہے۔ اوئے دیکھو اتنے بڑے بڑے دانشور بھی میرے خیال سے متفق ہوتے ہیں۔ 


ان باتوں کو ذہن میں رکھیں اگر آپ نے دانشور بننا ہے تو ورنہ آپ ساری عمر دانشوڑ ہی رہیں گے۔

Saturday, December 25, 2021

فیسبکی دانشور کیسا بنا جائے؟ حصہ اول

 

بڑا فیسبک دانشور بننے کے چھ سنہری رول

رول نمبر ون: کسی دوسرے فیسبکی دانشوڑ کی پوسٹ پڑھ کر اس کے نیچے کمنٹ نہ کریں بلکہ اپنی نئی پوسٹ بنائیں چاہے آپ کو اس پوسٹ سے اتفاق ہے یا اختلاف۔ 

رول نمبر ٹو: کمنٹ کرنے والے لوگ فالوورز ہوتے ہیں یا چھوٹے، غیر اہم اور غیر مقبول دانشوڑ

رول نمبر تھری: اپنی پوسٹس پر کمنٹس کا جواب دینا بھی چھوٹے دانشوڑوں کا طور ہے۔ کمنٹس کو بسہولت اگنور کیا کریں۔ 

رول نمبر فور: کسی دوسرے دانشور کی پوسٹ کو کسی قسم کا ریئکٹ دینا بھی بڑے دانشوروں کے شایان شان نہیں ہے۔ ہاں، اگر وہ کوئی خاتون ہیں تو ریئکٹ کیا آپ ان کے کمنٹس سیکشن میں اپنے لیول کے دانشوروں کی باقائدہ طویل کمنٹی کانفرنس بھی منعقد کر سکتے ہیں۔ 

رول نمبر فائیو: گاوں کے چوھدریوں، ایم این ایز اور ملکوں وغیرہ کی طرح صرف غمی خوشی میں کمنٹس کیا کریں جیسے کسی کی وفات، گریجویشن یا شادی کی پوسٹ پر۔ لیکن یاد رہے پہلے دیکھ لیں کہ وہاں دوسرے بڑے دانشوروں کے کم از کم درجن کمنٹس آ چکے ہوئے ہوں۔ 

رول نمبر سکس:کسی دوسرے دانشور کی پوسٹ ہرگز شیئر نہ کریں۔ ورنہ اس کو مفت کی ٹی آر پی ملے گی اور آپ کے فالوورز بھی چھین کر لے جائے گا۔ کوئی پوسٹ اگر بہت ہی معلوماتی یا دانشوڑانہ ہو یا آپ کے نقطہ نظر کی تائید کر رہی ہو اور آپ کے اندر کا کمزور انسان دوست دانشوڑ بہت مجبور کرے تو دو طریقے ہیں۔ 

اول پوسٹ کاپی پیسٹ کر کے ان کا نام کونے میں چھوٹا سا لکھیں۔ ٹیگ ہرگز نہ کریں اور تعریف کرنے کی بالکل ضرورت نہیں۔ وہ چھوٹا دانشوڑ ویسے ہی اتنا شکرگزار ہو جائے گا، آپ کو گھبرانے کی ضرورت بالکل نہیں ہے۔ 

دوسرا اور آزمودہ اور عام طریقہ یہ ہے کہ وہی بات اپنے الفاظ میں لکھ ماریں جیسے وہ وحی آپ پر ہی نازل ہوئی اور بالکل ایسے برتاو کریں جیسے آپ نے دوسری پوسٹ دیکھی ہی نہ ہو کبھی زندگی میں۔ یہاں آپ کو کسی کی پوسٹ لائیک نہ کرنے کا فائدہ بھی سمجھ آئے گا۔

Thursday, November 20, 2014

Pakistan: An interactive guide for Hollywood and Bollywood Movie Makers

IT is often very funny to see the international media, especially TV and Film Industry, portaying Pakistan as some country where women are covered in black overalls or shuttlecock burqas, people having beards and no moustaches with a checkered cloth over their shoulders, riding donkeys, wiping their behinds with stones, narrow streets, dusty roads, people speaking Arabic, goats on highways, people travelling in Jeeps and 70s Trucks.

In Pakistan, people think that it is a western conspiracy against them. To me it is sheer ignorance and laziness on the behalf of TV and film industry. One could see the example of this, recently, when fourth season of a TV Series, Homeland started airing. Where Islamabad is shown as some dusty city with narrow streets, people speaking wrong Urdu, everyone bearded, Americans walking in Miran Shah without being noticed, Taliban commanders having sex with their wives in the presence of a guest in the exact room. Similarly, in the movie Zero Dark Thirty, common people were shown speaking Arabic in Pakistan (Not 1% of the population speaks Arabic in Pakistan.) I do not take any pride in Pakistan being a modernised country. It is not a symbol of development to me. However, if you consider that you can depict Pakistan with some orientalist mindset as a completely backward, tribal, under-developed country of retards, you would be very wrong there bro! It is called cultural ignorance. And this mindset is not only targeting (purposefully or unconsciously)  Pakistan, but also Iran and Middle East.

Monday, November 11, 2013

Charachteristics of a Patriotic Pakistani Mard-i-Momin


Why is it that I found most of the people in Pakistan with this same profile. They believe in following things unanimously.

1. Imran Khan is the hope and he will bring the change.

2. There are Good Taliban and Bad Taliban.

3. Good Taliban are very peaceful and they just goto Afghanistan to fight US.

4. Bad Taliban are RAW/CIA agents.

5. We need Shariah in Pakistan.

Monday, September 23, 2013

My white paper on PTI's 100 days performance in KPK

The night of the election, I was thinking only one thing; which party to vote? My whole family was going
for PTI. Already having tested PMLN and PPP, they had no other option. On ideological grounds, I wanted to go for left, i.e. ANP or AWP. But there was no candidate contesting on their behalf. All four of the candidates of PMLN and PPP were not the people with good history. And unfortunately to my dismay both of the PTI candidates were good reputed and educated people. So it was quite a distress for me and I was still indecisive when I went to bed.

In the bed I had been thinking  the same things. I knew my vote was not a big deal. But I had heard that every vote is important and it counts and it is one's duty to cast it. On the other hand I had no choice but to vote for Khan. I have no personal problems with Khan. But the way he showed dreams to Pakistani youth and people was very unrealistic for me. I have strong reservations towards his narcissism, his affiliations with Jamat i Islami, his weird interpretations of Iqbal's poetry, his Modoodian version of Sharia' (same as that of Zia ul Haq), his hatred towards liberals (his hypocrisy, because he has remained the same in his youth,) and his habit of boasting high. I did not want to give the future of my children in this man's hands.

Thursday, August 15, 2013

کیلے کی پٹائی

مبینہ کیلا حوالات جانے سے پہلے
۔(اسلام آباد، مملکت خداداد) کل ایک کیلے کو مسجد کے باہر بغیر چھلکے پڑا دیکھ کر مومنین نے مار مار کے اسکا شیک بنا ڈالا۔ کیلے نے مبینہ طور پر رمضان مبارک کی توہین کی تھی۔ اسلامی ملک میں رمضان المبارک کے تقدس کے لیئے خاص قوانین موجود ہیں۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جہاں ٪95 سے زائد آبادی مسلمان ہے۔ 80 کی دہائی  میں ان اسلامی قوانین کی تشکیل کے بعد ریاستی سرپرستی میں مومنین کو نصاب، نسیم حجازی کے ناولوں اور کوڑوں کی مدد سے ان قوانین کے بارے میں آگہی فراہم کی گئی تھی جس کی افادیت اس کیلے کے انجام سے واضح ہوتی ہے۔ کیلے کے خلاف تھانہ کوہکن میں احترام رمضان آرڈیننس مروجہ 1981، سیکشن4 اور پاکستان پینل کوڈ، دفعہ 295-الف کے تحت مسجد کے مولانا صاحب کی قیادت میں  ایف آئی آر درج کروا دی گئی ہے۔

Thursday, July 18, 2013

ملالہ کا ڈرامہ – سازشی نظریے

پوری دنیا کے ٹی وی، اخبارات اور نیوز چینلز پر چلنے والے آج کل ایک رجحان کی ہی بات کرتے ہیں جس میں ہماری قوم گھری ہوئی ہے۔ ڈرامے کا مرکزی کردار ٹین ایجر ملالہ یوسفزئی نے انجام دیا، ڈرامے میں نام نہاد طالبان عورتوں کے حقوق اور تعلیم کے لیے آواز اٹھانے پر ملالہ کو گولی مار دیتے ہیں۔ طالبان سے منسوب تمام کہانیاں محض افسانہ ہی تو ہیں حالانکہ طالبان تو اس روئے زمین کے سب سے معزز اور امن پسند لوگ ہیں۔ کالی پگڑیاں باندھنے والے ان خراسانیوں کے بارے میں پیشین گوئی کی گئی ہے کہ یہ اسلام کے رکھوالے ہیں اور بس چند برے لوگوں کی وجہ سے ہی بدنام ہیں جو کہ سی آئی اے، را اور موساد کے اہلکار ہیں۔ 

Saturday, June 15, 2013

Cut the crap - 1

When I get up in the morning, usually it’s this annoying sound of alarm. Three alarms that I have set on my phone. One rings at 7:50 am, second at 8:15 am and third at 8:30 am. I am obsessed with this grammatical structure that I wrote the missing “AMs” with the last two times and capitalized the one in this sentence. So much that I corrected the previous sentence when Word gave an error with green underline and I am still thinking about the word "structure" in that sentence that whether it is rightly put or not. “Composition” came to my mind as an alternate. But I really don’t care for this one at least. Let it be like his even if it is wrong. Anyways, I don’t want to search google if “anyway” is right or “anyways” is right and whether these two should be inside commas. Hell I care, because I don’t want anyone to understand what I am writing either. Why the hell this cursor frantically moves many tabs ahead – errr?

Monday, January 14, 2013

The Great Malala Drama

Originally published at http://rationalistpk.org/2012/12/the-great-malala-drama.html

Let us have a look on another obsession of our nation with a drama, recently telecasted by all the news channels and newspapers live on whole planet earth. This is the drama of Malalai Yousufzai; a 14 years old girl who acted to be shot by Taliban due to her being vocal for women rights and education. But I do not think it is true. Taliban are the nicest people on earth and they are Khurasani people with black turbans who will eventually turn out to be the great prophesied saviours of Islam. Some of them are bad Taliban and are CIA agents.

Friday, August 31, 2012

The Profound Misogyny


Today we have with us a much-esteemed guest, Dr. Naseem Khan Qureshi. Dr. Qureshi is a regional coordinator of an iNGO, Protection of Women Rights and Feminine Empowerment (PWRFE). He has completed his Doctorate in Biology from ABC University of UK. He has been associated with the iNGO since last 15 years and has worked for different projects all over Pakistan. Today we will speak with him about his personal life experiences and his ideas about contemporary affairs.

Akif Khan (AK): Welcome Sir, hope you are doing well.

Dr. Naseem Khan Qureshi (DKQ): You should have started with Assalam o Alaikum. See if educated people like yourself won't commensurate with our religion, then what about the poor illiterate souls of our country?

Thursday, July 5, 2012

Of Reason and Heresy!

This article was published in the June, 2012 issue of The Rationale, Monthly. *

Immanuel Kant once said, “A categorical imperative would be one which represented an action as objectively necessary in itself, without reference to any other purpose.” For a person who believes in reason, this objectivity is mostly based on his analytical mindset, which comprehends the situation, analyse the variables, calculate the impact of the thing he concludes and then states his conclusion. However, a difficult situation arises when others counter this conclusion without much thought just for the sake of defending their dogmas.