Showing posts with label Philosophy. Show all posts
Showing posts with label Philosophy. Show all posts

Thursday, November 21, 2024

دانشوران ملت کے مسائل

تحریر: ڈاکٹر عاکف خان


پاکستان میں سوشل میڈیا کے خودساختہ دانشوران (جنہیں ہم پیار سے فیسبکی دانشگرد بھی کہتے ہیں)  کی سمجھ بوجھ کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اپنے ملک میں جس قسم کے سیاستدانوں، سیلبرٹیز، یوٹیوبرز اور دیگر عناصر کے خلاف ایکٹوزم کر رہے ہوں گے، بالکل اسی سوچ کے دوسرے ممالک کے سیاستدانوں، سیلیبرٹیز اور دیگر عناصر کے فین ہوں گے۔ یا تو اس وجہ سے کہ ان عناصر کا رائٹ ونگ ایکٹوزم ان کے چوہا دماغ کے مطابق ان کے اپنی طرح مذہبی شدت پسندی کے خلاف ایک ریشنل ڈسکورس کا حصہ ہے جیسے مودی اور آر ایس ایس کا مسلمان اقلیتوں کے خلاف رویہ یا فلسطین کا معاملہ یا ٹرمپ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دہشتگردی اور شدت پسندی کے خلاف تحریک میں  ہمارے اتحادی ہیں اور بالکل حق بجانب ہیں کیونکہ ایل ای ٹی یا حم اس کی وجہ ہیں۔ جبکہ بات نہ تو اتنی سادہ ہے اور نہ ہی مودی اور یاہو جیسے لوگ ان کے اتحادی ہیں۔ آپ کے ساتھ نسلی تعصب کرنے سے پہلے کوئی آپ سے نہیں پوچھے گا کاپی پیسٹ کر کے سیکولرزم پر کتنی کتب لکھی ہیں۔ 


اسی طرح خواتین کے حقوق کے معاملے میں اکثر کی سوچ ایک جاہل الباکستانی والی ہے۔ یہ بالکل اسی طرح خواتین کے بارے میں بھی منفی آراء کا اظہار کرتے ہیں۔ جیسے خواتین کو آبجیکٹیفائی کرنا، جارڈن پیٹرسن کی والی مساجنی، خواتین کو کمتر سمجھنا، مینز پلیننگ کرنا، پدرشاہی کا دفاع کرنا، وہی گندی گالم گلوچ گشتی کنجری چالو یہ وہ، آن لائن اور آف لائن ہراساں کرنا، خواتین کو بدنام کرنا، مذاق اڑانا یا آرٹ کے نام پر بیہودہ تصویریں شیئر کرنا، سیکس اکیڈمیاں بنانا اور ورجنٹی بیچنے کے اشتہار دینا۔ 


کچھ ایسا ہی طرزعمل ان کا ایل جی بی ٹی مائنارٹیز کی طرف بھی ہے۔ اس معاملے میں یہ مغربی رائٹ ونگ والا پروپیگینڈہ دوہراتے ہیں۔ اپنی عقل اتنی نہیں ہے کہ کوئی دلیل دی سکیں یا بحث کر سکیں۔ آپ نے اختلاف کیا تو آپ کو گالیاں دیں گے، بونگیاں ماریں گے، منطقی مغالطے کریں گے، جاہل اور لاعلم بولیں گے، اپنی انا پر ضرب سمجھ کر غصہ کریں گے یا بلاک کر دیں گے۔ 


ان میں اسی طرح انسانی حقوق اور معاشرتی طرزعمل کی سمجھ بوجھ بھی نہیں ہے۔ تہذیب اور برتاو، جس پر یہ سارا دن بھاشن دیتے ہیں، اس کا بھی فقدان ہے۔ کریڈٹ کے چکر میں اپنے دوستوں کو ہی خطرے میں ڈال دیں گے۔ مثال کے طور پر وہ فلاں جو بڑا دلیر آدمی ہے بڑا اچھا سوال کر کے مشہور ہوا میرا چیلا اور شاگرد تھا۔ فلاں جو مر گیا وہ میرے کاز پر یقین رکھتا تھا میرے والی سوچ تھی۔ اور یہ سب یہ سوچے سمجھے بغیر کریں گے کہ ان زندہ و مردہ لوگوں اور ان کے اقرباء کے لیے ایسے تنگ نظر معاشرے میں کیا مصیبت کھڑی ہو سکتی ہے۔ یہ نہ صرف ایک خودغرضانہ بلکہ بیوقوفانہ عمل بھی ہے۔ اور پھر اس بات پر ڈھٹائی اور اناپرستی سے ڈٹنا پرلے درجے کی سفاکی، خودغرضی اور کمینہ پن ہے۔ اس کے بعد آپ خود کو لبرلزم اور سیکولرزم کا امام، باوا اور چاچا کہلوانا بند کر دیں تو بہتر۔ 


اسی طرح اگر یہ خود بیوروکریسی، وکالت، صحافت، تدریس، بزنس یا اسٹیبلشمنٹ حتی کہ فلم یا کھیل سے کسی طرح سے وابستہ ہیں تو اپنے شعبے کی ہر اچھی بری بات کا بغیر میرٹ کے دفاع کریں گے۔ بزنس کامیاب ہو گیا تو ایلون مسک ان کا ہیرو چاہے وہ جتنا بھی بیہودہ ہو اور سوشلزم اور مارکس پر پھبتیاں کسنا چاہے کتنی ہی علمی بات کیوں نہ ہو۔ چین، کیوبا، روس سے خدا کا بیر بالکل ایسے جیسے بائیں بازو والوں اور مذہبیوں کو امریکہ اور یورپ سے ہے۔ فرق کیا ہوا؟ کالونیلزم، امپیریلزم اور سفید فام ریسزم کا دفاع کریں گے اور اپنے احساس کمتری کا بھرپور مظاہرہ۔ 


وکیل ہے تو عدلیہ کی بیہودگیوں، ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہے تو بیوروکریسی کی چولوں اور چاچا ماما فوج میں ہے تو اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی مداخلت کا دفاع کرنا ان کا وتیرہ ہے۔ کچھ لوگ اپنے معاشی حالات اور گھریلو ناچاکیوں کی فرسٹریشن سوشل میڈیا پر دانشوری کی آڑ میں جھاڑنے لگے ہوتے ہیں۔ کچھ تو باقاعدہ ڈھٹائی سے بھیک مانگنے لگے ہوتے ہیں۔ دوسرے ممالک جا کر دو دن میں وہاں کے لوگوں اور ملک کے ایکسپرٹس بن جاتے ہیں۔  کچھ کو کوئی کاز نہیں ملتا تو نسل  اور لسانیت پرستی کو پکڑ کر لوگوں کی درگت بنانا شروع کر دیتے ہیں چاہے تاریخ اور لسانیت کی الف بے نہ پتا ہو۔ پھر نتیجتا اس عمل میں سازشی تھیوریوں اور بونگیوں کا ہی سہارا لیتے ہیں۔ کوئی علمی کام یا حقوق کی بامقصد تحریک نہیں چلتی۔ 


اسی طرح کوئی ان کے پسندیدہ شاعر، گائیک، موسیقار، کرکٹر، فٹبالر حتی کہ اس فلم پر بھی اعتراض کر دے جس میں ان کے کسی رشتہ دار نے کیٹرنگ کا ٹھیکا لیا ہو تو بھی بات پرسنل لے لیتے ہیں۔ اس وقت ان کی دانشوری اور ریشنلزم بڑے اطمینان سے گھاس چرنے چلی جاتی ہیں اور تسلی سے ہی واپس باڑے میں تشریف لاتی ہیں اس کے باوجود کہ اس میں پہلے سے ہی کافی چارہ اور بھوسا موجود ہے۔ 


ایک مشہور خودساختہ دانشور صاحبہ بیک وقت اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کی دلدادہ ہیں۔ ایک بزنس مین دانشور ایلون مسک کو والد محترم کا درجہ دیتے ہیں اور کوئی نظریاتی اختلاف کرے تو اس کو سرخا کہتے ہیں۔ ایک فرماتے ہیں کہ میرے والدین کی بالکل اس طرح عزت کرو جیسے میں کرتا ہوں ورنہ آپ میرے بدخواہ ہو۔ ابھی ایک دوست حسنین بھائی نے مزے کی ایڈیشن کی کہ کچھ اپنی ضعیف الاعتقادی اور اندھی عقیدت کو کلچرلزم اور پوسٹ ماڈرنزم وغیرہ کے چکر میں چھپا رہے ہوتے ہیں۔ کچھ روحانیات اور سوڈوسائنس میں گھس جاتے ہیں۔ 


ایک اور ہیں لکھنے کا شوق ہے سب کچھ لکھ مارتے ہیں جو دماغ میں چلتا ہے صحیح ہو یا غلط، حتی کہ دہائیوں پرانی میڈیکل ایڈؤائس بھی اپنی تحاریر میں دے ڈالتے ہیں بغیر سوچے سمجھے کہ اس سے کسی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اعتراض کرو تو دشنام ٹھہرے گا۔ پاکستانی خواتین دانشوروں سے مکالمہ کرنے کی کوشش کرو یا اختلاف کرو تو فیمنزم کے کورٹ میں پیشیاں لگ جائیں گی۔ پورا گروہ بن کر سکرین شاٹس اور الزامات کی بوچھاڑ کرے گا یہ سوچے سمجھے بغیر کہ شیر آیا شیر آیا کے مصداق کل کو کسی اصلی ریپسٹ اور خطرناک آدمی کے خلاف آپ کی بات پر کون یقین کرے گا؟ لوگ اندھے تو نہیں کہ وہ یہ نہ دیکھ سکیں کہ آپ یہاں محض اپنے ذاتی جھگڑے یا انا کی ٹھیس کے بدلے کو کسی کاز کی آڑ میں چھپا رہی ہیں۔ حتی کہ کچھ ٹرانس رائٹس کے ایکٹوسٹ بھی یہ حرکات کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ 


ریئکشنری بننا ہماری سرشت میں کیوں ہے؟ جذباتیت، اناپرستی اور حماقت کا دامن پکڑ کر آپ خود کو جہالت سے الگ کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ اوصاف تو وہی ہیں۔ ٹھیک ہے ہم سب انسان ہیں، غلطیاں ہوتی ہیں، مگر ایک ہی غلطی بار بار اور پھر اس پر ڈٹ جانا، انا پرستی کرنا، دوسروں کو برداشت، رواداری، تنوع اور ان لرن ری لرن (غلط سیکھا ہوا ان سیکھا کرنا اور دوبارہ سے نیا سیکھنا) کے بھاشن جھاڑ کر خود ہی اس پر عمل نہ کرنا، دوغلا پن اور منافقت چہ معنی دارد؟ 


اس عمل میں یہ خود کو انسانی حقوق کے علمبردار، سیکولر اور لبرل کہنے کے باوجود اقلیتوں کے حقوق، انسانی حقوق، خواتین اور دیگر جینڈر یا سیکشوئل مائناریٹیز کو نہ صرف نظر انداز کرنے میں تعامل نہیں برتتے بلکہ ان کا مذاق بھی اڑاتے ہیں اور جاہل لوگوں کی طرح منفی سوچ کا بھی کھل کر اظہار کرتے ہیں۔ یہ ایسا رویہ ہے جو کہ ان کی دانشوری کے کھوکھلے پن، سیاسی، معاشرتی اور عالمی معاملات کی کم سمجھ بوجھ اور کم مطالعہ کی نشاندہی کرتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے طالبعلم شروع میں ہی ان سے دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں یا کسی ایک لیول پر پہنچ کر اور اسی لیے سنجیدہ، مدرس/استاد یا صاحب مطالعہ لوگ ان کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ ان کو علمی بونے سمجھتے ہیں جو پاکستان کے سوشل میڈیا کے علمی ٹک ٹاکیے ہیں جن کو انہی ٹک ٹاکرز کی طرح بس لائکس، فالوونگ اور ریچ کی بھوک ہے، ایکو چیمبرز پسند ہیں اور رواداری، برداشت اور علم سیکھنے سکھانے سے کوئی غرض نہیں۔ 


پس نوشت: یہ تحریر دوسروں پر تنقید سے زیادہ میں نے اپنے لیے ایک ریمائنڈر کے طور پر لکھی ہے کہ ایسا نہیں بننا۔ اس تحریر میں کسی کا نام نہیں لیا گیا اور اس کا مقصد سیکھنا اور سکھانا ہے۔ کوئی خود اپنے آپ کو یہاں آ کر ایکسپوز کرنا چاہتا ہے تو خوش آمدید اور دشنام طرازی کا ارادہ رکھتا ہے تو بھی فدوی تیار ہے۔ 


پس پس نوشت: اس طرح کے دیگر مسائل پر ایک سیریز لکھی تھی کہ پاکستانی فیسبکی دانشور کیسے بنا جائے۔ اس سیریز کا لنک کمنٹس میں ہے۔

Friday, July 5, 2024

سازشی نظریات کیسے پھیلتے ہیں اور ان سے کیسے بچا جائے؟

 

تحریر: ڈاکٹر عاکف خان

‎ کوئی بھی واقعہ ہو ہم لوگ فورا اپنے سازشی دماغ لڑانا شروع کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ حال ہی میں ایک خاتون کا ٹی وی پر مکالمہ ہوا تو دو تین دن میں لوگوں نے اس میں بھی سازش تلاش کر لی کہ یہ سب سکرپٹڈ تھا۔ اسی طرح چاند پر جانا، فلیٹ ارتھ، کووڈ کے حوالے سے سازشی تھیوریاں وغیرہ۔ آئیے اس رویے کا سائنسی، نفسیاتی اور فسلسفیانہ رخ سمجھنے کی کوشش کریں کہ لوگ سازشی نظریات یا کانسپریسی تھیوریز کی طرف زیادہ رجحان کیوں رکھتے ہیں۔ 

‎سازشی تھیوریوں کے متعلق نفسیات دانوں کا خیال ہے کہ یہ سست ذہن کی پیداوار ہوتی ہیں۔ یعنی جو لوگ سوچنا نہیں چاہتے وہ اس طرح کی سہل پسندی والی توجیہات کو ماننا بہتر سمجھتے ہیں جو آسانی سے دستیاب بھی ہوتی ہیں اور جس کے لیے زیادہ علم یا مطالعہ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ 

‎کینٹ یونیورسٹی کی سوشل سائیکالوجی کی پروفیسر ڈگلس کینٹ کے مطابق سازشی نظریات یا کانسپریسی تھیوریز بنانے اور ماننے والے زیادہ تر کم پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ذہین نہیں ہوتے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کی تربیت ایسے نہیں کی گئی کہ وہ غلط اور درست معلومات میں فرق کر سکیں۔ اور کم پڑھا لکھا ہونے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان کے پاس ڈگریاں نہیں ہوں گی۔ پاکستان کے تعلیمی نظام میں مثال کے طورپر جیسے بنیادی سائنسی یا معاشرتی علوم کی تعلیم مفقود ہے وہاں آپ یہ سمجھ لیں کہ سوشل سائنسز یا معاشرتی علوم کے لوگ سائنسی علوم سے نابلد ہوتے ہیں اس لیے وہ سائنسی علوم سے متعلق مواد میں سازشی نظریات کا شکار بن جاتے ہیں جبکہ سائنسی علوم والے معاشرتی علوم جیسے عمرانیات، پولیٹیکل سائنس، تاریخ یا نفسیات سے نابلد ہوتے ہیں تو معاشرتی مسائل و معاملات جیسے جمہوریت، خواتین کے حقوق، مذہبی تقسیم اور رجعت پسندی، انٹرنیشنل ریلیشنز اور معاشیات وغیرہ کے معاملات میں سازشی نظریات پر یقین کر لیتے ہیں اگرچہ دونوں گروپس کے پاس اپنی فیلڈ میں پی ایچ ڈی تک کی ڈگریاں بھی موجود ہو سکتی ہیں۔ آپ نے اپنے اردگرد دیکھا ہو گا کہ سائنس میں پی ایچ ڈیز معاشی و معاشرتی معاملات میں جذباتیت اور جہالت کا مظاہرہ کرتے ہیں جبکہ معاشرتی علوم کے ایکسپرٹس اور ڈگری ہولڈرز میڈیکل سائنس کے بجائے جادو ٹونے پر یقین  رکھتے ہیں اور ویکسینز وغیرہ کو سازش سمجھتے ہیں۔ اگرچہ یہاں تو کایا ہی پلٹ ہے، میں نے کیمسٹری کے پی ایچ ڈیز کو ہومیوپیتھی جیسے فراڈ پر یقین کرتا اور ساشل سائنسز والوں کو بابوں سے دم کرواتا پایا ہے۔ 

‎اب لوگ سازشی تھیوریوں پر یقین کیوں کرتے ہیں اور کیا اب یہ رجحان ذیادہ ہو گیا ہے؟ ڈاکٹر ڈگلس کے مطابق ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ یہ رجحان بڑھا ہو، مگر چند بڑے واقعات کے دوران اس رویے میں اضافہ دیکھا جاتا ہے جیسے مون لینڈنگ یا کوووڈ کے وقت۔  اگرچہ سازشی نظریات پر یقین کرنے والے لوگ ہمیشہ معاشرے میں اسی تناسب سے اکثریت میں موجود رہے ہیں۔ چاہے سقراط کی سزا ہو، ہپاشیا کے جسم کی کھال کھینچنا، ابن رشد کو مسجد کے ستون سے باندھ کر اس کے منہ پر تھوکنے والے، برونو کو جلانے والے، گلیلیو سے معافی منگوانے والے یا ڈاکٹر عبدالسلام کے نوبیل کو جعلی قرار دینے والے۔ 

‎موٹیوز یا محرکات پر آئیں تو اس کے تین ‎نفسیاتی محرکات ہوتے ہیں۔ پہلا ہوتا ہے علمی محرک، یعنی کہ ہر انسان کے اندر موجود تجسس۔ چونکہ لوگوں کو یہ نہیں سکھایا جاتا کہ درست معلومات کہاں سے لینی ہیں یا ان کی درست معلومات تک رسائی مشکل بنائی جاتی ہے تو وہ آسانی سے دستیاب غلط معلومات جیسے سوشل میڈیا  کی وائرل ویڈیوز اور فیک نیوز جو کہ سمجھنے میں بھی آسان ہوتی ہے اور اس کے لیے زیادہ مطالعہ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، اس پر یقین کر لیتے ہیں۔ اور چونکہ اپنے ریشنل مائنڈ یا سوچنے والے ذہن کو بیوقوف بنا کر اور لاعلم رکھ کر خود کو سوچنے کی اذیت سے بچانا بھی ہوتا ہے جو کہ ہمیں دوسرے محرک پر لے کر جاتا ہے۔  

‎دوسرا نفسیاتی محرک وجودیت سے متعلق ہے۔ میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں۔ ہر انسان کو اپنے آپ کو محفوظ رکھنے اور سمجھنے کی طلب ہوتی ہے۔ یہ انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ جسے بچاو یا سروائیول بھی کہتے ہیں۔ اس کے لیے انسان کو اپنے ماحول میں ایک طاقت اور کنٹرول کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب کوئی شاکنگ یا انہونا واقعہ ہوتا ہے تو انسان کو اپنا وجود، طاقت اور معاملات پر گرفت یا کنٹرول خطرے میں لگتا ہے۔ لہٰذا وہ یا تو وہ کنٹرول واپس لینے کی سہی کرتا ہے یا یہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ کنٹرول اور طاقت اس کے ہاتھ سے کیسے اور کس نے چھینی اور کیا وہ اس کے بارے میں کچھ کر سکتا ہے؟  اگر کچھ نہیں کر سکتا تو کم از کم کوئی ایسی توجیح موجود ہے جو یہ بتائے کہ اس کے پاس کنٹرول کیوں نہیں ہے۔ یہاں پر سب سے آسان توجیح سازشی تھیوریوں کی شکل میں موجود ہوتی ہے۔ ریسرچ نے یہ ثابت کیا ہے کہ توہم پرست، یا عرف عام میں وہمی اور وہ لوگ جن کے اختیار محدود ہو سازشی نظریات کی طرف زیادہ جھکاو رکھتے ہیں۔ خیر سے مملکت خداداد میں دونوں خصوصیات کے حامل لوگ بدرجہ اتم موجود ہیں۔ 

تیسرا نفسیاتی محرک معاشرتی ہے۔ ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ اسے معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ ہر انسان اپنے آپ کو اچھا سمجھنا چاہتا ہے جسے عزت نفس بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی اپنے آپ کو بہتر سمجھنا، اپنے بارے میں بہتر گمان رکھنا۔ اس کا ایک طریقہ سب معلومات کا ہونا ہے اور خاص طور پر ان معلومات کا ہونا جو دوسروں کے پاس نہیں ہیں۔ سازشی معلومات بکثرت موجود ہوتی ہیں اور ہر کوئی سمجھ رہا ہوتا ہے کہ صرف اسی کو یہ والی خبر معلوم ہے۔ باقی سب بھیڑیں ہیں کھوتے ہیں ناسمجھ ہیں کم عقل ہیں یا جاہل ہیں۔ خودپرست یا نرگسیت کے شکار گروپ اور معاشرے سازشی نظریات پر زیادہ یقین کرتے ہیں۔ اسی طرح ریسرچ نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ کم عمر لوگوں کئ بہ نسبت بڑی عمر کے لوگ بھی سازشی نظریات پر زیادہ یقین کرتے ہیں۔ واٹس ایپ انکلز کی اصطلاح آپ نے یقینا سنی ہو گی جن کے علم کی سورس واٹس ایپ فارورڈڈ میسجز ہوتے ہیں جن کا کوئی سر پیر، سائنسی ساکھ یا حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا۔ اور یہ لوگ اپنی عمر کو ان معلومات کی ترویج اور منوانے کے لیے اتھارٹی اور طاقت کے طور پر استعمال کرتے ہیں جیسا کہ دوسرے محرک میں بیان کیا گیا۔ اور وپ لوگ جو ایک سازشی نظریے پر یقین کرتے ہوں ان کا دوسرے سازشی نظریات پر یقین کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ یعنی کہ وہ لوگ جو چاند کی لینڈنگ کو فیک سمجھتے ہیں انہی کی اکثریت ویکسینز کو غیرمحفوظ اور زمین کو فلیٹ سمجھتی ہے اور مستقبل میں بھی یہی لوگ باآسانی سازشی نظریات کا شکار ہوتے ہیں۔ یعنی یہ ایک نفسیاتی امر ہے۔ 

آپ نے اکثر لوگوں کو عام طور پر پھیلی ہوئی جھوٹی خبریں انتہائی وثوق سے بتاتے ہوئے سنا ہو گا۔ آپ نے اکثر سیاسی پارٹیوں کے لوگوں کو خاص بیانیے اس طرح بیان کرتے دیکھا ہو گا جیسے یہ ان کے اپنے ذہن کی اختراع یا سوچ کا نتیجہ ہیں۔ مثال کے طور پر اسی واقعہ کے تناظر میں میری ایک دوست سے بات ہو رہی تھی۔ موصوف مائیکروبیالوجی میں پی ایچ ڈی ہیں اور این آئی ایچ میں کئی برس سے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے فورا ایک ہی رٹ پکڑ لی کہ لڑکی بدتمیز تھی، میں ساحل عدیم کی پرواہ نہیں کرتا۔ پھر انہوں نے وہی مثال دی جو ساحل عدیم نے پروگرام میں دی تھی، ابوجہل والی۔ اور ایسے جیسے یہ مثال انہوں نے خود ان کے ذہن کی تخلیق ہو۔ اس کا ہرگز یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ جھوٹ بولنا چاہ رہے ہوں۔ بعض اوقات جب آپ کسی بات پر اندھا یقین کر لیتے ہیں تو وہ بات آپ کو اپنی ہی تخلیق لگنا شروع ہو جاتی ہے۔ آپ نے اکثر یہ بھی دیکھا ہو گا کہ آپ کسی کو کوئی بات بتاتے ہیں تو وہ شخص کچھ عرصے بعد وہی بات دوسروں کو حتی کہ آپ کو انتہائی اعتماد سے ایسے بتا رہا ہوتا ہے جیسے وہ اس کی اپنی سوچ کا نتیجہ ہو۔ ہو سکتا ہے جس بات کو آپ اپنی سوچ کا نتیجہ اور اس کی چوری سمجھ رہے ہوں وہ بات آپ نے بھی کسی سے ایسے ہی سنی ہو مگر آپ کے دماغ نے محض معلومات کو رجسٹر کیا ہو سورس کو نہیں۔ 

یہاں یہ بھی نوٹ کریں کہ سورس کی افادیت، اہمیت اور ساکھ کو نہ سمجھنے سے یہ رویہ جنم لیتا ہے۔ جب آپ سورس کو یاد رکھنا، اس کی ساکھ اور اہمیت کو پرکھنا سیکھیں گے تو آپ کا ذہن/دماغ اس طرح ہر بات/معلومات کو بغیر سوچے سمجھے آگے نہیں پھیلائے گا۔ اس سے آپ کے اند سیلف اوئیرنیس بھی آئے گی کہ میں کر کیا رہا ہوں اور کیوں کر رہا ہوں اور کیا یہ عقلی، سائنسی یا معاشرتی طور پر مناسب اور سودمند ہے یا نہیں؟ 

اب چلتے ہیں اس سوال پر کہ ان سازشیوں کا علاج کیسے کیا جائے؟ نفسیات دانوں کے مطابق اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو پہلے متنبہ یا وارن کیا جائے۔ کہ ڈس انفارمیشن یا مس انفارمیشن کا چانس ہے اور آپ اس پر یقین کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ پرکھ لیں۔ مگر بعض اوقات اس کام میں بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور لوگ اپنا ذہن بنا چکے ہوتے ہیں۔ اس صورتحال میں بہتر طریقہ لوگوں کے سامنے حقائق رکھنے کا ہے۔ چند لوگ جو علمی بددیانتی کے مرتکب ہوں، جن کے لیے اپنے اعتقادات سے ہٹنا مشکل ہو یا جو خودپسندی اور اناپرستی میں مبتلا ہوں، ان کے علاوہ باقی لوگ حقائق کو دیکھ سمجھ کر اصل بات مان لیتے ہیں اور سازشی نظریے کو مسترد کر دیتے ہیں، اگرچہ ایسے لوگ تعداد میں کم ہوتے ہیں۔ 

چنانچہ اگلی مرتبہ جب آپ کے سامنے کوئی سازشی نظریہ حتی کہ کوئی ببی بات کی جائے تو اس کو اچھی طرح سوچ سمجھ کر پرکھیں اور پھر تسلیم یا مسترد کریں۔ اگرچہ یہ مشکل کام ہے اور ہمیں بچپن سے کریٹیکل تھنکنگ نہیں سکھائی جاتی مگر انٹرنیٹ اور جی پی ٹی ماڈلز کے ٹول کو استعمال کر کے حقائق تک پہنچا جا سکتا ہے۔ یہاں پر اکثر لوگوں کے ذہن میں یہ سوال آئے گا کہ ہمیں کیسے علم ہو گا کہ کون سا سورس یا انفارمیشن درست ہے۔ انٹرنیٹ پر فیکٹ چیکنگ کے کئی کورسز موجود ہیں آپ ان سے استفادہ کر سکتے ہیں جیسا کہ رائٹرز کا جرنلزم کا بنیادی فیکٹ چیک کورس۔ اس کے علاوہ سائنسی طرز عمل اور سائنسی طریقہ کار کی سمجھ بوجھ بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ امید ہے کہ اس تحریر سے لوگوں کو سازشی نظریات سے بچنے میں مدد ملے گی۔ 


Sunday, April 28, 2024

سائنس کیسے کام کرتی ہے اور ہمارے سوشل میڈیا دانشور

 

Science Experiment Vectors by Vecteezy

تحریر: ڈاکٹر عاکف خان

مختصراً سائنس ایسے کام کرتی ہے کہ جب آپ کوئی مشاہدہ کرتے ہیں اور اپنے سابقہ علم کی بنیاد پر کوئی مفروضہ بناتے ہیں تو سائنسی طریقہ کار کے مطابق آپ یہ نہیں کرتے کہ اس مفروضے کے حق میں ثبوت اور شواہد اکٹھے کرنا شروع کر دیں۔ یہ طریقہ کار بیسویں صدی سے پہلے استعمال ہوتا تھا اور اسے انڈکشن میتھڈ (Induction Method) کہتے تھے لیکن سائنس کی دنیا میں ایک فلسفی کارل پاپر (Karl Popper) آیا جس نے اس طریقہ کار پر اعتراضات اٹھائے اور سائینٹیفک میتھڈ (Scientific Method) کو نئے سرے سے ڈیفائن کیا۔ 


اب سائنس میں یہ ہوتا ہے کہ جب آپ کوئی مفروضہ بناتے ہیں تو اول اس کو رد کرنے کی سہی کرتے ہیں۔ یعنی ایسے تجربات اور مشاہدات نہیں کرتے جس سے وہ مفروضہ درست ثابت ہو بلکہ ایسے تجربات اور مشاہدات ڈیزائن کرتے ہیں جس سے وہ مفروضہ غلط ثابت ہو سکے۔ اس کو فالسیفیکیشن میتھڈ (Falsification Method or Falsifiability) یا رد کرنے کا طریقہ کہتے ہیں۔ اس طرح کئی تجربات بار بار کیے جاتے ہیں۔ اگر وہ مفروضہ غلط ثابت ہو جائے تو اس کو وہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ مگر اگر وہ بدستور غلط ثابت نہ ہو سکے تو اسے درست سمجھا جاتا ہے۔ لیکن مستقبل میں بھی اس بات کی گنجائش ہوتی ہے کہ کوئی نئے تجربات یا نئی ٹیکنالوجی سے کوئی ایسا تجربہ کرے جو اس مفروضے کو غلط یا مزید بہتر بنا سکے۔ 


دوسرا ضروری کام یہ کرنا ہوتا ہے کہ اپنے سارے طریقہ کار کو للھ کر متعلقہ سائنسی جریدے کو بھیجا جاتا ہے جہاں فیلڈ کا ایک بڑا ایکسپرٹ/سائنسدان بیٹھا ہوتا ہے جو اس کام کو پرکھتا ہے کہ کیا یہ واقعی سائنسی معیار پر پورا اترتا ہے یعنی کیا ان لوگوں نے تمام شواہد فالسیفیکیشن سے اکٹھے کیے ہیں۔ کیا بنیادی تجربات کے ساتھ سپورٹنگ تجربات بھی کیے گئے ہیں جسے کوروبوریٹیو ایویڈنس (Corroborative Evidence) یا تائیدی شواہد/تجربات کہا جاتا ہے جو کہ مفروضے کی نہیں ان تجربات کی تائید کرتے ہیں۔ 


تیسرے نمبر پر وہ ایکسپرٹ یہ سب متعین کرنے کے بعد بھی اس کام کو مزید دو سے چار اور بعض اوقات زیادہ ایکسپرٹس کو بھیجتا ہے جو اس کام کو تفصیل سے پڑھ کر اس میں سے غلطیاں نکالتے ہیں، اسے ریجیکٹ کرتے ہیں یا مزید بہتر بنانے کے لیے مزید کوروبوریٹیو ایویڈنس پر مبنی تجربات پروپوز کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ کام شائع ہوتا ہے۔ اس عمل کو پیئر ریویو (Peer Review) کہتے ہیں۔ ان پیئر ریویور (Reviewer) کو کام کرنے والے سائنسدان نہیں جانتے تا کہ وہ ان پر اثرانداز نہ ہو سکیں۔ اس کو سنگل بلائنڈ ریویو (Single Blind Review) کہا جاتا ہے۔ کچھ جریدے ڈبل بلائنڈ ریویو (Double Blind Review) استعمال کرتے ہیں۔ جس میں ریویور بھی کام کرنے والوں کو نہیں جانتے۔ مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی دوست۔ 


اس کے بعد یہ ہوتا ہے کہ کچھ سائنسی جریدے اس کام میں بہت سختی دکھاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی ساکھ مضبوط ہوتی ہے۔ جبکہ کچھ جریدے اس کام میں نرمی دکھاتے ہیں جس سے ان کی ساکھ تھوڑی کمزور ہوتی ہے۔ اس ساکھ کو اس جریدے کے کوارٹائیل، امپیکٹ فیکٹر، سائتیشن سکور، ایچ انڈیکس (یعنی دوسرے جرائد نے اس جریدے کے کام کے آزاد حوالے یعنی دوسرے سائئنسدانوں کی طرف سے حوالے کتنے دیے ہیں)۔ لیکن ان اعداد و شمار پر بھی بھروسہ نہیں کیا جاتا۔ بعض اوقات ایک کم ساکھ والے جریدے میں اچھا کام اور ایک اچھی ساکھ والے جریدے میں ایوریج کام بھی شائع ہو جاتا ہے۔ سائنسدانوں کی کمیونٹی کے اندر بھی اس بات کا علم ہوتا ہے کہ کونسا جریدہ بہتر ہے اور کونسا نہیں۔ ایکسپرٹس کو یہ بھی علم ہوتا ہے کہ کون سا کام اچھے طریقے سے کیا گیا ہے اور کونسا نہیں۔ 


اس کے بعد ان شائع شدہ مقالوں کو ہزاروں مزید ایکسپرٹس پڑھتے ہیں ریپیٹ اور ریپروڈیوس کرتے ہیں یعنی وہ کام اپنی لیب میں آزادانہ طور پر نئے سرے سے کرتے ہیں۔ یہ کام عموما ماسڑرز اور پی ایچ ڈی سٹوڈنٹس اپنا کام سیکھنے کے لیے کرتے ہیں یا اگر کسی نے کنفرم کرنا ہو وہ کرتا ہے۔ پھر اسی کام سے متعلقہ کئی دوسرے کام یا اس کے اگلے مراحل کا کام کیا جاتا ہے۔  اس کے بعد اگر وہ سائنس ایپلائیڈ ہو تو اس کے مطابق نئی ٹیکنالوجی بنتی ہے جو کہ واقعی میں کام کرتی ہے اور اس میں وقت اور ضرورت کے مطابق ٹیکنالوجسٹ اور انجینیئر مزید بہتری لاتے ہیں۔ تھیوری آف گریویٹی اور ارتقاء کے نظریات اس طریقہ کار سے ہو کر گزرے ہوئے ہیں اور ابھی تک ان کو رد کرنے والے تمام تجربات غلط ثابت ہوئے ہیں، اس لیے ان کو درست تسلیم کیا جاتا ہے۔ اگر آج بھی کوئی دسویں مالے سے چھلانگ لگا کر اوپر کو اڑے یا یا کوئی ایسا فاسل دریافت کر دے جو ارتقاء کے نظریے کے برخلاف ہو یعنی آپ اگر انسان کا فاسل چھ کروڑ سال پہلے کا دریافت کر لیں تو باآسانی ان نظریات کو رد کر سکتے ہیں اور سائنسدان بخوشی آپ کی بات کو مانیں گے بلکہ آپ کو یقینا نوبیل پرائز سے بھی نوازا جائے گا۔ 


کارل پاپر کے اس طریقے کو وضع کرنے کے بعد محض سو سالوں میں سائنسی ترقی کا حال آپ نے دیکھ لیا ہے۔ جنرل ریلیٹیوٹی کی بنیاد پر پوری دنیا کا کمیونیکشن نظام کام کرتا ہے۔ ساری میڈیکل سائنس ارتقاء کے نظریے کی وجہ سے کام کرتی ہے۔ 


سائینٹیفیک میتھڈ کی ایک اولین مثال ایڈنگٹن (Eddington) کا وہ تجربہ تھا (اس پر ایک فلم بھی بن چکی ہے Einstein and Eddingtonکے نام سے) جس نے آئن سٹائن کی تھیوری آف جنرل ریلیٹیویٹی کو درست ثابت کیا۔ حقیقت میں وہ تجربہ آئن سٹائن کی تھیوری کو رد کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ یعنی کہ اگر ایڈنگٹن کو سورج گرہن کے وقت ستارے اپنی جگہ سے ہلے ہوئے نظر نہ آتے تو آئن سٹائن کی تھیوری کہ گریویٹی سپیس کو موڑتی ہے اور روشنی بھی اس کے ساتھ مڑتی ہے غلط ثابت ہو جاتا۔ 


مختلف سائنسز میں یہ طریقہ کار مختلف طریقوں اور ناموں سے استعمال ہوتا ہے۔ میتھیمیٹکس میں کانٹراڈکشن سے، سوشل سائنسز اور تھیوریٹیکل سائنسز میں شماریات یعنی سٹیٹیسٹکس سے کانفیڈنس لمٹ معلوم کی جاتی ہے۔ شماریات نیچرل اور فزیکل سائنسز میں بھی کوروبوریٹیو ایویڈنس کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ چونکہ میں ایک فزیکل سائنسز کا طالبعلم ہوں تو اسی حوالے سے مثالیں دیں۔


اب ایسے علوم جن کو غلط ثابت کرنے کے تجربات نہیں کیے جا سکتے جیسے مثال کے طور پر آسٹرالوجی، پامسٹری، نیومرالوجی، ہومیوپیتھی وغیرہ۔ آپ کو ان کے ماننے والے ہمیشہ تائیدی ثبوت دیتے نظر آئیں گے۔ فلاں کے برج میں یہ تھا تو یہ ہوا۔ فلاں نے ہومیوپیتھی کی دوائی لی تو پتھری نکل گئی۔ مگر نہ تو وہ خود اپنے مفروضوں کے لیے رد کرنے والے تجربات کریں گے، نہ کسی کو کرنے دیں گے نہ کسی سے پیئر ریویو کروائیں گے کہ کیا سب برجوں کے ساتھ یہ ہوا کیا پتھری محض پانی کے استعمال سے تو نہیں نکل آئی، بہت سے لوگوں کو ہومیوپیتھی کی دوائی دیے بغیر چیک کر کے شماریاتی تجزیہ کیا جائے وغیرہ۔ اس لیے ان چیزوں کو سوڈو سائنس کہا جاتا ہے۔ 


اصل میں یہ پوسٹ لکھنے کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر کچھ دانشور خواتین و خضرات اپنے نظریات کے تائیدی شواہد ہی اکٹھے کرتے نظر آتے ہیں۔ کلاوٹ، فالوورز اور وہ لوگ جو کمنٹس میں واہ واہ، مور پاور ٹو یو، کیا بات ہے، بہت اعلی، لکھتے/لکھتی رہا کریں، وغیرہ جیسی گردانیں کرتے ہیں۔ مگر جونہی کوئی ان کے مفروضوں کے برخلاف شوائد یا دلیل دے تو اس کو لیبل لگا کر بلاک کر دیا جاتا ہے۔ اناپرستی اور خودپرستی کا رقص شروع ہو جاتا ہے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ تضحیک اور ذاتی حملے اس میں شمار نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں کو نہ صرف بلاک کرنا چاہیے بلکہ پچھلی پوسٹ کی وضاحت کی روشنی میں گھر پہنچا کر بھی آنا چاہیے۔ 


(ڈاکٹر عاکف خان)


#docakkh #ڈاکٹر_عاکف_خان #akifonymous

کیا آبادی ایک مسئلہ ہے؟

دنیا میں آبادی کی کثافت فی سکویئر کلومیٹر کے حساب سے۔
Wikimedia Creative Commons License CC0 1.0

تحریر و تحقیق: ڈاکٹر عاکف خان

نوٹ: حوالہ جات مضمون کے آخر میں لف ہیں۔

‎آپ نے اکثر پاکستانی دانشوروں کو آبادی کے مسئلے پر بات کرتے سنا ہو گا کہ آبادی کا طوفان آ رہا ہے اور سب مسائل کی جڑ کسی طرح آبادی ہے۔ زیادہ بچے پیدا کرنے سے بہت مسائل ہو جائیں گے۔ آبادی کا بم پھٹنے والا ہے وغیرہ۔ ایک نیو مالتھوزین متھ (neo-Malthusian) ہے۔ یہ نظریہ کہ آبادی تمام مسائل کی جڑ ہے پہلی بار تھامس رابرٹ مالتھوز جو کہ ایک اکانومسٹ اور پادری تھا نے اٹھارویں صدی کے اختتام پر ۱۷۹۸ عیسوی میں اپنی تحریر آبادی کے اصول پر ایک مضمون (An Essay on the Principle of Population) میں پیش کیا تھا جسے اس کے دور میں ہی اس کے ہم عصروں نے ہی رد کر ڈالا تھا یعنی اس کے مضمون کی لاجک غلط ثابت کر دی تھی۔ اس کے باوجود اکثر لوگ کالونیلزم اور ستر اسی کی دہائی کے کچھ لکھاریوں کی تحریروں کو لوح قلم سمجھ کر آنکھیں بند کر کے یقین رکھتے ہیں اور مزید کچھ جاننے اور سوچنے سمجھنے کی زحمت نہیں کرتے خاص طور پر ہمارے اردو میڈیم دانشوران۔ آئیے دیکھتے ہیں آبادی کیسے ایک مسئلہ نہیں ہے۔ 


‎سب سے پہلے تو زیادہ بچے پیدا کرنا کوئی لگژری نہیں ہے۔ بلکہ زیادہ بچے پیدا نہ کرنا ایک لگژری ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ایک خاتون نہ صرف بچے پیدا کرنے کے پریشر میں ہوتی ہے بلکہ اولاد نرینہ کی پیدائش کی بھی ذمہ دار سمجھی جاتی ہے وہاں اس طرح کی توقعات اور پوش ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر کنڈومز تقسیم کرنے کی باتیں کرنا بہت آسان ہے۔ اسی طرح اس معاشرے میں جہاں بزرگوں کے لیے کوئی اولڈ ایج انشورنس یا صحت اور علاج کی یقین دہانی کا نظام نہیں ہے، وہاں بچوں کو اولڈ ایج انشورنس کے طور پر بھی پیدا کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس کا خمیازہ بچے کیسے بھگتتے ہیں وہ ایک الگ دکھی داستان ہے جس پر پہلے ایک دفعہ بات کی تھی۔ لہذا پہلی بات ذہن نشین کر لیں کہ کم آبادی معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود اور ترقی کی ضامن نہیں ہے بلکہ معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود کم آبادی کی ضامن ہے۔ یہ معاملہ الٹا ہے۔ اسی طرح ایک بڑا مسئلہ خواتین کی صحت اور بہبود کا ہے۔ وہ بھی اسی فلاح و بہبود سے جُڑا ہے۔ جب معاشرے میں تعلیم، صحت، حقوق اور آزادی دستیاب ہو گی تو خواتین معاشرتی دباو اور والدین بڑھاپے سے پریشان ہو کر زیادہ بچے پیدا نہیں کریں گے۔ 


‎لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا زیادہ آبادی ایک مسئلہ ہے؟ اس کا فیصلہ مندرجہ ذیل حقائق سن کر خود کیجیے۔ آبادی بڑھنے کی ایک شرح ہوتی ہے اور اس کی ایک حد ہوتی ہے۔ اس کو فرٹیلیٹی ریٹ یا شرح نمو کہتے ہیں۔ جب یہ شرح نمو دو سے کم ہو جائے تو وہ آبادی بعھنا رک جاتی ہے اور کچھ عرصے بعد اس آبادی کا بقا خطرے میں پڑ جاتا ہے بلکہ ناپید ہو جاتا ہے۔ کیا آپ کو علم ہے پاکستان کی آبادی کی شرح سن دو ہزار میں پانچ اعشاریہ تین تھی، جو کہ دو ہزار تئیس میں کم ہو کر تین اعشاریہ چار سات پر پہنچ گئی ہے۔ اگر یہ اسی رفتار سے کم ہوتی رہی تو آبادی اچھی خاصی ہونے کے باوجود سن دو ہزار ستر میں یہ شرح نمو دو سے کم ہو جائے گی۔ اس سے چند دہائیوں میں آبادی کا بقا خطرے میں پڑ جائے گا اور جنریشن گیپ بھی بن جائے گا۔ جس طرح جاپان اور کئی ترقی یافتہ ممالک حتی کہ چین میں بھی جنریشن گیپ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جلد ہی ان ممالک میں ایک پوری نسل ناپید ہو گی اور بزرگوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا اور کئی جگہ یہ کام ہو چکا ہے۔ چین نے کئی دہائیوں تک ایک بچے کی پالیسی اپنائی رکھی۔ اس کا نقصان چین نے کچھ برس پہلے ہی محسوس کرنا شروع کر دیا۔ لہذا انہوں نے دو بچوں، پھر تین کی اجازت دی اور اب زیادہ بچے پیدا کرنے پر انعام رکھ دیا ہے۔ مگر چونکہ اب چین میں معاشی اور معاشرتی خوشحالی آ چکی ہے، بزرگوں کے لیے اولڈ ایج انشورنس دستیاب ہے، خواتین کی صحت کے مسائل حل ہو چکے ہیں، تو حکومتی اقدامات کے باوجود لوگ ایک یا دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ 


‎کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ بڑھتی مہنگائی بچوں کی تعلیم، صحت اور مستقبل کے مواقع کے لیے ایک خطرہ ہے مگر کیا آپ نے کبھی سوچا ہے بڑھتی مہنگائی اور غربت کے باوجود بھی زیادہ بچے پیدا کرنے کی شرح غریب طبقات میں زیادہ کیوں ہے۔ اس کی وجوہات بھی مندرجہ بالا ہیں۔  


کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ بڑھتی مہنگائی بچوں کی تعلیم، صحت اور مستقبل کے مواقع کے لیے ایک خطرہ ہے مگر کیا آپ نے کبھی سوچا ہے بڑھتی مہنگائی اور غربت کے باوجود بھی زیادہ بچے پیدا کرنے کی شرح غریب طبقات میں زیادہ کیوں ہے۔ اس کی وجوہات بھی مندرجہ بالا ہیں۔ 


جہاں تک رہا وسائل کا تعلق تو مسئلہ وسائل کا نہیں ان کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے۔ آپ کو پچھلے برس ورلڈ فوڈ پروگرام اور ایلن مسک کا وہ قضیہ یاد ہو گا جس میں ورلڈ بنک نے ایلون مسک کو بتایا کہ دنیا کی بھوک کا مسئلہ محض چھ ارب ڈالرز میں حل کیا جا سکتا ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ ٹاپ ٹین بلیئنرز کے پاس کُل پندرہ سو ارب ڈالرز سے زائد پیسہ ہے۔ جبکہ دنیا میں اس وقت تقریبا تین ہزار بلیئنرز (جن کے پاس کم از کم ایک بلین ڈالر سے زائد پیسہ ہے) موجود ہیں جن کے پاس کل پیسہ چودہ ہزار دو سو ارب ڈالر سے زائد پیسہ موجود ہے۔ دنیا میں ہر سال تقریبا دو سو پچاس کروڑ ٹن کھانا ضائع ہوتا ہے جس کی کل قیمت دو ہزار ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ صرف امریکہ میں سالانہ چھ کروڑ ٹن کھانا ضائع ہوتا ہے جو ایک سو پینتالیس ارب لوگوں کو کھلایا جا سکتا ہے اور جس کی قیمت چار سو ستر ارب ڈالر ہے۔ دنیا میں اس وقت سالانہ تقریبا اسی کروڑ افراد بھوک کا سامنا کر رہے ہیں جنہیں کھانے کے لیے سالانہ بیس کروڑ ٹن کھانا چاہیے۔ یعنی کہ دنیا میں ضائع ہونے والے ایک سال کے کھانے سے دنیا کے بھوکے افراد کو بارہ سال تک کھانا کھلایا جا سکتا ہے، اور یاد رہے یہ ایک بہت اچھے ایوریج کھانے کی بات ہو رہی ہے۔ دنیا میں سالانہ ضائع ہونے والے کھانے کی مد میں دنیا کی پوری آبادی کو دو وقت کا عام تین اعشاریہ پانچ ڈالر کا کھانا پینتیس سال تک کھلایا جا سکتا ہے۔ اب خود اندازہ لگا لیں کہ وسائل کی کمی ہے یا وسائل کی تقسیم اور ضیاع کا مسئلہ ہے۔ 


اب آتے ہیں دھرتی ماتا پر پڑنے والے بوجھ اور ماحولیاتی اثر پر۔ دنیا کے آٹھ ارب انسانوں کو اگر آپ ایک ڈھیر میں اوپر نیچے رکھیں تو وہ گرینڈ کینیئن کے ایک چھوٹے سے حصہ میں پورے آ جائیں گے۔ زرعی ترقی نے خوراک کا حصول بہت آسان بنا دیا ہے۔ جی ایم اوز، کھادوں، جڑی بوٹیاں تلف کرنے والی ادویات اور زرعی مشینری نے کم رقبے سے زیادہ خوراک کا حصول ممکن بنا دیا ہے یعنی آپ ماحول کو کم سے کم متاثر کر کے زیاہد خوراک حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر یہ سب ترقی نہ ہوتی تو آپ کو زرعی زمین کے حصول کے لیے زیادہ جنگلات کاٹنے پڑتے اور زیادہ ایکوسسٹمز کی قربانی دینی پڑتی۔ اب تو صحرائی علاقوں کو بھی قابل کاشت بنانے کی ٹیکنالوجی موجود ہے۔ 


جہاں تک رہا کاربن فٹ پرنٹ یا گلوبل وارمنگ کا مسئلہ، تو یہاں بھی ایک دلچسپ فیکٹ سنیں۔  کاربن فٹ پرنٹ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایک شخص نے اپنے بجلی، پانی، خوراک، کچرے وغیرہ سے کتنی کاربن ڈائی اکسائیڈ ماحول میں پیدا کی یا واپس چھوڑی جس سے گلوبل وارمنگ پیدا ہوتی ہے۔ ایک امریکی شہری کا سالانہ کاربن فٹ پرنٹ بیس ٹن کے قریب ہے جبکہ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک بھارت میں ایک شخص کا سالانہ کاربن فٹ پرنٹ محض ایک ہے۔ سعودی عرب میں پندرہ، متحدہ عرب امارات میں پینتیس، بحرین میں اڑتیس، کویت میں ، ہالینڈ پچاس، کویت اکتیس اور چین پانچ ہے۔ جبکہ پاکستان میں صفر اعشاریہ سات آٹھ ہے۔ ایک ترقی یافتہ ملک کے گاوں کے پورے خاندان کا سالانہ کاربن فٹ پرنٹ بھی دو تین کے قریب ہوتا ہے۔ چین میں یہ محض دو ٹن ہے۔ عموما یہ فٹ پرنٹ شہری علاقوں کے ایک گھرانے سے تین گنا کم ہوتا ہے۔ پاکستان اور دنیا کی زیادہ تر آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے تو اندازہ لگا لیں کہ کیا آبادی ماحول کو متاثر کر رہی ہے یا کچھ اور؟


اس میں ایک اور مسئلہ انسانی آزادی اور چوائس کا ہے۔ انہی دانشوروں سے سوال ہے جو انسانی آزادی اور چوائس کے قائل ہیں، یوجینیکس کے مخالف ہیں، کیا وہ انسانوں پر قوانین اور حکومتوں کے ذریعے آبادی پر قابو مسلط کرنا چاہتے ہیں؟ یا غریب کو آزادی کا حق حاصل نہیں کیا اس دانشوری میں ان کی ایلیٹزم تو نہیں عود کر آئی؟ یہ سوال یہ خواتین و حضرات خود سے پوچھیں تو بہتر ہے۔ 


ان تمام حقائق کی روشنی میں اب آپ اس نظریے کی جانچ کر سکتے ہیں کہ واقعی آبادی ایک مسئلہ ہے اور کیا وہ لوگ جو بار بار یہ باتیں دہراتے ہیں، غریبوں کو عید پر کنڈومز گفٹ کرتے ہیں، غریب بچوں کی تصویریں لگا کر اپنا سوشل میڈیا کلاوٹ بڑھاتے ہیں، اپنے ایلیٹزم کے باعث غرباء سے نفرت کو زیادہ بچے پیدا کرنے اور آبادی کے طعنوں کے پیچھے چھپاتے ہیں، غریب کی غربت کا مذاق اڑا کر دانشور بنتے ہیں، درست ہیں۔ فیصلہ آپ کا۔


نوٹ: مزید مطالعہ کے لیے میٹ ریڈلی کی کتاب دی ریشنل آپٹمسٹ اور پروفیسر ہانز روزلنگ کی کتاب فیک فل نس پڑھی جا سکتی  یاد رہے کہ اس مضمون میں محض اعداد و شمار پر بات کی گئی ہے اور اس کا تعلق کسی دائیں بازو جیسے پاپولیشن ریسرچ انسٹیٹیوٹ یا بائیں بازو کے نظریات کی تائید نہیں ہے۔ فدوی خواتین کے اپنے جسم کے حوالے سے تمام فیصلوں کا حق اور آزادی بشمول ابارشن اور برتھ کنٹرول کو تسلیم کرتا ہے۔  

حوالہ جات


https://www.theguardian.com/environment/datablog/2009/sep/02/carbon-emissions-per-person-capita 


https://pubs.acs.org/doi/10.1021/acs.est.1c01374


https://www.wfp.org/global-hunger-crisis


https://www.forbesindia.com/article/explainers/top-10-richest-people-world/85541/1


https://www.iea.org/commentaries/the-world-s-top-1-of-emitters-produce-over-1000-times-more-co2-than-the-bottom-1


https://scied.ucar.edu/learning-zone/climate-solutions/carbon-footprint#:~:text=Worldwide%2C%20the%20average%20person%20produces,of%20carbon%20dioxide%20each%20year.


“The results show that in 2018 in rural China, the average household carbon footprint is 2.46 tons CO2-eq per capita, which is around one-third of China’s average footprint, indicating the large potential for further growth.”

https://pubs.acs.org/doi/10.1021/acs.est.1c01374


https://www.un.org/development/desa/pd/sites/www.un.org.development.desa.pd/files/files/documents/2020/Feb/un_2015_worldfertilityreport_highlights.pdf


“The current population fertility rate of Pakistan is 3.2828 births per woman. A -1.92% decrease from 2023, when the fertility rate was 3.347 births per woman. In the future, Pakistan's fertility rate is projected to decrease to 1.8588 childern born per woman, by the year 2100. A total decrease of the fertility rate of Pakistan's by -43.38% from today's standard.”

https://database.earth/population/pakistan/fertility-rate#google_vignette


Amount of food consumption: https://www.statista.com/forecasts/1298375/volume-food-consumption-worldwide


Amount of food wasted: https://www.wfp.org/stories/5-facts-about-food-waste-and-hunger


‏#docakkh #ڈاکٹر_عاکف_خان #akifonymous

Thursday, July 13, 2023

The Psychology of Online Vocalization: Exploring Reasons and Patterns

By Dr. Akif Khan

There are three types of people. One, who are vocal in real life (RL). Second ones who are vocal on both social media (SM) and RL. Third type is that is only vocal on SM. 

There are multiple reasons behind it. Many people are not confident in writing stuff (posts, comments or anything else) for multiple reasons again. 

Some people don’t like to express themselves publicly. Some are shy. Some purposely hide their feelings and thoughts. Then there are some who are afraid of alphas, over-smart people and bullies. Then there are over-sharers of course, who have opinions on everything and they don’t care if those opinions are right or wrong. 

A personality with a balanced and wise outlook is hard to come, sometimes it’s privilege, sometimes it’s good upbringing, sometimes it’s luck when people have better lifestyle and no mental stress, depression or traumatic experiences. This can make people expressive sometimes and sometimes shut them down. 

For some people writing is catharsis and interacting online is a form of connecting. Some don’t need that at all and just enjoy reading and listening to other people. Some believe they are learning only for themselves and they don’t owe anyone else any sharing of ideas or helping them. Some just keep tabs on other people and think they’re wiser this way by remaining silent or anonymous. 

Some are scared for various reasons that their thoughts could be used against them and sharing or expressing on SM/online world is not a wise thing to do. They don’t trust the internet/system. Some people believe in conspiracy theories and are obsessive about keeping a low profile online and even in RL. Some prefer to remain anonymous while opining on SM.

Some people love fame and showing off. Some just think it’s their responsibility to share what they know and some have a nature to help people according to their capacity and knowledge. 

Some hate the closed circles/groups and the few people who dominate those spaces due to right or wrong reasons. They feel like left out but since they get enough (knowledge/content/recommendations) from those groups, they tend to stay, in silence. 

Then there are shitposters, attention seekers and those who get hooked up to SM and want to stay relevant by opining on everything even when their opinion is not so good or is just a variant of someone else’s opinion (sometimes it’s exact copy). There are also people who would steal content and reshare it without giving proper credit or shamelessly ascribing the content to their own selves. Some try to stay relevant and act smart by making controversy out of everything. They will read opinions of other people and purposely concoct something that is spicy and different no matter how contradictory it is to their own previous opinions. Some people are adamant on converting other people to their own ideologies. Some woulf just comment on everything according to their own worldview and would not listen to any different opinion. These types often include intellectually dishonest people and those who only seek attention, want to stay relevant or think that the world only revolves around them. Then there are flatterers and fans, of course, who love everything that is written by their beloved influencers. The addiction to likes and following is another topic on which much has been written and can’t be covered here. But we must also not forget the importance of SM, especially its role in decentralising information and brining it to ordinary people’s approach. There is an interesting book titled Twitter and Tear Gas by Zeynep Tufekci on the pros and cons of SM especially in the context of dissent. 

In short, SM is an alternate of real world and the dynamics of human interaction, communication and psychology work here as well as they work in the real life albeit differently sometimes. 

There has been much research being carried out on the communication and interaction on SM. I was just reading a paper (thanks to a friend who shared it) the other day where the researchers studied the way Pakistani women express themselves on TikTok without exposing their identity and the dynamics both social and religious that govern their interaction and communication style. Here is the link to that paper. 

The realm of social media has become a parallel universe where human interactions, communication, and psychological dynamics take on new forms. The reasons behind vocalisation patterns are multifaceted, ranging from shyness and fear to the desire for privacy, attaining fame or the need for catharsis. It is essential to acknowledge that the online world offers a platform for diverse voices to be heard, while also recognizing the complexities that arise, such as the fear of judgment, information privacy concerns, and the dominance of certain groups. As ongoing research delves into the intricacies of social media communication and interaction, the process of unraveling the fascinating ways in which individuals navigate these digital spaces, shaping their online personas and influencing the broader social landscape will be ever evolving and interesting to study.

Tuesday, April 11, 2023

Food, Hunger, and Health: Navigating the Complexities of our Relationship with Food



Hunger, anger, and hanger - three words that may seem unrelated but have a strong connection when it comes to food. The way we eat, or don't eat, can affect our mood, health, and overall well-being. There are harmful effects associated with hunger as well as overeating, such as headaches, fatigue, weakness, diabetes, heart disease, and eating disorders. However, we often tend to overlook them. Let’s explore the complex relationship between food, emotions and health. Let’s hope that by examining these issues, we could encourage a more mindful and sustainable approach to eating that promotes better health and well-being for all.

Copyright Warning: This content is copyright protected and is written by and property of Dr. Akif Khan. Any unauthorized publishing or copying will be dealt with legal action according to the relevant copyright laws of the jurisdiction. 

While global food shortage is leading to global hunger among the downtrodden and we have programs like WFP addressing the issue, there are people in the world who like to remain hungry on purpose for health reasons or/and religious reasons. However, there are certain scientific and health issues related to hunger that are not discussed as often as they should be. Many people believe staying hungry is good for health, while others do it for cultural reasons. Although, Hunger can lead to many harmful effects including fatigue, weakness and malnourishment but one thing that people forget to mention is the troubled emotional state or hanger.

Apparently, hanger (hunger + anger) is a real thing. When we’re hungry, our bodies release hormones (cortisol + adrenaline) to compensate for body glucose. These hormones can affect your decision making, influence behaviour and change emotional states. Hunger also affects hypothalamus, the part of the brain which controls various body functions, such as emotional responses, sexual behaviour and body temperature among controlling other hormones. AgRP neurons in this region get activated and signal a “negative valence.” Negative valence is an uncomfortable emotion associated with fear, anxiety and anger. Research has proved that there is a direct relationship between gut and brain. Also, the gut has its own enteric nervous system called “the second brain” that according to a WP article “senses food and nutrients even when they don’t go through the mouth,” which means it’s not just about taste and feeling of food.

Although, these effects can be different for different people and some people might be more vulnerable towards hanger, you never know when the effect kicks in for someone. You might’ve seen some people getting extra frustrated, while others remain calm, when they’re hungry.

When a child is angry or crying, one of the three main reasons for that is hunger (illness or wetness being the other two). The mothers rush to feed them in order to calm the child down. From a scientific and evolutionary point of view, this whole process is a kind of defence mechanism, which motivates human beings to find food and cope with the desire of survival. Animals become more active and aggressive when they feel hungry. However, this still happens in the background, which means that the process is unconscious or automatic. Despite being conscious human beings, we often fail to sense our emotional state and even if we do, we can’t control it. The only solution seems to put something in the stomach. Interestingly, even some adults find it troublesome to understand hanger. The major reason for that is the brain-gut connection as explained above.

Some people would argue that research has also proven that “intermittent fasting” or IF is good for health. IF has specific instructions. It is not complete fasting. A necessary prerequisite of IF is hydration. You have to keep yourself hydrated. Water fools the gut-brain connection to an extent and controls the hanger.

Secondly, there are many types of IF, which include 16/8 (8 hours eating, 16 hours fasting), 5:2 (5 days eating), 20/4, OMAD (one meal a day), alternate day fasting, once a while 24 or 36 hours fasting. But remember, you have to remain hydrated in all of these methods. Thirdly, IF is not for everyone. One method can suit one kind of people and another for another group. For some people, it might not work at all. For example, some diabetic patients need to eat something every few hours, or else they can end up in coma or even die because hypoglycaemia. While, others can have other kind of negative effects. This should be done carefully.

During my PhD, we had an American colleague who was overweight and learnt about IF/Keto diet and started practicing it in order to lose weight. He did not lose weight at all and after a few months, one day he crashed. Doctors told him that due to excessive fasting, his body started burning his muscle protein and he couldn’t support his body. He spent a month in hospital and then he was on clutches. Had to leave his PhD in the mid to go back home.

Overeating is another issue. When you remain hungry for longer period of time or you know you’ve to remain hungry for a long time, you will tend to eat more. This affects your digestive system very badly and can cause gastric as well as intestinal and upper tract issues including GERD (reflux or acidity), indigestion, distention, diarrhoea or constipation.

When I used to work in pharmaceutical industry, the production of gastric medicines like antacids (milk of magnesia etc), proton-pump inhibitors (omerprazole etc), H2 blockers (famotidine, ranitidine) or their combinations would triple and quadruple before certain occasions. Overeating can also affect vital organs, such as heart, liver and kidneys. We also tend to eat more oily and sugary foods, which can cause fatty liver, cardiovascular diseases (high cholesterol, etc.) and insulin intolerance.

Food wastage is another problem that world is facing right now when around 1 billion people in the world go to bed hungry. We tend to waste a lot of food despite that. The trend goes upward during festivals. According to one estimate, 40% of food that is 54 billion kilograms (119 billion pounds) of food is wasted in US alone every year and it amount to $408 billion worth food.

A balanced diet with careful consideration to food types and timings is essential to a good health and longevity. We are already facing problems with the cardiovascular health, diabetes, kidney and liver diseases as well as availability and quality of food, water pollution, and food scarcity and if that is topped with carelessness, things are not gonna end up well. Eat healthy, live healthy and remember to stay hydrated, not just for yourself but also for other people.

Dr. Akif Khan is a physical scientist and a blogger. He can be followed at @akifzeb on Twitter. 

Sunday, September 22, 2013

Deeyat Laws: Social Impact of the level of strictness in laws; A Discussion


When Shahzeb Khan's family granted pardon to their son's murderer, whole nation came to utter shock. This was one of the most fought causes by civil society and people from all professions and backgrounds on the basis of barbaric show of feudal power. In the aftermath of the murder, which was committed by son of a very influential person of Sindh, people went in streets, protested and started mass movement with support of media to put the culprit behind the bars. 

Shahzeb was killed in cold blood because of saving honor of his family when the servant of this politician's son was bullying his sister despite of several warnings and he asked him to stop. The murderer, Shahrukh Jatoi out of vanity went after Shahzeb, they fell into arguments and Shahrukh and his friend opened fire on him. Shahzeb, young and educated person, belonged to a upper middle class family. However, after Sharukh tried to escape from Pakistan, was caught in UAE and was brought back. He was prosecuted in criminal court as well as Anti Terrorism Court. It was kind of Jessica Murder Case of Pakistan. 

Sunday, August 4, 2013

Being an idealist; Curse or a Gift?

This article has been published in Monthly Laaltain magazine and can also be read here.


The people who are driven by passion always (or may be most frequently) end up in alienation by society and in loneliness. I always wondered why is that so? How come brilliant minds like scholars, sufis, scientists, writers, artists and great musicians end up in such an agony. Still I found most of them contended. It seemed like societal norms did not apply on them. So the agony part was always doubtful. I was told that they become narcissists and hence they lose the balance that social adjustment requires. I tried to study the private lives of these people. From Aristotle to Russel, Voltaire to Neitzsche, Einstein to Edison and Planck, Faiz Ahmed Faiz to Dr. Abdus Salam and Eqbal Ahmed, Muneer Niazi to Michael Jackson.