Showing posts with label Linguistics. Show all posts
Showing posts with label Linguistics. Show all posts

Thursday, November 21, 2024

دانشوران ملت کے مسائل

تحریر: ڈاکٹر عاکف خان


پاکستان میں سوشل میڈیا کے خودساختہ دانشوران (جنہیں ہم پیار سے فیسبکی دانشگرد بھی کہتے ہیں)  کی سمجھ بوجھ کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اپنے ملک میں جس قسم کے سیاستدانوں، سیلبرٹیز، یوٹیوبرز اور دیگر عناصر کے خلاف ایکٹوزم کر رہے ہوں گے، بالکل اسی سوچ کے دوسرے ممالک کے سیاستدانوں، سیلیبرٹیز اور دیگر عناصر کے فین ہوں گے۔ یا تو اس وجہ سے کہ ان عناصر کا رائٹ ونگ ایکٹوزم ان کے چوہا دماغ کے مطابق ان کے اپنی طرح مذہبی شدت پسندی کے خلاف ایک ریشنل ڈسکورس کا حصہ ہے جیسے مودی اور آر ایس ایس کا مسلمان اقلیتوں کے خلاف رویہ یا فلسطین کا معاملہ یا ٹرمپ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دہشتگردی اور شدت پسندی کے خلاف تحریک میں  ہمارے اتحادی ہیں اور بالکل حق بجانب ہیں کیونکہ ایل ای ٹی یا حم اس کی وجہ ہیں۔ جبکہ بات نہ تو اتنی سادہ ہے اور نہ ہی مودی اور یاہو جیسے لوگ ان کے اتحادی ہیں۔ آپ کے ساتھ نسلی تعصب کرنے سے پہلے کوئی آپ سے نہیں پوچھے گا کاپی پیسٹ کر کے سیکولرزم پر کتنی کتب لکھی ہیں۔ 


اسی طرح خواتین کے حقوق کے معاملے میں اکثر کی سوچ ایک جاہل الباکستانی والی ہے۔ یہ بالکل اسی طرح خواتین کے بارے میں بھی منفی آراء کا اظہار کرتے ہیں۔ جیسے خواتین کو آبجیکٹیفائی کرنا، جارڈن پیٹرسن کی والی مساجنی، خواتین کو کمتر سمجھنا، مینز پلیننگ کرنا، پدرشاہی کا دفاع کرنا، وہی گندی گالم گلوچ گشتی کنجری چالو یہ وہ، آن لائن اور آف لائن ہراساں کرنا، خواتین کو بدنام کرنا، مذاق اڑانا یا آرٹ کے نام پر بیہودہ تصویریں شیئر کرنا، سیکس اکیڈمیاں بنانا اور ورجنٹی بیچنے کے اشتہار دینا۔ 


کچھ ایسا ہی طرزعمل ان کا ایل جی بی ٹی مائنارٹیز کی طرف بھی ہے۔ اس معاملے میں یہ مغربی رائٹ ونگ والا پروپیگینڈہ دوہراتے ہیں۔ اپنی عقل اتنی نہیں ہے کہ کوئی دلیل دی سکیں یا بحث کر سکیں۔ آپ نے اختلاف کیا تو آپ کو گالیاں دیں گے، بونگیاں ماریں گے، منطقی مغالطے کریں گے، جاہل اور لاعلم بولیں گے، اپنی انا پر ضرب سمجھ کر غصہ کریں گے یا بلاک کر دیں گے۔ 


ان میں اسی طرح انسانی حقوق اور معاشرتی طرزعمل کی سمجھ بوجھ بھی نہیں ہے۔ تہذیب اور برتاو، جس پر یہ سارا دن بھاشن دیتے ہیں، اس کا بھی فقدان ہے۔ کریڈٹ کے چکر میں اپنے دوستوں کو ہی خطرے میں ڈال دیں گے۔ مثال کے طور پر وہ فلاں جو بڑا دلیر آدمی ہے بڑا اچھا سوال کر کے مشہور ہوا میرا چیلا اور شاگرد تھا۔ فلاں جو مر گیا وہ میرے کاز پر یقین رکھتا تھا میرے والی سوچ تھی۔ اور یہ سب یہ سوچے سمجھے بغیر کریں گے کہ ان زندہ و مردہ لوگوں اور ان کے اقرباء کے لیے ایسے تنگ نظر معاشرے میں کیا مصیبت کھڑی ہو سکتی ہے۔ یہ نہ صرف ایک خودغرضانہ بلکہ بیوقوفانہ عمل بھی ہے۔ اور پھر اس بات پر ڈھٹائی اور اناپرستی سے ڈٹنا پرلے درجے کی سفاکی، خودغرضی اور کمینہ پن ہے۔ اس کے بعد آپ خود کو لبرلزم اور سیکولرزم کا امام، باوا اور چاچا کہلوانا بند کر دیں تو بہتر۔ 


اسی طرح اگر یہ خود بیوروکریسی، وکالت، صحافت، تدریس، بزنس یا اسٹیبلشمنٹ حتی کہ فلم یا کھیل سے کسی طرح سے وابستہ ہیں تو اپنے شعبے کی ہر اچھی بری بات کا بغیر میرٹ کے دفاع کریں گے۔ بزنس کامیاب ہو گیا تو ایلون مسک ان کا ہیرو چاہے وہ جتنا بھی بیہودہ ہو اور سوشلزم اور مارکس پر پھبتیاں کسنا چاہے کتنی ہی علمی بات کیوں نہ ہو۔ چین، کیوبا، روس سے خدا کا بیر بالکل ایسے جیسے بائیں بازو والوں اور مذہبیوں کو امریکہ اور یورپ سے ہے۔ فرق کیا ہوا؟ کالونیلزم، امپیریلزم اور سفید فام ریسزم کا دفاع کریں گے اور اپنے احساس کمتری کا بھرپور مظاہرہ۔ 


وکیل ہے تو عدلیہ کی بیہودگیوں، ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہے تو بیوروکریسی کی چولوں اور چاچا ماما فوج میں ہے تو اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی مداخلت کا دفاع کرنا ان کا وتیرہ ہے۔ کچھ لوگ اپنے معاشی حالات اور گھریلو ناچاکیوں کی فرسٹریشن سوشل میڈیا پر دانشوری کی آڑ میں جھاڑنے لگے ہوتے ہیں۔ کچھ تو باقاعدہ ڈھٹائی سے بھیک مانگنے لگے ہوتے ہیں۔ دوسرے ممالک جا کر دو دن میں وہاں کے لوگوں اور ملک کے ایکسپرٹس بن جاتے ہیں۔  کچھ کو کوئی کاز نہیں ملتا تو نسل  اور لسانیت پرستی کو پکڑ کر لوگوں کی درگت بنانا شروع کر دیتے ہیں چاہے تاریخ اور لسانیت کی الف بے نہ پتا ہو۔ پھر نتیجتا اس عمل میں سازشی تھیوریوں اور بونگیوں کا ہی سہارا لیتے ہیں۔ کوئی علمی کام یا حقوق کی بامقصد تحریک نہیں چلتی۔ 


اسی طرح کوئی ان کے پسندیدہ شاعر، گائیک، موسیقار، کرکٹر، فٹبالر حتی کہ اس فلم پر بھی اعتراض کر دے جس میں ان کے کسی رشتہ دار نے کیٹرنگ کا ٹھیکا لیا ہو تو بھی بات پرسنل لے لیتے ہیں۔ اس وقت ان کی دانشوری اور ریشنلزم بڑے اطمینان سے گھاس چرنے چلی جاتی ہیں اور تسلی سے ہی واپس باڑے میں تشریف لاتی ہیں اس کے باوجود کہ اس میں پہلے سے ہی کافی چارہ اور بھوسا موجود ہے۔ 


ایک مشہور خودساختہ دانشور صاحبہ بیک وقت اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کی دلدادہ ہیں۔ ایک بزنس مین دانشور ایلون مسک کو والد محترم کا درجہ دیتے ہیں اور کوئی نظریاتی اختلاف کرے تو اس کو سرخا کہتے ہیں۔ ایک فرماتے ہیں کہ میرے والدین کی بالکل اس طرح عزت کرو جیسے میں کرتا ہوں ورنہ آپ میرے بدخواہ ہو۔ ابھی ایک دوست حسنین بھائی نے مزے کی ایڈیشن کی کہ کچھ اپنی ضعیف الاعتقادی اور اندھی عقیدت کو کلچرلزم اور پوسٹ ماڈرنزم وغیرہ کے چکر میں چھپا رہے ہوتے ہیں۔ کچھ روحانیات اور سوڈوسائنس میں گھس جاتے ہیں۔ 


ایک اور ہیں لکھنے کا شوق ہے سب کچھ لکھ مارتے ہیں جو دماغ میں چلتا ہے صحیح ہو یا غلط، حتی کہ دہائیوں پرانی میڈیکل ایڈؤائس بھی اپنی تحاریر میں دے ڈالتے ہیں بغیر سوچے سمجھے کہ اس سے کسی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اعتراض کرو تو دشنام ٹھہرے گا۔ پاکستانی خواتین دانشوروں سے مکالمہ کرنے کی کوشش کرو یا اختلاف کرو تو فیمنزم کے کورٹ میں پیشیاں لگ جائیں گی۔ پورا گروہ بن کر سکرین شاٹس اور الزامات کی بوچھاڑ کرے گا یہ سوچے سمجھے بغیر کہ شیر آیا شیر آیا کے مصداق کل کو کسی اصلی ریپسٹ اور خطرناک آدمی کے خلاف آپ کی بات پر کون یقین کرے گا؟ لوگ اندھے تو نہیں کہ وہ یہ نہ دیکھ سکیں کہ آپ یہاں محض اپنے ذاتی جھگڑے یا انا کی ٹھیس کے بدلے کو کسی کاز کی آڑ میں چھپا رہی ہیں۔ حتی کہ کچھ ٹرانس رائٹس کے ایکٹوسٹ بھی یہ حرکات کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ 


ریئکشنری بننا ہماری سرشت میں کیوں ہے؟ جذباتیت، اناپرستی اور حماقت کا دامن پکڑ کر آپ خود کو جہالت سے الگ کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ اوصاف تو وہی ہیں۔ ٹھیک ہے ہم سب انسان ہیں، غلطیاں ہوتی ہیں، مگر ایک ہی غلطی بار بار اور پھر اس پر ڈٹ جانا، انا پرستی کرنا، دوسروں کو برداشت، رواداری، تنوع اور ان لرن ری لرن (غلط سیکھا ہوا ان سیکھا کرنا اور دوبارہ سے نیا سیکھنا) کے بھاشن جھاڑ کر خود ہی اس پر عمل نہ کرنا، دوغلا پن اور منافقت چہ معنی دارد؟ 


اس عمل میں یہ خود کو انسانی حقوق کے علمبردار، سیکولر اور لبرل کہنے کے باوجود اقلیتوں کے حقوق، انسانی حقوق، خواتین اور دیگر جینڈر یا سیکشوئل مائناریٹیز کو نہ صرف نظر انداز کرنے میں تعامل نہیں برتتے بلکہ ان کا مذاق بھی اڑاتے ہیں اور جاہل لوگوں کی طرح منفی سوچ کا بھی کھل کر اظہار کرتے ہیں۔ یہ ایسا رویہ ہے جو کہ ان کی دانشوری کے کھوکھلے پن، سیاسی، معاشرتی اور عالمی معاملات کی کم سمجھ بوجھ اور کم مطالعہ کی نشاندہی کرتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے طالبعلم شروع میں ہی ان سے دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں یا کسی ایک لیول پر پہنچ کر اور اسی لیے سنجیدہ، مدرس/استاد یا صاحب مطالعہ لوگ ان کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ ان کو علمی بونے سمجھتے ہیں جو پاکستان کے سوشل میڈیا کے علمی ٹک ٹاکیے ہیں جن کو انہی ٹک ٹاکرز کی طرح بس لائکس، فالوونگ اور ریچ کی بھوک ہے، ایکو چیمبرز پسند ہیں اور رواداری، برداشت اور علم سیکھنے سکھانے سے کوئی غرض نہیں۔ 


پس نوشت: یہ تحریر دوسروں پر تنقید سے زیادہ میں نے اپنے لیے ایک ریمائنڈر کے طور پر لکھی ہے کہ ایسا نہیں بننا۔ اس تحریر میں کسی کا نام نہیں لیا گیا اور اس کا مقصد سیکھنا اور سکھانا ہے۔ کوئی خود اپنے آپ کو یہاں آ کر ایکسپوز کرنا چاہتا ہے تو خوش آمدید اور دشنام طرازی کا ارادہ رکھتا ہے تو بھی فدوی تیار ہے۔ 


پس پس نوشت: اس طرح کے دیگر مسائل پر ایک سیریز لکھی تھی کہ پاکستانی فیسبکی دانشور کیسے بنا جائے۔ اس سیریز کا لنک کمنٹس میں ہے۔

Friday, July 5, 2024

سازشی نظریات کیسے پھیلتے ہیں اور ان سے کیسے بچا جائے؟

 

تحریر: ڈاکٹر عاکف خان

‎ کوئی بھی واقعہ ہو ہم لوگ فورا اپنے سازشی دماغ لڑانا شروع کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ حال ہی میں ایک خاتون کا ٹی وی پر مکالمہ ہوا تو دو تین دن میں لوگوں نے اس میں بھی سازش تلاش کر لی کہ یہ سب سکرپٹڈ تھا۔ اسی طرح چاند پر جانا، فلیٹ ارتھ، کووڈ کے حوالے سے سازشی تھیوریاں وغیرہ۔ آئیے اس رویے کا سائنسی، نفسیاتی اور فسلسفیانہ رخ سمجھنے کی کوشش کریں کہ لوگ سازشی نظریات یا کانسپریسی تھیوریز کی طرف زیادہ رجحان کیوں رکھتے ہیں۔ 

‎سازشی تھیوریوں کے متعلق نفسیات دانوں کا خیال ہے کہ یہ سست ذہن کی پیداوار ہوتی ہیں۔ یعنی جو لوگ سوچنا نہیں چاہتے وہ اس طرح کی سہل پسندی والی توجیہات کو ماننا بہتر سمجھتے ہیں جو آسانی سے دستیاب بھی ہوتی ہیں اور جس کے لیے زیادہ علم یا مطالعہ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ 

‎کینٹ یونیورسٹی کی سوشل سائیکالوجی کی پروفیسر ڈگلس کینٹ کے مطابق سازشی نظریات یا کانسپریسی تھیوریز بنانے اور ماننے والے زیادہ تر کم پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ذہین نہیں ہوتے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کی تربیت ایسے نہیں کی گئی کہ وہ غلط اور درست معلومات میں فرق کر سکیں۔ اور کم پڑھا لکھا ہونے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان کے پاس ڈگریاں نہیں ہوں گی۔ پاکستان کے تعلیمی نظام میں مثال کے طورپر جیسے بنیادی سائنسی یا معاشرتی علوم کی تعلیم مفقود ہے وہاں آپ یہ سمجھ لیں کہ سوشل سائنسز یا معاشرتی علوم کے لوگ سائنسی علوم سے نابلد ہوتے ہیں اس لیے وہ سائنسی علوم سے متعلق مواد میں سازشی نظریات کا شکار بن جاتے ہیں جبکہ سائنسی علوم والے معاشرتی علوم جیسے عمرانیات، پولیٹیکل سائنس، تاریخ یا نفسیات سے نابلد ہوتے ہیں تو معاشرتی مسائل و معاملات جیسے جمہوریت، خواتین کے حقوق، مذہبی تقسیم اور رجعت پسندی، انٹرنیشنل ریلیشنز اور معاشیات وغیرہ کے معاملات میں سازشی نظریات پر یقین کر لیتے ہیں اگرچہ دونوں گروپس کے پاس اپنی فیلڈ میں پی ایچ ڈی تک کی ڈگریاں بھی موجود ہو سکتی ہیں۔ آپ نے اپنے اردگرد دیکھا ہو گا کہ سائنس میں پی ایچ ڈیز معاشی و معاشرتی معاملات میں جذباتیت اور جہالت کا مظاہرہ کرتے ہیں جبکہ معاشرتی علوم کے ایکسپرٹس اور ڈگری ہولڈرز میڈیکل سائنس کے بجائے جادو ٹونے پر یقین  رکھتے ہیں اور ویکسینز وغیرہ کو سازش سمجھتے ہیں۔ اگرچہ یہاں تو کایا ہی پلٹ ہے، میں نے کیمسٹری کے پی ایچ ڈیز کو ہومیوپیتھی جیسے فراڈ پر یقین کرتا اور ساشل سائنسز والوں کو بابوں سے دم کرواتا پایا ہے۔ 

‎اب لوگ سازشی تھیوریوں پر یقین کیوں کرتے ہیں اور کیا اب یہ رجحان ذیادہ ہو گیا ہے؟ ڈاکٹر ڈگلس کے مطابق ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ یہ رجحان بڑھا ہو، مگر چند بڑے واقعات کے دوران اس رویے میں اضافہ دیکھا جاتا ہے جیسے مون لینڈنگ یا کوووڈ کے وقت۔  اگرچہ سازشی نظریات پر یقین کرنے والے لوگ ہمیشہ معاشرے میں اسی تناسب سے اکثریت میں موجود رہے ہیں۔ چاہے سقراط کی سزا ہو، ہپاشیا کے جسم کی کھال کھینچنا، ابن رشد کو مسجد کے ستون سے باندھ کر اس کے منہ پر تھوکنے والے، برونو کو جلانے والے، گلیلیو سے معافی منگوانے والے یا ڈاکٹر عبدالسلام کے نوبیل کو جعلی قرار دینے والے۔ 

‎موٹیوز یا محرکات پر آئیں تو اس کے تین ‎نفسیاتی محرکات ہوتے ہیں۔ پہلا ہوتا ہے علمی محرک، یعنی کہ ہر انسان کے اندر موجود تجسس۔ چونکہ لوگوں کو یہ نہیں سکھایا جاتا کہ درست معلومات کہاں سے لینی ہیں یا ان کی درست معلومات تک رسائی مشکل بنائی جاتی ہے تو وہ آسانی سے دستیاب غلط معلومات جیسے سوشل میڈیا  کی وائرل ویڈیوز اور فیک نیوز جو کہ سمجھنے میں بھی آسان ہوتی ہے اور اس کے لیے زیادہ مطالعہ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، اس پر یقین کر لیتے ہیں۔ اور چونکہ اپنے ریشنل مائنڈ یا سوچنے والے ذہن کو بیوقوف بنا کر اور لاعلم رکھ کر خود کو سوچنے کی اذیت سے بچانا بھی ہوتا ہے جو کہ ہمیں دوسرے محرک پر لے کر جاتا ہے۔  

‎دوسرا نفسیاتی محرک وجودیت سے متعلق ہے۔ میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں۔ ہر انسان کو اپنے آپ کو محفوظ رکھنے اور سمجھنے کی طلب ہوتی ہے۔ یہ انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ جسے بچاو یا سروائیول بھی کہتے ہیں۔ اس کے لیے انسان کو اپنے ماحول میں ایک طاقت اور کنٹرول کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب کوئی شاکنگ یا انہونا واقعہ ہوتا ہے تو انسان کو اپنا وجود، طاقت اور معاملات پر گرفت یا کنٹرول خطرے میں لگتا ہے۔ لہٰذا وہ یا تو وہ کنٹرول واپس لینے کی سہی کرتا ہے یا یہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ کنٹرول اور طاقت اس کے ہاتھ سے کیسے اور کس نے چھینی اور کیا وہ اس کے بارے میں کچھ کر سکتا ہے؟  اگر کچھ نہیں کر سکتا تو کم از کم کوئی ایسی توجیح موجود ہے جو یہ بتائے کہ اس کے پاس کنٹرول کیوں نہیں ہے۔ یہاں پر سب سے آسان توجیح سازشی تھیوریوں کی شکل میں موجود ہوتی ہے۔ ریسرچ نے یہ ثابت کیا ہے کہ توہم پرست، یا عرف عام میں وہمی اور وہ لوگ جن کے اختیار محدود ہو سازشی نظریات کی طرف زیادہ جھکاو رکھتے ہیں۔ خیر سے مملکت خداداد میں دونوں خصوصیات کے حامل لوگ بدرجہ اتم موجود ہیں۔ 

تیسرا نفسیاتی محرک معاشرتی ہے۔ ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ اسے معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ ہر انسان اپنے آپ کو اچھا سمجھنا چاہتا ہے جسے عزت نفس بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی اپنے آپ کو بہتر سمجھنا، اپنے بارے میں بہتر گمان رکھنا۔ اس کا ایک طریقہ سب معلومات کا ہونا ہے اور خاص طور پر ان معلومات کا ہونا جو دوسروں کے پاس نہیں ہیں۔ سازشی معلومات بکثرت موجود ہوتی ہیں اور ہر کوئی سمجھ رہا ہوتا ہے کہ صرف اسی کو یہ والی خبر معلوم ہے۔ باقی سب بھیڑیں ہیں کھوتے ہیں ناسمجھ ہیں کم عقل ہیں یا جاہل ہیں۔ خودپرست یا نرگسیت کے شکار گروپ اور معاشرے سازشی نظریات پر زیادہ یقین کرتے ہیں۔ اسی طرح ریسرچ نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ کم عمر لوگوں کئ بہ نسبت بڑی عمر کے لوگ بھی سازشی نظریات پر زیادہ یقین کرتے ہیں۔ واٹس ایپ انکلز کی اصطلاح آپ نے یقینا سنی ہو گی جن کے علم کی سورس واٹس ایپ فارورڈڈ میسجز ہوتے ہیں جن کا کوئی سر پیر، سائنسی ساکھ یا حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا۔ اور یہ لوگ اپنی عمر کو ان معلومات کی ترویج اور منوانے کے لیے اتھارٹی اور طاقت کے طور پر استعمال کرتے ہیں جیسا کہ دوسرے محرک میں بیان کیا گیا۔ اور وپ لوگ جو ایک سازشی نظریے پر یقین کرتے ہوں ان کا دوسرے سازشی نظریات پر یقین کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ یعنی کہ وہ لوگ جو چاند کی لینڈنگ کو فیک سمجھتے ہیں انہی کی اکثریت ویکسینز کو غیرمحفوظ اور زمین کو فلیٹ سمجھتی ہے اور مستقبل میں بھی یہی لوگ باآسانی سازشی نظریات کا شکار ہوتے ہیں۔ یعنی یہ ایک نفسیاتی امر ہے۔ 

آپ نے اکثر لوگوں کو عام طور پر پھیلی ہوئی جھوٹی خبریں انتہائی وثوق سے بتاتے ہوئے سنا ہو گا۔ آپ نے اکثر سیاسی پارٹیوں کے لوگوں کو خاص بیانیے اس طرح بیان کرتے دیکھا ہو گا جیسے یہ ان کے اپنے ذہن کی اختراع یا سوچ کا نتیجہ ہیں۔ مثال کے طور پر اسی واقعہ کے تناظر میں میری ایک دوست سے بات ہو رہی تھی۔ موصوف مائیکروبیالوجی میں پی ایچ ڈی ہیں اور این آئی ایچ میں کئی برس سے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے فورا ایک ہی رٹ پکڑ لی کہ لڑکی بدتمیز تھی، میں ساحل عدیم کی پرواہ نہیں کرتا۔ پھر انہوں نے وہی مثال دی جو ساحل عدیم نے پروگرام میں دی تھی، ابوجہل والی۔ اور ایسے جیسے یہ مثال انہوں نے خود ان کے ذہن کی تخلیق ہو۔ اس کا ہرگز یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ جھوٹ بولنا چاہ رہے ہوں۔ بعض اوقات جب آپ کسی بات پر اندھا یقین کر لیتے ہیں تو وہ بات آپ کو اپنی ہی تخلیق لگنا شروع ہو جاتی ہے۔ آپ نے اکثر یہ بھی دیکھا ہو گا کہ آپ کسی کو کوئی بات بتاتے ہیں تو وہ شخص کچھ عرصے بعد وہی بات دوسروں کو حتی کہ آپ کو انتہائی اعتماد سے ایسے بتا رہا ہوتا ہے جیسے وہ اس کی اپنی سوچ کا نتیجہ ہو۔ ہو سکتا ہے جس بات کو آپ اپنی سوچ کا نتیجہ اور اس کی چوری سمجھ رہے ہوں وہ بات آپ نے بھی کسی سے ایسے ہی سنی ہو مگر آپ کے دماغ نے محض معلومات کو رجسٹر کیا ہو سورس کو نہیں۔ 

یہاں یہ بھی نوٹ کریں کہ سورس کی افادیت، اہمیت اور ساکھ کو نہ سمجھنے سے یہ رویہ جنم لیتا ہے۔ جب آپ سورس کو یاد رکھنا، اس کی ساکھ اور اہمیت کو پرکھنا سیکھیں گے تو آپ کا ذہن/دماغ اس طرح ہر بات/معلومات کو بغیر سوچے سمجھے آگے نہیں پھیلائے گا۔ اس سے آپ کے اند سیلف اوئیرنیس بھی آئے گی کہ میں کر کیا رہا ہوں اور کیوں کر رہا ہوں اور کیا یہ عقلی، سائنسی یا معاشرتی طور پر مناسب اور سودمند ہے یا نہیں؟ 

اب چلتے ہیں اس سوال پر کہ ان سازشیوں کا علاج کیسے کیا جائے؟ نفسیات دانوں کے مطابق اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو پہلے متنبہ یا وارن کیا جائے۔ کہ ڈس انفارمیشن یا مس انفارمیشن کا چانس ہے اور آپ اس پر یقین کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ پرکھ لیں۔ مگر بعض اوقات اس کام میں بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور لوگ اپنا ذہن بنا چکے ہوتے ہیں۔ اس صورتحال میں بہتر طریقہ لوگوں کے سامنے حقائق رکھنے کا ہے۔ چند لوگ جو علمی بددیانتی کے مرتکب ہوں، جن کے لیے اپنے اعتقادات سے ہٹنا مشکل ہو یا جو خودپسندی اور اناپرستی میں مبتلا ہوں، ان کے علاوہ باقی لوگ حقائق کو دیکھ سمجھ کر اصل بات مان لیتے ہیں اور سازشی نظریے کو مسترد کر دیتے ہیں، اگرچہ ایسے لوگ تعداد میں کم ہوتے ہیں۔ 

چنانچہ اگلی مرتبہ جب آپ کے سامنے کوئی سازشی نظریہ حتی کہ کوئی ببی بات کی جائے تو اس کو اچھی طرح سوچ سمجھ کر پرکھیں اور پھر تسلیم یا مسترد کریں۔ اگرچہ یہ مشکل کام ہے اور ہمیں بچپن سے کریٹیکل تھنکنگ نہیں سکھائی جاتی مگر انٹرنیٹ اور جی پی ٹی ماڈلز کے ٹول کو استعمال کر کے حقائق تک پہنچا جا سکتا ہے۔ یہاں پر اکثر لوگوں کے ذہن میں یہ سوال آئے گا کہ ہمیں کیسے علم ہو گا کہ کون سا سورس یا انفارمیشن درست ہے۔ انٹرنیٹ پر فیکٹ چیکنگ کے کئی کورسز موجود ہیں آپ ان سے استفادہ کر سکتے ہیں جیسا کہ رائٹرز کا جرنلزم کا بنیادی فیکٹ چیک کورس۔ اس کے علاوہ سائنسی طرز عمل اور سائنسی طریقہ کار کی سمجھ بوجھ بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ امید ہے کہ اس تحریر سے لوگوں کو سازشی نظریات سے بچنے میں مدد ملے گی۔ 


Sunday, April 28, 2024

کیا آبادی ایک مسئلہ ہے؟

دنیا میں آبادی کی کثافت فی سکویئر کلومیٹر کے حساب سے۔
Wikimedia Creative Commons License CC0 1.0

تحریر و تحقیق: ڈاکٹر عاکف خان

نوٹ: حوالہ جات مضمون کے آخر میں لف ہیں۔

‎آپ نے اکثر پاکستانی دانشوروں کو آبادی کے مسئلے پر بات کرتے سنا ہو گا کہ آبادی کا طوفان آ رہا ہے اور سب مسائل کی جڑ کسی طرح آبادی ہے۔ زیادہ بچے پیدا کرنے سے بہت مسائل ہو جائیں گے۔ آبادی کا بم پھٹنے والا ہے وغیرہ۔ ایک نیو مالتھوزین متھ (neo-Malthusian) ہے۔ یہ نظریہ کہ آبادی تمام مسائل کی جڑ ہے پہلی بار تھامس رابرٹ مالتھوز جو کہ ایک اکانومسٹ اور پادری تھا نے اٹھارویں صدی کے اختتام پر ۱۷۹۸ عیسوی میں اپنی تحریر آبادی کے اصول پر ایک مضمون (An Essay on the Principle of Population) میں پیش کیا تھا جسے اس کے دور میں ہی اس کے ہم عصروں نے ہی رد کر ڈالا تھا یعنی اس کے مضمون کی لاجک غلط ثابت کر دی تھی۔ اس کے باوجود اکثر لوگ کالونیلزم اور ستر اسی کی دہائی کے کچھ لکھاریوں کی تحریروں کو لوح قلم سمجھ کر آنکھیں بند کر کے یقین رکھتے ہیں اور مزید کچھ جاننے اور سوچنے سمجھنے کی زحمت نہیں کرتے خاص طور پر ہمارے اردو میڈیم دانشوران۔ آئیے دیکھتے ہیں آبادی کیسے ایک مسئلہ نہیں ہے۔ 


‎سب سے پہلے تو زیادہ بچے پیدا کرنا کوئی لگژری نہیں ہے۔ بلکہ زیادہ بچے پیدا نہ کرنا ایک لگژری ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ایک خاتون نہ صرف بچے پیدا کرنے کے پریشر میں ہوتی ہے بلکہ اولاد نرینہ کی پیدائش کی بھی ذمہ دار سمجھی جاتی ہے وہاں اس طرح کی توقعات اور پوش ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر کنڈومز تقسیم کرنے کی باتیں کرنا بہت آسان ہے۔ اسی طرح اس معاشرے میں جہاں بزرگوں کے لیے کوئی اولڈ ایج انشورنس یا صحت اور علاج کی یقین دہانی کا نظام نہیں ہے، وہاں بچوں کو اولڈ ایج انشورنس کے طور پر بھی پیدا کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس کا خمیازہ بچے کیسے بھگتتے ہیں وہ ایک الگ دکھی داستان ہے جس پر پہلے ایک دفعہ بات کی تھی۔ لہذا پہلی بات ذہن نشین کر لیں کہ کم آبادی معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود اور ترقی کی ضامن نہیں ہے بلکہ معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود کم آبادی کی ضامن ہے۔ یہ معاملہ الٹا ہے۔ اسی طرح ایک بڑا مسئلہ خواتین کی صحت اور بہبود کا ہے۔ وہ بھی اسی فلاح و بہبود سے جُڑا ہے۔ جب معاشرے میں تعلیم، صحت، حقوق اور آزادی دستیاب ہو گی تو خواتین معاشرتی دباو اور والدین بڑھاپے سے پریشان ہو کر زیادہ بچے پیدا نہیں کریں گے۔ 


‎لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا زیادہ آبادی ایک مسئلہ ہے؟ اس کا فیصلہ مندرجہ ذیل حقائق سن کر خود کیجیے۔ آبادی بڑھنے کی ایک شرح ہوتی ہے اور اس کی ایک حد ہوتی ہے۔ اس کو فرٹیلیٹی ریٹ یا شرح نمو کہتے ہیں۔ جب یہ شرح نمو دو سے کم ہو جائے تو وہ آبادی بعھنا رک جاتی ہے اور کچھ عرصے بعد اس آبادی کا بقا خطرے میں پڑ جاتا ہے بلکہ ناپید ہو جاتا ہے۔ کیا آپ کو علم ہے پاکستان کی آبادی کی شرح سن دو ہزار میں پانچ اعشاریہ تین تھی، جو کہ دو ہزار تئیس میں کم ہو کر تین اعشاریہ چار سات پر پہنچ گئی ہے۔ اگر یہ اسی رفتار سے کم ہوتی رہی تو آبادی اچھی خاصی ہونے کے باوجود سن دو ہزار ستر میں یہ شرح نمو دو سے کم ہو جائے گی۔ اس سے چند دہائیوں میں آبادی کا بقا خطرے میں پڑ جائے گا اور جنریشن گیپ بھی بن جائے گا۔ جس طرح جاپان اور کئی ترقی یافتہ ممالک حتی کہ چین میں بھی جنریشن گیپ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جلد ہی ان ممالک میں ایک پوری نسل ناپید ہو گی اور بزرگوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا اور کئی جگہ یہ کام ہو چکا ہے۔ چین نے کئی دہائیوں تک ایک بچے کی پالیسی اپنائی رکھی۔ اس کا نقصان چین نے کچھ برس پہلے ہی محسوس کرنا شروع کر دیا۔ لہذا انہوں نے دو بچوں، پھر تین کی اجازت دی اور اب زیادہ بچے پیدا کرنے پر انعام رکھ دیا ہے۔ مگر چونکہ اب چین میں معاشی اور معاشرتی خوشحالی آ چکی ہے، بزرگوں کے لیے اولڈ ایج انشورنس دستیاب ہے، خواتین کی صحت کے مسائل حل ہو چکے ہیں، تو حکومتی اقدامات کے باوجود لوگ ایک یا دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ 


‎کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ بڑھتی مہنگائی بچوں کی تعلیم، صحت اور مستقبل کے مواقع کے لیے ایک خطرہ ہے مگر کیا آپ نے کبھی سوچا ہے بڑھتی مہنگائی اور غربت کے باوجود بھی زیادہ بچے پیدا کرنے کی شرح غریب طبقات میں زیادہ کیوں ہے۔ اس کی وجوہات بھی مندرجہ بالا ہیں۔  


کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ بڑھتی مہنگائی بچوں کی تعلیم، صحت اور مستقبل کے مواقع کے لیے ایک خطرہ ہے مگر کیا آپ نے کبھی سوچا ہے بڑھتی مہنگائی اور غربت کے باوجود بھی زیادہ بچے پیدا کرنے کی شرح غریب طبقات میں زیادہ کیوں ہے۔ اس کی وجوہات بھی مندرجہ بالا ہیں۔ 


جہاں تک رہا وسائل کا تعلق تو مسئلہ وسائل کا نہیں ان کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے۔ آپ کو پچھلے برس ورلڈ فوڈ پروگرام اور ایلن مسک کا وہ قضیہ یاد ہو گا جس میں ورلڈ بنک نے ایلون مسک کو بتایا کہ دنیا کی بھوک کا مسئلہ محض چھ ارب ڈالرز میں حل کیا جا سکتا ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ ٹاپ ٹین بلیئنرز کے پاس کُل پندرہ سو ارب ڈالرز سے زائد پیسہ ہے۔ جبکہ دنیا میں اس وقت تقریبا تین ہزار بلیئنرز (جن کے پاس کم از کم ایک بلین ڈالر سے زائد پیسہ ہے) موجود ہیں جن کے پاس کل پیسہ چودہ ہزار دو سو ارب ڈالر سے زائد پیسہ موجود ہے۔ دنیا میں ہر سال تقریبا دو سو پچاس کروڑ ٹن کھانا ضائع ہوتا ہے جس کی کل قیمت دو ہزار ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ صرف امریکہ میں سالانہ چھ کروڑ ٹن کھانا ضائع ہوتا ہے جو ایک سو پینتالیس ارب لوگوں کو کھلایا جا سکتا ہے اور جس کی قیمت چار سو ستر ارب ڈالر ہے۔ دنیا میں اس وقت سالانہ تقریبا اسی کروڑ افراد بھوک کا سامنا کر رہے ہیں جنہیں کھانے کے لیے سالانہ بیس کروڑ ٹن کھانا چاہیے۔ یعنی کہ دنیا میں ضائع ہونے والے ایک سال کے کھانے سے دنیا کے بھوکے افراد کو بارہ سال تک کھانا کھلایا جا سکتا ہے، اور یاد رہے یہ ایک بہت اچھے ایوریج کھانے کی بات ہو رہی ہے۔ دنیا میں سالانہ ضائع ہونے والے کھانے کی مد میں دنیا کی پوری آبادی کو دو وقت کا عام تین اعشاریہ پانچ ڈالر کا کھانا پینتیس سال تک کھلایا جا سکتا ہے۔ اب خود اندازہ لگا لیں کہ وسائل کی کمی ہے یا وسائل کی تقسیم اور ضیاع کا مسئلہ ہے۔ 


اب آتے ہیں دھرتی ماتا پر پڑنے والے بوجھ اور ماحولیاتی اثر پر۔ دنیا کے آٹھ ارب انسانوں کو اگر آپ ایک ڈھیر میں اوپر نیچے رکھیں تو وہ گرینڈ کینیئن کے ایک چھوٹے سے حصہ میں پورے آ جائیں گے۔ زرعی ترقی نے خوراک کا حصول بہت آسان بنا دیا ہے۔ جی ایم اوز، کھادوں، جڑی بوٹیاں تلف کرنے والی ادویات اور زرعی مشینری نے کم رقبے سے زیادہ خوراک کا حصول ممکن بنا دیا ہے یعنی آپ ماحول کو کم سے کم متاثر کر کے زیاہد خوراک حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر یہ سب ترقی نہ ہوتی تو آپ کو زرعی زمین کے حصول کے لیے زیادہ جنگلات کاٹنے پڑتے اور زیادہ ایکوسسٹمز کی قربانی دینی پڑتی۔ اب تو صحرائی علاقوں کو بھی قابل کاشت بنانے کی ٹیکنالوجی موجود ہے۔ 


جہاں تک رہا کاربن فٹ پرنٹ یا گلوبل وارمنگ کا مسئلہ، تو یہاں بھی ایک دلچسپ فیکٹ سنیں۔  کاربن فٹ پرنٹ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایک شخص نے اپنے بجلی، پانی، خوراک، کچرے وغیرہ سے کتنی کاربن ڈائی اکسائیڈ ماحول میں پیدا کی یا واپس چھوڑی جس سے گلوبل وارمنگ پیدا ہوتی ہے۔ ایک امریکی شہری کا سالانہ کاربن فٹ پرنٹ بیس ٹن کے قریب ہے جبکہ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک بھارت میں ایک شخص کا سالانہ کاربن فٹ پرنٹ محض ایک ہے۔ سعودی عرب میں پندرہ، متحدہ عرب امارات میں پینتیس، بحرین میں اڑتیس، کویت میں ، ہالینڈ پچاس، کویت اکتیس اور چین پانچ ہے۔ جبکہ پاکستان میں صفر اعشاریہ سات آٹھ ہے۔ ایک ترقی یافتہ ملک کے گاوں کے پورے خاندان کا سالانہ کاربن فٹ پرنٹ بھی دو تین کے قریب ہوتا ہے۔ چین میں یہ محض دو ٹن ہے۔ عموما یہ فٹ پرنٹ شہری علاقوں کے ایک گھرانے سے تین گنا کم ہوتا ہے۔ پاکستان اور دنیا کی زیادہ تر آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے تو اندازہ لگا لیں کہ کیا آبادی ماحول کو متاثر کر رہی ہے یا کچھ اور؟


اس میں ایک اور مسئلہ انسانی آزادی اور چوائس کا ہے۔ انہی دانشوروں سے سوال ہے جو انسانی آزادی اور چوائس کے قائل ہیں، یوجینیکس کے مخالف ہیں، کیا وہ انسانوں پر قوانین اور حکومتوں کے ذریعے آبادی پر قابو مسلط کرنا چاہتے ہیں؟ یا غریب کو آزادی کا حق حاصل نہیں کیا اس دانشوری میں ان کی ایلیٹزم تو نہیں عود کر آئی؟ یہ سوال یہ خواتین و حضرات خود سے پوچھیں تو بہتر ہے۔ 


ان تمام حقائق کی روشنی میں اب آپ اس نظریے کی جانچ کر سکتے ہیں کہ واقعی آبادی ایک مسئلہ ہے اور کیا وہ لوگ جو بار بار یہ باتیں دہراتے ہیں، غریبوں کو عید پر کنڈومز گفٹ کرتے ہیں، غریب بچوں کی تصویریں لگا کر اپنا سوشل میڈیا کلاوٹ بڑھاتے ہیں، اپنے ایلیٹزم کے باعث غرباء سے نفرت کو زیادہ بچے پیدا کرنے اور آبادی کے طعنوں کے پیچھے چھپاتے ہیں، غریب کی غربت کا مذاق اڑا کر دانشور بنتے ہیں، درست ہیں۔ فیصلہ آپ کا۔


نوٹ: مزید مطالعہ کے لیے میٹ ریڈلی کی کتاب دی ریشنل آپٹمسٹ اور پروفیسر ہانز روزلنگ کی کتاب فیک فل نس پڑھی جا سکتی  یاد رہے کہ اس مضمون میں محض اعداد و شمار پر بات کی گئی ہے اور اس کا تعلق کسی دائیں بازو جیسے پاپولیشن ریسرچ انسٹیٹیوٹ یا بائیں بازو کے نظریات کی تائید نہیں ہے۔ فدوی خواتین کے اپنے جسم کے حوالے سے تمام فیصلوں کا حق اور آزادی بشمول ابارشن اور برتھ کنٹرول کو تسلیم کرتا ہے۔  

حوالہ جات


https://www.theguardian.com/environment/datablog/2009/sep/02/carbon-emissions-per-person-capita 


https://pubs.acs.org/doi/10.1021/acs.est.1c01374


https://www.wfp.org/global-hunger-crisis


https://www.forbesindia.com/article/explainers/top-10-richest-people-world/85541/1


https://www.iea.org/commentaries/the-world-s-top-1-of-emitters-produce-over-1000-times-more-co2-than-the-bottom-1


https://scied.ucar.edu/learning-zone/climate-solutions/carbon-footprint#:~:text=Worldwide%2C%20the%20average%20person%20produces,of%20carbon%20dioxide%20each%20year.


“The results show that in 2018 in rural China, the average household carbon footprint is 2.46 tons CO2-eq per capita, which is around one-third of China’s average footprint, indicating the large potential for further growth.”

https://pubs.acs.org/doi/10.1021/acs.est.1c01374


https://www.un.org/development/desa/pd/sites/www.un.org.development.desa.pd/files/files/documents/2020/Feb/un_2015_worldfertilityreport_highlights.pdf


“The current population fertility rate of Pakistan is 3.2828 births per woman. A -1.92% decrease from 2023, when the fertility rate was 3.347 births per woman. In the future, Pakistan's fertility rate is projected to decrease to 1.8588 childern born per woman, by the year 2100. A total decrease of the fertility rate of Pakistan's by -43.38% from today's standard.”

https://database.earth/population/pakistan/fertility-rate#google_vignette


Amount of food consumption: https://www.statista.com/forecasts/1298375/volume-food-consumption-worldwide


Amount of food wasted: https://www.wfp.org/stories/5-facts-about-food-waste-and-hunger


‏#docakkh #ڈاکٹر_عاکف_خان #akifonymous

Thursday, July 13, 2023

The Psychology of Online Vocalization: Exploring Reasons and Patterns

By Dr. Akif Khan

There are three types of people. One, who are vocal in real life (RL). Second ones who are vocal on both social media (SM) and RL. Third type is that is only vocal on SM. 

There are multiple reasons behind it. Many people are not confident in writing stuff (posts, comments or anything else) for multiple reasons again. 

Some people don’t like to express themselves publicly. Some are shy. Some purposely hide their feelings and thoughts. Then there are some who are afraid of alphas, over-smart people and bullies. Then there are over-sharers of course, who have opinions on everything and they don’t care if those opinions are right or wrong. 

A personality with a balanced and wise outlook is hard to come, sometimes it’s privilege, sometimes it’s good upbringing, sometimes it’s luck when people have better lifestyle and no mental stress, depression or traumatic experiences. This can make people expressive sometimes and sometimes shut them down. 

For some people writing is catharsis and interacting online is a form of connecting. Some don’t need that at all and just enjoy reading and listening to other people. Some believe they are learning only for themselves and they don’t owe anyone else any sharing of ideas or helping them. Some just keep tabs on other people and think they’re wiser this way by remaining silent or anonymous. 

Some are scared for various reasons that their thoughts could be used against them and sharing or expressing on SM/online world is not a wise thing to do. They don’t trust the internet/system. Some people believe in conspiracy theories and are obsessive about keeping a low profile online and even in RL. Some prefer to remain anonymous while opining on SM.

Some people love fame and showing off. Some just think it’s their responsibility to share what they know and some have a nature to help people according to their capacity and knowledge. 

Some hate the closed circles/groups and the few people who dominate those spaces due to right or wrong reasons. They feel like left out but since they get enough (knowledge/content/recommendations) from those groups, they tend to stay, in silence. 

Then there are shitposters, attention seekers and those who get hooked up to SM and want to stay relevant by opining on everything even when their opinion is not so good or is just a variant of someone else’s opinion (sometimes it’s exact copy). There are also people who would steal content and reshare it without giving proper credit or shamelessly ascribing the content to their own selves. Some try to stay relevant and act smart by making controversy out of everything. They will read opinions of other people and purposely concoct something that is spicy and different no matter how contradictory it is to their own previous opinions. Some people are adamant on converting other people to their own ideologies. Some woulf just comment on everything according to their own worldview and would not listen to any different opinion. These types often include intellectually dishonest people and those who only seek attention, want to stay relevant or think that the world only revolves around them. Then there are flatterers and fans, of course, who love everything that is written by their beloved influencers. The addiction to likes and following is another topic on which much has been written and can’t be covered here. But we must also not forget the importance of SM, especially its role in decentralising information and brining it to ordinary people’s approach. There is an interesting book titled Twitter and Tear Gas by Zeynep Tufekci on the pros and cons of SM especially in the context of dissent. 

In short, SM is an alternate of real world and the dynamics of human interaction, communication and psychology work here as well as they work in the real life albeit differently sometimes. 

There has been much research being carried out on the communication and interaction on SM. I was just reading a paper (thanks to a friend who shared it) the other day where the researchers studied the way Pakistani women express themselves on TikTok without exposing their identity and the dynamics both social and religious that govern their interaction and communication style. Here is the link to that paper. 

The realm of social media has become a parallel universe where human interactions, communication, and psychological dynamics take on new forms. The reasons behind vocalisation patterns are multifaceted, ranging from shyness and fear to the desire for privacy, attaining fame or the need for catharsis. It is essential to acknowledge that the online world offers a platform for diverse voices to be heard, while also recognizing the complexities that arise, such as the fear of judgment, information privacy concerns, and the dominance of certain groups. As ongoing research delves into the intricacies of social media communication and interaction, the process of unraveling the fascinating ways in which individuals navigate these digital spaces, shaping their online personas and influencing the broader social landscape will be ever evolving and interesting to study.

Wednesday, February 22, 2023

لہندا کیا ہے؟ کیا ہندکو، سرائیکی اور پوٹھوہاری لہندا یا مغربی پنجابی زبانیں ہیں؟



 لہندا، جسے لہندی بھی کہتے ہیں شمال مغربی آریائی زبانوں کے گروہ کا نام ہے جو کہ پاکستان اور بھارت میں بولی جاتی ہیں۔ لہندا کی جینیاتی گروپنگ متعین نہیں ہے۔ یعنی یہ ثابت نہیں ہے کہ یہ زبانوں کے کس خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ 

لہندا یا مغربی پنجابی کی اصطلاحیں “ایگزونم” ہیں جو کہ ماہرین لسانیات (کالونیل آقاوں) نے اپنی سہولت کے تحت ان زبانوں کے لیے استعمال کی ہوئی ہیں اور ان زبانوں کے بولنے والے لوگ یہ لہندا یا مغربی پنجابی کی اصطلاحیں اپنی زبانوں کے لیے ہرگز استعمال نہیں کرتے۔ 

ایگزونم اس نام کو کہتے ہیں جو باہر کے لوگ کسی چیز کے لیے اپنی سہولت کے لیے استعمال کرتے ہیں جیسے جرمن جرمنی کو ڈچ لینڈ پکارتے ہیں مگر انگریزی میں اسے جرمنی کہا جاتا ہے یا جیسے پختونوں کو باہر کے لوگ پٹھان پکارتے ہیں۔ 

فیسبک پوسٹ کے لیے نیچے والے لنک پر کلک کریں  

https://www.facebook.com/534596120/posts/pfbid035Qsck1XG5cfncTKbyjHiWXhxSdPEgEfFQPb9WjHpKM4y1oP7wjb4NvMcentdUAu5l/?mibextid=q5o4bk

صوبہ ہزارہ، ہندکو اور اے این پی

 آپ لوگ ہزارہ کے لوگوں کو نفرت سے پنجابیان بولتے ہو۔ پشاور، مردان، صوابی، چارسدہ میں ہزارہ کے لوگوں کو انتہائی زیادہ تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہاں نوکریاں نہیں کر سکتے۔ اے این پی نے 12 اپریل دو ہزار دس کو ایبٹ آباد میں درجنوں نوجوانوں کا قتل عام کیا (سرکاری آنکڑہ سات سے بیس کے درمیان ہے، کئی لوگ فائرنگ میں اپنے اعضاء بھی کھو بیٹھے)۔ ببڑہ قتل عام کی یاد تازہ کروا دی۔ 

جب صوبوں کی بات آتی ہے تو پھر یاد آ جاتا ہے کہ صوبہ سرحد یا “کے پی کے” میں بیس سے زاہد زبانیں بولی جاتی ہیں اور ہزارہ میں بھی پختون بستے ہیں جو ہندکو کے ساتھ ساتھ پشتو بھی بولتے ہیں اور کوہاٹ، صوابی اور پشاور میں بھی ہندکو بولی جاتی ہے۔ 

اے این پی ہزارہ کی سینکڑوں بلدیاتی، صوبائی اور وفاقی نشستوں سے ایک سیٹ نہیں جیت سکتی (شاید بٹگرام سے کبھی ایک صوبائی سیٹ جیتی تھی دو ہزار آٹھ میں)۔ 

اگرچہ میں اصولی طور پر لسانی بنیادوں پر صوبوں کا مخالف ہوں اور ان دلائل سے اتفاق کرتا ہوں مگر آپ کو صرف وسائل سے دلچسپی ہے۔ تربیلا اور شمالی علاقہ جات کا ٹورزم ہاتھ سے نکل جائے گا۔

انتظامی بنیادوں پر صوبے بنانے میں کوئی حرج نہیں۔ چترال،

 مالاکنڈ اور فاٹا کو بھی چارسدہ، صوابی، مردان اور پشاور کے ساتھ رہنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یہاں دو نہیں پانچ چھ صوبے بن سکتے ہیں۔ کوہستان الگ، بشام، بٹگرام، کالا ڈھاکہ الگ، سوات دیر الگ، مالاکنڈ الگ، فاٹا کی ایجنسیوں کے الگ۔ 

https://www.dawn.com/news/710080/abbottabad-killings-anniversary-rallies-renew-demand-for-separate-hazara-province-2

زبان کون بناتا ہے؟

 

وسیم الطاف صاحب نے پوسٹ لگائی کہ اردو کی مفلسی کا یہ عالم ہے کہ اس میں لفظ سٹیک ہولڈر کا متبادل نہیں ہے۔ 

عرض ہے کہ چینی اور جاپانی زبان میں جب کسی لفظ کا متبادل موجود نہیں ہوتا تو اس کا چینی جاپانی متبادل بنا دیا جاتا ہے۔ یہ مفلسی نہیں ہوتی۔ ہر زبان میں ایسا ہوتا ہے۔ جیسے چائینیز میں میکڈونلڈز کو مائے دی لو یا جاپانی میں مائیکروفون کو مائیکو بولا جاتا ہے۔ اردو میں ہاسپیٹل کو ہسپتال یا اسپتال، عربی میں پیپسی کو بیبسی۔ یہ تب کیا جاتا ہے جب متبادل صوتی کیریکٹر یا الفاظ نہیں ہوتے یا آسانی سے ادا نہیں ہو پاتے۔ 

انگریزی کے سٹیک ہولڈر کو سٹیک ہولڈر استعمال کرنا اردو ہی کہلائے گی یا سٹیکر کہا جا سکتا۔ جیسے کمپلینٹ کو شکایت کے بجائے کمپلین لکھا جاتا ہے اکثر۔ زبان جامد نہیں ہوتی۔ اس میں ارتقاء ہوتا رہتا ہے۔ اردو اور ہندی میں پہلے سے بہت سے انگریزی اور خاص طور پر پرتگیزی کے الفاظ شامل ہیں جیسے گلاس، بالٹی۔ اب انگریزی میں کوزے یا لوٹے کے لیے کوئی لفظ نہیں تو کیا انگریزی مفلس ہو گئی؟ جب زبان بنی تب جو کلچر تھا وہی چلے گا۔ 

اسی طرح انگریزی نے بہت سے الفاظ اردو اور ہندی یعنی ہندوستانی سے مستعار لیے جیسے مصالحہ۔ اب جو جس کلچر سے چیز آئے گی اس کو آپ اپنا خودساختہ نام دیں گے تو مزاحیہ لگے گا۔ جیسے کنڈوم کو کچھ لوگ آلہ بندش تولید کہتے اور اب یہ بھی فارسی کے الفاظ ہیں۔ 

زبان عوام بناتی ہے۔ جو وہ استعمال کریں وہی زبان ہے چاہے جہاں سے بھی آئے۔ الفاظ سے زبان نہیں بنتی۔ زبان گرائمر، رسم الخط اور انشاپردازی سے بنتی ہے۔ اسی میں آپ کوئی بھی لفظ مستعار لے کر استعمال کر سکتے ہیں۔ کیونکہ سب زبانیں ایک دوسرے سے الفاظ مستعار لیتی ہیں اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

مزید یہ کہ زبان عوام ہی بناتی ہے۔ روزمرہ محاورہ اور جو عمومی ہو گا وہی چلے گا۔ ورنہ ہمارا ایک پورا ادارہ ہے ادارہ فروغ قومی زبان جو ستر سالوں سے عوام کے ٹیکس پر پل رہا ہے اور اردو میں الفاظ کے متبادل بنا بنا کر لسٹیں شائع کرتا رہتا ہے مگر کوئی ان الفاظ کو پوچھتا بھی نہیں۔ اب لسٹ کی اردو بھی موجود ہے اور پرانی ہے۔ کسی کو معلوم ہے یا کوئی استعمال کرتا ہے؟ وہی لفظ چلے گا جو عوام میں آسان اور مقبول ہو گا۔ 

ڈاکٹر عاکف خان


عدنان خان کاکڑ کا جوابی کمنٹ: بندہ مشکل میں پڑے تو کسی پینڈو سے پوچھ لے. جیسے موٹر سائیکل کے سائیڈ بورڈ کا آپ چاہے جتنا مرضی نستعلیق ترجمہ کر لیں لیکن جو بات ٹاپا میں ہے وہ نہیں بنے گی. اسی طرح انگریز چاہے پک اپ کہیں اور امریکی ٹرک، لیکن اردو لفظ ڈالا ہی ہے

کیا ہندکو، پوٹھوہاری اور سرائیکی پنجابی کے لہجے ہیں؟

 

ڈاکٹر عاکف خان

اگر اس منطق سے جائیں کہ سب لہندا اور چڑھدا لہجے ہیں اور سب پنجابی ہی کے لہجے ہیں تو پھر زبانیں تاریخ میں کبھی جدا نہ ہوں نہ ان کا ارتقاء ہو۔ دری اور فارسی، پرتگالی اور ہسپانوی، ہندی اور اردو حتی کہ سرائیکی اور سندھی میں بھی اتنی مشابہت ہی ہے۔ 

یہ فیصلہ کرنا کہ کس کی زبان الگ ہے یا نہیں یہ عوام کا ہوتا ہے مرکز کا نہیں۔ یہ مرکزیت کی سیاست مقتدرہ کی سیاست ہے۔ اس سے حتی الامکان بچنا ہی چاہیے۔ وزیرستان کی پشتو بٹگرام کے پشتون کو سمجھ نہیں آتی، مگر پھر بھی وہ پشتو ہے۔ کیوں؟ کیونکہ وزیرستان والا بھی اسے پشتو ہی کہتا ہے اور بٹگرام والا بھی۔ اسی طرح ہرات میں دری بولنے والوں کو کبھی تہران سے کسی نے نہیں دھمکایا کہ یہ تو فارسی کا لہجہ ہے، تم گستاخ  نے اس کو الگ زبان کیوں بولا؟ اور کیا مجال ہندکو سرائیکی پہاڑی پوٹھوہاری غلام قوموں اور غلام لہجوں کی کہ پنجابی کے تسلط کو چیلنج کریں۔ بہت بری بات۔ اپنی اوقات میں آ جائیں۔ ہمیں زیادہ پنجابی لوگ اور علاقہ چاہیے۔ زبردستی کوئی کسی شناخت میں شامل ہو سکتا ہے بھلا؟ کتنی مضحکہ خیز بات ہے۔ 

ایک اعتراض ہے کہ ہندکو سرائیکی بولنے والا کینیڈا جا کر خود کو پنجابی کہتا ہے کیونکہ وہاں اسے سکھ کمیونٹی کا “آشیرباد” چاہیے۔ جس کو جس زبان سے فائدہ ہو گا وہ بولے گا۔ اس میں برا منانے والی کون سی بات؟ مجھے لگتا ہے کہ کوئی خوش ہوتا ہے اچھا دوستانہ ماحول پیدا ہوتا ہے میں اس کے ساتھ اس موقع کے حساب سے چینی، اردو، پنجابی، سرائیکی، انگریزی، ٹوٹی پوٹھی عربی فارسی ہسپانوی تک ٹھوک جاتا ہوں۔ ایسے ہی لوگ ایک دوسرے سے کمیونیکیٹ کرتے ہیں۔ 

کسی ہندکو والے نے فیسبک میں اصرار کیا کہ ہندکو کا اساں تساں والا لہجہ پنجابی ہے جو فیسبک کو اپنانا چاہیے تو ایک بہت پیارے دوست جو وہاں کام کرتے تھے انہوں نے بڑی مشکل سے سب کو سمجھایا کہ لاہور امرتسر والی پنجابی سٹینڈرڈ ہے۔ تو ایک تضاد تو یہیں پر آ گیا، ہندکو بولنے یا ہزارہ والے نے جب کہا کہ اس کی زبان پنجابی ہے تو آپ کو سٹینڈرڈ لہجہ یاد آ گیا کہ یہ وت، اساں، تساں، کرساں کہاں سے پنجابی ہو گئی؟ پہلے خود ہی اسے بتاتے ہیں کہ یہ پنجابی ہے۔ جب وہ کہہ رہا ہے یہ پنجابی ہے تو کہتے ہیں نہیں یہ پنجابی نہیں ہے یا اصل پنجابی نہیں ہے۔ یہیں سے دیکھ لیں تضاد۔ تضاد نہ بھی ہو، چلیں لہجہ ہی مان رہے ہیں مگر ایک کمتر اور غیر سٹینڈرڈ۔ تو اس سے بہتر نہیں اس کو الگ ہی زبان ماننے دیں یا پھر وہ برابری پر آ جائے گی اور فیسبک کو ہندکو کو الگ سے لانا پڑے گا؟ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ ارادی طور پر ایسا کر رہے ہیں مگر یہی غیرارادی تعصب اور احساس برتری ہے پنجابی زبان اور سیاست کا جس کے باعث سرائیکی، پوٹھوہاری، پہاڑی اور ہندکو اپنی الگ لسانی شناخت پر مصر ہیں۔ آپ کھلم کھلا ڈیکلیئر کر دیں کہ یہ زبانیں الگ ہیں تا کہ کینیڈا میں بیٹھے سکھوں کو بھی علم ہو جائے کہ ہندکو پنجابی نہیں ہے۔ وہاں تو ایک پختون بھی سکھ کے ساتھ پنجابی ہی بول رہا ہوتا ہے، سکھ کو کوئی ٹینشن نہیں کہ اصلا پنجابی ہے یا یہ تو کشمیری بٹ ہے جو سو سال سے لاہور میں بسا ہے۔  

نیشنلزم تو ایکسکلوزو اور پیوریٹن ہوتا ہے، یہ ریاستی ون یونٹ والا پنجابی نیشنلزم جو زبردستی سب کو ایک اور مرکز میں شامل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس کو کم از کم ہمارے پڑھے لکھے سمجھدار دوستوں کو سیکنڈ نہیں کرنا چاہیے۔ زبانوں کا ارتقاء بیشک ڈسکس ہونا چاہیے، پنجابی بھی کبھی سندھی کا لہجہ تھی مگر یہ حاکمیت، مرکزیت اور غیرضروری تسلط کوئی ترقی پسند اور ریشنل اپروچ نہیں ہے۔  

اور کسی نے پنجابی کا مذاق نہیں اڑایا۔ یہ جذباتیت ہے۔ ایک سٹیٹ سپانسرڈ پراجیکٹ کا مذاق اڑایا گیا جو کہ بلوچوں اور پختونوں کے جائز مطالبات کو لسانیت کے نام پر کرش کرنے کے لیے بنا ہے۔ پنجابی زبان یا پنجابیوں کو کس سے خطرہ ہے؟

(ڈاکٹر عاکف خان)

اسی پر کچھ مزید کمنٹس جو فیسبک پوسٹس میں کیے گئے۔ 

سٹیٹ سپانسرڈ پنجابی نیشنلزم جس کے سربراہ عمار شاہ کاظمی پنجابی ہیں دنیا کا وہ واحد نیشنلزم ہے جو زبردستی دوسری قوموں اور زبانوں کو بھی اپنے اندر شامل کرنے پر مصر ہے۔

———————————

پختون نسل پرست ہزارہ والوں کو نفرت سے پنجابیان کہتے ہیں، پنجاب والے محبت سے۔ نہ یہ پورا چھوڑتے ہیں نہ وہ پورا اپناتے ہیں۔ بیچ میں چمگادڑ بنایا ہوا ہے۔ جب اپنی الگ شناخت کی بات کریں تو اے این پی والوں کو یاد آتا ہے کہ ہزارہ میں تو ہندکو بولنے والے نسلا پختون ہیں اور پنجابی نسل پرستوں کو یاد آتا ہے کہ ہندکو تو پنجابی کا لہجہ ہے۔ اجی جو پوٹھوہاری اور پہاڑی پنجاب میں آتے ہیں، ان کو تو پورا اور برابر کا پنجابی مانیے پہلے۔ پھر ہندکووانوں یا ہزارہ والوں کی باری آئے گی۔ سرائیکیوں سے بھی یہی مخمصہ ہے۔ یا تو پھر چھوڑیں سب فضول ایسی بحثیں، ہر ایک کو سمجھنے دیں جو وہ خود کو سمجھتا ہے۔ ڈائیورسٹی کو سیلیبریٹ کریں۔

——————————

سبحان احمد صاحب کا کمنٹ

پنجابی نیشنلسٹ اس ملک میں سب سے زیادہ مضحکہ خیز لوگ ہیں۔ پنجابی قوم پاکستان کی سب سے زیادہ پریولیجڈ قوم ہے اب وہ اپنے قومی حقوق کا مطالبہ کس سے کریں؟ اگر انکی زبان اپنا جائز مقام حاصل نہیں کر سکی تو اس کا گلہ وہ کس سے کریں؟ ایک بیرونی دشمن تو درکار تھا لہذٰا انہوں نے ہندوستانی اور افغانی مہاجروں کی صورت میں دو دشمن تلاش کیے جو مبینہ طور پر پنجابی قوم کے مفادات کو نقصان پہنچانے میں سب سے آگے ہیں۔ مزید ایک دشمن جنوبی پنجاب کے بلوچوں کی صورت میں دریافت ہوا جو پنجاب کی تقسیم کی سازشیں کر رہے ہیں۔

بجائے یہ کہ یہ اپنی زبان کی بحالی کے لیے کام کرتے، تراجم کرتے، ادب تخلیق کرتے، پنجابی میں معیاری فلمیں بناتے جو لبیکیوں کی مذہبی انتہا پسندی کو کاونٹر کرتی، یہ ایک فسطائی تحریک بننے کی جانب گامزن ہیں۔

پاکستان میں لسانی و نسلی شناخت کی متقاطعیت یا انٹرسیکشنالیٹی

 

پاکستان میں لسانی و نسلی شناخت کی متقاطعیت یا انٹرسیکشنالیٹی

ڈاکٹر عاکف خان

سب سے بڑا مسئلہ پاکستان میں زبانوں کا یہ ہے کہ لائنیں کلیئر نہیں ہیں۔ اس کو تنوع کہیں یا خوبصورتی لیکن مسئلہ تب اجاگر ہوتا ہے جب شناختی سیاست اجاگر ہوتی ہے، اسے کوئی خود کرے یا وہ خود ہو وہ بہرحال اپنی جگہ موجود ہے اور اس منہ نہیں موڑا جا سکتا۔ یہ اچھی بات ہے یا بری یا یہ لائنیں کلیئر کی جا سکتی ہیں، چلیے دیکھتے ہیں۔ 

اس مسئلے پر بات نہیں کی جاتی جس کی دو بڑی وجوہات سمجھی جاتی ہیں۔ ایک یہ ہے کہ مقتدرہ ناراض ہو گی یا نسل پرست دوسری یہ کہ مرکز کا کنٹرول کمزور پڑے گا۔ لیکن یہ بلی کو دیکھ کر کبوتر کی آنکھیں بند کرنے والی بات ہے۔ پچھلے دنوں مریم نواز نے صوبہ ہزارہ کی بات کی تو ایمل ولی نے نعرہ لگایا کہ یہ صوبہ سرحد کو تقسیم کرنے کی سازش ہے۔ صوبے بنانا پنجاب سے شروع کریں۔ جب پنج آب سے یہ بات شروع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہی عذر سامنے آتا ہے کہ پنجاب کو تقسیم کرنے کی سازش ہے۔ بھارت میں آدھا پنجاب رہ گیا تھا جسے انہوں نے مزید صوبوں میں تقسیم کر دیا، کیا اس سے پنجاب تقسیم ہو گیا؟ 

خیر شناخت کی طرف آتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی پیچیدہ اور انٹرسیکشنل معاملہ ہے جس کے لیے لائنیں نہیں کھینچی جا سکتیں۔ جیسے پختون نیشنلسٹوں کا دعوی ہے کہ ہزارہ میں ہندکو بولنے والے پختون آباد ہیں جبکہ پشتو بولنے والوں کی بھی کثیر تعداد ہے۔ پنجابی نیشنلسٹوں کا دعوی ہے کہ ہندکو، پہاڑی اور پوٹھوہاری پنجابی کے لہجے ہیں۔ اب پہلے یہی طے نہیں ہو سکتا کہ یہ نسلی شناخت ہے یا لسانی۔ صوبہ سرحد میں پشتو بولنے والوں کو پختون یا پشتون سمجھا جاتا ہے۔ اے این پی کے دوست کہتے ہیں کہ پختون علاقوں میں بسنے والے سب پختون ہیں۔ 

اب اگر پہلی بات درست ہے تو ہزارہ میں بسنے والے ہندکو سپیکنگ نسلا پختون پختون کہلائیں گے اور اگر دوسری بات درست ہے تو کیا پنجاب میں بسنے والے آفریدی، کاکڑ اور نیازی پختون نہیں کہلائیں گے؟ اسی طرح اگر ہزارہ میں بانے والے پختون ہندکو بول رہے ہیں اور اگر ہندکو پنجابی کا لہجہ ہے اور الگ زبان نہیں ہے تو کیا وہ پختون پنجابی ہو گئے؟ کیا پنجاب میں بسنے والے پختون نسلا پنجابی ہیں اگر وہ پنجابی مادری زبان کے طور پر بولتے ہیں؟ اسی طرح نسلا بلوچ سرائیکی بولنے والے بھی ہیں اور سندھی بولنے والے بھی، پختون بھی سندھی بولنے والے ہیں، انہیں کیا کہا جائے گا؟ یو کے میں پیدا ہونے والا پاکستانی بچہ جو صرف انگریزی سمجھتا اور بولتا ہے، کیا وہ انگریز ہو جائے گا؟ 

اے این پی کی مرکزی قیادت میں بلور خاندان پیش پیش ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ پشاور کے ہندکو سپیکرز ہیں۔ کیا وہ پنجابی ہیں یا پختون ہیں۔ اسی طرح کراچی میں مہاجروں کو اردو سپیکر کہا جاتا ہے مگر ان میں گجراتی، بنگالی، پنجابی اور کئی دوسری زبانیں بولنے والے لوگ بھی موجود ہیں۔ سب مہاجر یو پی سے نہیں آئے۔  

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ زبان ایک دم تبدیل نہیں ہوتی۔ جنوب کی سرائیکی مختلف ہے، ڈی آئی خان کی مختلف۔ پنجابی شمال میں جاتے جاتے پوٹھوہاری اور ہندکو کے نزدیک ہو جاتی ہے اور جنوب میں سرائیکی سے ملتی جلتی ہے۔ ہری پور، ایبٹ آباد اور مانسہرہ کی ہندکو ایک دوسرے سے بھی مختلف ہے اور مغرب میں موجود تناول اور مشرق میں موجود گلیات کی ہندکو سے بھی۔ شنکیاری، بفہ، ڈوڈھیال اور چھتر میں ہندکو اور پشتو مکس بولی جاتی ہے۔ ایبٹ آباد، حویلیاں اور ہری پور کے نسلا پختون لوگوں کی ہندکو میں پشتو کے الفاظ اور چھاپ ہیں اور ان کی ہندکو ہزارہ کے قدیم قبائل جیسے گجر، عباسی، کڑلال، مغلوں اور اعوانوں سے تھوڑی مختلف ہے، جبکہ کلچر بھی کافی مختلف ہے۔  

کیا صوبے بنانے سے شناخت کا یہ انٹرسیکشنکل شناختی مخمصہ حل ہو سکتا ہے؟ اس کا ایک سادہ حل ہے جو کہ کوئی بھی ماننے کو تیار نہیں۔ وہ یہی ہے کہ جو خود کو جو سمجھتا ہے سمجھنے دیجیے۔ کسی کو زبردستی نہ اپنے میں شامل کریں نہ کسی کو زبردستی اپنے میں سے نکالیں۔ تو عرض ہے کہ یہ انٹرسیکشنل شناخت ہے۔ اپنی زبان اور بولی کو منانے والے دن دوسروں کی بولیوں پر ڈاکے نہ ڈالیں، اپنی زبان اور کلچر کو منائیں، پھر کسی کو کسی پر تنقید یا ایک الزام کے تحت “مذاق اڑانے” کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ 

(ڈاکٹر عاکف خان)

مادری زبان اور معاشرتی ارتقاء

 

مادری زبان اور معاشرتی ارتقاء

تحریر: ڈاکٹر عاکف خان

اگرچہ مادری زبان کو زندہ رکھنا ضروری ہے لیکن ضروری نہیں کہ زبان ہی شناخت کو طے کرے۔ شناخت کو طے کرنے میں زبان کے ساتھ ساتھ اور بہت سارے عوامل ہیں جیسا کہ ہجرت کرنے والے بڑے بڑے قبیلوں کی مثالیں دیکھ لیں۔ ضرورت کے تحت وہ نئی جگہ کی زبان کے ساتھ اپنی زبان کو منطبق کر لیتے ہیں۔ لیکن رسوم و رواج، رہن سہن، معاشرتی اصول، لباس، مذہب وغیرہ وہی رہتے ہیں۔ جیسے ہزارہ ڈویژن یا پنجاب اور کراچی میں بسنے والے پختون پشتو نہیں بول سکتے لیکن باقی رسوم و رواج کافی حد تک وہی ہیں جو پشتو بولنے والوں یا پشتون علاقوں کے ہیں۔ اسی طرح پشتون علاقوں میں بسنے والے دوسری زبانیں بولنے والوں کے کلچر پشتون کلچر جیسے ہیں جیسے کوہستانی، پشاور اور کوہاٹ کے ہندکو سپیکر بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگ جیسے خیبر پختونخواہ اور افغانستان کے سکھ، ہندو اور یہودی مذاہب کے لوگ۔ نئی زبان میں پرانے الفاظ کی آمیزش سے زبان کا کلچر بھی قائم رہتا ہے جیسا کہ اردو میں فارسی، عربی، ہندی، انگریزی اور پرتگیزی زبانوں کے الفاظ اور اثر ابھی تک موجود ہیں۔ اور یہ ضروری نہیں کہ زبان کی تبدیلی کسی جبر (opression) یا استحصال کا نتیجہ ہو۔ جیسے ہزارہ ڈویژن کے پختون تو حملہ آور تھے باہر سے آئے تھے لیکن مقامی لوگوں کی زبان اپنانی پڑی اگرچہ کلچر قائم رکھا۔ آج بھی اس علاقے میں ہندکی (ہندکو بولنے والے مقامی قبائل جیسے گجر، مغل، عباسی، سردار اور اعوان وغیرہ) اور پٹھان (ہندکو بولنے والے دوسرے علاقوں سے آنے والے پختون قبائل، تنولی، جدون، ترین، یوسفزئی، سواتی وغیرہ) کی مخاصمت موجود ہے جبکہ اٹک پار والے پختون ان دونوں گروپس کو پنجابی گردانتے ہیں۔ اسی طرح مانسہرہ ڈویژن، بٹگرام یا ہری پور (سری کوٹ) کے پشتو بولنے والے علاقوں کے لوگوں کی دو مادری زبانیں ہیں، ہندکو بولنے اور پشتو اگرچہ ایک کا اثر زیادہ ہوتا ہے اور دوسری دوستوں اور پڑوسیوں کے ساتھ بولی جاتی ہے۔ اسی طرح پشتون علاقوں میں ہندکو بولنے والے بھی موجود ہیں جیسے صوابی (ہیملٹ)، پشاور، کوہاٹ اور بنوں وغیرہ میں یا ڈیرہ اسماعیل خان والی سرائیکی جو ہندکو اور سرائیکی کا درمیانی لہجہ ہے۔

  اسی طرح بعض لوگ باقی کلچرل عناصر کو بھول کر صرف زبان کو یاد رکھتے ہیں۔ جیسے مغرب میں بسنے والے ایرانی جو پوری طرح مغرب زدہ ہونے کے باوجود گھروں میں فارسی بولتے ہیں۔

لہذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک بچہ جس کو شروع سے اردو سکھائی گئی گھر میں لیکن اس کے ماں باپ کی مادری زبانیں ایک یا دو ہیں، جیسا کہ اکثر گھرانوں میں ہے اور بچے اردو بول رہے ہوں۔ انہیں اپنی مادری زبانیں سیکھنے میں دس پندرہ سال لگتے ہیں۔ کیا وہ اردو میں سوچیں گے یا اپنے ماں یا باپ میں سے کسی کی زبان میں؟ یقینا اردو میں۔ لیکن ان کو کیا آپ دو تین زبانیں اکٹھی سکھا سکتے ہیں؟ اگر سکھا بھی دیں تو مادری زبان کونسی ہو گی اور کیا ایک شخص بہت ساری مادری زبانوں کا حامل ہو سکتا ہے؟ کیا وہ بیک وقت کئی زبانوں میں نہیں سوچ سکتا اور کیا یہ ضروری ہے کہ صرف ایک بالغ اور کئی زبانیں بولنے والا صرف مادری زبان میں سوچے؟ اس پر کوئی تحقیق موجود نہیں یہ صرف ایک مشاہداتی رائے ہے جو کافی حد تک درست ہے لیکن مطلق نہیں ہے۔ سائنسدانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ زبان دماغ کا فریم ورک تبدیل کرتی ہے۔ نئی زبانیں سیکھنے اور بولنے سے آپ کے دماغ کے نیورل پیٹرن تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ملٹی لنگوئل بچے حساب اور سائنس یا پرابلم سالونگ میں تیز ہوتے ہیں۔ تو کیا بچوں کو ایک زبان پر محدود کرنا درست ہے؟

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک گجراتی بولنے والی فیملی نے 75 سال پہلے پاکستان کا رخ کیا اور وہ کراچی میں آن بسے اور ان کے نئی نسل صرف اردو بولتی ہے تو کونسا ایسا لمحہ ہو گا جہاں ان کی مادری زبان گجراتی سے اردو میں تبدیل ہوئی اور جہاں بچوں نے اردو میں سوچنا شروع کیا؟ اسی طرح وہ پختون قبائل جو پنجاب، ہندوستان یا ہزارہ ڈویژن میں ایک دو یا تین صدیوں پہلے جا کر بسے اور جو کلچرلی پشتون ہی ہیں مگر زبان تبدیل ہو گئی تو کیا ان کی شناخت بھی تبدیل ہو گئی؟ مادری زبان کا شناخت یا قومیت سے تعلق کس حد تک ہے اور شناخت طے کرنے میں کس حد تک فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے یہ کوئی بھی طے نہیں کر سکا نہ کر سکتا ہے۔

مزید براں وہ زبانیں جو وقت کے ساتھ معدوم ہوتی جا رہی ہیں ان کو محفوظ کرنے کے لیے کیا سدباب کیے جائیں؟ کیا بچوں کو ان زبانوں میں تعلیم دینا ہی واحد حل ہے؟ کیا وہ ایسی زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے معاشرے میں پیچھے نہیں رہ جائیں گے جس میں کوئی تراجم، لٹریچر اور کتب موجود نہیں؟ کیا  ماہرین لسانیات (لنگوئسٹس) کا کام کسی زبان کو اس طرح محفوظ کرنا ہے؟ ماہرین لسانیات ایسی زبانوں کے رسم الخط تجویز کر کے اس زبان کی کہانیاں، حکایات، محاورے، لہجہ اور تحفظ وغیرہ ہی محفوظ کرتے ہیں وہ زبان کے ایک قدرتی معاشرتی ارتقاء کو روکنے کی کبھی بھی ترویج نہیں کرتے نہ اس کو ایک معاشرتی طور پر صحت مندانہ عمل سمجھتے ہیں۔ بعض ادبی حلقے اور زبان دان زبانوں کے حوالے سے رجعت پسندی اور زبان کی حفاظت اور "پاکیزگی اور طہارت" پر یقین رکھتے ہیں (جس کا میں بالکل حامی نہیں ہوں) لیکن وہ ماہرین لسانیات نہیں ہوتے وہ صرف ایک زبان کے ماہر ہو سکتے ہیں زبانوں کی سائنس اور علم کے ماہر نہیں ہوتے۔ یہ ایسا ہے جیسے ایک شخص فوٹو شاپ کا ماہر ہو، آپ اسے سافٹ ویئر انجینئر نہیں کہہ سکتے۔ 

 مادری زبان کی احیاء کی تحریکیں بالکل درست ہیں ضروری ہیں اور بالکل چلنی چاہیئں۔ ریاست کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ایک زبان کو عوام پر مسلط کیا جائے۔ اپنے بچوں کو مادری زبان بھی سکھانی چاہیے لیکن یہاں پر یہ خیال بھی رکھنا چاہیے کہ معاشرتی ارتقاء نہ تو ریاست کا تابع ہوتا ہے نہ قوم پرستی کا۔ ریاست تسلط سے زبان کو تبدیل کر سکتی ہے بالکل بجا، تحریکیں زبان کا احیاء بھی کر سکتی ہیں یہ بھی درست ہے اور میں اس دوسری والی پوزیشن کا حامی بھی ہوں۔ لیکن پاکستان جیسے ملک جہاں زبان اور کلچر کا تنوع بہت زیادہ ہے وہاں اگر ریاست کا زبان مسلط کرنے کا جبر درست نہیں تو قومیت پسندوں کا ایک زبان کا نفاذ ہی درست ماننا بھی درست نہیں بلکہ اوپر بیان کیے گئے عوامل جیسے کہ معاشرے میں تنوع، ارتقاء، علم کی ترویج اور پیچیدہ معاشرتی ساخت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے اور ایک ترقی پسند اور ریشنل پوزیشن کو اپنانا چاہیے۔ کسی بھی زبان کی سیاست اچھی بری ہو سکتی ہے، افادیت بھی کم زیادہ ہو سکتی ہے لیکن کوئی زبان بحیثیت خود اچھی بری نہیں ہوتی۔