Showing posts with label Religion. Show all posts
Showing posts with label Religion. Show all posts

Friday, July 5, 2024

سازشی نظریات کیسے پھیلتے ہیں اور ان سے کیسے بچا جائے؟

 

تحریر: ڈاکٹر عاکف خان

‎ کوئی بھی واقعہ ہو ہم لوگ فورا اپنے سازشی دماغ لڑانا شروع کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ حال ہی میں ایک خاتون کا ٹی وی پر مکالمہ ہوا تو دو تین دن میں لوگوں نے اس میں بھی سازش تلاش کر لی کہ یہ سب سکرپٹڈ تھا۔ اسی طرح چاند پر جانا، فلیٹ ارتھ، کووڈ کے حوالے سے سازشی تھیوریاں وغیرہ۔ آئیے اس رویے کا سائنسی، نفسیاتی اور فسلسفیانہ رخ سمجھنے کی کوشش کریں کہ لوگ سازشی نظریات یا کانسپریسی تھیوریز کی طرف زیادہ رجحان کیوں رکھتے ہیں۔ 

‎سازشی تھیوریوں کے متعلق نفسیات دانوں کا خیال ہے کہ یہ سست ذہن کی پیداوار ہوتی ہیں۔ یعنی جو لوگ سوچنا نہیں چاہتے وہ اس طرح کی سہل پسندی والی توجیہات کو ماننا بہتر سمجھتے ہیں جو آسانی سے دستیاب بھی ہوتی ہیں اور جس کے لیے زیادہ علم یا مطالعہ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ 

‎کینٹ یونیورسٹی کی سوشل سائیکالوجی کی پروفیسر ڈگلس کینٹ کے مطابق سازشی نظریات یا کانسپریسی تھیوریز بنانے اور ماننے والے زیادہ تر کم پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ذہین نہیں ہوتے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کی تربیت ایسے نہیں کی گئی کہ وہ غلط اور درست معلومات میں فرق کر سکیں۔ اور کم پڑھا لکھا ہونے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان کے پاس ڈگریاں نہیں ہوں گی۔ پاکستان کے تعلیمی نظام میں مثال کے طورپر جیسے بنیادی سائنسی یا معاشرتی علوم کی تعلیم مفقود ہے وہاں آپ یہ سمجھ لیں کہ سوشل سائنسز یا معاشرتی علوم کے لوگ سائنسی علوم سے نابلد ہوتے ہیں اس لیے وہ سائنسی علوم سے متعلق مواد میں سازشی نظریات کا شکار بن جاتے ہیں جبکہ سائنسی علوم والے معاشرتی علوم جیسے عمرانیات، پولیٹیکل سائنس، تاریخ یا نفسیات سے نابلد ہوتے ہیں تو معاشرتی مسائل و معاملات جیسے جمہوریت، خواتین کے حقوق، مذہبی تقسیم اور رجعت پسندی، انٹرنیشنل ریلیشنز اور معاشیات وغیرہ کے معاملات میں سازشی نظریات پر یقین کر لیتے ہیں اگرچہ دونوں گروپس کے پاس اپنی فیلڈ میں پی ایچ ڈی تک کی ڈگریاں بھی موجود ہو سکتی ہیں۔ آپ نے اپنے اردگرد دیکھا ہو گا کہ سائنس میں پی ایچ ڈیز معاشی و معاشرتی معاملات میں جذباتیت اور جہالت کا مظاہرہ کرتے ہیں جبکہ معاشرتی علوم کے ایکسپرٹس اور ڈگری ہولڈرز میڈیکل سائنس کے بجائے جادو ٹونے پر یقین  رکھتے ہیں اور ویکسینز وغیرہ کو سازش سمجھتے ہیں۔ اگرچہ یہاں تو کایا ہی پلٹ ہے، میں نے کیمسٹری کے پی ایچ ڈیز کو ہومیوپیتھی جیسے فراڈ پر یقین کرتا اور ساشل سائنسز والوں کو بابوں سے دم کرواتا پایا ہے۔ 

‎اب لوگ سازشی تھیوریوں پر یقین کیوں کرتے ہیں اور کیا اب یہ رجحان ذیادہ ہو گیا ہے؟ ڈاکٹر ڈگلس کے مطابق ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ یہ رجحان بڑھا ہو، مگر چند بڑے واقعات کے دوران اس رویے میں اضافہ دیکھا جاتا ہے جیسے مون لینڈنگ یا کوووڈ کے وقت۔  اگرچہ سازشی نظریات پر یقین کرنے والے لوگ ہمیشہ معاشرے میں اسی تناسب سے اکثریت میں موجود رہے ہیں۔ چاہے سقراط کی سزا ہو، ہپاشیا کے جسم کی کھال کھینچنا، ابن رشد کو مسجد کے ستون سے باندھ کر اس کے منہ پر تھوکنے والے، برونو کو جلانے والے، گلیلیو سے معافی منگوانے والے یا ڈاکٹر عبدالسلام کے نوبیل کو جعلی قرار دینے والے۔ 

‎موٹیوز یا محرکات پر آئیں تو اس کے تین ‎نفسیاتی محرکات ہوتے ہیں۔ پہلا ہوتا ہے علمی محرک، یعنی کہ ہر انسان کے اندر موجود تجسس۔ چونکہ لوگوں کو یہ نہیں سکھایا جاتا کہ درست معلومات کہاں سے لینی ہیں یا ان کی درست معلومات تک رسائی مشکل بنائی جاتی ہے تو وہ آسانی سے دستیاب غلط معلومات جیسے سوشل میڈیا  کی وائرل ویڈیوز اور فیک نیوز جو کہ سمجھنے میں بھی آسان ہوتی ہے اور اس کے لیے زیادہ مطالعہ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، اس پر یقین کر لیتے ہیں۔ اور چونکہ اپنے ریشنل مائنڈ یا سوچنے والے ذہن کو بیوقوف بنا کر اور لاعلم رکھ کر خود کو سوچنے کی اذیت سے بچانا بھی ہوتا ہے جو کہ ہمیں دوسرے محرک پر لے کر جاتا ہے۔  

‎دوسرا نفسیاتی محرک وجودیت سے متعلق ہے۔ میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں۔ ہر انسان کو اپنے آپ کو محفوظ رکھنے اور سمجھنے کی طلب ہوتی ہے۔ یہ انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ جسے بچاو یا سروائیول بھی کہتے ہیں۔ اس کے لیے انسان کو اپنے ماحول میں ایک طاقت اور کنٹرول کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب کوئی شاکنگ یا انہونا واقعہ ہوتا ہے تو انسان کو اپنا وجود، طاقت اور معاملات پر گرفت یا کنٹرول خطرے میں لگتا ہے۔ لہٰذا وہ یا تو وہ کنٹرول واپس لینے کی سہی کرتا ہے یا یہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ کنٹرول اور طاقت اس کے ہاتھ سے کیسے اور کس نے چھینی اور کیا وہ اس کے بارے میں کچھ کر سکتا ہے؟  اگر کچھ نہیں کر سکتا تو کم از کم کوئی ایسی توجیح موجود ہے جو یہ بتائے کہ اس کے پاس کنٹرول کیوں نہیں ہے۔ یہاں پر سب سے آسان توجیح سازشی تھیوریوں کی شکل میں موجود ہوتی ہے۔ ریسرچ نے یہ ثابت کیا ہے کہ توہم پرست، یا عرف عام میں وہمی اور وہ لوگ جن کے اختیار محدود ہو سازشی نظریات کی طرف زیادہ جھکاو رکھتے ہیں۔ خیر سے مملکت خداداد میں دونوں خصوصیات کے حامل لوگ بدرجہ اتم موجود ہیں۔ 

تیسرا نفسیاتی محرک معاشرتی ہے۔ ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ اسے معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ ہر انسان اپنے آپ کو اچھا سمجھنا چاہتا ہے جسے عزت نفس بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی اپنے آپ کو بہتر سمجھنا، اپنے بارے میں بہتر گمان رکھنا۔ اس کا ایک طریقہ سب معلومات کا ہونا ہے اور خاص طور پر ان معلومات کا ہونا جو دوسروں کے پاس نہیں ہیں۔ سازشی معلومات بکثرت موجود ہوتی ہیں اور ہر کوئی سمجھ رہا ہوتا ہے کہ صرف اسی کو یہ والی خبر معلوم ہے۔ باقی سب بھیڑیں ہیں کھوتے ہیں ناسمجھ ہیں کم عقل ہیں یا جاہل ہیں۔ خودپرست یا نرگسیت کے شکار گروپ اور معاشرے سازشی نظریات پر زیادہ یقین کرتے ہیں۔ اسی طرح ریسرچ نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ کم عمر لوگوں کئ بہ نسبت بڑی عمر کے لوگ بھی سازشی نظریات پر زیادہ یقین کرتے ہیں۔ واٹس ایپ انکلز کی اصطلاح آپ نے یقینا سنی ہو گی جن کے علم کی سورس واٹس ایپ فارورڈڈ میسجز ہوتے ہیں جن کا کوئی سر پیر، سائنسی ساکھ یا حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا۔ اور یہ لوگ اپنی عمر کو ان معلومات کی ترویج اور منوانے کے لیے اتھارٹی اور طاقت کے طور پر استعمال کرتے ہیں جیسا کہ دوسرے محرک میں بیان کیا گیا۔ اور وپ لوگ جو ایک سازشی نظریے پر یقین کرتے ہوں ان کا دوسرے سازشی نظریات پر یقین کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ یعنی کہ وہ لوگ جو چاند کی لینڈنگ کو فیک سمجھتے ہیں انہی کی اکثریت ویکسینز کو غیرمحفوظ اور زمین کو فلیٹ سمجھتی ہے اور مستقبل میں بھی یہی لوگ باآسانی سازشی نظریات کا شکار ہوتے ہیں۔ یعنی یہ ایک نفسیاتی امر ہے۔ 

آپ نے اکثر لوگوں کو عام طور پر پھیلی ہوئی جھوٹی خبریں انتہائی وثوق سے بتاتے ہوئے سنا ہو گا۔ آپ نے اکثر سیاسی پارٹیوں کے لوگوں کو خاص بیانیے اس طرح بیان کرتے دیکھا ہو گا جیسے یہ ان کے اپنے ذہن کی اختراع یا سوچ کا نتیجہ ہیں۔ مثال کے طور پر اسی واقعہ کے تناظر میں میری ایک دوست سے بات ہو رہی تھی۔ موصوف مائیکروبیالوجی میں پی ایچ ڈی ہیں اور این آئی ایچ میں کئی برس سے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے فورا ایک ہی رٹ پکڑ لی کہ لڑکی بدتمیز تھی، میں ساحل عدیم کی پرواہ نہیں کرتا۔ پھر انہوں نے وہی مثال دی جو ساحل عدیم نے پروگرام میں دی تھی، ابوجہل والی۔ اور ایسے جیسے یہ مثال انہوں نے خود ان کے ذہن کی تخلیق ہو۔ اس کا ہرگز یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ جھوٹ بولنا چاہ رہے ہوں۔ بعض اوقات جب آپ کسی بات پر اندھا یقین کر لیتے ہیں تو وہ بات آپ کو اپنی ہی تخلیق لگنا شروع ہو جاتی ہے۔ آپ نے اکثر یہ بھی دیکھا ہو گا کہ آپ کسی کو کوئی بات بتاتے ہیں تو وہ شخص کچھ عرصے بعد وہی بات دوسروں کو حتی کہ آپ کو انتہائی اعتماد سے ایسے بتا رہا ہوتا ہے جیسے وہ اس کی اپنی سوچ کا نتیجہ ہو۔ ہو سکتا ہے جس بات کو آپ اپنی سوچ کا نتیجہ اور اس کی چوری سمجھ رہے ہوں وہ بات آپ نے بھی کسی سے ایسے ہی سنی ہو مگر آپ کے دماغ نے محض معلومات کو رجسٹر کیا ہو سورس کو نہیں۔ 

یہاں یہ بھی نوٹ کریں کہ سورس کی افادیت، اہمیت اور ساکھ کو نہ سمجھنے سے یہ رویہ جنم لیتا ہے۔ جب آپ سورس کو یاد رکھنا، اس کی ساکھ اور اہمیت کو پرکھنا سیکھیں گے تو آپ کا ذہن/دماغ اس طرح ہر بات/معلومات کو بغیر سوچے سمجھے آگے نہیں پھیلائے گا۔ اس سے آپ کے اند سیلف اوئیرنیس بھی آئے گی کہ میں کر کیا رہا ہوں اور کیوں کر رہا ہوں اور کیا یہ عقلی، سائنسی یا معاشرتی طور پر مناسب اور سودمند ہے یا نہیں؟ 

اب چلتے ہیں اس سوال پر کہ ان سازشیوں کا علاج کیسے کیا جائے؟ نفسیات دانوں کے مطابق اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو پہلے متنبہ یا وارن کیا جائے۔ کہ ڈس انفارمیشن یا مس انفارمیشن کا چانس ہے اور آپ اس پر یقین کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ پرکھ لیں۔ مگر بعض اوقات اس کام میں بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور لوگ اپنا ذہن بنا چکے ہوتے ہیں۔ اس صورتحال میں بہتر طریقہ لوگوں کے سامنے حقائق رکھنے کا ہے۔ چند لوگ جو علمی بددیانتی کے مرتکب ہوں، جن کے لیے اپنے اعتقادات سے ہٹنا مشکل ہو یا جو خودپسندی اور اناپرستی میں مبتلا ہوں، ان کے علاوہ باقی لوگ حقائق کو دیکھ سمجھ کر اصل بات مان لیتے ہیں اور سازشی نظریے کو مسترد کر دیتے ہیں، اگرچہ ایسے لوگ تعداد میں کم ہوتے ہیں۔ 

چنانچہ اگلی مرتبہ جب آپ کے سامنے کوئی سازشی نظریہ حتی کہ کوئی ببی بات کی جائے تو اس کو اچھی طرح سوچ سمجھ کر پرکھیں اور پھر تسلیم یا مسترد کریں۔ اگرچہ یہ مشکل کام ہے اور ہمیں بچپن سے کریٹیکل تھنکنگ نہیں سکھائی جاتی مگر انٹرنیٹ اور جی پی ٹی ماڈلز کے ٹول کو استعمال کر کے حقائق تک پہنچا جا سکتا ہے۔ یہاں پر اکثر لوگوں کے ذہن میں یہ سوال آئے گا کہ ہمیں کیسے علم ہو گا کہ کون سا سورس یا انفارمیشن درست ہے۔ انٹرنیٹ پر فیکٹ چیکنگ کے کئی کورسز موجود ہیں آپ ان سے استفادہ کر سکتے ہیں جیسا کہ رائٹرز کا جرنلزم کا بنیادی فیکٹ چیک کورس۔ اس کے علاوہ سائنسی طرز عمل اور سائنسی طریقہ کار کی سمجھ بوجھ بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ امید ہے کہ اس تحریر سے لوگوں کو سازشی نظریات سے بچنے میں مدد ملے گی۔ 


ہومیوپیتھی فراڈ کیوں ہے؟

 
Homeopathy is a pseudoscience

For English version of this article, click on the link at the end of this article.

ہومیوپیتھی، ایک ایسی پریکٹس جو 18ویں صدی میں وجود میں آئی، آج کی جدید طب میں تنازع کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ اس کے وسیع پیمانے پر استعمال کے باوجود، سائنسدان اور طبی ماہرین اسے جھوٹی سائنس تصور کرتے ہیں۔ یہاں ہم ہومیوپیتھی کے اصولوں کو پرکھیں گے اور یہ جانچنے کی کوشش کریں گے  کہ ہومیوپیتھی سائنسی معیاروں پر کیوں پورا نہیں اترتی۔


ہومیوپیتھی کا تاریخی پس منظر

ہومیوپیتھی کو پہلی بار جرمن ڈاکٹر سیموئیل ہانیمن نے 1700 کی دہائی میں ایجاد کیا۔ انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ وہ اشیاء جو صحت مند لوگوں میں بیماری کی علامات پیدا کرتی ہیں، وہ بیمار لوگوں میں انہی علامات کو ٹھیک کرسکتی ہیں — اس اصول کو انہوں نے "مثل علاج مثل" کہا۔ یہاں یہ یاد رہے کہ یہ نظریہ ہانیمن کے ذاتی مشاہدات پر مبنی تھا، جیسے کہ ان کا سنکونا درخت کی چھال کے ساتھ تجربہ، جس کے بارے میں انہوں نے سمجھا کہ چونکہ یہ چھال ملیریا جیسا بخار پیدا کرتی ہے اود اس کا علاج بھی کرتی ہے تو ایک بیماری جیسی علامات پیدا کرنے والی کوئی بھی چیز اس بیمادی کا علاج بھی کرے گی۔ یہ ایسے ہو گیا کہ اگر آگ سے چھالے بنتے ہیں تو چھالے آگ میں جلانے سے ٹھیک ہو جائیں گے۔ تاہم، یہ نظریہ تجرباتی تصدیق اور سائنسی توثیق سے عاری تھا۔ اود ان کی اپنی بغیر کسی علم مشاہدے یا تجربے کی بنیاد پر ایک گپ تھی۔   

ہومیوپیتھی کے اصولوں میں خامیاں

مثل علاج مثل

"مثل علاج مثل" کا اصول یہ تجویز کرتا ہے کہ جو اشیاء صحت مند افراد میں بیماری کی علامات پیدا کرتی ہیں، وہ بیمار افراد میں انہی علامات کو ٹھیک کرسکتی ہیں۔ یہ تصور بنیادی طور پر ناقص ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کسی کو زہریلی گیس سے زہر دیا جائے، تو یہ غیر منطقی ہے کہ اس گیس کو مزید داخل کرنے سے انہیں ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ اس خیال کی سائنسی ثبوت کی کمی ہے اور یہ بنیادی طبی اصولوں کی مخالفت کرتا ہے۔ اتنا کامن سینس ایک جانور میں بھی موجود ہوتا ہے کہ اگر اسے کسی چیز سے نقصان ہو تو وہ اس کے پاس نہیں جاتا  

ہومیوپیتھ اکثر اپنی اس پریکٹس کی توجیح ویکسینیشن سے موازنہ کر کے کرتے ہیں۔ تاہم، یہ موازنہ گمراہ کن ہے۔ ویکسینز مدافعتی نظام کو اینٹی باڈیز پیدا کرنے کے لئے متحرک کرتی ہیں، جو ایک مکمل طور پر مختلف عمل ہے اس غیر تصدیق شدہ دعویٰ سے کہ مشابہ اشیاء بیماریوں کا علاج کرسکتی ہیں۔ ویکسینز میں مخصوص حیاتیاتی مالیکیول ہوتے ہیں جو مدافعتی ردعمل کو متحرک کرتے ہیں، جب کہ ہومیوپیتھک حل میں یہ خصوصیات نہیں ہوتیں۔

ڈیلویشن کے ذریعے طاقتور بنانا

ہومیوپیتھی کا دوسرا اصول یہ ہے کہ کسی مادے کو ڈائیلوٹ یعنی لطیف بنانے سے اس کی طاقت بڑھ جاتی ہے۔ یعنی رنگ میں زیادہ تیل ڈالیں تو وہ گاڑھا ہو جائے گا۔ کیا اس کو عقل تسلیم کرتی ہے؟ ہومیوپیتھز مسلسل ڈائلوشین کے ذریعے دوائی کو اتنا لطیف بنا دیتے ہیں کہ اس میں پیچھے کچھ بھی نہیں بچتا۔ مثال کے طور پر، 20C  میں ایک مادے کو 1 حصے میں 100^20 میں ڈائیلوٹ کیا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس میں اصل مادے کا ایک بھی مالیکیول موجود ہونے کا امکان نہیں ہے۔

یہ اصول کیمسٹری اور فزکس کے قوانین کی مخالفت کرتا ہے۔ تصور کریں کہ تھوڑی مقدار میں چینی کو پانی کی ایک جگ میں ڈال کر اسے بار بار ڈیلویٹ کریں۔ نتیجے میں آنے والا محلول میٹھا نہیں ہوگا؛ یہ صرف زیادہ لطیف یا ڈائیلوٹ ہو جائے گا۔ اس طرح، ہومیوپیتھک علاجوں میں کوئی فعال اجزاء نہیں ہوتے اور ان سے علاج کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

واٹر میموری ایفیکٹ کی تردید

ہومیوپیتھی کے حامی اکثر اپنے دعووں کو جواز فراہم کرنے کے لئے "واٹر میموری" ایفیکٹ کا حوالہ دیتے ہیں۔ یہ تصور جیکس بین وینسٹ کی شائع شدہ ایک مطالعہ سے مشہور ہوا، جس نے تجویز کیا کہ پانی ایک خاص حد سے آگے ڈیلویٹ ہونے والے مادوں کی یاد رکھ سکتا ہے۔ تاہم، اس مطالعہ کو سائنسی کمیونٹی نے بڑے پیمانے پر اور عوامی طور پر مسترد کر دیا۔

بی بی سی کے پروگرام ہورائزن کے ایک قابل ذکر تجربے نے واٹر میموری ایفیکٹ کی حمایت میں کوئی ثبوت نہیں پایا۔ مطالعے نے ظاہر کیا کہ عام پانی اور ہومیوپیتھک محلول میں فزیولوجیکل اثرات کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں تھا۔ بین وینسٹ کے نتائج کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوششیں بھی ناکام ہوئیں، جس سے اس نظریے کو مزید بدنامی ملی۔ نیچر کے جس آرٹیکل کا حوالہ دیا جاتا ہے وہ بعد میں کافی متنازعہ ثابت ہوا اور اس کے رزلٹ دوبارہ حاصل نہیں کیے جا سکے  اسی طرح ایک جاپانی سائنسدان کے پانی پر کام کا حوالہ دیا جاتا ہے جو کہ مشکوک کام ہے اور اس کا بھی کوئی ثبوت  ریسرا ثبوت نوبیل لاریٹ لیوک مانٹنیئر کے کام کا دیا جاتا ہے۔ وہ کام لیوک کے اپنے جریدے میں شائع ہوا جس کا وہ ایڈیٹر تھا۔ اور یہ لیوک کی اپنی فیلڈ بھی نہیں ہے۔ نہ ہی اس کے کام سے کچھ وضع ہوتا ہے۔ لہذا یہ تیسرا کام جسے سائنسی سمجھا جاتا ہے بے بنیاد ہے۔  

پلیسیبو ایفیکٹ اور مؤثریت کی تصوراتی

بہت سے لوگ ہومیوپیتھک علاج سے مثبت نتائج کی گواہی دیتے ہیں، یہ اکثر پلیسیبو ایفیکٹ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جب لوگوں کو یقین ہوتا ہے کہ علاج کام کرے گا، ان کا دماغ کیمیائی اور ہارمونل عمل کو متحرک کرسکتا ہے جو عارضی طور پر علامات کو راحت پہنچاتا ہے۔ یہ نفسیاتی اثر کبھی کبھی لوگوں کو یہ یقین دلانے کا باعث بن سکتا ہے کہ ہومیوپیتھک علاج مؤثر ہیں، حالانکہ علاج میں خود کوئی فزیالوجیکل اثر نہیں ہوتا۔

مثال کے طور پر، ہومیوپیتھز گردے کی پتھریوں کا علاج کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، جو اکثر علاج کے بغیر قدرتی طور پر ہی نکل جاتی ہیں۔ مریضوں کو زیادہ پانی پینے کی ہدایت دے کر، ہومیوپیتھز غیر ارادی طور پر پتھریوں کے قدرتی گزرنے میں مدد کر سکتے ہیں، پھر غلط طور پر اس علاج کی کامیابی کا سہرا لوگ ہومیوپیتھوں کو دیتے ہیں۔

ہومیوپیتھی کے ممکنہ نقصانات

جبکہ ہومیوپیتھک علاج عام طور پر ان کی زیادہ ڈائیلوشن کی وجہ سے محفوظ سمجھے جاتے ہیں، کہ چلو فائدہ نہیں نقصان بھی تو نہیں، سائیڈ ایفیکٹ نہیں یہ وہ۔ مگر یہ یقین مزید اور اہم خطرات پیدا کرسکتا ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں، جہاں قوانین نرم ہوتے ہیں، ہومیوپیتھ عام دستیاب ادویات جیسے پیراسیٹامول یا اسپرین کو ہومیوپیتھک علاج کے طور پر فروخت کرتے ہیں۔ یہ خطرناک ہوسکتا ہے، خاص طور پر ان افراد کے لئے جنہیں معدے کے السر یا ذیابیطس جیسی بیماریاں ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہومیوپیتھ سٹیرائیڈز استعمال کرتے بھی پائے گئے ہیں۔ گلوکوز کی بنی گولیوں سے شوگر کے مریضوں کو ہائپرگلیسیمیا ہو سکتا ہے اور ان کی بینائی تک جا سکتی ہے جو کہ کئی دفعہ ہو بھی چکا ہے۔ بعض ہومیوپیتھ شوگر کے مکمل علاج جا دعوی کرتے ہیں اور وہ چینی کے محلولوں گولیوں اور پاؤڈر سے مریضوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ، سنگین طبی حالات کے لئے ہومیوپیتھی پر انحصار کرنا مؤثر علاج میں تاخیر کا سبب بن سکتا ہے، جس سے صحت کے نتائج خراب ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر ایک مریض ایک شدید انفیکشن کے ساتھ ہومیوپیتھی کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ ضروری اینٹی بایوٹکس کو چھوڑ سکتا ہے، جس کے نتیجے میں سنگین پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ اس طرح سرطان یا شوگر کے مریض ہومیوپیتھی کی ادویات لیتے لیتے اصل علاج میں بہت دیر کر دیتے ہیں  بعض اوقات ہومیوپیتھ لوگوں کو اصل ادویات بند کرنے کی بھی ترغیب دیتے ہیں کہ ہماری دوا کے ساتھ انگریزی یا جسے یہ ایلوپیتھک دوائی کہتے ہیں (جو کہ ان کا اپنا گڑھا ہوا لفظ ہے) مت لو ورنہ ہماری دوا اثر نہیں کرے گی۔ اس سے بھی مریض کو زیادہ نقصان پہنچنے کا احتمال ہوتا ہے۔


ہومیوپیتھی کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے اور یہ پلیسیبو ایفیکٹ سے زیادہ کبھی مؤثر ثابت نہیں ہوئی۔ طبی ماہرین، جو برسہا برس تعلیم، کئی سال ہاوس جاب، مریضوں کے علاج، تجربے اور مشائدات سے گزرے ہوتے ہیں، علاج ہمیشہ انہی سے کروانا چاہیے۔ اگرچہ پاکستان اور دوسرے تعقی پذیر ممالک میں میڈیکل سائنس اور ڈاکٹرز کی کوتاہیاں اود سسٹم کی خرابی موجود ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بالکل عطائیوں کے ہتھے چڑھ کر اپنی اور اپبے پیاروں کی زندگی خطرے میں ڈال دیں۔


About the Author: The author holds a PhD in Chemistry with over 18 years of experience in research, teaching, and pharmaceutical industry. For more about his background and credentials, please visit his Google Scholar and ResearchGate profiles.

References

  1. Luc Montagnier's Journal: Wikipedia
  2. French Nobelist Escapes 'Intellectual Terror' to Pursue Radical Ideas in China, Science
  3. Benveniste's Paper on Water Memory Effect, Wikipedia
  4. The Horizon Test, BBC
  5. The Horizon Homeopathic Dilution Experiment, Wiley
  6. A Talk with a Homeopathic Practitioner - Part 1, YouTube
  7. A Talk with a Homeopathic Practitioner - Part 2, YouTube

Further Readings:


Click here for English version of this article.


Sunday, April 28, 2024

سائنس کیسے کام کرتی ہے اور ہمارے سوشل میڈیا دانشور

 

Science Experiment Vectors by Vecteezy

تحریر: ڈاکٹر عاکف خان

مختصراً سائنس ایسے کام کرتی ہے کہ جب آپ کوئی مشاہدہ کرتے ہیں اور اپنے سابقہ علم کی بنیاد پر کوئی مفروضہ بناتے ہیں تو سائنسی طریقہ کار کے مطابق آپ یہ نہیں کرتے کہ اس مفروضے کے حق میں ثبوت اور شواہد اکٹھے کرنا شروع کر دیں۔ یہ طریقہ کار بیسویں صدی سے پہلے استعمال ہوتا تھا اور اسے انڈکشن میتھڈ (Induction Method) کہتے تھے لیکن سائنس کی دنیا میں ایک فلسفی کارل پاپر (Karl Popper) آیا جس نے اس طریقہ کار پر اعتراضات اٹھائے اور سائینٹیفک میتھڈ (Scientific Method) کو نئے سرے سے ڈیفائن کیا۔ 


اب سائنس میں یہ ہوتا ہے کہ جب آپ کوئی مفروضہ بناتے ہیں تو اول اس کو رد کرنے کی سہی کرتے ہیں۔ یعنی ایسے تجربات اور مشاہدات نہیں کرتے جس سے وہ مفروضہ درست ثابت ہو بلکہ ایسے تجربات اور مشاہدات ڈیزائن کرتے ہیں جس سے وہ مفروضہ غلط ثابت ہو سکے۔ اس کو فالسیفیکیشن میتھڈ (Falsification Method or Falsifiability) یا رد کرنے کا طریقہ کہتے ہیں۔ اس طرح کئی تجربات بار بار کیے جاتے ہیں۔ اگر وہ مفروضہ غلط ثابت ہو جائے تو اس کو وہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ مگر اگر وہ بدستور غلط ثابت نہ ہو سکے تو اسے درست سمجھا جاتا ہے۔ لیکن مستقبل میں بھی اس بات کی گنجائش ہوتی ہے کہ کوئی نئے تجربات یا نئی ٹیکنالوجی سے کوئی ایسا تجربہ کرے جو اس مفروضے کو غلط یا مزید بہتر بنا سکے۔ 


دوسرا ضروری کام یہ کرنا ہوتا ہے کہ اپنے سارے طریقہ کار کو للھ کر متعلقہ سائنسی جریدے کو بھیجا جاتا ہے جہاں فیلڈ کا ایک بڑا ایکسپرٹ/سائنسدان بیٹھا ہوتا ہے جو اس کام کو پرکھتا ہے کہ کیا یہ واقعی سائنسی معیار پر پورا اترتا ہے یعنی کیا ان لوگوں نے تمام شواہد فالسیفیکیشن سے اکٹھے کیے ہیں۔ کیا بنیادی تجربات کے ساتھ سپورٹنگ تجربات بھی کیے گئے ہیں جسے کوروبوریٹیو ایویڈنس (Corroborative Evidence) یا تائیدی شواہد/تجربات کہا جاتا ہے جو کہ مفروضے کی نہیں ان تجربات کی تائید کرتے ہیں۔ 


تیسرے نمبر پر وہ ایکسپرٹ یہ سب متعین کرنے کے بعد بھی اس کام کو مزید دو سے چار اور بعض اوقات زیادہ ایکسپرٹس کو بھیجتا ہے جو اس کام کو تفصیل سے پڑھ کر اس میں سے غلطیاں نکالتے ہیں، اسے ریجیکٹ کرتے ہیں یا مزید بہتر بنانے کے لیے مزید کوروبوریٹیو ایویڈنس پر مبنی تجربات پروپوز کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ کام شائع ہوتا ہے۔ اس عمل کو پیئر ریویو (Peer Review) کہتے ہیں۔ ان پیئر ریویور (Reviewer) کو کام کرنے والے سائنسدان نہیں جانتے تا کہ وہ ان پر اثرانداز نہ ہو سکیں۔ اس کو سنگل بلائنڈ ریویو (Single Blind Review) کہا جاتا ہے۔ کچھ جریدے ڈبل بلائنڈ ریویو (Double Blind Review) استعمال کرتے ہیں۔ جس میں ریویور بھی کام کرنے والوں کو نہیں جانتے۔ مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی دوست۔ 


اس کے بعد یہ ہوتا ہے کہ کچھ سائنسی جریدے اس کام میں بہت سختی دکھاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی ساکھ مضبوط ہوتی ہے۔ جبکہ کچھ جریدے اس کام میں نرمی دکھاتے ہیں جس سے ان کی ساکھ تھوڑی کمزور ہوتی ہے۔ اس ساکھ کو اس جریدے کے کوارٹائیل، امپیکٹ فیکٹر، سائتیشن سکور، ایچ انڈیکس (یعنی دوسرے جرائد نے اس جریدے کے کام کے آزاد حوالے یعنی دوسرے سائئنسدانوں کی طرف سے حوالے کتنے دیے ہیں)۔ لیکن ان اعداد و شمار پر بھی بھروسہ نہیں کیا جاتا۔ بعض اوقات ایک کم ساکھ والے جریدے میں اچھا کام اور ایک اچھی ساکھ والے جریدے میں ایوریج کام بھی شائع ہو جاتا ہے۔ سائنسدانوں کی کمیونٹی کے اندر بھی اس بات کا علم ہوتا ہے کہ کونسا جریدہ بہتر ہے اور کونسا نہیں۔ ایکسپرٹس کو یہ بھی علم ہوتا ہے کہ کون سا کام اچھے طریقے سے کیا گیا ہے اور کونسا نہیں۔ 


اس کے بعد ان شائع شدہ مقالوں کو ہزاروں مزید ایکسپرٹس پڑھتے ہیں ریپیٹ اور ریپروڈیوس کرتے ہیں یعنی وہ کام اپنی لیب میں آزادانہ طور پر نئے سرے سے کرتے ہیں۔ یہ کام عموما ماسڑرز اور پی ایچ ڈی سٹوڈنٹس اپنا کام سیکھنے کے لیے کرتے ہیں یا اگر کسی نے کنفرم کرنا ہو وہ کرتا ہے۔ پھر اسی کام سے متعلقہ کئی دوسرے کام یا اس کے اگلے مراحل کا کام کیا جاتا ہے۔  اس کے بعد اگر وہ سائنس ایپلائیڈ ہو تو اس کے مطابق نئی ٹیکنالوجی بنتی ہے جو کہ واقعی میں کام کرتی ہے اور اس میں وقت اور ضرورت کے مطابق ٹیکنالوجسٹ اور انجینیئر مزید بہتری لاتے ہیں۔ تھیوری آف گریویٹی اور ارتقاء کے نظریات اس طریقہ کار سے ہو کر گزرے ہوئے ہیں اور ابھی تک ان کو رد کرنے والے تمام تجربات غلط ثابت ہوئے ہیں، اس لیے ان کو درست تسلیم کیا جاتا ہے۔ اگر آج بھی کوئی دسویں مالے سے چھلانگ لگا کر اوپر کو اڑے یا یا کوئی ایسا فاسل دریافت کر دے جو ارتقاء کے نظریے کے برخلاف ہو یعنی آپ اگر انسان کا فاسل چھ کروڑ سال پہلے کا دریافت کر لیں تو باآسانی ان نظریات کو رد کر سکتے ہیں اور سائنسدان بخوشی آپ کی بات کو مانیں گے بلکہ آپ کو یقینا نوبیل پرائز سے بھی نوازا جائے گا۔ 


کارل پاپر کے اس طریقے کو وضع کرنے کے بعد محض سو سالوں میں سائنسی ترقی کا حال آپ نے دیکھ لیا ہے۔ جنرل ریلیٹیوٹی کی بنیاد پر پوری دنیا کا کمیونیکشن نظام کام کرتا ہے۔ ساری میڈیکل سائنس ارتقاء کے نظریے کی وجہ سے کام کرتی ہے۔ 


سائینٹیفیک میتھڈ کی ایک اولین مثال ایڈنگٹن (Eddington) کا وہ تجربہ تھا (اس پر ایک فلم بھی بن چکی ہے Einstein and Eddingtonکے نام سے) جس نے آئن سٹائن کی تھیوری آف جنرل ریلیٹیویٹی کو درست ثابت کیا۔ حقیقت میں وہ تجربہ آئن سٹائن کی تھیوری کو رد کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ یعنی کہ اگر ایڈنگٹن کو سورج گرہن کے وقت ستارے اپنی جگہ سے ہلے ہوئے نظر نہ آتے تو آئن سٹائن کی تھیوری کہ گریویٹی سپیس کو موڑتی ہے اور روشنی بھی اس کے ساتھ مڑتی ہے غلط ثابت ہو جاتا۔ 


مختلف سائنسز میں یہ طریقہ کار مختلف طریقوں اور ناموں سے استعمال ہوتا ہے۔ میتھیمیٹکس میں کانٹراڈکشن سے، سوشل سائنسز اور تھیوریٹیکل سائنسز میں شماریات یعنی سٹیٹیسٹکس سے کانفیڈنس لمٹ معلوم کی جاتی ہے۔ شماریات نیچرل اور فزیکل سائنسز میں بھی کوروبوریٹیو ایویڈنس کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ چونکہ میں ایک فزیکل سائنسز کا طالبعلم ہوں تو اسی حوالے سے مثالیں دیں۔


اب ایسے علوم جن کو غلط ثابت کرنے کے تجربات نہیں کیے جا سکتے جیسے مثال کے طور پر آسٹرالوجی، پامسٹری، نیومرالوجی، ہومیوپیتھی وغیرہ۔ آپ کو ان کے ماننے والے ہمیشہ تائیدی ثبوت دیتے نظر آئیں گے۔ فلاں کے برج میں یہ تھا تو یہ ہوا۔ فلاں نے ہومیوپیتھی کی دوائی لی تو پتھری نکل گئی۔ مگر نہ تو وہ خود اپنے مفروضوں کے لیے رد کرنے والے تجربات کریں گے، نہ کسی کو کرنے دیں گے نہ کسی سے پیئر ریویو کروائیں گے کہ کیا سب برجوں کے ساتھ یہ ہوا کیا پتھری محض پانی کے استعمال سے تو نہیں نکل آئی، بہت سے لوگوں کو ہومیوپیتھی کی دوائی دیے بغیر چیک کر کے شماریاتی تجزیہ کیا جائے وغیرہ۔ اس لیے ان چیزوں کو سوڈو سائنس کہا جاتا ہے۔ 


اصل میں یہ پوسٹ لکھنے کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر کچھ دانشور خواتین و خضرات اپنے نظریات کے تائیدی شواہد ہی اکٹھے کرتے نظر آتے ہیں۔ کلاوٹ، فالوورز اور وہ لوگ جو کمنٹس میں واہ واہ، مور پاور ٹو یو، کیا بات ہے، بہت اعلی، لکھتے/لکھتی رہا کریں، وغیرہ جیسی گردانیں کرتے ہیں۔ مگر جونہی کوئی ان کے مفروضوں کے برخلاف شوائد یا دلیل دے تو اس کو لیبل لگا کر بلاک کر دیا جاتا ہے۔ اناپرستی اور خودپرستی کا رقص شروع ہو جاتا ہے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ تضحیک اور ذاتی حملے اس میں شمار نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں کو نہ صرف بلاک کرنا چاہیے بلکہ پچھلی پوسٹ کی وضاحت کی روشنی میں گھر پہنچا کر بھی آنا چاہیے۔ 


(ڈاکٹر عاکف خان)


#docakkh #ڈاکٹر_عاکف_خان #akifonymous

Thursday, January 11, 2024

Lessons in Chemistry - TV Show Review

Lessons in Chemistry Review

Review: Lessons in Chemistry (TV Show, Apple TV+, IMDB rating: 8.3/10, no spoilers)

Dr. Akif Khan


Lessons in Chemistry is not just a tv show and it is not just about chemistry at all. It is lessons in life, lessons in kindness, love, forgiveness, struggle, perseverance, resilience, commitment, determination, enthusiasm and passion. Do not fear the name of the show because of the word “chemistry.” It only touches the subject (sometimes not very accurately) and builds upon it and weaves the story like chemical bonds in a beautiful composite. It won’t bore you. 


Lessons in Chemistry explains the struggle of women in 50s, the first wave of feminism and civil rights movement, the challenges women faced back then in US, and are still facing in many parts of the world, especially marriage, childbirth, misogyny, “illegitimate” births, societal expectations and roles of women in society. The show also covers the homophobia and civil rights movement, including the reference to Martin Luther King Jr. How the African-American population was discriminated against and subjected to violence and systemic racism. The show also beautifully describes the matters of reason, science and faith and leaves things to the imagination of the viewer. It’s amazing how all these important and hotly debated topics are beautifully covered in this mini-series, which leaves a viewer thinking and commiserating. 


Then there is food. It reminds me of an interesting encounter. Once a friend asked me how’s your cooking. I told him I love to cook and the people who taste the food I cook tell me I am not bad. He said he would have been surprised if I weren’t good at cooking. I asked why’d he say that. He said because he believes I was a good chemist and he would’ve been surprised if I were not good at cooking. “A good chemist must be a good cook,” he said. It was kind of a revelation to me, but then it reminded me how I’d run my imagination on what must’ve been going on during the process of cooking whenever I cooked food, exactly the same way when I’d setup a reaction. The show beautifully caters to this concept. The people who love chemistry must try cooking. They’d enjoy it. 


The show is based on the book by Bonnie Garmus. I haven’t read the book, but the show does justice to it from what I have read about it. Interestingly, it was her debut novel and was NYT bestseller. Brie Larson did great as wonderful and smart chemist Elizabeth Zott. She is also the executive producer of the show and has smartly washed off the superhero tag of Captain Marvel from her career, coming about as a smart and serious actor. I rarely comment on and review stuff I read or watch now, but this show didn’t leave me a choice. I will admit there might be some bias because of chemistry, but truthfully the show is worth giving a shot. It’s light-hearted, smartly written, with good character arcs and happy moments with light comedy. You get shocked at times but there are also happy surprises waiting for you around the corner. 


Definitely 4.9/5. 

Tuesday, April 11, 2023

Food, Hunger, and Health: Navigating the Complexities of our Relationship with Food



Hunger, anger, and hanger - three words that may seem unrelated but have a strong connection when it comes to food. The way we eat, or don't eat, can affect our mood, health, and overall well-being. There are harmful effects associated with hunger as well as overeating, such as headaches, fatigue, weakness, diabetes, heart disease, and eating disorders. However, we often tend to overlook them. Let’s explore the complex relationship between food, emotions and health. Let’s hope that by examining these issues, we could encourage a more mindful and sustainable approach to eating that promotes better health and well-being for all.

Copyright Warning: This content is copyright protected and is written by and property of Dr. Akif Khan. Any unauthorized publishing or copying will be dealt with legal action according to the relevant copyright laws of the jurisdiction. 

While global food shortage is leading to global hunger among the downtrodden and we have programs like WFP addressing the issue, there are people in the world who like to remain hungry on purpose for health reasons or/and religious reasons. However, there are certain scientific and health issues related to hunger that are not discussed as often as they should be. Many people believe staying hungry is good for health, while others do it for cultural reasons. Although, Hunger can lead to many harmful effects including fatigue, weakness and malnourishment but one thing that people forget to mention is the troubled emotional state or hanger.

Apparently, hanger (hunger + anger) is a real thing. When we’re hungry, our bodies release hormones (cortisol + adrenaline) to compensate for body glucose. These hormones can affect your decision making, influence behaviour and change emotional states. Hunger also affects hypothalamus, the part of the brain which controls various body functions, such as emotional responses, sexual behaviour and body temperature among controlling other hormones. AgRP neurons in this region get activated and signal a “negative valence.” Negative valence is an uncomfortable emotion associated with fear, anxiety and anger. Research has proved that there is a direct relationship between gut and brain. Also, the gut has its own enteric nervous system called “the second brain” that according to a WP article “senses food and nutrients even when they don’t go through the mouth,” which means it’s not just about taste and feeling of food.

Although, these effects can be different for different people and some people might be more vulnerable towards hanger, you never know when the effect kicks in for someone. You might’ve seen some people getting extra frustrated, while others remain calm, when they’re hungry.

When a child is angry or crying, one of the three main reasons for that is hunger (illness or wetness being the other two). The mothers rush to feed them in order to calm the child down. From a scientific and evolutionary point of view, this whole process is a kind of defence mechanism, which motivates human beings to find food and cope with the desire of survival. Animals become more active and aggressive when they feel hungry. However, this still happens in the background, which means that the process is unconscious or automatic. Despite being conscious human beings, we often fail to sense our emotional state and even if we do, we can’t control it. The only solution seems to put something in the stomach. Interestingly, even some adults find it troublesome to understand hanger. The major reason for that is the brain-gut connection as explained above.

Some people would argue that research has also proven that “intermittent fasting” or IF is good for health. IF has specific instructions. It is not complete fasting. A necessary prerequisite of IF is hydration. You have to keep yourself hydrated. Water fools the gut-brain connection to an extent and controls the hanger.

Secondly, there are many types of IF, which include 16/8 (8 hours eating, 16 hours fasting), 5:2 (5 days eating), 20/4, OMAD (one meal a day), alternate day fasting, once a while 24 or 36 hours fasting. But remember, you have to remain hydrated in all of these methods. Thirdly, IF is not for everyone. One method can suit one kind of people and another for another group. For some people, it might not work at all. For example, some diabetic patients need to eat something every few hours, or else they can end up in coma or even die because hypoglycaemia. While, others can have other kind of negative effects. This should be done carefully.

During my PhD, we had an American colleague who was overweight and learnt about IF/Keto diet and started practicing it in order to lose weight. He did not lose weight at all and after a few months, one day he crashed. Doctors told him that due to excessive fasting, his body started burning his muscle protein and he couldn’t support his body. He spent a month in hospital and then he was on clutches. Had to leave his PhD in the mid to go back home.

Overeating is another issue. When you remain hungry for longer period of time or you know you’ve to remain hungry for a long time, you will tend to eat more. This affects your digestive system very badly and can cause gastric as well as intestinal and upper tract issues including GERD (reflux or acidity), indigestion, distention, diarrhoea or constipation.

When I used to work in pharmaceutical industry, the production of gastric medicines like antacids (milk of magnesia etc), proton-pump inhibitors (omerprazole etc), H2 blockers (famotidine, ranitidine) or their combinations would triple and quadruple before certain occasions. Overeating can also affect vital organs, such as heart, liver and kidneys. We also tend to eat more oily and sugary foods, which can cause fatty liver, cardiovascular diseases (high cholesterol, etc.) and insulin intolerance.

Food wastage is another problem that world is facing right now when around 1 billion people in the world go to bed hungry. We tend to waste a lot of food despite that. The trend goes upward during festivals. According to one estimate, 40% of food that is 54 billion kilograms (119 billion pounds) of food is wasted in US alone every year and it amount to $408 billion worth food.

A balanced diet with careful consideration to food types and timings is essential to a good health and longevity. We are already facing problems with the cardiovascular health, diabetes, kidney and liver diseases as well as availability and quality of food, water pollution, and food scarcity and if that is topped with carelessness, things are not gonna end up well. Eat healthy, live healthy and remember to stay hydrated, not just for yourself but also for other people.

Dr. Akif Khan is a physical scientist and a blogger. He can be followed at @akifzeb on Twitter. 

Wednesday, February 22, 2023

کچھ داستان مدرسے کے دنوں کی

نیچے ایک مولوی کے خلاف ایف آئی آر کی تصویر ہے۔ یہ مولوی ایک چھوٹی بچی کے ساتھ دس درازی کر رہا تھا قرآن پڑھاتے وقت۔ اس واقعے کی ویڈیوبھی موجود ہے۔ ہم نے مدرسے میں پانچ سال گزارے۔ ایسے کئی واقعات دیکھے مگر کوئی ہماری باتوں پر یقین نہیں کرتا تھا۔ موبائل، کیمرہ، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے اب بہت سے رازوں سے پردے اٹھا دیے ہیں مگر کچھ لوگ پھر بھی ماننے کو تیار نہیں۔ اکثر سمجھتے ہیں ہمارے بچوں کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ ہمارا قاری بہت اچھا ہے۔ 

مولوی دو ہی طرح کے ہوتے ہیں یا ایسے یا تشدد پسند۔ ہمارے مولوی صاحب تشدد پسند تھے۔ تشدد پسندوں کا قصہ سنیں جن سے ہمارا واسطہ پڑا۔ انہوں نے میرے کزن کی پسلی تک توڑ دی تھی۔ بلاوجہ مار دھاڑ روز کا معمول تھا۔ سیب کے درخت کی چھڑیاں رکھی ہوتی تھیں جن پر ٹیپ لپیٹی ہوتی تھی۔ جس پہلے مدرسے سے ناظرہ پڑھا وہاں کے قاری کے پاس بھی ایک چھوٹا بیس بال نما ڈنڈا ہوتا تھا جو وہ دور سے پھینکتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک بچے کی آنکھ میں جا لگا۔ اس کی آنکھ ضائع ہوتے بچی۔ 

ہمارا ایک ساتھی طالب ہوتا تھا حفظ اور ترجمہ تفسیر کے دنوں۔ اس کو فلمیں دیکھنے کا بہت شوق تھا سینما جا کر۔ ختمانے کے پیسے اکٹھے کر کے مہینے میں ایک آدھ بار تاج محل سینما جاتا تھا۔ فلم دیکھتا تھا۔ واپس آ کر کہانی سناتا تھا۔ مقیم طالب تھا۔ دس گیارہ بہن بھائی تھے ماں باپ نے پکا مدرسے میں ڈال دیا تھا۔ کوئی پوچھنے نہیں آتا تھا مہینوں۔ جس کا مطلب تھا قاری صاحب جیسے مرضی اس سے برتاو کریں۔ صبح فجر کے بعد قاری صاحب کے گھر دہی پہنچانے کا کام اس کا تھا۔ روزانہ مار پڑتی تھی اور حد سے زیادہ۔ اسے سبق یاد نہیں ہوتا تھا۔ کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔ قاری صاحب اس کی قمیض اوپر کر کے برہنہ کمر پر چھڑی سے مارتے تھے۔ بہت ترس آتا تھا۔ نیاز نام تھا۔ پتا نہیں اب کدھر ہو گا اور کیسا مولوی بنا ہو گا۔ 

نوے کی دہائی کے آخری سالوں میں جو شدت پسندی کی لہر آئی تھی، والد صاحب کو بہا لے گئی۔ ہم سب کو مدرسے میں ڈال دیا۔ پانچ سال رگڑا کھایا۔ ہم ڈے سکالر تھے اور تین بھائی، ایک فرسٹ کزن اور باقی کچھ دور کے کزنز۔ گروپ تھا لہذا بڑے شکاری طالبوں کے ہاتھوں جنسی تشدد سے بچ گئے۔ جو اکیلا لڑکا ہوتا تھا اس کی شامت ہوتی تھی۔ اس پر ان شکاریوں کی نظر ہوتی تھی۔ سامنے قرآن کھلا ہوتا تھا اور وہ کچھ ہوتا تھا کہ الامان الحفیظ۔ ہمارا ہال اوپر والی دوسری منزل پر ہوتا تھا۔ عصر کی نماز کے وقت نیچے نماز ہوتی تھی اوپر اندھیرا ہوتا تھا۔ اکثر اوقات اسی وقت وہ شکاری اس ہال پر قابض ہوتے تھے۔ انہی میں سے ایک ہماری قریبی مسجد کا امام بن گیا۔ ایک دن مجھے رستے میں پکڑا تم نماز پڑھنے کیوں نہیں آتے۔ تمہیں علم ہے جماعت کی نماز چھوڑنے پر کتنا عذاب ہے۔ میں نے کہا تمہارے پیچھے پڑھنے پر کتنا عذاب ہے۔ کھسیانا ہو گیا۔ 

صبح اذان سے پہلے پہنچنا ہوتا تھا۔ سردی، برف اور کہر میں منفی ڈگریز میں جرابوں کے تین تین جوڑے سویٹریں چادریں ٹوپیاں جیکٹیں پہنے آدھی نیند میں جاتے تھے۔ ظہر سے عصر دوسری شفٹ ہوتی تھی۔ عصر کے بعد ترجمہ تفسیر کا درس۔ ساتھ دن کو سکول۔ صبح نیا سبق اور سبقی پارہ جبکہ ظہر کے بعد منزل یعنی ایک پچھلا پارہ بالترتیب سنانا ہوتا تھا۔ 

میٹرک کے امتحانات آئے تو قاری صاحب سے چھٹی مانگی۔ نہیں دی۔ کہتے دینی تعلیم کو برتر نہ سمجھو۔ حالانکہ خود اپنے بیٹے کو مجھ سے مفت ٹیوشن پڑھاتے تھے۔ پرائیویٹ سکول میں پڑھتا تھا۔ اکلوتا تھا۔ بعد میں وہ بھی عالم بنا مگر ایک حادثے میں اپنی جان گنوا بیٹھا۔ میں جب کبھی اسے پڑھانے نہ جاتا تو شامت آ جاتی۔ بات بات پر مار پڑتی۔ خیر ایک وقت کی چھٹی مانگی وہ بھی نہیں دی۔ آخر اس بات پر راضی ہوئے کہ نیا سبق نہ سناو۔ انگریزی کے پرچے والے دن والد صاحب نے کہا آج نہ جاو، گھر دوہرائی کر لو۔ ظہر کے وقت جب مدرسے پہنچا تو قاری صاحب نے دو چھڑیاں تیار رکھی تھیں۔ ایک انہوں نے مجھے مار مار کر مجھ پر توڑی، دوسری میں نے ان پر اور مدرسے سے ننگے پاوں بھاگ گیا۔ 

والد صاحب کو بھی سمجھ آ گئی کہ یہ کام نہیں چلنا۔ آہستہ آہستہ سب نکل آئے مدرسے سے۔ تین مدرسوں میں وقت گزارا، تینوں میں یہی حال تھا۔ بڑے بڑے لڑکوں کو مرغا بنایا ہوتا تھا پانچ پانچ گھنٹے۔ غریب لڑکے مار کی پریکٹس مشینیں ہوتے تھے۔ ایک دفعہ ایک لڑکے کو اس لیے مار پڑی کیونکہ اس نے واری صاحب کو دو ماہ سے چائے نہیں ہلائی تھی۔ ایک اور کو قاری صاحب کے بڑے بیٹے نے مار مار کر ادھ موا کر دیا کیونکہ اس نے قاری صاحب کے چھوٹے بیٹے سے لڑائی کی تھی جو الگ سے مدرسے کا پھنے خان تھا۔ 

بھائی اور کزن کئی بار بھاگے مدرسے سے۔ ایک دفعہ کزن کو خانیوال اور ایک دفعہ کراچی سے واپس لائے۔ مدرسہ چھوڑنے کے بعد اپنی تعلیم پر توجہ دی۔ ایک بھائی نے کمپیوٹر انجینیئرنگ کی، ایک نے کیمسٹری، ایک نے سی اے۔ تینوں یو کے ہوتے ہیں۔ جبکہ ہم نے پی ایچ ڈی کی۔ باقی بھی جو جو اس وقت نکل گیا، کہیں پہنچ گیا مگر اس وقت کی مہر سب کے ذہنوں پر ثبت ہے۔ اب اس بچی کے ذہن پر کیسے ثبت ہو گی، خدا جانتا ہے۔ 

 

Sunday, December 9, 2018

Moon sighting: Discussing scientific perspective with astronomer and scientist Salman Hameed of Hampshire College, Massachusetts





Akif Khan and Salman Hameed discuss the topic of moon sighting, the method through which the start of months of the Islamic calendar are identified.  Khan jokes that it could also be called “moon fighting”, as announcements about the sighting of the moon (or not) can make the beginning of holidays rather chaotic.
They start by discussing how Hameed became interested in astronomy, watching Carl Sagan on Cosmos, realizing that professional astronomy was a possibility.
Hameed describes the Moon’s phases from an astronomer’s perspective.  He notes how the well-documented orbit of the Moon around the Earth means that the calculations for the phases are very precise and can readily be known far into the future.  He clarifies how the structure of the religious sighting of the Moon differs:  because it needs to be sighted with the human eye, and because of variations in atmospheric conditions (cloud, haze, etc), it is unclear how far past the astronomical new moon an observer must be before the new crescent is visible.  Hameed suggests that at approximately 14 hours past the astronomical new moon, the crescent becomes possible to be viewed with the naked eye on Earth under optimal viewing conditions.  For less optimal conditions, perhaps 18 or 20 hours past the astronomical new moon.
The pair discuss the problems experienced in Pakistan about sighting the Moon, including attempting to sight the new crescent from less than optimal locations.  They suggest that standardizing the calendar based on some mark would eliminate all the problems, and allow people to plan ahead.  Hameed mentions various ways this standardization could occur, from using the astronomical new moon to choosing a standard offset from the astronomical new moon, to centering the viewing based on what is seen (based on astronomical measurement) in Mecca.
Hameed notes that it is likely only a matter of time before this standardization will be forced to occur.  He suggests that people will be living on the Moon itself or on Mars within the next century or two, and will thus be unable to sight the Moon’s crescent with the naked eye from those locations.  At that point, some standard will have to be used.
The video is part of a media documentary series by the Rationalist Society of Pakistan.  This video was directed by Akif Khan, and the media coordinator was Anila Athar.

Friday, December 26, 2014

Why Pakistan needs secularism

(This piece was orginally published in The Nation and can be read here.)

In Pakistan, liberals are often accused of working on the Western agendas and being covert agents of “enemies” of Pakistan. They are also thought to be the ones who malign Pakistan’s image by cherry-picking few mishaps in the country. Let us explore the basis of these accusations and why these liberal “fascists” cry for secularism and liberalism and are opposed to Islamic system (aka Khilafat) in the country.

First of all there is this national narcissistic attitude and national state of denial. The incoherent syllabus, media and jingoist protectors of the “ideological boundaries” reinforce this state of narcissism and delusion. We need to realize that there are issues here and we have to address them. The first stage is - to identify these problems, the second is speaking up, third creating awareness and the last stage is where we will be able to move towards finding solutions.

Tuesday, May 20, 2014

In reply to the Ignorance of Mubashar Lucman

The following verses are from chapter 1, poem 10 from Saadi's Gulistan (Bostan). They resemble a hadith. Somebody ask Mubashar Lucman to issue a fatwa on Saadi Shirazi. 

بنى آدم اعضای یک پیکرند
که در آفرینش ز یک گوهرند
چو عضوى به درد آورد روزگار
دگر عضوها را نماند قرار
تو کز محنت دیگران بی غمی
نشاید که نامت نهند آدمی

Human beings are members of a whole,
In creation of one essence and soul.
If one member is afflicted with pain,
Other members uneasy will remain.
If you have no sympathy for human pain,
The name of human you cannot retain.


Many folklores and metaphors are same in many cultures. Khalil Jibran has rewritten many such stories in his own words. Paulo Coelho has rewritten many. Many stories of Quran are already present in other previous cultures. In Zoroastrian religion of Persia dating back to 7th century BCE, even before Judaism and Christianity, one can find many similar stories. The concepts in Abrahamic religions of 7 heavens, God and Satan, Virgin Birth, Head covering, Renovation and judgment are highly influenced from this ancient persian pagan religion. There are many stories in Quran which are also present in Bible and old testament with great variations. Should a blasphemy case be filed against Zarathustra, St Paul and Rabbi Juda Hanasi? What an ignorant ass this Mubashar Lucman is!

(The above verses are displayed in the entrance of the United Nations Hall of Nations as Saadi's poetry and not as a Hadith. Charge UN for blasphemy too?)

Friday, May 16, 2014

Geo/ARY Case: Blasphemy laws for corporate agendas and state sanctioned persecution after religious persecution and personal vendettas.

It was a very sleepy morning. Cool breeze would'nt let me get up from bed any time earlier. As per my bad habit, after shutting down my alarm I opened my twitter and fb apps and saw this torrent of anger against Geo on twitter feed and facebook timeline. I was completely confused as to what sinister act has Geo committed now?

Digging it deeper, I found out that a Qawali was played in some morning show at Geo on a virtual wedding that our brother Mubashar Lucman inherently disliked and didn't hesitate to show it to his viewers on ARY TV. What was that Qawali? Then there was this Sunni Itehad council issuing fatwas against Geo, filing cases and petitions and I saw my Shia friends relatively more hyper than Sunni friends on their timelines. It seemed a serious condition.

Tuesday, May 6, 2014

Arabisation or Westernisation; what are we really victim of?


The problem with the critics who call Pakistani progressive thinkers desi liberals is that they ignore many dimensions of a single problem. They see things in black and white. When a progressive person speaks about the horrors of Arabisation, they suddenly come up with the pictures of Pakistani youth wearing jeans and using mobile phones and remind them of western imperialism.


Let us bust this myth today. First of all, let's define Imperialism. Edward Said, a famous anthropologist and academic defines imperialism as any system of domination and subordination organized with an imperial center and a periphery. There are two major types of Imperialism. Regressive and Progressive Imperialism. Then there is colonialism but let's not confuse it with imperialism because it is just for territorial control and/or commercial aims coupled or not with imperialism. Now there have been many kinds of imperialisms in the history. Ottoman/Turkish, German, British and Tsarist Russian and now this Arab. Arabia is a vast land comprised of multiple cultures from Morrocco to UAE including completely versatile cultures like Jordan and Oman. However, when we talk about Arabisation, we are talking about imperialism, centred in Saudi Arabia. A recent article written by Abdul Majeed Abid [1], one finds the summary of the events stating how Abdul Wahab convinced Al-Saud to declare Salafiism as a state religion. What followed next is more proof. Now this was the result of a pact signed between Al-Saud and Wahab where the king promised to expand that religion across Arabia and all over the Muslim world by whatever means necessary in 1744 [2]. Abdul Wahab was a Hanbali mufti and so was his father and he was largely influenced by the teachings of Ibn Taimiya, the same Imam who completely shut down the chapter of Ijtihad and declared that everything should be Islamised according to existing knowledge and no new knowledge will be incorporated in Islam. Does one see why we still fight over Tooth Brush and Miswak? I know many have a positivist view and they will dismiss this example and my argument on the grounds that there are many scholars who have no problem with toothbrush but this is not actually the case. They still are convinced otherwise and would tell you to prefer Miswak. Those who actually believe in the same like Dr. Farooq Khan and Javed Ghamidi are either murdered or in exile due to their “unorthodox” views. A friend of mine who is an MPhil in Biochemistry from a top university of Pakistan and a forensic scientist in ministry of defence keeps Miswak in his pocket and claims that it has more benefits than tooth paste.

Thursday, December 26, 2013

مولانا طارق جمیل کی خدمت میں کھلا خط

آج کل آپ کی تعریف میں کافی قصیدے لکھے جا رہے ہیں اور ہر دوسرا کالم نگار حضرت کی عامر خان کے ساتھ “انٹریکشن” کو بیان کرتا پھرتا ہے۔ میرے کچھ سوالات ہیں اور کچھ اعتراضات۔ جن دوستوں نے مولانا کی ویڈیو دیکھی ہے وہ جواب دے سکتے ہیں۔

 پہلا تو یہ کہ آپ کو اخلاقی طور پر بالکل بھی زیب نہیں دیتا تھا کہ وہ ایک شخص کے ساتھ اپنی ذاتی انٹریکشن کو پبلک میں اسکی اجازت کے بغیر بیان کر رہے ہیں۔ دوسری جس بات پر مجھے اعتراض ہے وہ یہ ہے کہ آپ کے ہر لفظ سے ایک خدائی غرور جھلک رہا ہے اور آپ کسی صورت بھی عامر خان کو اپنے آپ سے بہتر انسان سمجھنے کے لئیے آمادہ نہیں ہیں نہ تو فلمی شعبہ کے حوالے سے اور نہ ہی دینی شعبے کے حوالے سے۔ جبکہ مسلسل اس بات پر بھی اشد اصرار کر رہے ہیں کہ وہ ایک اہم آدمی ہے اور اس سے ملاقات کو باعث تفاخر بھی سمجھ رہے ہیں جیسا کہ عموما تبلیغی حضرات کرتے ہیں۔ سعید انور، یوسف یوحنا سے سلطان گولڈن اور شاہد آفریدی تک کی سیلیبرٹیز آپ لوگوں کا ٹریڈ مارک بن چکی ہیں اور باقاعدہ طور پر خواص میں جرنیلوں، بڑے گورنمنٹ آفیسروں اور اہم سیاستدانوں کے ہم پلہ ہی اہم جگہوں پر ایڈورٹائز کی جاتی ہیں۔

 مولانا آپ کو یہ بھی برا لگ رہا ہے کہ آپ عامر خان کی “حرام” فلم کی کامیابی کے لئیے کیونکر دعا فرمائیں۔ اسکے ساتھ آپ اسکا دل بھی نہیں دکھانا چاہتے۔ لیکن ایک مجمع میں یہ بات کر کے اپنی بڑائی بھی بیان کر رہے ہیں۔ حضور اب اگر عامر خان آپ کی یہ گفتگو سنے گا تو آپ کی کیا عزت رہ جائے گی؟ مجھے ایک دو دفعہ آپکو ڈائریکٹ سننے کا اتفاق ہوا ہے، اگر آپکے مقلدین نصرت جاوید کی طرح مجھے بھی نہ رگڑیں تو ایک عرض کروں؟ آپ کے لہجے میں مجھے شیرینی، محبت اور نصیحت کبھی نظر نہیں آئی۔ بلکہ رعونت، غرور، تکبر اور خدائی جلال کی نقل اور شور ہی نظر آیا ہے۔ جبکہ آپ اور آپ کے ہم پلہ و پیالہ فرماتے ہیں کہ تکبر خدا کو پسند نہیں۔ 

 برائے مہربانی لوگوں کے تقویٰ کا فیصلہ خدا پر چھوڑ دیں۔ مزید براں، آپ نے اپنی MBBS کی ڈگری چھوڑ کر کسی پر احسان نہیں فرمایا۔ ایک غریب آدمی ایسا نہیں کر سکتا، جو اپنی دیہاڑی، ریڑہی اور نوکری چھوڑ کر سہ روزوں، چلوں اور سال کے دوروں پر جاتے ہیں، انکی نہ تو جائیدادیں ہوتی ہیں اور نہ ہی اہل و عیال کے کفیل۔ وہ اپنی آخرت کے چکر میں کافی لوگوں کی دنیاوی پریشانی کا باعث بن رہے ہوتے ہیں۔

 والسلام،
 ایک خیر خواہ
 عاکف خان



Sunday, September 22, 2013

Deeyat Laws: Social Impact of the level of strictness in laws; A Discussion


When Shahzeb Khan's family granted pardon to their son's murderer, whole nation came to utter shock. This was one of the most fought causes by civil society and people from all professions and backgrounds on the basis of barbaric show of feudal power. In the aftermath of the murder, which was committed by son of a very influential person of Sindh, people went in streets, protested and started mass movement with support of media to put the culprit behind the bars. 

Shahzeb was killed in cold blood because of saving honor of his family when the servant of this politician's son was bullying his sister despite of several warnings and he asked him to stop. The murderer, Shahrukh Jatoi out of vanity went after Shahzeb, they fell into arguments and Shahrukh and his friend opened fire on him. Shahzeb, young and educated person, belonged to a upper middle class family. However, after Sharukh tried to escape from Pakistan, was caught in UAE and was brought back. He was prosecuted in criminal court as well as Anti Terrorism Court. It was kind of Jessica Murder Case of Pakistan. 

Friday, September 13, 2013

Orthodox Patriarchal Agenda at work

Can you believe this bullshit? The guy is serious. This man Maulana Pandit Pastor Raylan Alleman has outclassed all the orthodox bullshit that we come across in South Asia. Guess all dogmas have same misogynist patriarchal agenda. However this piece posted on Fix the Family Citadel Catholic Media, an organisation to promote family system in Catholicism, is informative in the sense that a major set of counter-arguments, feminists use to present everyday, can be learnt from this blog. And of course shame on this thinking. Read this excerpt to make some blood boil to rejuvenate the feminist code!

"The indoctrination of the feminist culture and the practicing of a sexually promiscuous lifestyle severely cloud, practically blind that good judgment. Getting a college degree often makes a young lady feel an “obligation” to use it, to make money. Often her husband doesn’t want to see it go to “waste.” So the degree is what actually traps her. Not having a degree frees her to enter into a marriage with proper roles in which her husband will provide for her and their children. Christian marriage by definition does place her in a submissive role to her husband, but no one forces anyone to marry anyone. "

Here is the link

Thursday, August 15, 2013

کیلے کی پٹائی

مبینہ کیلا حوالات جانے سے پہلے
۔(اسلام آباد، مملکت خداداد) کل ایک کیلے کو مسجد کے باہر بغیر چھلکے پڑا دیکھ کر مومنین نے مار مار کے اسکا شیک بنا ڈالا۔ کیلے نے مبینہ طور پر رمضان مبارک کی توہین کی تھی۔ اسلامی ملک میں رمضان المبارک کے تقدس کے لیئے خاص قوانین موجود ہیں۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جہاں ٪95 سے زائد آبادی مسلمان ہے۔ 80 کی دہائی  میں ان اسلامی قوانین کی تشکیل کے بعد ریاستی سرپرستی میں مومنین کو نصاب، نسیم حجازی کے ناولوں اور کوڑوں کی مدد سے ان قوانین کے بارے میں آگہی فراہم کی گئی تھی جس کی افادیت اس کیلے کے انجام سے واضح ہوتی ہے۔ کیلے کے خلاف تھانہ کوہکن میں احترام رمضان آرڈیننس مروجہ 1981، سیکشن4 اور پاکستان پینل کوڈ، دفعہ 295-الف کے تحت مسجد کے مولانا صاحب کی قیادت میں  ایف آئی آر درج کروا دی گئی ہے۔

Friday, June 28, 2013

Green House Effect of US-Taliban talks

Comments on the article by Hussain Haqqani in NY Times today.


Agreeing to Haqqani, I guess US is aiming for short term goals over here. Adding to the same, the next battleground of Taliban ideological warfare will be Pakistan and it will be source for their ideology dissemination and manpower recruitment. No matter how much we reject this but TTP and other Taliban groups like Maulvi Nazir and Haqqani group in Pakistan have clearly expressed several times that they consider Mullah Omar as Ameer-ul-Momineen and their Jihad is the extension of Afghan Jihad against US supported democratic (Democracy = Kafirana Nizam) country, Pak Army and people of Pakistan who elected this government.

Sunday, April 21, 2013

Bloody Self-Righteousness Syndrome

This self-righteousness is the reason that others get offensive to you. This self-righteousness of yours is the reason that others attack your faith. Do you realize, how much hurting is it when somebody judges you due to your faith? You can realize this only when you are in the same situation. When somebody makes a movie or writes a book, how much is it hurtful to you? You never realize that same is true for others when you break their idols, call them inferior, kafir, don't reply to their salutations the same way. This is because your ego does not accept that you are inferior to somebody else.

Here the question is not that you do not consider your's superior. Everybody does. Do that. But keep it to yourself. Don’t make it impact the lives of others. Don’t make your own ego affect others. Don’t make your superiority kill anyone else. Keep it to yourself. It is your personal matter and it is the other person’s personal matter.

At least, you should realize that it is a bloody personal thing of other person and he/she is responsible for that, NOT you. You have no right to judge anyone else. You have no right to judge if someone is right or wrong.

Thursday, April 18, 2013

The Battles of (Ir)Rationality



Last week I shared an article of Greenwald, which was in reply to Sam Harris and Dawkins "irrational Islamophobia" and alongwith it the emails exchange between Sam Harris and Greenwald on RSOP, when he retweeted Murtaza Hussain's (A toronto based columnist) article on Sam Harris and Dawkins attitude. This is Dawkins infamous quote which spurred a debate in liberal as well as atheist circles,

"Haven’t read Koran so couldn’t quote chapter & verse like I can for Bible. But often say Islam [is the] greatest force for evil today."

This one is in continuation to that. The question is, is new-atheism synonamous to Islamophobia? This is what Harris says about it,

"There is no such thing as “Islamophobia.” This is a term of propaganda designed to protect Islam from the forces of secularism by conflating all criticism of it with racism and xenophobia. And it is doing its job, because people like you have been taken in by it."

Here is a reply of Sam Harris to Greenwald (courtesy: Faraz Talat) and here is Greenwald's email exchange with Harris. This is Mortaza Hussain's article. Another similar article written by Nathan Lean is here.

Mortaza has this to say,

"Just as it is incumbent upon Muslims to marginalise their own violent extremists, mainstream atheists must work to disavow those such as Harris who would tarnish their movement by associating it with a virulently racist, violent and exploitative worldview"
In addition, here is Nathan Lean's concluding paragraph.

"How the New Atheists’ anti-Muslim hate advances their belief that God does not exist is not exactly clear. In this climate of increased anti-Muslim sentiment, it’s a convenient digression, though. They’ve shifted their base and instead of simply trying to convince people that God is a myth, they’ve embraced the monster narrative of the day. That’s not rational or enlightening or “free thinking” or even intelligent. That’s opportunism. If atheism writ large was a tough sell to skeptics, the “New Atheism,” Muslim-bashing atheism, must be like selling Bibles to believers. After all, those who are convinced that God exists, and would otherwise dismiss the Dawkins’ and Harris’s of the world as hell-bound kooks, are often some of the biggest Islamophobes. It’s symbiosis — and as a biologist, Dawkins should know a thing or two about that. Proving that a religion — any religion — is evil, though, is just as pointless and impossible an endeavor as trying to prove that God does or doesn’t exist. Neither has been accomplished yet. And neither will."
Relating to the Dawkins episode, this account is shared by Asad Masood with this comment "a few months ago Peter Higgs called Dawkins 'almost fundamentalist." This story by Alok Jha, published in The Guardian can be read here. Thanks to Asad, he provided another story by Nigel Farndale on the same.

However, in my opinion not only these new-atheists, especially Sam Harris are consciously or unconsciously beginning to develop Islamophobia but extremists, western salafists and modern Islamists like Anjem Ch. and Hizb-ut-Tehrir also hide behind "Islamophobia excuse" to justify their weird attitudes and self-righteous ideologies.