نیچے ایک مولوی کے خلاف ایف آئی آر کی تصویر ہے۔ یہ مولوی ایک چھوٹی بچی کے ساتھ دس درازی کر رہا تھا قرآن پڑھاتے وقت۔ اس واقعے کی ویڈیوبھی موجود ہے۔ ہم نے مدرسے میں پانچ سال گزارے۔ ایسے کئی واقعات دیکھے مگر کوئی ہماری باتوں پر یقین نہیں کرتا تھا۔ موبائل، کیمرہ، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے اب بہت سے رازوں سے پردے اٹھا دیے ہیں مگر کچھ لوگ پھر بھی ماننے کو تیار نہیں۔ اکثر سمجھتے ہیں ہمارے بچوں کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ ہمارا قاری بہت اچھا ہے۔
مولوی دو ہی طرح کے ہوتے ہیں یا ایسے یا تشدد پسند۔ ہمارے مولوی صاحب تشدد پسند تھے۔ تشدد پسندوں کا قصہ سنیں جن سے ہمارا واسطہ پڑا۔ انہوں نے میرے کزن کی پسلی تک توڑ دی تھی۔ بلاوجہ مار دھاڑ روز کا معمول تھا۔ سیب کے درخت کی چھڑیاں رکھی ہوتی تھیں جن پر ٹیپ لپیٹی ہوتی تھی۔ جس پہلے مدرسے سے ناظرہ پڑھا وہاں کے قاری کے پاس بھی ایک چھوٹا بیس بال نما ڈنڈا ہوتا تھا جو وہ دور سے پھینکتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک بچے کی آنکھ میں جا لگا۔ اس کی آنکھ ضائع ہوتے بچی۔
ہمارا ایک ساتھی طالب ہوتا تھا حفظ اور ترجمہ تفسیر کے دنوں۔ اس کو فلمیں دیکھنے کا بہت شوق تھا سینما جا کر۔ ختمانے کے پیسے اکٹھے کر کے مہینے میں ایک آدھ بار تاج محل سینما جاتا تھا۔ فلم دیکھتا تھا۔ واپس آ کر کہانی سناتا تھا۔ مقیم طالب تھا۔ دس گیارہ بہن بھائی تھے ماں باپ نے پکا مدرسے میں ڈال دیا تھا۔ کوئی پوچھنے نہیں آتا تھا مہینوں۔ جس کا مطلب تھا قاری صاحب جیسے مرضی اس سے برتاو کریں۔ صبح فجر کے بعد قاری صاحب کے گھر دہی پہنچانے کا کام اس کا تھا۔ روزانہ مار پڑتی تھی اور حد سے زیادہ۔ اسے سبق یاد نہیں ہوتا تھا۔ کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔ قاری صاحب اس کی قمیض اوپر کر کے برہنہ کمر پر چھڑی سے مارتے تھے۔ بہت ترس آتا تھا۔ نیاز نام تھا۔ پتا نہیں اب کدھر ہو گا اور کیسا مولوی بنا ہو گا۔
نوے کی دہائی کے آخری سالوں میں جو شدت پسندی کی لہر آئی تھی، والد صاحب کو بہا لے گئی۔ ہم سب کو مدرسے میں ڈال دیا۔ پانچ سال رگڑا کھایا۔ ہم ڈے سکالر تھے اور تین بھائی، ایک فرسٹ کزن اور باقی کچھ دور کے کزنز۔ گروپ تھا لہذا بڑے شکاری طالبوں کے ہاتھوں جنسی تشدد سے بچ گئے۔ جو اکیلا لڑکا ہوتا تھا اس کی شامت ہوتی تھی۔ اس پر ان شکاریوں کی نظر ہوتی تھی۔ سامنے قرآن کھلا ہوتا تھا اور وہ کچھ ہوتا تھا کہ الامان الحفیظ۔ ہمارا ہال اوپر والی دوسری منزل پر ہوتا تھا۔ عصر کی نماز کے وقت نیچے نماز ہوتی تھی اوپر اندھیرا ہوتا تھا۔ اکثر اوقات اسی وقت وہ شکاری اس ہال پر قابض ہوتے تھے۔ انہی میں سے ایک ہماری قریبی مسجد کا امام بن گیا۔ ایک دن مجھے رستے میں پکڑا تم نماز پڑھنے کیوں نہیں آتے۔ تمہیں علم ہے جماعت کی نماز چھوڑنے پر کتنا عذاب ہے۔ میں نے کہا تمہارے پیچھے پڑھنے پر کتنا عذاب ہے۔ کھسیانا ہو گیا۔
صبح اذان سے پہلے پہنچنا ہوتا تھا۔ سردی، برف اور کہر میں منفی ڈگریز میں جرابوں کے تین تین جوڑے سویٹریں چادریں ٹوپیاں جیکٹیں پہنے آدھی نیند میں جاتے تھے۔ ظہر سے عصر دوسری شفٹ ہوتی تھی۔ عصر کے بعد ترجمہ تفسیر کا درس۔ ساتھ دن کو سکول۔ صبح نیا سبق اور سبقی پارہ جبکہ ظہر کے بعد منزل یعنی ایک پچھلا پارہ بالترتیب سنانا ہوتا تھا۔
میٹرک کے امتحانات آئے تو قاری صاحب سے چھٹی مانگی۔ نہیں دی۔ کہتے دینی تعلیم کو برتر نہ سمجھو۔ حالانکہ خود اپنے بیٹے کو مجھ سے مفت ٹیوشن پڑھاتے تھے۔ پرائیویٹ سکول میں پڑھتا تھا۔ اکلوتا تھا۔ بعد میں وہ بھی عالم بنا مگر ایک حادثے میں اپنی جان گنوا بیٹھا۔ میں جب کبھی اسے پڑھانے نہ جاتا تو شامت آ جاتی۔ بات بات پر مار پڑتی۔ خیر ایک وقت کی چھٹی مانگی وہ بھی نہیں دی۔ آخر اس بات پر راضی ہوئے کہ نیا سبق نہ سناو۔ انگریزی کے پرچے والے دن والد صاحب نے کہا آج نہ جاو، گھر دوہرائی کر لو۔ ظہر کے وقت جب مدرسے پہنچا تو قاری صاحب نے دو چھڑیاں تیار رکھی تھیں۔ ایک انہوں نے مجھے مار مار کر مجھ پر توڑی، دوسری میں نے ان پر اور مدرسے سے ننگے پاوں بھاگ گیا۔
والد صاحب کو بھی سمجھ آ گئی کہ یہ کام نہیں چلنا۔ آہستہ آہستہ سب نکل آئے مدرسے سے۔ تین مدرسوں میں وقت گزارا، تینوں میں یہی حال تھا۔ بڑے بڑے لڑکوں کو مرغا بنایا ہوتا تھا پانچ پانچ گھنٹے۔ غریب لڑکے مار کی پریکٹس مشینیں ہوتے تھے۔ ایک دفعہ ایک لڑکے کو اس لیے مار پڑی کیونکہ اس نے واری صاحب کو دو ماہ سے چائے نہیں ہلائی تھی۔ ایک اور کو قاری صاحب کے بڑے بیٹے نے مار مار کر ادھ موا کر دیا کیونکہ اس نے قاری صاحب کے چھوٹے بیٹے سے لڑائی کی تھی جو الگ سے مدرسے کا پھنے خان تھا۔
بھائی اور کزن کئی بار بھاگے مدرسے سے۔ ایک دفعہ کزن کو خانیوال اور ایک دفعہ کراچی سے واپس لائے۔ مدرسہ چھوڑنے کے بعد اپنی تعلیم پر توجہ دی۔ ایک بھائی نے کمپیوٹر انجینیئرنگ کی، ایک نے کیمسٹری، ایک نے سی اے۔ تینوں یو کے ہوتے ہیں۔ جبکہ ہم نے پی ایچ ڈی کی۔ باقی بھی جو جو اس وقت نکل گیا، کہیں پہنچ گیا مگر اس وقت کی مہر سب کے ذہنوں پر ثبت ہے۔ اب اس بچی کے ذہن پر کیسے ثبت ہو گی، خدا جانتا ہے۔
No comments:
Post a Comment