Thursday, December 26, 2013

The Challenges to Feminism in Pakistan

Many of my feminist friends got offended by this post and I was bashed being politically incorrect on the notions of patriarchy and feminism. But Readers are the real judge. Please feel free to comment. I am embedding the facebook post as well.

The original post was;
"In our middle and upper middle class households, women are quite empowered. No matter if they are educated or not. What they need is a husband, kids and an eventual control on the family being a boss all the time. This is a cultural reality. This is not Stockholm syndrome. It is very much of a conscious choice. My feminist friends may call it typical behavior but these women do not see it in any clash to their rights. In conservative households of KPK, one finds matriarchal setups in majority of the families. Majorily there are only the young girls who suffer from any negative consequences out of this family system in more conservative families. Although the misogyny in the society at other places like workplaces, educational institutions and community centers is very much a reality."

مولانا طارق جمیل کی خدمت میں کھلا خط

آج کل آپ کی تعریف میں کافی قصیدے لکھے جا رہے ہیں اور ہر دوسرا کالم نگار حضرت کی عامر خان کے ساتھ “انٹریکشن” کو بیان کرتا پھرتا ہے۔ میرے کچھ سوالات ہیں اور کچھ اعتراضات۔ جن دوستوں نے مولانا کی ویڈیو دیکھی ہے وہ جواب دے سکتے ہیں۔

 پہلا تو یہ کہ آپ کو اخلاقی طور پر بالکل بھی زیب نہیں دیتا تھا کہ وہ ایک شخص کے ساتھ اپنی ذاتی انٹریکشن کو پبلک میں اسکی اجازت کے بغیر بیان کر رہے ہیں۔ دوسری جس بات پر مجھے اعتراض ہے وہ یہ ہے کہ آپ کے ہر لفظ سے ایک خدائی غرور جھلک رہا ہے اور آپ کسی صورت بھی عامر خان کو اپنے آپ سے بہتر انسان سمجھنے کے لئیے آمادہ نہیں ہیں نہ تو فلمی شعبہ کے حوالے سے اور نہ ہی دینی شعبے کے حوالے سے۔ جبکہ مسلسل اس بات پر بھی اشد اصرار کر رہے ہیں کہ وہ ایک اہم آدمی ہے اور اس سے ملاقات کو باعث تفاخر بھی سمجھ رہے ہیں جیسا کہ عموما تبلیغی حضرات کرتے ہیں۔ سعید انور، یوسف یوحنا سے سلطان گولڈن اور شاہد آفریدی تک کی سیلیبرٹیز آپ لوگوں کا ٹریڈ مارک بن چکی ہیں اور باقاعدہ طور پر خواص میں جرنیلوں، بڑے گورنمنٹ آفیسروں اور اہم سیاستدانوں کے ہم پلہ ہی اہم جگہوں پر ایڈورٹائز کی جاتی ہیں۔

 مولانا آپ کو یہ بھی برا لگ رہا ہے کہ آپ عامر خان کی “حرام” فلم کی کامیابی کے لئیے کیونکر دعا فرمائیں۔ اسکے ساتھ آپ اسکا دل بھی نہیں دکھانا چاہتے۔ لیکن ایک مجمع میں یہ بات کر کے اپنی بڑائی بھی بیان کر رہے ہیں۔ حضور اب اگر عامر خان آپ کی یہ گفتگو سنے گا تو آپ کی کیا عزت رہ جائے گی؟ مجھے ایک دو دفعہ آپکو ڈائریکٹ سننے کا اتفاق ہوا ہے، اگر آپکے مقلدین نصرت جاوید کی طرح مجھے بھی نہ رگڑیں تو ایک عرض کروں؟ آپ کے لہجے میں مجھے شیرینی، محبت اور نصیحت کبھی نظر نہیں آئی۔ بلکہ رعونت، غرور، تکبر اور خدائی جلال کی نقل اور شور ہی نظر آیا ہے۔ جبکہ آپ اور آپ کے ہم پلہ و پیالہ فرماتے ہیں کہ تکبر خدا کو پسند نہیں۔ 

 برائے مہربانی لوگوں کے تقویٰ کا فیصلہ خدا پر چھوڑ دیں۔ مزید براں، آپ نے اپنی MBBS کی ڈگری چھوڑ کر کسی پر احسان نہیں فرمایا۔ ایک غریب آدمی ایسا نہیں کر سکتا، جو اپنی دیہاڑی، ریڑہی اور نوکری چھوڑ کر سہ روزوں، چلوں اور سال کے دوروں پر جاتے ہیں، انکی نہ تو جائیدادیں ہوتی ہیں اور نہ ہی اہل و عیال کے کفیل۔ وہ اپنی آخرت کے چکر میں کافی لوگوں کی دنیاوی پریشانی کا باعث بن رہے ہوتے ہیں۔

 والسلام،
 ایک خیر خواہ
 عاکف خان