Showing posts with label Extremism. Show all posts
Showing posts with label Extremism. Show all posts

Sunday, April 28, 2024

کیا آبادی ایک مسئلہ ہے؟

دنیا میں آبادی کی کثافت فی سکویئر کلومیٹر کے حساب سے۔
Wikimedia Creative Commons License CC0 1.0

تحریر و تحقیق: ڈاکٹر عاکف خان

نوٹ: حوالہ جات مضمون کے آخر میں لف ہیں۔

‎آپ نے اکثر پاکستانی دانشوروں کو آبادی کے مسئلے پر بات کرتے سنا ہو گا کہ آبادی کا طوفان آ رہا ہے اور سب مسائل کی جڑ کسی طرح آبادی ہے۔ زیادہ بچے پیدا کرنے سے بہت مسائل ہو جائیں گے۔ آبادی کا بم پھٹنے والا ہے وغیرہ۔ ایک نیو مالتھوزین متھ (neo-Malthusian) ہے۔ یہ نظریہ کہ آبادی تمام مسائل کی جڑ ہے پہلی بار تھامس رابرٹ مالتھوز جو کہ ایک اکانومسٹ اور پادری تھا نے اٹھارویں صدی کے اختتام پر ۱۷۹۸ عیسوی میں اپنی تحریر آبادی کے اصول پر ایک مضمون (An Essay on the Principle of Population) میں پیش کیا تھا جسے اس کے دور میں ہی اس کے ہم عصروں نے ہی رد کر ڈالا تھا یعنی اس کے مضمون کی لاجک غلط ثابت کر دی تھی۔ اس کے باوجود اکثر لوگ کالونیلزم اور ستر اسی کی دہائی کے کچھ لکھاریوں کی تحریروں کو لوح قلم سمجھ کر آنکھیں بند کر کے یقین رکھتے ہیں اور مزید کچھ جاننے اور سوچنے سمجھنے کی زحمت نہیں کرتے خاص طور پر ہمارے اردو میڈیم دانشوران۔ آئیے دیکھتے ہیں آبادی کیسے ایک مسئلہ نہیں ہے۔ 


‎سب سے پہلے تو زیادہ بچے پیدا کرنا کوئی لگژری نہیں ہے۔ بلکہ زیادہ بچے پیدا نہ کرنا ایک لگژری ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ایک خاتون نہ صرف بچے پیدا کرنے کے پریشر میں ہوتی ہے بلکہ اولاد نرینہ کی پیدائش کی بھی ذمہ دار سمجھی جاتی ہے وہاں اس طرح کی توقعات اور پوش ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر کنڈومز تقسیم کرنے کی باتیں کرنا بہت آسان ہے۔ اسی طرح اس معاشرے میں جہاں بزرگوں کے لیے کوئی اولڈ ایج انشورنس یا صحت اور علاج کی یقین دہانی کا نظام نہیں ہے، وہاں بچوں کو اولڈ ایج انشورنس کے طور پر بھی پیدا کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس کا خمیازہ بچے کیسے بھگتتے ہیں وہ ایک الگ دکھی داستان ہے جس پر پہلے ایک دفعہ بات کی تھی۔ لہذا پہلی بات ذہن نشین کر لیں کہ کم آبادی معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود اور ترقی کی ضامن نہیں ہے بلکہ معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود کم آبادی کی ضامن ہے۔ یہ معاملہ الٹا ہے۔ اسی طرح ایک بڑا مسئلہ خواتین کی صحت اور بہبود کا ہے۔ وہ بھی اسی فلاح و بہبود سے جُڑا ہے۔ جب معاشرے میں تعلیم، صحت، حقوق اور آزادی دستیاب ہو گی تو خواتین معاشرتی دباو اور والدین بڑھاپے سے پریشان ہو کر زیادہ بچے پیدا نہیں کریں گے۔ 


‎لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا زیادہ آبادی ایک مسئلہ ہے؟ اس کا فیصلہ مندرجہ ذیل حقائق سن کر خود کیجیے۔ آبادی بڑھنے کی ایک شرح ہوتی ہے اور اس کی ایک حد ہوتی ہے۔ اس کو فرٹیلیٹی ریٹ یا شرح نمو کہتے ہیں۔ جب یہ شرح نمو دو سے کم ہو جائے تو وہ آبادی بعھنا رک جاتی ہے اور کچھ عرصے بعد اس آبادی کا بقا خطرے میں پڑ جاتا ہے بلکہ ناپید ہو جاتا ہے۔ کیا آپ کو علم ہے پاکستان کی آبادی کی شرح سن دو ہزار میں پانچ اعشاریہ تین تھی، جو کہ دو ہزار تئیس میں کم ہو کر تین اعشاریہ چار سات پر پہنچ گئی ہے۔ اگر یہ اسی رفتار سے کم ہوتی رہی تو آبادی اچھی خاصی ہونے کے باوجود سن دو ہزار ستر میں یہ شرح نمو دو سے کم ہو جائے گی۔ اس سے چند دہائیوں میں آبادی کا بقا خطرے میں پڑ جائے گا اور جنریشن گیپ بھی بن جائے گا۔ جس طرح جاپان اور کئی ترقی یافتہ ممالک حتی کہ چین میں بھی جنریشن گیپ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جلد ہی ان ممالک میں ایک پوری نسل ناپید ہو گی اور بزرگوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا اور کئی جگہ یہ کام ہو چکا ہے۔ چین نے کئی دہائیوں تک ایک بچے کی پالیسی اپنائی رکھی۔ اس کا نقصان چین نے کچھ برس پہلے ہی محسوس کرنا شروع کر دیا۔ لہذا انہوں نے دو بچوں، پھر تین کی اجازت دی اور اب زیادہ بچے پیدا کرنے پر انعام رکھ دیا ہے۔ مگر چونکہ اب چین میں معاشی اور معاشرتی خوشحالی آ چکی ہے، بزرگوں کے لیے اولڈ ایج انشورنس دستیاب ہے، خواتین کی صحت کے مسائل حل ہو چکے ہیں، تو حکومتی اقدامات کے باوجود لوگ ایک یا دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ 


‎کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ بڑھتی مہنگائی بچوں کی تعلیم، صحت اور مستقبل کے مواقع کے لیے ایک خطرہ ہے مگر کیا آپ نے کبھی سوچا ہے بڑھتی مہنگائی اور غربت کے باوجود بھی زیادہ بچے پیدا کرنے کی شرح غریب طبقات میں زیادہ کیوں ہے۔ اس کی وجوہات بھی مندرجہ بالا ہیں۔  


کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ بڑھتی مہنگائی بچوں کی تعلیم، صحت اور مستقبل کے مواقع کے لیے ایک خطرہ ہے مگر کیا آپ نے کبھی سوچا ہے بڑھتی مہنگائی اور غربت کے باوجود بھی زیادہ بچے پیدا کرنے کی شرح غریب طبقات میں زیادہ کیوں ہے۔ اس کی وجوہات بھی مندرجہ بالا ہیں۔ 


جہاں تک رہا وسائل کا تعلق تو مسئلہ وسائل کا نہیں ان کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے۔ آپ کو پچھلے برس ورلڈ فوڈ پروگرام اور ایلن مسک کا وہ قضیہ یاد ہو گا جس میں ورلڈ بنک نے ایلون مسک کو بتایا کہ دنیا کی بھوک کا مسئلہ محض چھ ارب ڈالرز میں حل کیا جا سکتا ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ ٹاپ ٹین بلیئنرز کے پاس کُل پندرہ سو ارب ڈالرز سے زائد پیسہ ہے۔ جبکہ دنیا میں اس وقت تقریبا تین ہزار بلیئنرز (جن کے پاس کم از کم ایک بلین ڈالر سے زائد پیسہ ہے) موجود ہیں جن کے پاس کل پیسہ چودہ ہزار دو سو ارب ڈالر سے زائد پیسہ موجود ہے۔ دنیا میں ہر سال تقریبا دو سو پچاس کروڑ ٹن کھانا ضائع ہوتا ہے جس کی کل قیمت دو ہزار ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ صرف امریکہ میں سالانہ چھ کروڑ ٹن کھانا ضائع ہوتا ہے جو ایک سو پینتالیس ارب لوگوں کو کھلایا جا سکتا ہے اور جس کی قیمت چار سو ستر ارب ڈالر ہے۔ دنیا میں اس وقت سالانہ تقریبا اسی کروڑ افراد بھوک کا سامنا کر رہے ہیں جنہیں کھانے کے لیے سالانہ بیس کروڑ ٹن کھانا چاہیے۔ یعنی کہ دنیا میں ضائع ہونے والے ایک سال کے کھانے سے دنیا کے بھوکے افراد کو بارہ سال تک کھانا کھلایا جا سکتا ہے، اور یاد رہے یہ ایک بہت اچھے ایوریج کھانے کی بات ہو رہی ہے۔ دنیا میں سالانہ ضائع ہونے والے کھانے کی مد میں دنیا کی پوری آبادی کو دو وقت کا عام تین اعشاریہ پانچ ڈالر کا کھانا پینتیس سال تک کھلایا جا سکتا ہے۔ اب خود اندازہ لگا لیں کہ وسائل کی کمی ہے یا وسائل کی تقسیم اور ضیاع کا مسئلہ ہے۔ 


اب آتے ہیں دھرتی ماتا پر پڑنے والے بوجھ اور ماحولیاتی اثر پر۔ دنیا کے آٹھ ارب انسانوں کو اگر آپ ایک ڈھیر میں اوپر نیچے رکھیں تو وہ گرینڈ کینیئن کے ایک چھوٹے سے حصہ میں پورے آ جائیں گے۔ زرعی ترقی نے خوراک کا حصول بہت آسان بنا دیا ہے۔ جی ایم اوز، کھادوں، جڑی بوٹیاں تلف کرنے والی ادویات اور زرعی مشینری نے کم رقبے سے زیادہ خوراک کا حصول ممکن بنا دیا ہے یعنی آپ ماحول کو کم سے کم متاثر کر کے زیاہد خوراک حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر یہ سب ترقی نہ ہوتی تو آپ کو زرعی زمین کے حصول کے لیے زیادہ جنگلات کاٹنے پڑتے اور زیادہ ایکوسسٹمز کی قربانی دینی پڑتی۔ اب تو صحرائی علاقوں کو بھی قابل کاشت بنانے کی ٹیکنالوجی موجود ہے۔ 


جہاں تک رہا کاربن فٹ پرنٹ یا گلوبل وارمنگ کا مسئلہ، تو یہاں بھی ایک دلچسپ فیکٹ سنیں۔  کاربن فٹ پرنٹ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایک شخص نے اپنے بجلی، پانی، خوراک، کچرے وغیرہ سے کتنی کاربن ڈائی اکسائیڈ ماحول میں پیدا کی یا واپس چھوڑی جس سے گلوبل وارمنگ پیدا ہوتی ہے۔ ایک امریکی شہری کا سالانہ کاربن فٹ پرنٹ بیس ٹن کے قریب ہے جبکہ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک بھارت میں ایک شخص کا سالانہ کاربن فٹ پرنٹ محض ایک ہے۔ سعودی عرب میں پندرہ، متحدہ عرب امارات میں پینتیس، بحرین میں اڑتیس، کویت میں ، ہالینڈ پچاس، کویت اکتیس اور چین پانچ ہے۔ جبکہ پاکستان میں صفر اعشاریہ سات آٹھ ہے۔ ایک ترقی یافتہ ملک کے گاوں کے پورے خاندان کا سالانہ کاربن فٹ پرنٹ بھی دو تین کے قریب ہوتا ہے۔ چین میں یہ محض دو ٹن ہے۔ عموما یہ فٹ پرنٹ شہری علاقوں کے ایک گھرانے سے تین گنا کم ہوتا ہے۔ پاکستان اور دنیا کی زیادہ تر آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے تو اندازہ لگا لیں کہ کیا آبادی ماحول کو متاثر کر رہی ہے یا کچھ اور؟


اس میں ایک اور مسئلہ انسانی آزادی اور چوائس کا ہے۔ انہی دانشوروں سے سوال ہے جو انسانی آزادی اور چوائس کے قائل ہیں، یوجینیکس کے مخالف ہیں، کیا وہ انسانوں پر قوانین اور حکومتوں کے ذریعے آبادی پر قابو مسلط کرنا چاہتے ہیں؟ یا غریب کو آزادی کا حق حاصل نہیں کیا اس دانشوری میں ان کی ایلیٹزم تو نہیں عود کر آئی؟ یہ سوال یہ خواتین و حضرات خود سے پوچھیں تو بہتر ہے۔ 


ان تمام حقائق کی روشنی میں اب آپ اس نظریے کی جانچ کر سکتے ہیں کہ واقعی آبادی ایک مسئلہ ہے اور کیا وہ لوگ جو بار بار یہ باتیں دہراتے ہیں، غریبوں کو عید پر کنڈومز گفٹ کرتے ہیں، غریب بچوں کی تصویریں لگا کر اپنا سوشل میڈیا کلاوٹ بڑھاتے ہیں، اپنے ایلیٹزم کے باعث غرباء سے نفرت کو زیادہ بچے پیدا کرنے اور آبادی کے طعنوں کے پیچھے چھپاتے ہیں، غریب کی غربت کا مذاق اڑا کر دانشور بنتے ہیں، درست ہیں۔ فیصلہ آپ کا۔


نوٹ: مزید مطالعہ کے لیے میٹ ریڈلی کی کتاب دی ریشنل آپٹمسٹ اور پروفیسر ہانز روزلنگ کی کتاب فیک فل نس پڑھی جا سکتی  یاد رہے کہ اس مضمون میں محض اعداد و شمار پر بات کی گئی ہے اور اس کا تعلق کسی دائیں بازو جیسے پاپولیشن ریسرچ انسٹیٹیوٹ یا بائیں بازو کے نظریات کی تائید نہیں ہے۔ فدوی خواتین کے اپنے جسم کے حوالے سے تمام فیصلوں کا حق اور آزادی بشمول ابارشن اور برتھ کنٹرول کو تسلیم کرتا ہے۔  

حوالہ جات


https://www.theguardian.com/environment/datablog/2009/sep/02/carbon-emissions-per-person-capita 


https://pubs.acs.org/doi/10.1021/acs.est.1c01374


https://www.wfp.org/global-hunger-crisis


https://www.forbesindia.com/article/explainers/top-10-richest-people-world/85541/1


https://www.iea.org/commentaries/the-world-s-top-1-of-emitters-produce-over-1000-times-more-co2-than-the-bottom-1


https://scied.ucar.edu/learning-zone/climate-solutions/carbon-footprint#:~:text=Worldwide%2C%20the%20average%20person%20produces,of%20carbon%20dioxide%20each%20year.


“The results show that in 2018 in rural China, the average household carbon footprint is 2.46 tons CO2-eq per capita, which is around one-third of China’s average footprint, indicating the large potential for further growth.”

https://pubs.acs.org/doi/10.1021/acs.est.1c01374


https://www.un.org/development/desa/pd/sites/www.un.org.development.desa.pd/files/files/documents/2020/Feb/un_2015_worldfertilityreport_highlights.pdf


“The current population fertility rate of Pakistan is 3.2828 births per woman. A -1.92% decrease from 2023, when the fertility rate was 3.347 births per woman. In the future, Pakistan's fertility rate is projected to decrease to 1.8588 childern born per woman, by the year 2100. A total decrease of the fertility rate of Pakistan's by -43.38% from today's standard.”

https://database.earth/population/pakistan/fertility-rate#google_vignette


Amount of food consumption: https://www.statista.com/forecasts/1298375/volume-food-consumption-worldwide


Amount of food wasted: https://www.wfp.org/stories/5-facts-about-food-waste-and-hunger


‏#docakkh #ڈاکٹر_عاکف_خان #akifonymous

Wednesday, February 22, 2023

کچھ داستان مدرسے کے دنوں کی

نیچے ایک مولوی کے خلاف ایف آئی آر کی تصویر ہے۔ یہ مولوی ایک چھوٹی بچی کے ساتھ دس درازی کر رہا تھا قرآن پڑھاتے وقت۔ اس واقعے کی ویڈیوبھی موجود ہے۔ ہم نے مدرسے میں پانچ سال گزارے۔ ایسے کئی واقعات دیکھے مگر کوئی ہماری باتوں پر یقین نہیں کرتا تھا۔ موبائل، کیمرہ، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے اب بہت سے رازوں سے پردے اٹھا دیے ہیں مگر کچھ لوگ پھر بھی ماننے کو تیار نہیں۔ اکثر سمجھتے ہیں ہمارے بچوں کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ ہمارا قاری بہت اچھا ہے۔ 

مولوی دو ہی طرح کے ہوتے ہیں یا ایسے یا تشدد پسند۔ ہمارے مولوی صاحب تشدد پسند تھے۔ تشدد پسندوں کا قصہ سنیں جن سے ہمارا واسطہ پڑا۔ انہوں نے میرے کزن کی پسلی تک توڑ دی تھی۔ بلاوجہ مار دھاڑ روز کا معمول تھا۔ سیب کے درخت کی چھڑیاں رکھی ہوتی تھیں جن پر ٹیپ لپیٹی ہوتی تھی۔ جس پہلے مدرسے سے ناظرہ پڑھا وہاں کے قاری کے پاس بھی ایک چھوٹا بیس بال نما ڈنڈا ہوتا تھا جو وہ دور سے پھینکتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک بچے کی آنکھ میں جا لگا۔ اس کی آنکھ ضائع ہوتے بچی۔ 

ہمارا ایک ساتھی طالب ہوتا تھا حفظ اور ترجمہ تفسیر کے دنوں۔ اس کو فلمیں دیکھنے کا بہت شوق تھا سینما جا کر۔ ختمانے کے پیسے اکٹھے کر کے مہینے میں ایک آدھ بار تاج محل سینما جاتا تھا۔ فلم دیکھتا تھا۔ واپس آ کر کہانی سناتا تھا۔ مقیم طالب تھا۔ دس گیارہ بہن بھائی تھے ماں باپ نے پکا مدرسے میں ڈال دیا تھا۔ کوئی پوچھنے نہیں آتا تھا مہینوں۔ جس کا مطلب تھا قاری صاحب جیسے مرضی اس سے برتاو کریں۔ صبح فجر کے بعد قاری صاحب کے گھر دہی پہنچانے کا کام اس کا تھا۔ روزانہ مار پڑتی تھی اور حد سے زیادہ۔ اسے سبق یاد نہیں ہوتا تھا۔ کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔ قاری صاحب اس کی قمیض اوپر کر کے برہنہ کمر پر چھڑی سے مارتے تھے۔ بہت ترس آتا تھا۔ نیاز نام تھا۔ پتا نہیں اب کدھر ہو گا اور کیسا مولوی بنا ہو گا۔ 

نوے کی دہائی کے آخری سالوں میں جو شدت پسندی کی لہر آئی تھی، والد صاحب کو بہا لے گئی۔ ہم سب کو مدرسے میں ڈال دیا۔ پانچ سال رگڑا کھایا۔ ہم ڈے سکالر تھے اور تین بھائی، ایک فرسٹ کزن اور باقی کچھ دور کے کزنز۔ گروپ تھا لہذا بڑے شکاری طالبوں کے ہاتھوں جنسی تشدد سے بچ گئے۔ جو اکیلا لڑکا ہوتا تھا اس کی شامت ہوتی تھی۔ اس پر ان شکاریوں کی نظر ہوتی تھی۔ سامنے قرآن کھلا ہوتا تھا اور وہ کچھ ہوتا تھا کہ الامان الحفیظ۔ ہمارا ہال اوپر والی دوسری منزل پر ہوتا تھا۔ عصر کی نماز کے وقت نیچے نماز ہوتی تھی اوپر اندھیرا ہوتا تھا۔ اکثر اوقات اسی وقت وہ شکاری اس ہال پر قابض ہوتے تھے۔ انہی میں سے ایک ہماری قریبی مسجد کا امام بن گیا۔ ایک دن مجھے رستے میں پکڑا تم نماز پڑھنے کیوں نہیں آتے۔ تمہیں علم ہے جماعت کی نماز چھوڑنے پر کتنا عذاب ہے۔ میں نے کہا تمہارے پیچھے پڑھنے پر کتنا عذاب ہے۔ کھسیانا ہو گیا۔ 

صبح اذان سے پہلے پہنچنا ہوتا تھا۔ سردی، برف اور کہر میں منفی ڈگریز میں جرابوں کے تین تین جوڑے سویٹریں چادریں ٹوپیاں جیکٹیں پہنے آدھی نیند میں جاتے تھے۔ ظہر سے عصر دوسری شفٹ ہوتی تھی۔ عصر کے بعد ترجمہ تفسیر کا درس۔ ساتھ دن کو سکول۔ صبح نیا سبق اور سبقی پارہ جبکہ ظہر کے بعد منزل یعنی ایک پچھلا پارہ بالترتیب سنانا ہوتا تھا۔ 

میٹرک کے امتحانات آئے تو قاری صاحب سے چھٹی مانگی۔ نہیں دی۔ کہتے دینی تعلیم کو برتر نہ سمجھو۔ حالانکہ خود اپنے بیٹے کو مجھ سے مفت ٹیوشن پڑھاتے تھے۔ پرائیویٹ سکول میں پڑھتا تھا۔ اکلوتا تھا۔ بعد میں وہ بھی عالم بنا مگر ایک حادثے میں اپنی جان گنوا بیٹھا۔ میں جب کبھی اسے پڑھانے نہ جاتا تو شامت آ جاتی۔ بات بات پر مار پڑتی۔ خیر ایک وقت کی چھٹی مانگی وہ بھی نہیں دی۔ آخر اس بات پر راضی ہوئے کہ نیا سبق نہ سناو۔ انگریزی کے پرچے والے دن والد صاحب نے کہا آج نہ جاو، گھر دوہرائی کر لو۔ ظہر کے وقت جب مدرسے پہنچا تو قاری صاحب نے دو چھڑیاں تیار رکھی تھیں۔ ایک انہوں نے مجھے مار مار کر مجھ پر توڑی، دوسری میں نے ان پر اور مدرسے سے ننگے پاوں بھاگ گیا۔ 

والد صاحب کو بھی سمجھ آ گئی کہ یہ کام نہیں چلنا۔ آہستہ آہستہ سب نکل آئے مدرسے سے۔ تین مدرسوں میں وقت گزارا، تینوں میں یہی حال تھا۔ بڑے بڑے لڑکوں کو مرغا بنایا ہوتا تھا پانچ پانچ گھنٹے۔ غریب لڑکے مار کی پریکٹس مشینیں ہوتے تھے۔ ایک دفعہ ایک لڑکے کو اس لیے مار پڑی کیونکہ اس نے واری صاحب کو دو ماہ سے چائے نہیں ہلائی تھی۔ ایک اور کو قاری صاحب کے بڑے بیٹے نے مار مار کر ادھ موا کر دیا کیونکہ اس نے قاری صاحب کے چھوٹے بیٹے سے لڑائی کی تھی جو الگ سے مدرسے کا پھنے خان تھا۔ 

بھائی اور کزن کئی بار بھاگے مدرسے سے۔ ایک دفعہ کزن کو خانیوال اور ایک دفعہ کراچی سے واپس لائے۔ مدرسہ چھوڑنے کے بعد اپنی تعلیم پر توجہ دی۔ ایک بھائی نے کمپیوٹر انجینیئرنگ کی، ایک نے کیمسٹری، ایک نے سی اے۔ تینوں یو کے ہوتے ہیں۔ جبکہ ہم نے پی ایچ ڈی کی۔ باقی بھی جو جو اس وقت نکل گیا، کہیں پہنچ گیا مگر اس وقت کی مہر سب کے ذہنوں پر ثبت ہے۔ اب اس بچی کے ذہن پر کیسے ثبت ہو گی، خدا جانتا ہے۔ 

 

Friday, December 26, 2014

Why Pakistan needs secularism

(This piece was orginally published in The Nation and can be read here.)

In Pakistan, liberals are often accused of working on the Western agendas and being covert agents of “enemies” of Pakistan. They are also thought to be the ones who malign Pakistan’s image by cherry-picking few mishaps in the country. Let us explore the basis of these accusations and why these liberal “fascists” cry for secularism and liberalism and are opposed to Islamic system (aka Khilafat) in the country.

First of all there is this national narcissistic attitude and national state of denial. The incoherent syllabus, media and jingoist protectors of the “ideological boundaries” reinforce this state of narcissism and delusion. We need to realize that there are issues here and we have to address them. The first stage is - to identify these problems, the second is speaking up, third creating awareness and the last stage is where we will be able to move towards finding solutions.

Wednesday, August 13, 2014

Khan's Concerns Vs Khan's Demands

Source: http://i.dawn.com/primary/2014/07/53c388654494e.jpg

Imran Khan's concerns are not at all wrong. He may be right about many things. He may be right about corruption. He is right about conflict of interest. He is right about nepotism. He is right about tax evasion. He is right about Nandipur project. He is right about hooliganism of Punjab government. He may be right about rigging as well.

However, his demands are not political. PMLN, regardless of everything won public mandate, whether he likes it or not. The electorate is uneducated. The politicians are enslaved in feudal setup. Nepotism is part of our culture. Even his party had nepotism related vibes. Corruption is an old disease. It cannot be cured in a single day. Democracy is a slow process. People cannot be educated or liberated from this setup at once. Rome was not built in a day. The people joining him in this march are purely rejected lot or religious elements having a bad track record. Those taking sides with him is a thing of grave concern. The protest seems purely derailing towards peace and stability and hence democracy.

Tuesday, August 5, 2014

Gaza Siege to Israel’s Isolation! Just a matter of time?

The world is being completely asymmetrical in the terms of peace. Middle East, Eastern Europe and Africa are struck with wars. Hatred is rampant. Violent political ideologies are mushrooming from every nook and corner of the world. More wars with more hatred and more bloodshed would be the ultimate folly at this time. More chaos is the last thing humanity can afford!

Gaza is not only about Muslims anymore. It was and it is about humanity. Gone are the days when millions of people could be massacred, pogroms be run, apartheid be nationalized and nobody would know. This is the world with information age. Nothing dreadful or inhumane can be kept hidden behind anything. Even corporate media cannot control the information dissemination. Despite all its ills, social media has completely changed the scenario of access to information. It has changed the way war crimes could be hidden. Social media is also becoming a strong support for electronic media, not only in the terms of marketing but also as an information and opinion resource. The free speech on social media has considerably affected the media aspect of international politics and peace promotion. This evolving and new budding dimension of media has affected the recent episode of Gaza conflict as well. In 2008, for example, when social media was not much popular, the war couldn’t get the needed coverage. While, now, in 2014, despite of strong Israeli propaganda to cover the brutal side of the war, word got out.

Friday, May 16, 2014

Geo/ARY Case: Blasphemy laws for corporate agendas and state sanctioned persecution after religious persecution and personal vendettas.

It was a very sleepy morning. Cool breeze would'nt let me get up from bed any time earlier. As per my bad habit, after shutting down my alarm I opened my twitter and fb apps and saw this torrent of anger against Geo on twitter feed and facebook timeline. I was completely confused as to what sinister act has Geo committed now?

Digging it deeper, I found out that a Qawali was played in some morning show at Geo on a virtual wedding that our brother Mubashar Lucman inherently disliked and didn't hesitate to show it to his viewers on ARY TV. What was that Qawali? Then there was this Sunni Itehad council issuing fatwas against Geo, filing cases and petitions and I saw my Shia friends relatively more hyper than Sunni friends on their timelines. It seemed a serious condition.

Monday, November 11, 2013

ذاتی رائے

عاکف خان


اس وقت ملک کی دگرگوں صورتحال میں مہنگائی، غربت، تعلیم، دہشت گردی، بھوک اور لوڈشیڈنگ سے بالاتر دو مسائل ہیں جن پر ساری قوم غوروغوض کرنے میں مصروف ہے۔ میںنے سوچا میں بھی موقع سے فائدہ اٹھاؤں۔ تمیزالدین رپورٹ کی گریٹ ڈیبیٹ "کون کافر ہے اور کون مسلمان" کو درمیان میں چھوڑ کر قوم اس وقت ایک تو اس قومی ڈیبیٹ میں مشغول ہے کہ کون شہید ہے اور دوسرا مسئلہ ہے اظہار ذاتی رائے کا۔

میری ذاتی رائے کے مطابق ذاتی رائے ایک انتہائی واضح معانی کا حامل ایک لفظ تھا۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے اس بے ضرر لفظ کا انتہائی جارحانہ استعمال شروع کر دیا گیا ہے۔ آپ کسی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اور آپ کوئی بھی بیان داغ دیں- اگر وہ موافق نہ آیا تو آپ کے اہلکار اسکو آپ کی ایک ذاتی رائے قرار دے کر آپ کی جان چھڑا دیں گے۔

Charachteristics of a Patriotic Pakistani Mard-i-Momin


Why is it that I found most of the people in Pakistan with this same profile. They believe in following things unanimously.

1. Imran Khan is the hope and he will bring the change.

2. There are Good Taliban and Bad Taliban.

3. Good Taliban are very peaceful and they just goto Afghanistan to fight US.

4. Bad Taliban are RAW/CIA agents.

5. We need Shariah in Pakistan.

Tuesday, September 10, 2013

وڈیرا شاہی، طالبان اور اے پی سی

کل جب نوجوان شاہزیب کے قاتل کو شاہزیب کے والدین کی طرف سے معافی ملنے کی خبر سنی تو سارا دن جھنجھلاہٹ طاری
رہی اور خون جلتا رہا۔ کہ یہ کیسا ملک ہے جہاں ایک قتل کو ریاست کے خلاف بغاوت تصور ہی نہیں کیا جاتا، جہاں ایک ظالم اپنی بریت کے بعد فتح کے نشان بناتا ہے، جہاں قانون کی بالادستی کی یہ حد ہے کہ قاتل دھونس دھاندلی، طاقت اور پیسے کے بل بوتے پر پوری انسانیت کے خلاف جرم پر بھی باعزت بری ہو جاتا ہے۔ جہاں دیعت اور معافی جیسےراستوں سے ایک بااثر شخص قانون کی گرفت سے مکھن میں سے بال کی طرح نکل جاتا ہے، وہاں 80٪ غریب لوگوں کا خون کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔ کہیں ذیادہ دبائو پڑا تو پیسہ اور طاقت کو استعمال کر لیا۔

Thursday, August 15, 2013

کیلے کی پٹائی

مبینہ کیلا حوالات جانے سے پہلے
۔(اسلام آباد، مملکت خداداد) کل ایک کیلے کو مسجد کے باہر بغیر چھلکے پڑا دیکھ کر مومنین نے مار مار کے اسکا شیک بنا ڈالا۔ کیلے نے مبینہ طور پر رمضان مبارک کی توہین کی تھی۔ اسلامی ملک میں رمضان المبارک کے تقدس کے لیئے خاص قوانین موجود ہیں۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جہاں ٪95 سے زائد آبادی مسلمان ہے۔ 80 کی دہائی  میں ان اسلامی قوانین کی تشکیل کے بعد ریاستی سرپرستی میں مومنین کو نصاب، نسیم حجازی کے ناولوں اور کوڑوں کی مدد سے ان قوانین کے بارے میں آگہی فراہم کی گئی تھی جس کی افادیت اس کیلے کے انجام سے واضح ہوتی ہے۔ کیلے کے خلاف تھانہ کوہکن میں احترام رمضان آرڈیننس مروجہ 1981، سیکشن4 اور پاکستان پینل کوڈ، دفعہ 295-الف کے تحت مسجد کے مولانا صاحب کی قیادت میں  ایف آئی آر درج کروا دی گئی ہے۔

Thursday, July 18, 2013

ملالہ کا ڈرامہ – سازشی نظریے

پوری دنیا کے ٹی وی، اخبارات اور نیوز چینلز پر چلنے والے آج کل ایک رجحان کی ہی بات کرتے ہیں جس میں ہماری قوم گھری ہوئی ہے۔ ڈرامے کا مرکزی کردار ٹین ایجر ملالہ یوسفزئی نے انجام دیا، ڈرامے میں نام نہاد طالبان عورتوں کے حقوق اور تعلیم کے لیے آواز اٹھانے پر ملالہ کو گولی مار دیتے ہیں۔ طالبان سے منسوب تمام کہانیاں محض افسانہ ہی تو ہیں حالانکہ طالبان تو اس روئے زمین کے سب سے معزز اور امن پسند لوگ ہیں۔ کالی پگڑیاں باندھنے والے ان خراسانیوں کے بارے میں پیشین گوئی کی گئی ہے کہ یہ اسلام کے رکھوالے ہیں اور بس چند برے لوگوں کی وجہ سے ہی بدنام ہیں جو کہ سی آئی اے، را اور موساد کے اہلکار ہیں۔ 

Friday, June 28, 2013

Green House Effect of US-Taliban talks

Comments on the article by Hussain Haqqani in NY Times today.


Agreeing to Haqqani, I guess US is aiming for short term goals over here. Adding to the same, the next battleground of Taliban ideological warfare will be Pakistan and it will be source for their ideology dissemination and manpower recruitment. No matter how much we reject this but TTP and other Taliban groups like Maulvi Nazir and Haqqani group in Pakistan have clearly expressed several times that they consider Mullah Omar as Ameer-ul-Momineen and their Jihad is the extension of Afghan Jihad against US supported democratic (Democracy = Kafirana Nizam) country, Pak Army and people of Pakistan who elected this government.

Sunday, April 21, 2013

Bloody Self-Righteousness Syndrome

This self-righteousness is the reason that others get offensive to you. This self-righteousness of yours is the reason that others attack your faith. Do you realize, how much hurting is it when somebody judges you due to your faith? You can realize this only when you are in the same situation. When somebody makes a movie or writes a book, how much is it hurtful to you? You never realize that same is true for others when you break their idols, call them inferior, kafir, don't reply to their salutations the same way. This is because your ego does not accept that you are inferior to somebody else.

Here the question is not that you do not consider your's superior. Everybody does. Do that. But keep it to yourself. Don’t make it impact the lives of others. Don’t make your own ego affect others. Don’t make your superiority kill anyone else. Keep it to yourself. It is your personal matter and it is the other person’s personal matter.

At least, you should realize that it is a bloody personal thing of other person and he/she is responsible for that, NOT you. You have no right to judge anyone else. You have no right to judge if someone is right or wrong.

Tuesday, January 15, 2013

Hazara Shia Genocide - Protest Updates from Islamabad

Right: Irfan Khudi Ali, Left: Ali Abbas Zaidi
Courtesy: Ali Abbas Zaidi (http://ow.ly/gLfEQ)
10th of January, 2013, Thursday night was catastrophic for the Hazara Ethnic Community of Quetta when in a dual bomb blast atleast 100 Hazaras were murdered in cold blood. As usual Lashkar-i-Jhangwi accepted the responsibility. A well known peace activist Irfan Khudi Ali from Hazara community was among the deceased. The corpses were completely mutilated due to bomb blast and the unfortunate relatives of the deceased had to collect their body parts. Irfan was buried without an arm.
Sadly and shamefully people are completely unaware of the tragic condition of Hazaras in Balochistan. They even don't know who are Hazaras. Senior journalists from Islamabad even, confuse Hazara Ethnic group of Quetta with Hazara Division of KPK. Let me clear it here that both are entirely different things. Hazara is an ethnic community and more than 0.5 Million of them are settled in Quetta since last 200 years. There are many prominent Hazaras whose services to Pakistan can never be forgotten. General Musa Khan was a Hazara. More on Hazara People can be learnt from here, http://en.wikipedia.org/wiki/Hazara_people.

Monday, January 14, 2013

E-Jihadis at Full Throttle: Fake Column of Hamid Mir

http://rationalistpk.org/2012/11/e-jihadis-at-full-throttle-fake-column.html

Today Ahmad Waqass Goraya tagged me in a post of E-Jihadis on a facebook page named Golden Pakistan (https://www.facebook.com/Goldenpak). What I saw was equally nonsense and depressing. There was a column by Hamid Mir Sb in which he exposed his editor and some other fellow journalists including Mubashar Luqman, Nusrat Javed, Kamran Khan and Hassan Nisar. What I read was unbelievable and It was perceived at the first moment that it was a fake column. But provided the conditions of our youth present in social media and the shares of this column (shown in the picture below) one needs to worry a lot. Because this trend is not going to let create any sense of reason in the society. I am posting the link of the column and providing summary for those who cannot read Urdu.

Saturday, September 1, 2012

The Tale of Two Men

There was a man who was born in a middle class family. He rose to excellence and became world famous. Human race owes him much due to his contributions. One of the brilliant minds of twentieth century, he brought to us not only national prides and honors but also made possible for thousands of other Pakistanis to earn respects and titles. 100s of people from Pakistan get their PhDs every year due to the efforts he made for them when he was alive. I am talking about Dr. Abdus Salam. Dr. Abdus Salam is the first and only Pakistani who is a Nobel laureate. He is also one of the founders of PAEC and contributed a lot in nuclear program of Pakistan. He also established many other programs, which have made possible for Pakistan earn many endeavors that could never be achieved otherwise. Abdus Salam International Centre forTheoretical Physics (ICTP) in Italy, founded by Dr. Abdus Salam provides scholarships to hundreds of students from third world countries for their PhDs, every year. His most significant contribution is the Salam-Weinberg theory of weak forces that now made possible the discovery of Higgs Boson: the last missing link of theory of universe.

Wednesday, March 21, 2012

Losing my gears


Hassan Nisar at a TV Talk Show
There was a time, I remember, when we used to post respectable Hassan Nisar's views on society and religion. Those new and logical ideas made "The arrivals" and "constructive narrative" evaporate out of our heads. I even remember that whenever he used to opine in his challenging logical style, most of the people who are making him his hero now used to term him as Kaafir(Infidel). 99% of Imranists were of the view that he is a traitor and a RAW agent who does not acknowledge Ghaznavi or Ghauri as his heroes. A person who called written Islamic history a "BS" and who was always of the view that our society had become delusional by adopting fake fantasies and was always busy in cooking up conspiracies in its mind.

Thursday, June 9, 2011

The Killing of a young boy, The brutality in the state of denial


A young man, named Sarfraz had been shot down by Rangers publicly on the eve of 8th June, in Benazir Bhutto Park, Boat Basin area of Karachi. He was involved in a crime according to Mr. Rehman MalikInterior Minister. The rangers stated that he was killed in an encounter.

Those who have seen the video of this incident, captured by public present there, must'v observed the encounter. The encounter with a helpless, empty handed boy, student of 10th class. Well, if he was involved in a crime (looting as mentioned), how does this crime renders him executable in public by a ranger? Is there no legislation in country, does the constitution allows people to show this brutality on their own will? The poor soul was shot in  was left bleeding to death.

The humanity and sensibility must'v mourned over the cold bloodedness of 5 Rangers standing there. I recall the brutality on the face of killer when he fired from his G5, another person holding the boy from his hair. They seemed least human to me. These are saviors of public, but public needs saviors to save them from these people.

Friday, August 7, 2009

Violence against lawyers in Lahore

Violence, In whatever form is condemnable. It can also be called as a tool of devil. In Lahore yesterday what happened is truly very bad. The legendary and successfull social movement of Pakistan is facing a dillemma. But there are many facts and figures to be considered before we go into the details of the incident.
Since the restoration of Judges earlier this year, passion and zeal has been emerged in the hearts of Pakistanis.

Monday, April 6, 2009

Chakwal Mishap, April 5th, 2009

The incident happened in Chakwal, Pakistan on 5th of April 2009 in an Imam Bargah left many died, injured, dismayed and tortured too. Previously in the last month a similar incident happened in a mosque in Khyber Agency, in Federal Administered Areas(FATA) of Pakistan. Indeed both mishaps are the incidents which cannot be left un-condemned.