کل جب نوجوان شاہزیب کے قاتل کو شاہزیب کے والدین کی طرف سے معافی ملنے کی خبر سنی تو سارا دن جھنجھلاہٹ طاری
رہی اور خون جلتا رہا۔ کہ یہ کیسا ملک ہے جہاں ایک قتل کو ریاست کے خلاف بغاوت تصور ہی نہیں کیا جاتا، جہاں ایک ظالم اپنی بریت کے بعد فتح کے نشان بناتا ہے، جہاں قانون کی بالادستی کی یہ حد ہے کہ قاتل دھونس دھاندلی، طاقت اور پیسے کے بل بوتے پر پوری انسانیت کے خلاف جرم پر بھی باعزت بری ہو جاتا ہے۔ جہاں دیعت اور معافی جیسےراستوں سے ایک بااثر شخص قانون کی گرفت سے مکھن میں سے بال کی طرح نکل جاتا ہے، وہاں 80٪ غریب لوگوں کا خون کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔ کہیں ذیادہ دبائو پڑا تو پیسہ اور طاقت کو استعمال کر لیا۔
چلیں مان لیا کہ شاہزیب کے والدین نےساڑھے 3 کروڑ نہیں لئیے لیکن کیا انہوں نے معافی کی مثال قائم کی؟ معافی کی مثالیں ریاست کے قوانین کے خلاف استعمال نہیں کی جا سکتیں۔ اگر ایک شخص قتل جیسا جرم کر کے اتنی آسانی سے نکل جائے گا تو وہ کل کو باقی معاشرے کے لئیے بھی پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔ انتہائی اہم نکتہ یہ ہے کہ ایسا جرم پورے معاشرے کے خلاف ایک جارحانہ قدم ہے اور معاشرے کے حقوق کی ترجمان ریاست تصور کی جاتی ہے نہ کہ کوئی فرد واحد۔ مگر آفرین ہے قوانین میں موجود سقم پر اور ان کو دور کرنا تو دور کوئی ان کے بارے بات کرے تو فتویٰ فیکٹریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ حال ہی میں ایک سعودی نے اپنی 5 سالہ بچی کو جسمانی ذیادتی کرنے کے بعد قتل کیا تو بچی کی ماں نے وارث بن کے شوہر کو معاف کر دیا اور وہ باعزت بری ہو گیا۔ پاکستان میں بھی یہ کام نمایاں طور پر ہو رہا ہے۔ شاہزیب کے واقع میں شاہ رخ جتوئی کو عدالت براےَ انسداد دہشتگردی
نے جون 2013 میں سزائے موت سنائی تھی اور اینٹی ٹیررزم ایکٹ مروجہ 2007 کی دفعہ 21(ف) کے تحت حکومت کے علاوہ ایسے مقدمات میں کوئی اور معافی نہیں دے سکتا۔ اب یہاں پر کیا سپریم کورٹ میں سزا کیخلاف اپیل دائر کرنے سے پاکستان پینل کوڈ، دفعہ 309 کے تحت ورثاء معافی دینے کے مجاز ہیں یا نہیں یہ قوانین جانیں یا اس میں سقم ڈھونڈنے والے وڈھیروں کے وکلاء لیکن آپ سوچیئے گا ضرور۔
البتہ قوانین کے سقم سے قطع نظر معاشرتی اثرات کے بارے میں میرے تین سوالات ہیں۔
پہلا یہ کہ وہ شخص جو ایک ظالم اور غاصب سے اپنی بہن کی عزت بچاتے ہوئے اپنی جان ہار گیا، اسکے خوابوں کا کیا، اسکی اپنی کائنات کا کیا؟ اور کیا کل کو کوئی کسی غاصب وڈھیرے سے اپنی عزت اور غیرت کو محفوظ نہ سمجھے کیونکہ انکی طاقت اور پیسہ باآسانی انہیں قانون کی گرفت سے بچا لے گا؟ مجھے یہ بھی سمجھ نہیں آتی کے غیرت بریگیڈ ایسے موقعوں پر کہاں سو جاتی ہے؟ کل انہی کی قبیل کے ایک صاحب میرے ان خیالات کے اوپر فرما رہے تھے کہ آپ مذہب کے خلاف بات کر تے ہیں اور آپ جیسے لبرلز ایسا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، اب میں انہیں سمجھا سمجھا تھک گیا کہ حضور یہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے اور میں نے کب کوئی ایسی بات کی لیکن شنوائی نہ ہوئی۔
دوسرا یہ کہ کیا کوئی عورت اب ایسے کسی غاصب مرد کے خلاف آواز بھی اٹھا سکے گی کہ مبادا میرا بھائی بیچ میں آ کے مارا نہ جائے۔ اسکے سامنے یہ سوال کیا کسی اذیت سے کم ہے کہ تیری عزت یا تیرے بھائی کی جان؟
تیسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ معاشرے میں قانون کی گرفت کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے، کیا یہ مطلق العنانی کی طرف ایک واضح قدم نہیں ہو گا؟ کیا کوئی شخص ایسے معاشرے میں خود کو محفوظ تصور کر سکے گا؟
مجھے یقین ہے کہ بہت سے احباب مجھ پر دو تین اعتراضات ضرور اٹھائیں گے، لیکن میں خود ہی انکی مشکل آسان کیئے دیتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ شاہ زیب کے والدین کے دل پر یہ فیصلہ کرتے ہوئے بہت بری گزر رہی ہو گی ، قطع نظر اس بات کے کہ شقی القلب والدین کی بھی دنیا میں کوئی کمی نہیں لیکن میرا سوال قانون پر ہے کہ اس میں اتنی گنجائش ہی کیوں ہے کہ کوئی والدین سے زبردستی یا کسی بھی طرح اس طرح کیس سے دستبرداری حاصل کر سکے چہ جائیکہ منت سماجت یا دھونس دھاندلی اور وہ بھی سزا کے اعلان کے بعد۔۔ اگر آپ سزائے موت سننے کے بعد حضور جتوئی صاحب کے تاثرات ملاحظہ کریں تو آپ کو انکے چہرے پر شرمندگی، خوف اور ندامت کے بجائے تفاخر، دیدہ دلیری اور چیلنج نظر آئے گا۔ میں سزائے موت کا بھی وکیل نہیں ہوں۔ مہذب معاشروں میں مجرموں کو باسہولت جیلوں کے اندر بھی جرم کی سنگینی کا احساس دلوا ہی دیا جاتا ہے۔
البتہ ایک اعتراض ایسا ہے جسکا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ وہ یہ ہے کہ کیا اس سے پہلے ہم محفوظ تھے؟ اور چند سوال جنکے جواب ہم جانتے بوجھتے نہیں دینا چاہتے وہ یہ ہیں کہ کیا کراچی محفوظ ہے؟ کیا 50 ہزار افراد جو دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں وہ محفوظ تھے؟ کیا وہ سب شاہ زیب نہیں ہیں؟ کیا انکے قاتل اور شاہزیب کے قاتل میں مماثلت نہیں ہے؟ جب کالعدم تنظیموں کے ارکان سینکڑوں لوگوں کو قتل کرنے کے بعد باعزت بری ہو جاتے ہیں یا درجنوں جیلوں سے فرار ہو جاتے ہیں تب کیا قانون کو کوئی مانتا ہے؟ جب ایسے لوگ باہر نکل کے کہتے ہیں کہ ہم تو وہی کریں گے جو ہم کرتے آئے تو کیا اس وقت ان کے چہروں پر آپ نے کہیں ندامت کے آثار دیکھے؟
شاہ رخ نے تو قانون کے سقم سے فائدہ اٹھایا آپ انکے بارے میں کیا کہیں گے جو سیاسی رہنما فرماتے ہیں کہ چونکہ طالبان سے پوچھ کر آئین نہیں بنایا گیا تو ان سے آئین کے تناظر میں بات نہیں کی جا سکتی لہٰذا آزاد مذاکرات ہونے چاہیئیں اور انکے سربراہ کے بارے میں جو کہتے ہیں کہ فوجی مداخلت نے قبائلیوں کے جہادی جزبہ کو مجروح کیا ہے جس پر وہ سیخ پا ہیں۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ حضور جو القائدہ اور بیرونی ممالک کے جنگجو بیٹھے ہیں اور آپ کی اتحادی جماعت کے کارکنان کے گھروں اور ہاسٹلوں کے کمروں سے برامد ہوتے ہیں ان کے ہم نے کون سے جذبات مجروح کیئے ہیں؟ یا ایک اور جماعت کے سربراہ سے جن کی جماعت کے لوگ کالعدم تنظیموں کے ارکان کو جیل سے رہائی پر گلدستوں اور گاڑیوں کے لشکر کے ساتھ خوش آمدید کہتے ہیں، کیا یہ سب آپ کو قانون کے سقم کا فائدہ اٹھاتے دکھائی نہیں دیتے؟
You can sign the petition by clicking here to urge Government of Pakistan to revisit these laws.
(I would like to thank Ms. Urooj, Lawyer by Profession for providing valuable input in the legal dimensions of this article.)
(I would like to thank Ms. Urooj, Lawyer by Profession for providing valuable input in the legal dimensions of this article.)
No comments:
Post a Comment