Sunday, April 28, 2024

سائنس کیسے کام کرتی ہے اور ہمارے سوشل میڈیا دانشور

 

Science Experiment Vectors by Vecteezy

تحریر: ڈاکٹر عاکف خان

مختصراً سائنس ایسے کام کرتی ہے کہ جب آپ کوئی مشاہدہ کرتے ہیں اور اپنے سابقہ علم کی بنیاد پر کوئی مفروضہ بناتے ہیں تو سائنسی طریقہ کار کے مطابق آپ یہ نہیں کرتے کہ اس مفروضے کے حق میں ثبوت اور شواہد اکٹھے کرنا شروع کر دیں۔ یہ طریقہ کار بیسویں صدی سے پہلے استعمال ہوتا تھا اور اسے انڈکشن میتھڈ (Induction Method) کہتے تھے لیکن سائنس کی دنیا میں ایک فلسفی کارل پاپر (Karl Popper) آیا جس نے اس طریقہ کار پر اعتراضات اٹھائے اور سائینٹیفک میتھڈ (Scientific Method) کو نئے سرے سے ڈیفائن کیا۔ 


اب سائنس میں یہ ہوتا ہے کہ جب آپ کوئی مفروضہ بناتے ہیں تو اول اس کو رد کرنے کی سہی کرتے ہیں۔ یعنی ایسے تجربات اور مشاہدات نہیں کرتے جس سے وہ مفروضہ درست ثابت ہو بلکہ ایسے تجربات اور مشاہدات ڈیزائن کرتے ہیں جس سے وہ مفروضہ غلط ثابت ہو سکے۔ اس کو فالسیفیکیشن میتھڈ (Falsification Method or Falsifiability) یا رد کرنے کا طریقہ کہتے ہیں۔ اس طرح کئی تجربات بار بار کیے جاتے ہیں۔ اگر وہ مفروضہ غلط ثابت ہو جائے تو اس کو وہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ مگر اگر وہ بدستور غلط ثابت نہ ہو سکے تو اسے درست سمجھا جاتا ہے۔ لیکن مستقبل میں بھی اس بات کی گنجائش ہوتی ہے کہ کوئی نئے تجربات یا نئی ٹیکنالوجی سے کوئی ایسا تجربہ کرے جو اس مفروضے کو غلط یا مزید بہتر بنا سکے۔ 


دوسرا ضروری کام یہ کرنا ہوتا ہے کہ اپنے سارے طریقہ کار کو للھ کر متعلقہ سائنسی جریدے کو بھیجا جاتا ہے جہاں فیلڈ کا ایک بڑا ایکسپرٹ/سائنسدان بیٹھا ہوتا ہے جو اس کام کو پرکھتا ہے کہ کیا یہ واقعی سائنسی معیار پر پورا اترتا ہے یعنی کیا ان لوگوں نے تمام شواہد فالسیفیکیشن سے اکٹھے کیے ہیں۔ کیا بنیادی تجربات کے ساتھ سپورٹنگ تجربات بھی کیے گئے ہیں جسے کوروبوریٹیو ایویڈنس (Corroborative Evidence) یا تائیدی شواہد/تجربات کہا جاتا ہے جو کہ مفروضے کی نہیں ان تجربات کی تائید کرتے ہیں۔ 


تیسرے نمبر پر وہ ایکسپرٹ یہ سب متعین کرنے کے بعد بھی اس کام کو مزید دو سے چار اور بعض اوقات زیادہ ایکسپرٹس کو بھیجتا ہے جو اس کام کو تفصیل سے پڑھ کر اس میں سے غلطیاں نکالتے ہیں، اسے ریجیکٹ کرتے ہیں یا مزید بہتر بنانے کے لیے مزید کوروبوریٹیو ایویڈنس پر مبنی تجربات پروپوز کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ کام شائع ہوتا ہے۔ اس عمل کو پیئر ریویو (Peer Review) کہتے ہیں۔ ان پیئر ریویور (Reviewer) کو کام کرنے والے سائنسدان نہیں جانتے تا کہ وہ ان پر اثرانداز نہ ہو سکیں۔ اس کو سنگل بلائنڈ ریویو (Single Blind Review) کہا جاتا ہے۔ کچھ جریدے ڈبل بلائنڈ ریویو (Double Blind Review) استعمال کرتے ہیں۔ جس میں ریویور بھی کام کرنے والوں کو نہیں جانتے۔ مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی دوست۔ 


اس کے بعد یہ ہوتا ہے کہ کچھ سائنسی جریدے اس کام میں بہت سختی دکھاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی ساکھ مضبوط ہوتی ہے۔ جبکہ کچھ جریدے اس کام میں نرمی دکھاتے ہیں جس سے ان کی ساکھ تھوڑی کمزور ہوتی ہے۔ اس ساکھ کو اس جریدے کے کوارٹائیل، امپیکٹ فیکٹر، سائتیشن سکور، ایچ انڈیکس (یعنی دوسرے جرائد نے اس جریدے کے کام کے آزاد حوالے یعنی دوسرے سائئنسدانوں کی طرف سے حوالے کتنے دیے ہیں)۔ لیکن ان اعداد و شمار پر بھی بھروسہ نہیں کیا جاتا۔ بعض اوقات ایک کم ساکھ والے جریدے میں اچھا کام اور ایک اچھی ساکھ والے جریدے میں ایوریج کام بھی شائع ہو جاتا ہے۔ سائنسدانوں کی کمیونٹی کے اندر بھی اس بات کا علم ہوتا ہے کہ کونسا جریدہ بہتر ہے اور کونسا نہیں۔ ایکسپرٹس کو یہ بھی علم ہوتا ہے کہ کون سا کام اچھے طریقے سے کیا گیا ہے اور کونسا نہیں۔ 


اس کے بعد ان شائع شدہ مقالوں کو ہزاروں مزید ایکسپرٹس پڑھتے ہیں ریپیٹ اور ریپروڈیوس کرتے ہیں یعنی وہ کام اپنی لیب میں آزادانہ طور پر نئے سرے سے کرتے ہیں۔ یہ کام عموما ماسڑرز اور پی ایچ ڈی سٹوڈنٹس اپنا کام سیکھنے کے لیے کرتے ہیں یا اگر کسی نے کنفرم کرنا ہو وہ کرتا ہے۔ پھر اسی کام سے متعلقہ کئی دوسرے کام یا اس کے اگلے مراحل کا کام کیا جاتا ہے۔  اس کے بعد اگر وہ سائنس ایپلائیڈ ہو تو اس کے مطابق نئی ٹیکنالوجی بنتی ہے جو کہ واقعی میں کام کرتی ہے اور اس میں وقت اور ضرورت کے مطابق ٹیکنالوجسٹ اور انجینیئر مزید بہتری لاتے ہیں۔ تھیوری آف گریویٹی اور ارتقاء کے نظریات اس طریقہ کار سے ہو کر گزرے ہوئے ہیں اور ابھی تک ان کو رد کرنے والے تمام تجربات غلط ثابت ہوئے ہیں، اس لیے ان کو درست تسلیم کیا جاتا ہے۔ اگر آج بھی کوئی دسویں مالے سے چھلانگ لگا کر اوپر کو اڑے یا یا کوئی ایسا فاسل دریافت کر دے جو ارتقاء کے نظریے کے برخلاف ہو یعنی آپ اگر انسان کا فاسل چھ کروڑ سال پہلے کا دریافت کر لیں تو باآسانی ان نظریات کو رد کر سکتے ہیں اور سائنسدان بخوشی آپ کی بات کو مانیں گے بلکہ آپ کو یقینا نوبیل پرائز سے بھی نوازا جائے گا۔ 


کارل پاپر کے اس طریقے کو وضع کرنے کے بعد محض سو سالوں میں سائنسی ترقی کا حال آپ نے دیکھ لیا ہے۔ جنرل ریلیٹیوٹی کی بنیاد پر پوری دنیا کا کمیونیکشن نظام کام کرتا ہے۔ ساری میڈیکل سائنس ارتقاء کے نظریے کی وجہ سے کام کرتی ہے۔ 


سائینٹیفیک میتھڈ کی ایک اولین مثال ایڈنگٹن (Eddington) کا وہ تجربہ تھا (اس پر ایک فلم بھی بن چکی ہے Einstein and Eddingtonکے نام سے) جس نے آئن سٹائن کی تھیوری آف جنرل ریلیٹیویٹی کو درست ثابت کیا۔ حقیقت میں وہ تجربہ آئن سٹائن کی تھیوری کو رد کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ یعنی کہ اگر ایڈنگٹن کو سورج گرہن کے وقت ستارے اپنی جگہ سے ہلے ہوئے نظر نہ آتے تو آئن سٹائن کی تھیوری کہ گریویٹی سپیس کو موڑتی ہے اور روشنی بھی اس کے ساتھ مڑتی ہے غلط ثابت ہو جاتا۔ 


مختلف سائنسز میں یہ طریقہ کار مختلف طریقوں اور ناموں سے استعمال ہوتا ہے۔ میتھیمیٹکس میں کانٹراڈکشن سے، سوشل سائنسز اور تھیوریٹیکل سائنسز میں شماریات یعنی سٹیٹیسٹکس سے کانفیڈنس لمٹ معلوم کی جاتی ہے۔ شماریات نیچرل اور فزیکل سائنسز میں بھی کوروبوریٹیو ایویڈنس کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ چونکہ میں ایک فزیکل سائنسز کا طالبعلم ہوں تو اسی حوالے سے مثالیں دیں۔


اب ایسے علوم جن کو غلط ثابت کرنے کے تجربات نہیں کیے جا سکتے جیسے مثال کے طور پر آسٹرالوجی، پامسٹری، نیومرالوجی، ہومیوپیتھی وغیرہ۔ آپ کو ان کے ماننے والے ہمیشہ تائیدی ثبوت دیتے نظر آئیں گے۔ فلاں کے برج میں یہ تھا تو یہ ہوا۔ فلاں نے ہومیوپیتھی کی دوائی لی تو پتھری نکل گئی۔ مگر نہ تو وہ خود اپنے مفروضوں کے لیے رد کرنے والے تجربات کریں گے، نہ کسی کو کرنے دیں گے نہ کسی سے پیئر ریویو کروائیں گے کہ کیا سب برجوں کے ساتھ یہ ہوا کیا پتھری محض پانی کے استعمال سے تو نہیں نکل آئی، بہت سے لوگوں کو ہومیوپیتھی کی دوائی دیے بغیر چیک کر کے شماریاتی تجزیہ کیا جائے وغیرہ۔ اس لیے ان چیزوں کو سوڈو سائنس کہا جاتا ہے۔ 


اصل میں یہ پوسٹ لکھنے کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر کچھ دانشور خواتین و خضرات اپنے نظریات کے تائیدی شواہد ہی اکٹھے کرتے نظر آتے ہیں۔ کلاوٹ، فالوورز اور وہ لوگ جو کمنٹس میں واہ واہ، مور پاور ٹو یو، کیا بات ہے، بہت اعلی، لکھتے/لکھتی رہا کریں، وغیرہ جیسی گردانیں کرتے ہیں۔ مگر جونہی کوئی ان کے مفروضوں کے برخلاف شوائد یا دلیل دے تو اس کو لیبل لگا کر بلاک کر دیا جاتا ہے۔ اناپرستی اور خودپرستی کا رقص شروع ہو جاتا ہے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ تضحیک اور ذاتی حملے اس میں شمار نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں کو نہ صرف بلاک کرنا چاہیے بلکہ پچھلی پوسٹ کی وضاحت کی روشنی میں گھر پہنچا کر بھی آنا چاہیے۔ 


(ڈاکٹر عاکف خان)


#docakkh #ڈاکٹر_عاکف_خان #akifonymous

کیا آبادی ایک مسئلہ ہے؟

دنیا میں آبادی کی کثافت فی سکویئر کلومیٹر کے حساب سے۔
Wikimedia Creative Commons License CC0 1.0

تحریر و تحقیق: ڈاکٹر عاکف خان

نوٹ: حوالہ جات مضمون کے آخر میں لف ہیں۔

‎آپ نے اکثر پاکستانی دانشوروں کو آبادی کے مسئلے پر بات کرتے سنا ہو گا کہ آبادی کا طوفان آ رہا ہے اور سب مسائل کی جڑ کسی طرح آبادی ہے۔ زیادہ بچے پیدا کرنے سے بہت مسائل ہو جائیں گے۔ آبادی کا بم پھٹنے والا ہے وغیرہ۔ ایک نیو مالتھوزین متھ (neo-Malthusian) ہے۔ یہ نظریہ کہ آبادی تمام مسائل کی جڑ ہے پہلی بار تھامس رابرٹ مالتھوز جو کہ ایک اکانومسٹ اور پادری تھا نے اٹھارویں صدی کے اختتام پر ۱۷۹۸ عیسوی میں اپنی تحریر آبادی کے اصول پر ایک مضمون (An Essay on the Principle of Population) میں پیش کیا تھا جسے اس کے دور میں ہی اس کے ہم عصروں نے ہی رد کر ڈالا تھا یعنی اس کے مضمون کی لاجک غلط ثابت کر دی تھی۔ اس کے باوجود اکثر لوگ کالونیلزم اور ستر اسی کی دہائی کے کچھ لکھاریوں کی تحریروں کو لوح قلم سمجھ کر آنکھیں بند کر کے یقین رکھتے ہیں اور مزید کچھ جاننے اور سوچنے سمجھنے کی زحمت نہیں کرتے خاص طور پر ہمارے اردو میڈیم دانشوران۔ آئیے دیکھتے ہیں آبادی کیسے ایک مسئلہ نہیں ہے۔ 


‎سب سے پہلے تو زیادہ بچے پیدا کرنا کوئی لگژری نہیں ہے۔ بلکہ زیادہ بچے پیدا نہ کرنا ایک لگژری ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ایک خاتون نہ صرف بچے پیدا کرنے کے پریشر میں ہوتی ہے بلکہ اولاد نرینہ کی پیدائش کی بھی ذمہ دار سمجھی جاتی ہے وہاں اس طرح کی توقعات اور پوش ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر کنڈومز تقسیم کرنے کی باتیں کرنا بہت آسان ہے۔ اسی طرح اس معاشرے میں جہاں بزرگوں کے لیے کوئی اولڈ ایج انشورنس یا صحت اور علاج کی یقین دہانی کا نظام نہیں ہے، وہاں بچوں کو اولڈ ایج انشورنس کے طور پر بھی پیدا کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس کا خمیازہ بچے کیسے بھگتتے ہیں وہ ایک الگ دکھی داستان ہے جس پر پہلے ایک دفعہ بات کی تھی۔ لہذا پہلی بات ذہن نشین کر لیں کہ کم آبادی معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود اور ترقی کی ضامن نہیں ہے بلکہ معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود کم آبادی کی ضامن ہے۔ یہ معاملہ الٹا ہے۔ اسی طرح ایک بڑا مسئلہ خواتین کی صحت اور بہبود کا ہے۔ وہ بھی اسی فلاح و بہبود سے جُڑا ہے۔ جب معاشرے میں تعلیم، صحت، حقوق اور آزادی دستیاب ہو گی تو خواتین معاشرتی دباو اور والدین بڑھاپے سے پریشان ہو کر زیادہ بچے پیدا نہیں کریں گے۔ 


‎لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا زیادہ آبادی ایک مسئلہ ہے؟ اس کا فیصلہ مندرجہ ذیل حقائق سن کر خود کیجیے۔ آبادی بڑھنے کی ایک شرح ہوتی ہے اور اس کی ایک حد ہوتی ہے۔ اس کو فرٹیلیٹی ریٹ یا شرح نمو کہتے ہیں۔ جب یہ شرح نمو دو سے کم ہو جائے تو وہ آبادی بعھنا رک جاتی ہے اور کچھ عرصے بعد اس آبادی کا بقا خطرے میں پڑ جاتا ہے بلکہ ناپید ہو جاتا ہے۔ کیا آپ کو علم ہے پاکستان کی آبادی کی شرح سن دو ہزار میں پانچ اعشاریہ تین تھی، جو کہ دو ہزار تئیس میں کم ہو کر تین اعشاریہ چار سات پر پہنچ گئی ہے۔ اگر یہ اسی رفتار سے کم ہوتی رہی تو آبادی اچھی خاصی ہونے کے باوجود سن دو ہزار ستر میں یہ شرح نمو دو سے کم ہو جائے گی۔ اس سے چند دہائیوں میں آبادی کا بقا خطرے میں پڑ جائے گا اور جنریشن گیپ بھی بن جائے گا۔ جس طرح جاپان اور کئی ترقی یافتہ ممالک حتی کہ چین میں بھی جنریشن گیپ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جلد ہی ان ممالک میں ایک پوری نسل ناپید ہو گی اور بزرگوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا اور کئی جگہ یہ کام ہو چکا ہے۔ چین نے کئی دہائیوں تک ایک بچے کی پالیسی اپنائی رکھی۔ اس کا نقصان چین نے کچھ برس پہلے ہی محسوس کرنا شروع کر دیا۔ لہذا انہوں نے دو بچوں، پھر تین کی اجازت دی اور اب زیادہ بچے پیدا کرنے پر انعام رکھ دیا ہے۔ مگر چونکہ اب چین میں معاشی اور معاشرتی خوشحالی آ چکی ہے، بزرگوں کے لیے اولڈ ایج انشورنس دستیاب ہے، خواتین کی صحت کے مسائل حل ہو چکے ہیں، تو حکومتی اقدامات کے باوجود لوگ ایک یا دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ 


‎کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ بڑھتی مہنگائی بچوں کی تعلیم، صحت اور مستقبل کے مواقع کے لیے ایک خطرہ ہے مگر کیا آپ نے کبھی سوچا ہے بڑھتی مہنگائی اور غربت کے باوجود بھی زیادہ بچے پیدا کرنے کی شرح غریب طبقات میں زیادہ کیوں ہے۔ اس کی وجوہات بھی مندرجہ بالا ہیں۔  


کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ بڑھتی مہنگائی بچوں کی تعلیم، صحت اور مستقبل کے مواقع کے لیے ایک خطرہ ہے مگر کیا آپ نے کبھی سوچا ہے بڑھتی مہنگائی اور غربت کے باوجود بھی زیادہ بچے پیدا کرنے کی شرح غریب طبقات میں زیادہ کیوں ہے۔ اس کی وجوہات بھی مندرجہ بالا ہیں۔ 


جہاں تک رہا وسائل کا تعلق تو مسئلہ وسائل کا نہیں ان کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے۔ آپ کو پچھلے برس ورلڈ فوڈ پروگرام اور ایلن مسک کا وہ قضیہ یاد ہو گا جس میں ورلڈ بنک نے ایلون مسک کو بتایا کہ دنیا کی بھوک کا مسئلہ محض چھ ارب ڈالرز میں حل کیا جا سکتا ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ ٹاپ ٹین بلیئنرز کے پاس کُل پندرہ سو ارب ڈالرز سے زائد پیسہ ہے۔ جبکہ دنیا میں اس وقت تقریبا تین ہزار بلیئنرز (جن کے پاس کم از کم ایک بلین ڈالر سے زائد پیسہ ہے) موجود ہیں جن کے پاس کل پیسہ چودہ ہزار دو سو ارب ڈالر سے زائد پیسہ موجود ہے۔ دنیا میں ہر سال تقریبا دو سو پچاس کروڑ ٹن کھانا ضائع ہوتا ہے جس کی کل قیمت دو ہزار ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ صرف امریکہ میں سالانہ چھ کروڑ ٹن کھانا ضائع ہوتا ہے جو ایک سو پینتالیس ارب لوگوں کو کھلایا جا سکتا ہے اور جس کی قیمت چار سو ستر ارب ڈالر ہے۔ دنیا میں اس وقت سالانہ تقریبا اسی کروڑ افراد بھوک کا سامنا کر رہے ہیں جنہیں کھانے کے لیے سالانہ بیس کروڑ ٹن کھانا چاہیے۔ یعنی کہ دنیا میں ضائع ہونے والے ایک سال کے کھانے سے دنیا کے بھوکے افراد کو بارہ سال تک کھانا کھلایا جا سکتا ہے، اور یاد رہے یہ ایک بہت اچھے ایوریج کھانے کی بات ہو رہی ہے۔ دنیا میں سالانہ ضائع ہونے والے کھانے کی مد میں دنیا کی پوری آبادی کو دو وقت کا عام تین اعشاریہ پانچ ڈالر کا کھانا پینتیس سال تک کھلایا جا سکتا ہے۔ اب خود اندازہ لگا لیں کہ وسائل کی کمی ہے یا وسائل کی تقسیم اور ضیاع کا مسئلہ ہے۔ 


اب آتے ہیں دھرتی ماتا پر پڑنے والے بوجھ اور ماحولیاتی اثر پر۔ دنیا کے آٹھ ارب انسانوں کو اگر آپ ایک ڈھیر میں اوپر نیچے رکھیں تو وہ گرینڈ کینیئن کے ایک چھوٹے سے حصہ میں پورے آ جائیں گے۔ زرعی ترقی نے خوراک کا حصول بہت آسان بنا دیا ہے۔ جی ایم اوز، کھادوں، جڑی بوٹیاں تلف کرنے والی ادویات اور زرعی مشینری نے کم رقبے سے زیادہ خوراک کا حصول ممکن بنا دیا ہے یعنی آپ ماحول کو کم سے کم متاثر کر کے زیاہد خوراک حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر یہ سب ترقی نہ ہوتی تو آپ کو زرعی زمین کے حصول کے لیے زیادہ جنگلات کاٹنے پڑتے اور زیادہ ایکوسسٹمز کی قربانی دینی پڑتی۔ اب تو صحرائی علاقوں کو بھی قابل کاشت بنانے کی ٹیکنالوجی موجود ہے۔ 


جہاں تک رہا کاربن فٹ پرنٹ یا گلوبل وارمنگ کا مسئلہ، تو یہاں بھی ایک دلچسپ فیکٹ سنیں۔  کاربن فٹ پرنٹ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایک شخص نے اپنے بجلی، پانی، خوراک، کچرے وغیرہ سے کتنی کاربن ڈائی اکسائیڈ ماحول میں پیدا کی یا واپس چھوڑی جس سے گلوبل وارمنگ پیدا ہوتی ہے۔ ایک امریکی شہری کا سالانہ کاربن فٹ پرنٹ بیس ٹن کے قریب ہے جبکہ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک بھارت میں ایک شخص کا سالانہ کاربن فٹ پرنٹ محض ایک ہے۔ سعودی عرب میں پندرہ، متحدہ عرب امارات میں پینتیس، بحرین میں اڑتیس، کویت میں ، ہالینڈ پچاس، کویت اکتیس اور چین پانچ ہے۔ جبکہ پاکستان میں صفر اعشاریہ سات آٹھ ہے۔ ایک ترقی یافتہ ملک کے گاوں کے پورے خاندان کا سالانہ کاربن فٹ پرنٹ بھی دو تین کے قریب ہوتا ہے۔ چین میں یہ محض دو ٹن ہے۔ عموما یہ فٹ پرنٹ شہری علاقوں کے ایک گھرانے سے تین گنا کم ہوتا ہے۔ پاکستان اور دنیا کی زیادہ تر آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے تو اندازہ لگا لیں کہ کیا آبادی ماحول کو متاثر کر رہی ہے یا کچھ اور؟


اس میں ایک اور مسئلہ انسانی آزادی اور چوائس کا ہے۔ انہی دانشوروں سے سوال ہے جو انسانی آزادی اور چوائس کے قائل ہیں، یوجینیکس کے مخالف ہیں، کیا وہ انسانوں پر قوانین اور حکومتوں کے ذریعے آبادی پر قابو مسلط کرنا چاہتے ہیں؟ یا غریب کو آزادی کا حق حاصل نہیں کیا اس دانشوری میں ان کی ایلیٹزم تو نہیں عود کر آئی؟ یہ سوال یہ خواتین و حضرات خود سے پوچھیں تو بہتر ہے۔ 


ان تمام حقائق کی روشنی میں اب آپ اس نظریے کی جانچ کر سکتے ہیں کہ واقعی آبادی ایک مسئلہ ہے اور کیا وہ لوگ جو بار بار یہ باتیں دہراتے ہیں، غریبوں کو عید پر کنڈومز گفٹ کرتے ہیں، غریب بچوں کی تصویریں لگا کر اپنا سوشل میڈیا کلاوٹ بڑھاتے ہیں، اپنے ایلیٹزم کے باعث غرباء سے نفرت کو زیادہ بچے پیدا کرنے اور آبادی کے طعنوں کے پیچھے چھپاتے ہیں، غریب کی غربت کا مذاق اڑا کر دانشور بنتے ہیں، درست ہیں۔ فیصلہ آپ کا۔


نوٹ: مزید مطالعہ کے لیے میٹ ریڈلی کی کتاب دی ریشنل آپٹمسٹ اور پروفیسر ہانز روزلنگ کی کتاب فیک فل نس پڑھی جا سکتی  یاد رہے کہ اس مضمون میں محض اعداد و شمار پر بات کی گئی ہے اور اس کا تعلق کسی دائیں بازو جیسے پاپولیشن ریسرچ انسٹیٹیوٹ یا بائیں بازو کے نظریات کی تائید نہیں ہے۔ فدوی خواتین کے اپنے جسم کے حوالے سے تمام فیصلوں کا حق اور آزادی بشمول ابارشن اور برتھ کنٹرول کو تسلیم کرتا ہے۔  

حوالہ جات


https://www.theguardian.com/environment/datablog/2009/sep/02/carbon-emissions-per-person-capita 


https://pubs.acs.org/doi/10.1021/acs.est.1c01374


https://www.wfp.org/global-hunger-crisis


https://www.forbesindia.com/article/explainers/top-10-richest-people-world/85541/1


https://www.iea.org/commentaries/the-world-s-top-1-of-emitters-produce-over-1000-times-more-co2-than-the-bottom-1


https://scied.ucar.edu/learning-zone/climate-solutions/carbon-footprint#:~:text=Worldwide%2C%20the%20average%20person%20produces,of%20carbon%20dioxide%20each%20year.


“The results show that in 2018 in rural China, the average household carbon footprint is 2.46 tons CO2-eq per capita, which is around one-third of China’s average footprint, indicating the large potential for further growth.”

https://pubs.acs.org/doi/10.1021/acs.est.1c01374


https://www.un.org/development/desa/pd/sites/www.un.org.development.desa.pd/files/files/documents/2020/Feb/un_2015_worldfertilityreport_highlights.pdf


“The current population fertility rate of Pakistan is 3.2828 births per woman. A -1.92% decrease from 2023, when the fertility rate was 3.347 births per woman. In the future, Pakistan's fertility rate is projected to decrease to 1.8588 childern born per woman, by the year 2100. A total decrease of the fertility rate of Pakistan's by -43.38% from today's standard.”

https://database.earth/population/pakistan/fertility-rate#google_vignette


Amount of food consumption: https://www.statista.com/forecasts/1298375/volume-food-consumption-worldwide


Amount of food wasted: https://www.wfp.org/stories/5-facts-about-food-waste-and-hunger


‏#docakkh #ڈاکٹر_عاکف_خان #akifonymous

Thursday, January 11, 2024

Lessons in Chemistry - TV Show Review

Lessons in Chemistry Review

Review: Lessons in Chemistry (TV Show, Apple TV+, IMDB rating: 8.3/10, no spoilers)

Dr. Akif Khan


Lessons in Chemistry is not just a tv show and it is not just about chemistry at all. It is lessons in life, lessons in kindness, love, forgiveness, struggle, perseverance, resilience, commitment, determination, enthusiasm and passion. Do not fear the name of the show because of the word “chemistry.” It only touches the subject (sometimes not very accurately) and builds upon it and weaves the story like chemical bonds in a beautiful composite. It won’t bore you. 


Lessons in Chemistry explains the struggle of women in 50s, the first wave of feminism and civil rights movement, the challenges women faced back then in US, and are still facing in many parts of the world, especially marriage, childbirth, misogyny, “illegitimate” births, societal expectations and roles of women in society. The show also covers the homophobia and civil rights movement, including the reference to Martin Luther King Jr. How the African-American population was discriminated against and subjected to violence and systemic racism. The show also beautifully describes the matters of reason, science and faith and leaves things to the imagination of the viewer. It’s amazing how all these important and hotly debated topics are beautifully covered in this mini-series, which leaves a viewer thinking and commiserating. 


Then there is food. It reminds me of an interesting encounter. Once a friend asked me how’s your cooking. I told him I love to cook and the people who taste the food I cook tell me I am not bad. He said he would have been surprised if I weren’t good at cooking. I asked why’d he say that. He said because he believes I was a good chemist and he would’ve been surprised if I were not good at cooking. “A good chemist must be a good cook,” he said. It was kind of a revelation to me, but then it reminded me how I’d run my imagination on what must’ve been going on during the process of cooking whenever I cooked food, exactly the same way when I’d setup a reaction. The show beautifully caters to this concept. The people who love chemistry must try cooking. They’d enjoy it. 


The show is based on the book by Bonnie Garmus. I haven’t read the book, but the show does justice to it from what I have read about it. Interestingly, it was her debut novel and was NYT bestseller. Brie Larson did great as wonderful and smart chemist Elizabeth Zott. She is also the executive producer of the show and has smartly washed off the superhero tag of Captain Marvel from her career, coming about as a smart and serious actor. I rarely comment on and review stuff I read or watch now, but this show didn’t leave me a choice. I will admit there might be some bias because of chemistry, but truthfully the show is worth giving a shot. It’s light-hearted, smartly written, with good character arcs and happy moments with light comedy. You get shocked at times but there are also happy surprises waiting for you around the corner. 


Definitely 4.9/5.