دنیا میں آبادی کی کثافت فی سکویئر کلومیٹر کے حساب سے۔ Wikimedia Creative Commons License CC0 1.0 |
تحریر و تحقیق: ڈاکٹر عاکف خان
نوٹ: حوالہ جات مضمون کے آخر میں لف ہیں۔
آپ نے اکثر پاکستانی دانشوروں کو آبادی کے مسئلے پر بات کرتے سنا ہو گا کہ آبادی کا طوفان آ رہا ہے اور سب مسائل کی جڑ کسی طرح آبادی ہے۔ زیادہ بچے پیدا کرنے سے بہت مسائل ہو جائیں گے۔ آبادی کا بم پھٹنے والا ہے وغیرہ۔ ایک نیو مالتھوزین متھ (neo-Malthusian) ہے۔ یہ نظریہ کہ آبادی تمام مسائل کی جڑ ہے پہلی بار تھامس رابرٹ مالتھوز جو کہ ایک اکانومسٹ اور پادری تھا نے اٹھارویں صدی کے اختتام پر ۱۷۹۸ عیسوی میں اپنی تحریر آبادی کے اصول پر ایک مضمون (An Essay on the Principle of Population) میں پیش کیا تھا جسے اس کے دور میں ہی اس کے ہم عصروں نے ہی رد کر ڈالا تھا یعنی اس کے مضمون کی لاجک غلط ثابت کر دی تھی۔ اس کے باوجود اکثر لوگ کالونیلزم اور ستر اسی کی دہائی کے کچھ لکھاریوں کی تحریروں کو لوح قلم سمجھ کر آنکھیں بند کر کے یقین رکھتے ہیں اور مزید کچھ جاننے اور سوچنے سمجھنے کی زحمت نہیں کرتے خاص طور پر ہمارے اردو میڈیم دانشوران۔ آئیے دیکھتے ہیں آبادی کیسے ایک مسئلہ نہیں ہے۔
سب سے پہلے تو زیادہ بچے پیدا کرنا کوئی لگژری نہیں ہے۔ بلکہ زیادہ بچے پیدا نہ کرنا ایک لگژری ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ایک خاتون نہ صرف بچے پیدا کرنے کے پریشر میں ہوتی ہے بلکہ اولاد نرینہ کی پیدائش کی بھی ذمہ دار سمجھی جاتی ہے وہاں اس طرح کی توقعات اور پوش ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر کنڈومز تقسیم کرنے کی باتیں کرنا بہت آسان ہے۔ اسی طرح اس معاشرے میں جہاں بزرگوں کے لیے کوئی اولڈ ایج انشورنس یا صحت اور علاج کی یقین دہانی کا نظام نہیں ہے، وہاں بچوں کو اولڈ ایج انشورنس کے طور پر بھی پیدا کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس کا خمیازہ بچے کیسے بھگتتے ہیں وہ ایک الگ دکھی داستان ہے جس پر پہلے ایک دفعہ بات کی تھی۔ لہذا پہلی بات ذہن نشین کر لیں کہ کم آبادی معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود اور ترقی کی ضامن نہیں ہے بلکہ معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود کم آبادی کی ضامن ہے۔ یہ معاملہ الٹا ہے۔ اسی طرح ایک بڑا مسئلہ خواتین کی صحت اور بہبود کا ہے۔ وہ بھی اسی فلاح و بہبود سے جُڑا ہے۔ جب معاشرے میں تعلیم، صحت، حقوق اور آزادی دستیاب ہو گی تو خواتین معاشرتی دباو اور والدین بڑھاپے سے پریشان ہو کر زیادہ بچے پیدا نہیں کریں گے۔
لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا زیادہ آبادی ایک مسئلہ ہے؟ اس کا فیصلہ مندرجہ ذیل حقائق سن کر خود کیجیے۔ آبادی بڑھنے کی ایک شرح ہوتی ہے اور اس کی ایک حد ہوتی ہے۔ اس کو فرٹیلیٹی ریٹ یا شرح نمو کہتے ہیں۔ جب یہ شرح نمو دو سے کم ہو جائے تو وہ آبادی بعھنا رک جاتی ہے اور کچھ عرصے بعد اس آبادی کا بقا خطرے میں پڑ جاتا ہے بلکہ ناپید ہو جاتا ہے۔ کیا آپ کو علم ہے پاکستان کی آبادی کی شرح سن دو ہزار میں پانچ اعشاریہ تین تھی، جو کہ دو ہزار تئیس میں کم ہو کر تین اعشاریہ چار سات پر پہنچ گئی ہے۔ اگر یہ اسی رفتار سے کم ہوتی رہی تو آبادی اچھی خاصی ہونے کے باوجود سن دو ہزار ستر میں یہ شرح نمو دو سے کم ہو جائے گی۔ اس سے چند دہائیوں میں آبادی کا بقا خطرے میں پڑ جائے گا اور جنریشن گیپ بھی بن جائے گا۔ جس طرح جاپان اور کئی ترقی یافتہ ممالک حتی کہ چین میں بھی جنریشن گیپ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جلد ہی ان ممالک میں ایک پوری نسل ناپید ہو گی اور بزرگوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا اور کئی جگہ یہ کام ہو چکا ہے۔ چین نے کئی دہائیوں تک ایک بچے کی پالیسی اپنائی رکھی۔ اس کا نقصان چین نے کچھ برس پہلے ہی محسوس کرنا شروع کر دیا۔ لہذا انہوں نے دو بچوں، پھر تین کی اجازت دی اور اب زیادہ بچے پیدا کرنے پر انعام رکھ دیا ہے۔ مگر چونکہ اب چین میں معاشی اور معاشرتی خوشحالی آ چکی ہے، بزرگوں کے لیے اولڈ ایج انشورنس دستیاب ہے، خواتین کی صحت کے مسائل حل ہو چکے ہیں، تو حکومتی اقدامات کے باوجود لوگ ایک یا دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ بڑھتی مہنگائی بچوں کی تعلیم، صحت اور مستقبل کے مواقع کے لیے ایک خطرہ ہے مگر کیا آپ نے کبھی سوچا ہے بڑھتی مہنگائی اور غربت کے باوجود بھی زیادہ بچے پیدا کرنے کی شرح غریب طبقات میں زیادہ کیوں ہے۔ اس کی وجوہات بھی مندرجہ بالا ہیں۔
کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ بڑھتی مہنگائی بچوں کی تعلیم، صحت اور مستقبل کے مواقع کے لیے ایک خطرہ ہے مگر کیا آپ نے کبھی سوچا ہے بڑھتی مہنگائی اور غربت کے باوجود بھی زیادہ بچے پیدا کرنے کی شرح غریب طبقات میں زیادہ کیوں ہے۔ اس کی وجوہات بھی مندرجہ بالا ہیں۔
جہاں تک رہا وسائل کا تعلق تو مسئلہ وسائل کا نہیں ان کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے۔ آپ کو پچھلے برس ورلڈ فوڈ پروگرام اور ایلن مسک کا وہ قضیہ یاد ہو گا جس میں ورلڈ بنک نے ایلون مسک کو بتایا کہ دنیا کی بھوک کا مسئلہ محض چھ ارب ڈالرز میں حل کیا جا سکتا ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ ٹاپ ٹین بلیئنرز کے پاس کُل پندرہ سو ارب ڈالرز سے زائد پیسہ ہے۔ جبکہ دنیا میں اس وقت تقریبا تین ہزار بلیئنرز (جن کے پاس کم از کم ایک بلین ڈالر سے زائد پیسہ ہے) موجود ہیں جن کے پاس کل پیسہ چودہ ہزار دو سو ارب ڈالر سے زائد پیسہ موجود ہے۔ دنیا میں ہر سال تقریبا دو سو پچاس کروڑ ٹن کھانا ضائع ہوتا ہے جس کی کل قیمت دو ہزار ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ صرف امریکہ میں سالانہ چھ کروڑ ٹن کھانا ضائع ہوتا ہے جو ایک سو پینتالیس ارب لوگوں کو کھلایا جا سکتا ہے اور جس کی قیمت چار سو ستر ارب ڈالر ہے۔ دنیا میں اس وقت سالانہ تقریبا اسی کروڑ افراد بھوک کا سامنا کر رہے ہیں جنہیں کھانے کے لیے سالانہ بیس کروڑ ٹن کھانا چاہیے۔ یعنی کہ دنیا میں ضائع ہونے والے ایک سال کے کھانے سے دنیا کے بھوکے افراد کو بارہ سال تک کھانا کھلایا جا سکتا ہے، اور یاد رہے یہ ایک بہت اچھے ایوریج کھانے کی بات ہو رہی ہے۔ دنیا میں سالانہ ضائع ہونے والے کھانے کی مد میں دنیا کی پوری آبادی کو دو وقت کا عام تین اعشاریہ پانچ ڈالر کا کھانا پینتیس سال تک کھلایا جا سکتا ہے۔ اب خود اندازہ لگا لیں کہ وسائل کی کمی ہے یا وسائل کی تقسیم اور ضیاع کا مسئلہ ہے۔
اب آتے ہیں دھرتی ماتا پر پڑنے والے بوجھ اور ماحولیاتی اثر پر۔ دنیا کے آٹھ ارب انسانوں کو اگر آپ ایک ڈھیر میں اوپر نیچے رکھیں تو وہ گرینڈ کینیئن کے ایک چھوٹے سے حصہ میں پورے آ جائیں گے۔ زرعی ترقی نے خوراک کا حصول بہت آسان بنا دیا ہے۔ جی ایم اوز، کھادوں، جڑی بوٹیاں تلف کرنے والی ادویات اور زرعی مشینری نے کم رقبے سے زیادہ خوراک کا حصول ممکن بنا دیا ہے یعنی آپ ماحول کو کم سے کم متاثر کر کے زیاہد خوراک حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر یہ سب ترقی نہ ہوتی تو آپ کو زرعی زمین کے حصول کے لیے زیادہ جنگلات کاٹنے پڑتے اور زیادہ ایکوسسٹمز کی قربانی دینی پڑتی۔ اب تو صحرائی علاقوں کو بھی قابل کاشت بنانے کی ٹیکنالوجی موجود ہے۔
جہاں تک رہا کاربن فٹ پرنٹ یا گلوبل وارمنگ کا مسئلہ، تو یہاں بھی ایک دلچسپ فیکٹ سنیں۔ کاربن فٹ پرنٹ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایک شخص نے اپنے بجلی، پانی، خوراک، کچرے وغیرہ سے کتنی کاربن ڈائی اکسائیڈ ماحول میں پیدا کی یا واپس چھوڑی جس سے گلوبل وارمنگ پیدا ہوتی ہے۔ ایک امریکی شہری کا سالانہ کاربن فٹ پرنٹ بیس ٹن کے قریب ہے جبکہ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک بھارت میں ایک شخص کا سالانہ کاربن فٹ پرنٹ محض ایک ہے۔ سعودی عرب میں پندرہ، متحدہ عرب امارات میں پینتیس، بحرین میں اڑتیس، کویت میں ، ہالینڈ پچاس، کویت اکتیس اور چین پانچ ہے۔ جبکہ پاکستان میں صفر اعشاریہ سات آٹھ ہے۔ ایک ترقی یافتہ ملک کے گاوں کے پورے خاندان کا سالانہ کاربن فٹ پرنٹ بھی دو تین کے قریب ہوتا ہے۔ چین میں یہ محض دو ٹن ہے۔ عموما یہ فٹ پرنٹ شہری علاقوں کے ایک گھرانے سے تین گنا کم ہوتا ہے۔ پاکستان اور دنیا کی زیادہ تر آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے تو اندازہ لگا لیں کہ کیا آبادی ماحول کو متاثر کر رہی ہے یا کچھ اور؟
اس میں ایک اور مسئلہ انسانی آزادی اور چوائس کا ہے۔ انہی دانشوروں سے سوال ہے جو انسانی آزادی اور چوائس کے قائل ہیں، یوجینیکس کے مخالف ہیں، کیا وہ انسانوں پر قوانین اور حکومتوں کے ذریعے آبادی پر قابو مسلط کرنا چاہتے ہیں؟ یا غریب کو آزادی کا حق حاصل نہیں کیا اس دانشوری میں ان کی ایلیٹزم تو نہیں عود کر آئی؟ یہ سوال یہ خواتین و حضرات خود سے پوچھیں تو بہتر ہے۔
ان تمام حقائق کی روشنی میں اب آپ اس نظریے کی جانچ کر سکتے ہیں کہ واقعی آبادی ایک مسئلہ ہے اور کیا وہ لوگ جو بار بار یہ باتیں دہراتے ہیں، غریبوں کو عید پر کنڈومز گفٹ کرتے ہیں، غریب بچوں کی تصویریں لگا کر اپنا سوشل میڈیا کلاوٹ بڑھاتے ہیں، اپنے ایلیٹزم کے باعث غرباء سے نفرت کو زیادہ بچے پیدا کرنے اور آبادی کے طعنوں کے پیچھے چھپاتے ہیں، غریب کی غربت کا مذاق اڑا کر دانشور بنتے ہیں، درست ہیں۔ فیصلہ آپ کا۔
نوٹ: مزید مطالعہ کے لیے میٹ ریڈلی کی کتاب دی ریشنل آپٹمسٹ اور پروفیسر ہانز روزلنگ کی کتاب فیک فل نس پڑھی جا سکتی یاد رہے کہ اس مضمون میں محض اعداد و شمار پر بات کی گئی ہے اور اس کا تعلق کسی دائیں بازو جیسے پاپولیشن ریسرچ انسٹیٹیوٹ یا بائیں بازو کے نظریات کی تائید نہیں ہے۔ فدوی خواتین کے اپنے جسم کے حوالے سے تمام فیصلوں کا حق اور آزادی بشمول ابارشن اور برتھ کنٹرول کو تسلیم کرتا ہے۔
حوالہ جات
https://www.theguardian.com/environment/datablog/2009/sep/02/carbon-emissions-per-person-capita
https://pubs.acs.org/doi/10.1021/acs.est.1c01374
https://www.wfp.org/global-hunger-crisis
https://www.forbesindia.com/article/explainers/top-10-richest-people-world/85541/1
https://www.iea.org/commentaries/the-world-s-top-1-of-emitters-produce-over-1000-times-more-co2-than-the-bottom-1
https://scied.ucar.edu/learning-zone/climate-solutions/carbon-footprint#:~:text=Worldwide%2C%20the%20average%20person%20produces,of%20carbon%20dioxide%20each%20year.
“The results show that in 2018 in rural China, the average household carbon footprint is 2.46 tons CO2-eq per capita, which is around one-third of China’s average footprint, indicating the large potential for further growth.”
https://pubs.acs.org/doi/10.1021/acs.est.1c01374
https://www.un.org/development/desa/pd/sites/www.un.org.development.desa.pd/files/files/documents/2020/Feb/un_2015_worldfertilityreport_highlights.pdf
“The current population fertility rate of Pakistan is 3.2828 births per woman. A -1.92% decrease from 2023, when the fertility rate was 3.347 births per woman. In the future, Pakistan's fertility rate is projected to decrease to 1.8588 childern born per woman, by the year 2100. A total decrease of the fertility rate of Pakistan's by -43.38% from today's standard.”
https://database.earth/population/pakistan/fertility-rate#google_vignette
Amount of food consumption: https://www.statista.com/forecasts/1298375/volume-food-consumption-worldwide
Amount of food wasted: https://www.wfp.org/stories/5-facts-about-food-waste-and-hunger
#docakkh #ڈاکٹر_عاکف_خان #akifonymous
No comments:
Post a Comment