Thursday, February 23, 2023

Javed sb, You Didn’t Have to Eat Your Heart Out Here

I used to be a fan of you, your rationality, your humanism, the way you thrashed unreasonable people such as Sadh Guru in debates, your bravery in the face of orthodoxy and all, despite your aloofness, which I think comes naturally with age and experiences of life. But there was no need to act dense at a place where you were invited as a guest.

Looks like this is not novel of you. Bushra Ansari’s sister Neelum Ahmad Bashir in her travelogue on India recalls her visit to your house accompanied by your sister - the way you acted impolitely to your sister in the presence of guests and to the guests themselves, even though you were warmly welcomed by Bushra in the past where your wife was laden with gifts by her as well. People must not have taken that account seriously when it was first published. Maybe you had your reasons. But guess what, that will make sense to people now.

You complained that Indian icons, poets or showbiz legends, are not welcomed warmly in Pakistan the way Pakistani ones are welcomed in India. You said this in a ceremony where you were invited and in the country where you were being celebrated at that very moment. You even received applause on your statement. Not so rational of you. This was also the ceremony held in the name of someone whose daughter was deported by Indian government. Let’s be more honest about it. Indian icons who have visited Pakistan have always been welcomed here, from Dillip Kumar to Raj Kapoor, Naseeruddin Shah, Mahesh Butt, Pooja Bhatt, Salman Khan, Nawazuddin Siddiqui, Emraan Hashmi, Arbaaz Khan, Johnny Lever, Urmila Matondkar, Kalki Koechlin, Kim Sharma, Preeti Jhangiani to your highness among many. You complained Pakistan doesn’t celebrate Indian legends such as Lata G. People love Hollywood movies and music legends here, from Kishore Kumar to Arjit Singh. And truth be told, Pakistani actors are only invited in India when they have some commercial value. In the wake of recent events, they are also banned from working there (Fawad, Mahira and others) while you were sitting in the cultural capital of Pakistan.

"You were denied accommodation in Mumbai because of your Muslim identity despite you being an ardent secular and an open atheist. Please fix your own house before lecturing others. There are enough people in Pakistan who are vocal against extremism and at a very high cost unlike you."

You were right about extremism but again you were not honest about it. Who is roaming free in Pakistan? The main culprit of 26/11 was hanged in your country, the rest were killed, and the masterminds are behind bars in Pakistan. You know who is roaming free? The perpetrators of APS attack. We, the Pakistani people, are suffering to the levels unimaginable to you. The audience sitting in front of you who applauded your comment are the ones who are against this extremism and terrorism. You didn’t need to say that to them in their face. They were your allies. And bitter truth be told, you are in no moral position to lecture us on that when your own house is collapsing under the weight of extremism and your premiere has a shady history. You were denied accommodation in Mumbai because of your Muslim identity despite you being an ardent secular and an open atheist and that too, long before BJP came in power. Please fix your own house before lecturing others. There are enough people in Pakistan who are vocal against extremism and at a very high cost unlike you. I do not disagree with your stance, but I disagree with the occasion.

And to those who are saying that Javed sb’s comments are a mirror etc, please open your eyes. You know who is endorsing his stance? People like Kangana Ranaut – Bhakts and Sanghis, RSS and BD goons, the extremists on the other side – even when Javed sb “doesn’t consider them important.” The damage is done. The hate won. Ghus kay maara. Have some self-respect. Stop blindly following ideological icons (just like the ones you criticize) in order to show off your rebellious nature and to look different. You don’t need to be politically correct about it. This was plain stupid. It will also damage the future prospects of visitors to both countries. It will damage peace. Nobody will invite anyone anymore.

Only when things start to get better, some idiocy ruins the whole thing. The people were happy. They welcomed you and you had to ruin it. Please, remain vocal on matters of concern but be wise about it. More is expected from you. Don’t lose your admirers and don’t benefit the haters.

Wednesday, February 22, 2023

لہندا کیا ہے؟ کیا ہندکو، سرائیکی اور پوٹھوہاری لہندا یا مغربی پنجابی زبانیں ہیں؟



 لہندا، جسے لہندی بھی کہتے ہیں شمال مغربی آریائی زبانوں کے گروہ کا نام ہے جو کہ پاکستان اور بھارت میں بولی جاتی ہیں۔ لہندا کی جینیاتی گروپنگ متعین نہیں ہے۔ یعنی یہ ثابت نہیں ہے کہ یہ زبانوں کے کس خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ 

لہندا یا مغربی پنجابی کی اصطلاحیں “ایگزونم” ہیں جو کہ ماہرین لسانیات (کالونیل آقاوں) نے اپنی سہولت کے تحت ان زبانوں کے لیے استعمال کی ہوئی ہیں اور ان زبانوں کے بولنے والے لوگ یہ لہندا یا مغربی پنجابی کی اصطلاحیں اپنی زبانوں کے لیے ہرگز استعمال نہیں کرتے۔ 

ایگزونم اس نام کو کہتے ہیں جو باہر کے لوگ کسی چیز کے لیے اپنی سہولت کے لیے استعمال کرتے ہیں جیسے جرمن جرمنی کو ڈچ لینڈ پکارتے ہیں مگر انگریزی میں اسے جرمنی کہا جاتا ہے یا جیسے پختونوں کو باہر کے لوگ پٹھان پکارتے ہیں۔ 

فیسبک پوسٹ کے لیے نیچے والے لنک پر کلک کریں  

https://www.facebook.com/534596120/posts/pfbid035Qsck1XG5cfncTKbyjHiWXhxSdPEgEfFQPb9WjHpKM4y1oP7wjb4NvMcentdUAu5l/?mibextid=q5o4bk

کچھ داستان مدرسے کے دنوں کی

نیچے ایک مولوی کے خلاف ایف آئی آر کی تصویر ہے۔ یہ مولوی ایک چھوٹی بچی کے ساتھ دس درازی کر رہا تھا قرآن پڑھاتے وقت۔ اس واقعے کی ویڈیوبھی موجود ہے۔ ہم نے مدرسے میں پانچ سال گزارے۔ ایسے کئی واقعات دیکھے مگر کوئی ہماری باتوں پر یقین نہیں کرتا تھا۔ موبائل، کیمرہ، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے اب بہت سے رازوں سے پردے اٹھا دیے ہیں مگر کچھ لوگ پھر بھی ماننے کو تیار نہیں۔ اکثر سمجھتے ہیں ہمارے بچوں کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ ہمارا قاری بہت اچھا ہے۔ 

مولوی دو ہی طرح کے ہوتے ہیں یا ایسے یا تشدد پسند۔ ہمارے مولوی صاحب تشدد پسند تھے۔ تشدد پسندوں کا قصہ سنیں جن سے ہمارا واسطہ پڑا۔ انہوں نے میرے کزن کی پسلی تک توڑ دی تھی۔ بلاوجہ مار دھاڑ روز کا معمول تھا۔ سیب کے درخت کی چھڑیاں رکھی ہوتی تھیں جن پر ٹیپ لپیٹی ہوتی تھی۔ جس پہلے مدرسے سے ناظرہ پڑھا وہاں کے قاری کے پاس بھی ایک چھوٹا بیس بال نما ڈنڈا ہوتا تھا جو وہ دور سے پھینکتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک بچے کی آنکھ میں جا لگا۔ اس کی آنکھ ضائع ہوتے بچی۔ 

ہمارا ایک ساتھی طالب ہوتا تھا حفظ اور ترجمہ تفسیر کے دنوں۔ اس کو فلمیں دیکھنے کا بہت شوق تھا سینما جا کر۔ ختمانے کے پیسے اکٹھے کر کے مہینے میں ایک آدھ بار تاج محل سینما جاتا تھا۔ فلم دیکھتا تھا۔ واپس آ کر کہانی سناتا تھا۔ مقیم طالب تھا۔ دس گیارہ بہن بھائی تھے ماں باپ نے پکا مدرسے میں ڈال دیا تھا۔ کوئی پوچھنے نہیں آتا تھا مہینوں۔ جس کا مطلب تھا قاری صاحب جیسے مرضی اس سے برتاو کریں۔ صبح فجر کے بعد قاری صاحب کے گھر دہی پہنچانے کا کام اس کا تھا۔ روزانہ مار پڑتی تھی اور حد سے زیادہ۔ اسے سبق یاد نہیں ہوتا تھا۔ کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔ قاری صاحب اس کی قمیض اوپر کر کے برہنہ کمر پر چھڑی سے مارتے تھے۔ بہت ترس آتا تھا۔ نیاز نام تھا۔ پتا نہیں اب کدھر ہو گا اور کیسا مولوی بنا ہو گا۔ 

نوے کی دہائی کے آخری سالوں میں جو شدت پسندی کی لہر آئی تھی، والد صاحب کو بہا لے گئی۔ ہم سب کو مدرسے میں ڈال دیا۔ پانچ سال رگڑا کھایا۔ ہم ڈے سکالر تھے اور تین بھائی، ایک فرسٹ کزن اور باقی کچھ دور کے کزنز۔ گروپ تھا لہذا بڑے شکاری طالبوں کے ہاتھوں جنسی تشدد سے بچ گئے۔ جو اکیلا لڑکا ہوتا تھا اس کی شامت ہوتی تھی۔ اس پر ان شکاریوں کی نظر ہوتی تھی۔ سامنے قرآن کھلا ہوتا تھا اور وہ کچھ ہوتا تھا کہ الامان الحفیظ۔ ہمارا ہال اوپر والی دوسری منزل پر ہوتا تھا۔ عصر کی نماز کے وقت نیچے نماز ہوتی تھی اوپر اندھیرا ہوتا تھا۔ اکثر اوقات اسی وقت وہ شکاری اس ہال پر قابض ہوتے تھے۔ انہی میں سے ایک ہماری قریبی مسجد کا امام بن گیا۔ ایک دن مجھے رستے میں پکڑا تم نماز پڑھنے کیوں نہیں آتے۔ تمہیں علم ہے جماعت کی نماز چھوڑنے پر کتنا عذاب ہے۔ میں نے کہا تمہارے پیچھے پڑھنے پر کتنا عذاب ہے۔ کھسیانا ہو گیا۔ 

صبح اذان سے پہلے پہنچنا ہوتا تھا۔ سردی، برف اور کہر میں منفی ڈگریز میں جرابوں کے تین تین جوڑے سویٹریں چادریں ٹوپیاں جیکٹیں پہنے آدھی نیند میں جاتے تھے۔ ظہر سے عصر دوسری شفٹ ہوتی تھی۔ عصر کے بعد ترجمہ تفسیر کا درس۔ ساتھ دن کو سکول۔ صبح نیا سبق اور سبقی پارہ جبکہ ظہر کے بعد منزل یعنی ایک پچھلا پارہ بالترتیب سنانا ہوتا تھا۔ 

میٹرک کے امتحانات آئے تو قاری صاحب سے چھٹی مانگی۔ نہیں دی۔ کہتے دینی تعلیم کو برتر نہ سمجھو۔ حالانکہ خود اپنے بیٹے کو مجھ سے مفت ٹیوشن پڑھاتے تھے۔ پرائیویٹ سکول میں پڑھتا تھا۔ اکلوتا تھا۔ بعد میں وہ بھی عالم بنا مگر ایک حادثے میں اپنی جان گنوا بیٹھا۔ میں جب کبھی اسے پڑھانے نہ جاتا تو شامت آ جاتی۔ بات بات پر مار پڑتی۔ خیر ایک وقت کی چھٹی مانگی وہ بھی نہیں دی۔ آخر اس بات پر راضی ہوئے کہ نیا سبق نہ سناو۔ انگریزی کے پرچے والے دن والد صاحب نے کہا آج نہ جاو، گھر دوہرائی کر لو۔ ظہر کے وقت جب مدرسے پہنچا تو قاری صاحب نے دو چھڑیاں تیار رکھی تھیں۔ ایک انہوں نے مجھے مار مار کر مجھ پر توڑی، دوسری میں نے ان پر اور مدرسے سے ننگے پاوں بھاگ گیا۔ 

والد صاحب کو بھی سمجھ آ گئی کہ یہ کام نہیں چلنا۔ آہستہ آہستہ سب نکل آئے مدرسے سے۔ تین مدرسوں میں وقت گزارا، تینوں میں یہی حال تھا۔ بڑے بڑے لڑکوں کو مرغا بنایا ہوتا تھا پانچ پانچ گھنٹے۔ غریب لڑکے مار کی پریکٹس مشینیں ہوتے تھے۔ ایک دفعہ ایک لڑکے کو اس لیے مار پڑی کیونکہ اس نے واری صاحب کو دو ماہ سے چائے نہیں ہلائی تھی۔ ایک اور کو قاری صاحب کے بڑے بیٹے نے مار مار کر ادھ موا کر دیا کیونکہ اس نے قاری صاحب کے چھوٹے بیٹے سے لڑائی کی تھی جو الگ سے مدرسے کا پھنے خان تھا۔ 

بھائی اور کزن کئی بار بھاگے مدرسے سے۔ ایک دفعہ کزن کو خانیوال اور ایک دفعہ کراچی سے واپس لائے۔ مدرسہ چھوڑنے کے بعد اپنی تعلیم پر توجہ دی۔ ایک بھائی نے کمپیوٹر انجینیئرنگ کی، ایک نے کیمسٹری، ایک نے سی اے۔ تینوں یو کے ہوتے ہیں۔ جبکہ ہم نے پی ایچ ڈی کی۔ باقی بھی جو جو اس وقت نکل گیا، کہیں پہنچ گیا مگر اس وقت کی مہر سب کے ذہنوں پر ثبت ہے۔ اب اس بچی کے ذہن پر کیسے ثبت ہو گی، خدا جانتا ہے۔ 

 

فیسبکی دانشور کیسے بنا جائے - حصہ چہارم


بڑا فیسبکی دانشور کیسے بنا جائے سلسلے میں خوش آمدید۔ چونکہ بڑا فیسبکی دانشور بننا آسان کام نہیں ہے اسی طرح اس کو سمجھنا بھی آسان کام نہیں ہے۔ لہذا ہر کچھ عرصے بعد فیسبکی دانشوروں کا ایک نیا پرتو سامنے آتا ہے۔ چونکہ ساتھ ساتھ ان جانداروں کا ارتقاء بھی ہوتا رہتا ہے تو سلسلے کو اپڈیٹ کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ طلباء اور احباب بھرپور طریقے سے باہم مستفید ہو سکیں۔ 

تو چلیے، چلتے ہیں نئے چیپٹر کی طرف۔ حال ہی میں تین نئی اقسام یا خصوصیات کا مشاہدہ کیا گیا ہے جن میں سے دو کا تعلق سرقہ بازوں جبکہ تیسری کا انتہائی بڑے دانشوروں کے ایک نادر عمومی رویے سے ہے۔ آپ پہلے دو پڑھے بغیر تیسرے پر چھلانگ لگانے کا مت سوچیں کیونکہ اس درجے پر پہنچنے کے لیے آپ کو پہلی دو اجناس میں ممکنہ طور پر تبدیل ہونا پڑ سکتا ہے۔ 

۱- دوسرے فیسبکی دانشوروں کو اپنا دوست بنائیں۔ نام میں حتی الامکان طور پر ایڈووکیٹ، ڈاکٹر نہیں تو کوئی ڈاڈی قوم یا تخلص ٹھوک دیں۔ اس کے بعد دوسرے فیسبکی دانشوروں کی تحاریر ڈھٹائی سے چوری کر کے اپنی بنا کر لگا دیں۔ کوئی اعتراض کرے تو ان کے کمنٹس کو اگنور یا ڈیلیٹ کر دیں۔ ڈھٹائی پر کمر کسنا ضروری ہے۔ 

۲- اس کا اگلا لیول یہ ہے کہ کسی غیرمعروف لکھاری کی تحریر چوری مگر تبدیل کر کے اپنے باقی سرقہ شدہ مال میں مستعمل طریقے سے شامل کر لیں اور ایک ناول چھاپ دیں۔ یاد رہے اس کے لیے آپ کو چند وفاداروں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اگر مسئلہ زیادہ بڑھ جائے تو اپنے کمنٹس بند کر دیں اور زیادہ شور مچانے والوں کو بلاک کر دیں۔ آپ اس تحریر کے انیس سو سینتالیس کے سکرین شاٹس فوٹو شاپ کر کے یہ بھی ثابت کر سکتے ہیں کہ وہ تحریر پہلی مرتبہ آپ یا آپ کے دادا نے ہی لکھی تھی۔ 

۳- آپ کا ہر موضوع پر رائے دینا انتہائی ضروری ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کو اس کا کوئی علم ہے یا نہیں۔ گوگل کا استعمال کریں یا چیٹ جی پی ٹی سے مستفید ہوں، یہ آپ کی اپنی مہارت پر منحصر ہے۔ مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ کام آپ نے فورا کرنا ہے چاہے آپ کے پاس کوئی خاص رائے ہے یا نہیں۔ اگر آپ لیٹ ہو جائیں یا آپ کو خبر ہونے تک باقی فیسبکی دانشور اپنی اپنی رائے کا وائرل اظہار کر چکے ہوں تو کچھ ایسی طنزیہ پوسٹ کر کے اپنے فالوورز کو دوبارہ گھیر لیں۔ ”اب ہر کوئی ہی کامسیٹس کے پرچے پر رائے دے رہا ہے تو چلو میں رہنے دیتا/دیتی ہوں” وغیرہ۔ اس سے یہ ہو گا کہ دوسرے تمام معمولی فیسبکی دانشور آپ کے فیسبکی دانشوری کے منصب سے مرعوب بھی ہو جائیں گے اور آپ کوئی رائے دیے بغیر بھی اپنی رائے دے چکے ہوں گے۔ ریلیونٹ رہنا ازحد ضروری ہے۔ 

صوبہ ہزارہ، ہندکو اور اے این پی

 آپ لوگ ہزارہ کے لوگوں کو نفرت سے پنجابیان بولتے ہو۔ پشاور، مردان، صوابی، چارسدہ میں ہزارہ کے لوگوں کو انتہائی زیادہ تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہاں نوکریاں نہیں کر سکتے۔ اے این پی نے 12 اپریل دو ہزار دس کو ایبٹ آباد میں درجنوں نوجوانوں کا قتل عام کیا (سرکاری آنکڑہ سات سے بیس کے درمیان ہے، کئی لوگ فائرنگ میں اپنے اعضاء بھی کھو بیٹھے)۔ ببڑہ قتل عام کی یاد تازہ کروا دی۔ 

جب صوبوں کی بات آتی ہے تو پھر یاد آ جاتا ہے کہ صوبہ سرحد یا “کے پی کے” میں بیس سے زاہد زبانیں بولی جاتی ہیں اور ہزارہ میں بھی پختون بستے ہیں جو ہندکو کے ساتھ ساتھ پشتو بھی بولتے ہیں اور کوہاٹ، صوابی اور پشاور میں بھی ہندکو بولی جاتی ہے۔ 

اے این پی ہزارہ کی سینکڑوں بلدیاتی، صوبائی اور وفاقی نشستوں سے ایک سیٹ نہیں جیت سکتی (شاید بٹگرام سے کبھی ایک صوبائی سیٹ جیتی تھی دو ہزار آٹھ میں)۔ 

اگرچہ میں اصولی طور پر لسانی بنیادوں پر صوبوں کا مخالف ہوں اور ان دلائل سے اتفاق کرتا ہوں مگر آپ کو صرف وسائل سے دلچسپی ہے۔ تربیلا اور شمالی علاقہ جات کا ٹورزم ہاتھ سے نکل جائے گا۔

انتظامی بنیادوں پر صوبے بنانے میں کوئی حرج نہیں۔ چترال،

 مالاکنڈ اور فاٹا کو بھی چارسدہ، صوابی، مردان اور پشاور کے ساتھ رہنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یہاں دو نہیں پانچ چھ صوبے بن سکتے ہیں۔ کوہستان الگ، بشام، بٹگرام، کالا ڈھاکہ الگ، سوات دیر الگ، مالاکنڈ الگ، فاٹا کی ایجنسیوں کے الگ۔ 

https://www.dawn.com/news/710080/abbottabad-killings-anniversary-rallies-renew-demand-for-separate-hazara-province-2

زبان کون بناتا ہے؟

 

وسیم الطاف صاحب نے پوسٹ لگائی کہ اردو کی مفلسی کا یہ عالم ہے کہ اس میں لفظ سٹیک ہولڈر کا متبادل نہیں ہے۔ 

عرض ہے کہ چینی اور جاپانی زبان میں جب کسی لفظ کا متبادل موجود نہیں ہوتا تو اس کا چینی جاپانی متبادل بنا دیا جاتا ہے۔ یہ مفلسی نہیں ہوتی۔ ہر زبان میں ایسا ہوتا ہے۔ جیسے چائینیز میں میکڈونلڈز کو مائے دی لو یا جاپانی میں مائیکروفون کو مائیکو بولا جاتا ہے۔ اردو میں ہاسپیٹل کو ہسپتال یا اسپتال، عربی میں پیپسی کو بیبسی۔ یہ تب کیا جاتا ہے جب متبادل صوتی کیریکٹر یا الفاظ نہیں ہوتے یا آسانی سے ادا نہیں ہو پاتے۔ 

انگریزی کے سٹیک ہولڈر کو سٹیک ہولڈر استعمال کرنا اردو ہی کہلائے گی یا سٹیکر کہا جا سکتا۔ جیسے کمپلینٹ کو شکایت کے بجائے کمپلین لکھا جاتا ہے اکثر۔ زبان جامد نہیں ہوتی۔ اس میں ارتقاء ہوتا رہتا ہے۔ اردو اور ہندی میں پہلے سے بہت سے انگریزی اور خاص طور پر پرتگیزی کے الفاظ شامل ہیں جیسے گلاس، بالٹی۔ اب انگریزی میں کوزے یا لوٹے کے لیے کوئی لفظ نہیں تو کیا انگریزی مفلس ہو گئی؟ جب زبان بنی تب جو کلچر تھا وہی چلے گا۔ 

اسی طرح انگریزی نے بہت سے الفاظ اردو اور ہندی یعنی ہندوستانی سے مستعار لیے جیسے مصالحہ۔ اب جو جس کلچر سے چیز آئے گی اس کو آپ اپنا خودساختہ نام دیں گے تو مزاحیہ لگے گا۔ جیسے کنڈوم کو کچھ لوگ آلہ بندش تولید کہتے اور اب یہ بھی فارسی کے الفاظ ہیں۔ 

زبان عوام بناتی ہے۔ جو وہ استعمال کریں وہی زبان ہے چاہے جہاں سے بھی آئے۔ الفاظ سے زبان نہیں بنتی۔ زبان گرائمر، رسم الخط اور انشاپردازی سے بنتی ہے۔ اسی میں آپ کوئی بھی لفظ مستعار لے کر استعمال کر سکتے ہیں۔ کیونکہ سب زبانیں ایک دوسرے سے الفاظ مستعار لیتی ہیں اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

مزید یہ کہ زبان عوام ہی بناتی ہے۔ روزمرہ محاورہ اور جو عمومی ہو گا وہی چلے گا۔ ورنہ ہمارا ایک پورا ادارہ ہے ادارہ فروغ قومی زبان جو ستر سالوں سے عوام کے ٹیکس پر پل رہا ہے اور اردو میں الفاظ کے متبادل بنا بنا کر لسٹیں شائع کرتا رہتا ہے مگر کوئی ان الفاظ کو پوچھتا بھی نہیں۔ اب لسٹ کی اردو بھی موجود ہے اور پرانی ہے۔ کسی کو معلوم ہے یا کوئی استعمال کرتا ہے؟ وہی لفظ چلے گا جو عوام میں آسان اور مقبول ہو گا۔ 

ڈاکٹر عاکف خان


عدنان خان کاکڑ کا جوابی کمنٹ: بندہ مشکل میں پڑے تو کسی پینڈو سے پوچھ لے. جیسے موٹر سائیکل کے سائیڈ بورڈ کا آپ چاہے جتنا مرضی نستعلیق ترجمہ کر لیں لیکن جو بات ٹاپا میں ہے وہ نہیں بنے گی. اسی طرح انگریز چاہے پک اپ کہیں اور امریکی ٹرک، لیکن اردو لفظ ڈالا ہی ہے

کیا ہندکو، پوٹھوہاری اور سرائیکی پنجابی کے لہجے ہیں؟

 

ڈاکٹر عاکف خان

اگر اس منطق سے جائیں کہ سب لہندا اور چڑھدا لہجے ہیں اور سب پنجابی ہی کے لہجے ہیں تو پھر زبانیں تاریخ میں کبھی جدا نہ ہوں نہ ان کا ارتقاء ہو۔ دری اور فارسی، پرتگالی اور ہسپانوی، ہندی اور اردو حتی کہ سرائیکی اور سندھی میں بھی اتنی مشابہت ہی ہے۔ 

یہ فیصلہ کرنا کہ کس کی زبان الگ ہے یا نہیں یہ عوام کا ہوتا ہے مرکز کا نہیں۔ یہ مرکزیت کی سیاست مقتدرہ کی سیاست ہے۔ اس سے حتی الامکان بچنا ہی چاہیے۔ وزیرستان کی پشتو بٹگرام کے پشتون کو سمجھ نہیں آتی، مگر پھر بھی وہ پشتو ہے۔ کیوں؟ کیونکہ وزیرستان والا بھی اسے پشتو ہی کہتا ہے اور بٹگرام والا بھی۔ اسی طرح ہرات میں دری بولنے والوں کو کبھی تہران سے کسی نے نہیں دھمکایا کہ یہ تو فارسی کا لہجہ ہے، تم گستاخ  نے اس کو الگ زبان کیوں بولا؟ اور کیا مجال ہندکو سرائیکی پہاڑی پوٹھوہاری غلام قوموں اور غلام لہجوں کی کہ پنجابی کے تسلط کو چیلنج کریں۔ بہت بری بات۔ اپنی اوقات میں آ جائیں۔ ہمیں زیادہ پنجابی لوگ اور علاقہ چاہیے۔ زبردستی کوئی کسی شناخت میں شامل ہو سکتا ہے بھلا؟ کتنی مضحکہ خیز بات ہے۔ 

ایک اعتراض ہے کہ ہندکو سرائیکی بولنے والا کینیڈا جا کر خود کو پنجابی کہتا ہے کیونکہ وہاں اسے سکھ کمیونٹی کا “آشیرباد” چاہیے۔ جس کو جس زبان سے فائدہ ہو گا وہ بولے گا۔ اس میں برا منانے والی کون سی بات؟ مجھے لگتا ہے کہ کوئی خوش ہوتا ہے اچھا دوستانہ ماحول پیدا ہوتا ہے میں اس کے ساتھ اس موقع کے حساب سے چینی، اردو، پنجابی، سرائیکی، انگریزی، ٹوٹی پوٹھی عربی فارسی ہسپانوی تک ٹھوک جاتا ہوں۔ ایسے ہی لوگ ایک دوسرے سے کمیونیکیٹ کرتے ہیں۔ 

کسی ہندکو والے نے فیسبک میں اصرار کیا کہ ہندکو کا اساں تساں والا لہجہ پنجابی ہے جو فیسبک کو اپنانا چاہیے تو ایک بہت پیارے دوست جو وہاں کام کرتے تھے انہوں نے بڑی مشکل سے سب کو سمجھایا کہ لاہور امرتسر والی پنجابی سٹینڈرڈ ہے۔ تو ایک تضاد تو یہیں پر آ گیا، ہندکو بولنے یا ہزارہ والے نے جب کہا کہ اس کی زبان پنجابی ہے تو آپ کو سٹینڈرڈ لہجہ یاد آ گیا کہ یہ وت، اساں، تساں، کرساں کہاں سے پنجابی ہو گئی؟ پہلے خود ہی اسے بتاتے ہیں کہ یہ پنجابی ہے۔ جب وہ کہہ رہا ہے یہ پنجابی ہے تو کہتے ہیں نہیں یہ پنجابی نہیں ہے یا اصل پنجابی نہیں ہے۔ یہیں سے دیکھ لیں تضاد۔ تضاد نہ بھی ہو، چلیں لہجہ ہی مان رہے ہیں مگر ایک کمتر اور غیر سٹینڈرڈ۔ تو اس سے بہتر نہیں اس کو الگ ہی زبان ماننے دیں یا پھر وہ برابری پر آ جائے گی اور فیسبک کو ہندکو کو الگ سے لانا پڑے گا؟ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ ارادی طور پر ایسا کر رہے ہیں مگر یہی غیرارادی تعصب اور احساس برتری ہے پنجابی زبان اور سیاست کا جس کے باعث سرائیکی، پوٹھوہاری، پہاڑی اور ہندکو اپنی الگ لسانی شناخت پر مصر ہیں۔ آپ کھلم کھلا ڈیکلیئر کر دیں کہ یہ زبانیں الگ ہیں تا کہ کینیڈا میں بیٹھے سکھوں کو بھی علم ہو جائے کہ ہندکو پنجابی نہیں ہے۔ وہاں تو ایک پختون بھی سکھ کے ساتھ پنجابی ہی بول رہا ہوتا ہے، سکھ کو کوئی ٹینشن نہیں کہ اصلا پنجابی ہے یا یہ تو کشمیری بٹ ہے جو سو سال سے لاہور میں بسا ہے۔  

نیشنلزم تو ایکسکلوزو اور پیوریٹن ہوتا ہے، یہ ریاستی ون یونٹ والا پنجابی نیشنلزم جو زبردستی سب کو ایک اور مرکز میں شامل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس کو کم از کم ہمارے پڑھے لکھے سمجھدار دوستوں کو سیکنڈ نہیں کرنا چاہیے۔ زبانوں کا ارتقاء بیشک ڈسکس ہونا چاہیے، پنجابی بھی کبھی سندھی کا لہجہ تھی مگر یہ حاکمیت، مرکزیت اور غیرضروری تسلط کوئی ترقی پسند اور ریشنل اپروچ نہیں ہے۔  

اور کسی نے پنجابی کا مذاق نہیں اڑایا۔ یہ جذباتیت ہے۔ ایک سٹیٹ سپانسرڈ پراجیکٹ کا مذاق اڑایا گیا جو کہ بلوچوں اور پختونوں کے جائز مطالبات کو لسانیت کے نام پر کرش کرنے کے لیے بنا ہے۔ پنجابی زبان یا پنجابیوں کو کس سے خطرہ ہے؟

(ڈاکٹر عاکف خان)

اسی پر کچھ مزید کمنٹس جو فیسبک پوسٹس میں کیے گئے۔ 

سٹیٹ سپانسرڈ پنجابی نیشنلزم جس کے سربراہ عمار شاہ کاظمی پنجابی ہیں دنیا کا وہ واحد نیشنلزم ہے جو زبردستی دوسری قوموں اور زبانوں کو بھی اپنے اندر شامل کرنے پر مصر ہے۔

———————————

پختون نسل پرست ہزارہ والوں کو نفرت سے پنجابیان کہتے ہیں، پنجاب والے محبت سے۔ نہ یہ پورا چھوڑتے ہیں نہ وہ پورا اپناتے ہیں۔ بیچ میں چمگادڑ بنایا ہوا ہے۔ جب اپنی الگ شناخت کی بات کریں تو اے این پی والوں کو یاد آتا ہے کہ ہزارہ میں تو ہندکو بولنے والے نسلا پختون ہیں اور پنجابی نسل پرستوں کو یاد آتا ہے کہ ہندکو تو پنجابی کا لہجہ ہے۔ اجی جو پوٹھوہاری اور پہاڑی پنجاب میں آتے ہیں، ان کو تو پورا اور برابر کا پنجابی مانیے پہلے۔ پھر ہندکووانوں یا ہزارہ والوں کی باری آئے گی۔ سرائیکیوں سے بھی یہی مخمصہ ہے۔ یا تو پھر چھوڑیں سب فضول ایسی بحثیں، ہر ایک کو سمجھنے دیں جو وہ خود کو سمجھتا ہے۔ ڈائیورسٹی کو سیلیبریٹ کریں۔

——————————

سبحان احمد صاحب کا کمنٹ

پنجابی نیشنلسٹ اس ملک میں سب سے زیادہ مضحکہ خیز لوگ ہیں۔ پنجابی قوم پاکستان کی سب سے زیادہ پریولیجڈ قوم ہے اب وہ اپنے قومی حقوق کا مطالبہ کس سے کریں؟ اگر انکی زبان اپنا جائز مقام حاصل نہیں کر سکی تو اس کا گلہ وہ کس سے کریں؟ ایک بیرونی دشمن تو درکار تھا لہذٰا انہوں نے ہندوستانی اور افغانی مہاجروں کی صورت میں دو دشمن تلاش کیے جو مبینہ طور پر پنجابی قوم کے مفادات کو نقصان پہنچانے میں سب سے آگے ہیں۔ مزید ایک دشمن جنوبی پنجاب کے بلوچوں کی صورت میں دریافت ہوا جو پنجاب کی تقسیم کی سازشیں کر رہے ہیں۔

بجائے یہ کہ یہ اپنی زبان کی بحالی کے لیے کام کرتے، تراجم کرتے، ادب تخلیق کرتے، پنجابی میں معیاری فلمیں بناتے جو لبیکیوں کی مذہبی انتہا پسندی کو کاونٹر کرتی، یہ ایک فسطائی تحریک بننے کی جانب گامزن ہیں۔

پاکستان میں لسانی و نسلی شناخت کی متقاطعیت یا انٹرسیکشنالیٹی

 

پاکستان میں لسانی و نسلی شناخت کی متقاطعیت یا انٹرسیکشنالیٹی

ڈاکٹر عاکف خان

سب سے بڑا مسئلہ پاکستان میں زبانوں کا یہ ہے کہ لائنیں کلیئر نہیں ہیں۔ اس کو تنوع کہیں یا خوبصورتی لیکن مسئلہ تب اجاگر ہوتا ہے جب شناختی سیاست اجاگر ہوتی ہے، اسے کوئی خود کرے یا وہ خود ہو وہ بہرحال اپنی جگہ موجود ہے اور اس منہ نہیں موڑا جا سکتا۔ یہ اچھی بات ہے یا بری یا یہ لائنیں کلیئر کی جا سکتی ہیں، چلیے دیکھتے ہیں۔ 

اس مسئلے پر بات نہیں کی جاتی جس کی دو بڑی وجوہات سمجھی جاتی ہیں۔ ایک یہ ہے کہ مقتدرہ ناراض ہو گی یا نسل پرست دوسری یہ کہ مرکز کا کنٹرول کمزور پڑے گا۔ لیکن یہ بلی کو دیکھ کر کبوتر کی آنکھیں بند کرنے والی بات ہے۔ پچھلے دنوں مریم نواز نے صوبہ ہزارہ کی بات کی تو ایمل ولی نے نعرہ لگایا کہ یہ صوبہ سرحد کو تقسیم کرنے کی سازش ہے۔ صوبے بنانا پنجاب سے شروع کریں۔ جب پنج آب سے یہ بات شروع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہی عذر سامنے آتا ہے کہ پنجاب کو تقسیم کرنے کی سازش ہے۔ بھارت میں آدھا پنجاب رہ گیا تھا جسے انہوں نے مزید صوبوں میں تقسیم کر دیا، کیا اس سے پنجاب تقسیم ہو گیا؟ 

خیر شناخت کی طرف آتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی پیچیدہ اور انٹرسیکشنل معاملہ ہے جس کے لیے لائنیں نہیں کھینچی جا سکتیں۔ جیسے پختون نیشنلسٹوں کا دعوی ہے کہ ہزارہ میں ہندکو بولنے والے پختون آباد ہیں جبکہ پشتو بولنے والوں کی بھی کثیر تعداد ہے۔ پنجابی نیشنلسٹوں کا دعوی ہے کہ ہندکو، پہاڑی اور پوٹھوہاری پنجابی کے لہجے ہیں۔ اب پہلے یہی طے نہیں ہو سکتا کہ یہ نسلی شناخت ہے یا لسانی۔ صوبہ سرحد میں پشتو بولنے والوں کو پختون یا پشتون سمجھا جاتا ہے۔ اے این پی کے دوست کہتے ہیں کہ پختون علاقوں میں بسنے والے سب پختون ہیں۔ 

اب اگر پہلی بات درست ہے تو ہزارہ میں بسنے والے ہندکو سپیکنگ نسلا پختون پختون کہلائیں گے اور اگر دوسری بات درست ہے تو کیا پنجاب میں بسنے والے آفریدی، کاکڑ اور نیازی پختون نہیں کہلائیں گے؟ اسی طرح اگر ہزارہ میں بانے والے پختون ہندکو بول رہے ہیں اور اگر ہندکو پنجابی کا لہجہ ہے اور الگ زبان نہیں ہے تو کیا وہ پختون پنجابی ہو گئے؟ کیا پنجاب میں بسنے والے پختون نسلا پنجابی ہیں اگر وہ پنجابی مادری زبان کے طور پر بولتے ہیں؟ اسی طرح نسلا بلوچ سرائیکی بولنے والے بھی ہیں اور سندھی بولنے والے بھی، پختون بھی سندھی بولنے والے ہیں، انہیں کیا کہا جائے گا؟ یو کے میں پیدا ہونے والا پاکستانی بچہ جو صرف انگریزی سمجھتا اور بولتا ہے، کیا وہ انگریز ہو جائے گا؟ 

اے این پی کی مرکزی قیادت میں بلور خاندان پیش پیش ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ پشاور کے ہندکو سپیکرز ہیں۔ کیا وہ پنجابی ہیں یا پختون ہیں۔ اسی طرح کراچی میں مہاجروں کو اردو سپیکر کہا جاتا ہے مگر ان میں گجراتی، بنگالی، پنجابی اور کئی دوسری زبانیں بولنے والے لوگ بھی موجود ہیں۔ سب مہاجر یو پی سے نہیں آئے۔  

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ زبان ایک دم تبدیل نہیں ہوتی۔ جنوب کی سرائیکی مختلف ہے، ڈی آئی خان کی مختلف۔ پنجابی شمال میں جاتے جاتے پوٹھوہاری اور ہندکو کے نزدیک ہو جاتی ہے اور جنوب میں سرائیکی سے ملتی جلتی ہے۔ ہری پور، ایبٹ آباد اور مانسہرہ کی ہندکو ایک دوسرے سے بھی مختلف ہے اور مغرب میں موجود تناول اور مشرق میں موجود گلیات کی ہندکو سے بھی۔ شنکیاری، بفہ، ڈوڈھیال اور چھتر میں ہندکو اور پشتو مکس بولی جاتی ہے۔ ایبٹ آباد، حویلیاں اور ہری پور کے نسلا پختون لوگوں کی ہندکو میں پشتو کے الفاظ اور چھاپ ہیں اور ان کی ہندکو ہزارہ کے قدیم قبائل جیسے گجر، عباسی، کڑلال، مغلوں اور اعوانوں سے تھوڑی مختلف ہے، جبکہ کلچر بھی کافی مختلف ہے۔  

کیا صوبے بنانے سے شناخت کا یہ انٹرسیکشنکل شناختی مخمصہ حل ہو سکتا ہے؟ اس کا ایک سادہ حل ہے جو کہ کوئی بھی ماننے کو تیار نہیں۔ وہ یہی ہے کہ جو خود کو جو سمجھتا ہے سمجھنے دیجیے۔ کسی کو زبردستی نہ اپنے میں شامل کریں نہ کسی کو زبردستی اپنے میں سے نکالیں۔ تو عرض ہے کہ یہ انٹرسیکشنل شناخت ہے۔ اپنی زبان اور بولی کو منانے والے دن دوسروں کی بولیوں پر ڈاکے نہ ڈالیں، اپنی زبان اور کلچر کو منائیں، پھر کسی کو کسی پر تنقید یا ایک الزام کے تحت “مذاق اڑانے” کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ 

(ڈاکٹر عاکف خان)

مادری زبان اور معاشرتی ارتقاء

 

مادری زبان اور معاشرتی ارتقاء

تحریر: ڈاکٹر عاکف خان

اگرچہ مادری زبان کو زندہ رکھنا ضروری ہے لیکن ضروری نہیں کہ زبان ہی شناخت کو طے کرے۔ شناخت کو طے کرنے میں زبان کے ساتھ ساتھ اور بہت سارے عوامل ہیں جیسا کہ ہجرت کرنے والے بڑے بڑے قبیلوں کی مثالیں دیکھ لیں۔ ضرورت کے تحت وہ نئی جگہ کی زبان کے ساتھ اپنی زبان کو منطبق کر لیتے ہیں۔ لیکن رسوم و رواج، رہن سہن، معاشرتی اصول، لباس، مذہب وغیرہ وہی رہتے ہیں۔ جیسے ہزارہ ڈویژن یا پنجاب اور کراچی میں بسنے والے پختون پشتو نہیں بول سکتے لیکن باقی رسوم و رواج کافی حد تک وہی ہیں جو پشتو بولنے والوں یا پشتون علاقوں کے ہیں۔ اسی طرح پشتون علاقوں میں بسنے والے دوسری زبانیں بولنے والوں کے کلچر پشتون کلچر جیسے ہیں جیسے کوہستانی، پشاور اور کوہاٹ کے ہندکو سپیکر بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگ جیسے خیبر پختونخواہ اور افغانستان کے سکھ، ہندو اور یہودی مذاہب کے لوگ۔ نئی زبان میں پرانے الفاظ کی آمیزش سے زبان کا کلچر بھی قائم رہتا ہے جیسا کہ اردو میں فارسی، عربی، ہندی، انگریزی اور پرتگیزی زبانوں کے الفاظ اور اثر ابھی تک موجود ہیں۔ اور یہ ضروری نہیں کہ زبان کی تبدیلی کسی جبر (opression) یا استحصال کا نتیجہ ہو۔ جیسے ہزارہ ڈویژن کے پختون تو حملہ آور تھے باہر سے آئے تھے لیکن مقامی لوگوں کی زبان اپنانی پڑی اگرچہ کلچر قائم رکھا۔ آج بھی اس علاقے میں ہندکی (ہندکو بولنے والے مقامی قبائل جیسے گجر، مغل، عباسی، سردار اور اعوان وغیرہ) اور پٹھان (ہندکو بولنے والے دوسرے علاقوں سے آنے والے پختون قبائل، تنولی، جدون، ترین، یوسفزئی، سواتی وغیرہ) کی مخاصمت موجود ہے جبکہ اٹک پار والے پختون ان دونوں گروپس کو پنجابی گردانتے ہیں۔ اسی طرح مانسہرہ ڈویژن، بٹگرام یا ہری پور (سری کوٹ) کے پشتو بولنے والے علاقوں کے لوگوں کی دو مادری زبانیں ہیں، ہندکو بولنے اور پشتو اگرچہ ایک کا اثر زیادہ ہوتا ہے اور دوسری دوستوں اور پڑوسیوں کے ساتھ بولی جاتی ہے۔ اسی طرح پشتون علاقوں میں ہندکو بولنے والے بھی موجود ہیں جیسے صوابی (ہیملٹ)، پشاور، کوہاٹ اور بنوں وغیرہ میں یا ڈیرہ اسماعیل خان والی سرائیکی جو ہندکو اور سرائیکی کا درمیانی لہجہ ہے۔

  اسی طرح بعض لوگ باقی کلچرل عناصر کو بھول کر صرف زبان کو یاد رکھتے ہیں۔ جیسے مغرب میں بسنے والے ایرانی جو پوری طرح مغرب زدہ ہونے کے باوجود گھروں میں فارسی بولتے ہیں۔

لہذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک بچہ جس کو شروع سے اردو سکھائی گئی گھر میں لیکن اس کے ماں باپ کی مادری زبانیں ایک یا دو ہیں، جیسا کہ اکثر گھرانوں میں ہے اور بچے اردو بول رہے ہوں۔ انہیں اپنی مادری زبانیں سیکھنے میں دس پندرہ سال لگتے ہیں۔ کیا وہ اردو میں سوچیں گے یا اپنے ماں یا باپ میں سے کسی کی زبان میں؟ یقینا اردو میں۔ لیکن ان کو کیا آپ دو تین زبانیں اکٹھی سکھا سکتے ہیں؟ اگر سکھا بھی دیں تو مادری زبان کونسی ہو گی اور کیا ایک شخص بہت ساری مادری زبانوں کا حامل ہو سکتا ہے؟ کیا وہ بیک وقت کئی زبانوں میں نہیں سوچ سکتا اور کیا یہ ضروری ہے کہ صرف ایک بالغ اور کئی زبانیں بولنے والا صرف مادری زبان میں سوچے؟ اس پر کوئی تحقیق موجود نہیں یہ صرف ایک مشاہداتی رائے ہے جو کافی حد تک درست ہے لیکن مطلق نہیں ہے۔ سائنسدانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ زبان دماغ کا فریم ورک تبدیل کرتی ہے۔ نئی زبانیں سیکھنے اور بولنے سے آپ کے دماغ کے نیورل پیٹرن تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ملٹی لنگوئل بچے حساب اور سائنس یا پرابلم سالونگ میں تیز ہوتے ہیں۔ تو کیا بچوں کو ایک زبان پر محدود کرنا درست ہے؟

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک گجراتی بولنے والی فیملی نے 75 سال پہلے پاکستان کا رخ کیا اور وہ کراچی میں آن بسے اور ان کے نئی نسل صرف اردو بولتی ہے تو کونسا ایسا لمحہ ہو گا جہاں ان کی مادری زبان گجراتی سے اردو میں تبدیل ہوئی اور جہاں بچوں نے اردو میں سوچنا شروع کیا؟ اسی طرح وہ پختون قبائل جو پنجاب، ہندوستان یا ہزارہ ڈویژن میں ایک دو یا تین صدیوں پہلے جا کر بسے اور جو کلچرلی پشتون ہی ہیں مگر زبان تبدیل ہو گئی تو کیا ان کی شناخت بھی تبدیل ہو گئی؟ مادری زبان کا شناخت یا قومیت سے تعلق کس حد تک ہے اور شناخت طے کرنے میں کس حد تک فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے یہ کوئی بھی طے نہیں کر سکا نہ کر سکتا ہے۔

مزید براں وہ زبانیں جو وقت کے ساتھ معدوم ہوتی جا رہی ہیں ان کو محفوظ کرنے کے لیے کیا سدباب کیے جائیں؟ کیا بچوں کو ان زبانوں میں تعلیم دینا ہی واحد حل ہے؟ کیا وہ ایسی زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے معاشرے میں پیچھے نہیں رہ جائیں گے جس میں کوئی تراجم، لٹریچر اور کتب موجود نہیں؟ کیا  ماہرین لسانیات (لنگوئسٹس) کا کام کسی زبان کو اس طرح محفوظ کرنا ہے؟ ماہرین لسانیات ایسی زبانوں کے رسم الخط تجویز کر کے اس زبان کی کہانیاں، حکایات، محاورے، لہجہ اور تحفظ وغیرہ ہی محفوظ کرتے ہیں وہ زبان کے ایک قدرتی معاشرتی ارتقاء کو روکنے کی کبھی بھی ترویج نہیں کرتے نہ اس کو ایک معاشرتی طور پر صحت مندانہ عمل سمجھتے ہیں۔ بعض ادبی حلقے اور زبان دان زبانوں کے حوالے سے رجعت پسندی اور زبان کی حفاظت اور "پاکیزگی اور طہارت" پر یقین رکھتے ہیں (جس کا میں بالکل حامی نہیں ہوں) لیکن وہ ماہرین لسانیات نہیں ہوتے وہ صرف ایک زبان کے ماہر ہو سکتے ہیں زبانوں کی سائنس اور علم کے ماہر نہیں ہوتے۔ یہ ایسا ہے جیسے ایک شخص فوٹو شاپ کا ماہر ہو، آپ اسے سافٹ ویئر انجینئر نہیں کہہ سکتے۔ 

 مادری زبان کی احیاء کی تحریکیں بالکل درست ہیں ضروری ہیں اور بالکل چلنی چاہیئں۔ ریاست کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ایک زبان کو عوام پر مسلط کیا جائے۔ اپنے بچوں کو مادری زبان بھی سکھانی چاہیے لیکن یہاں پر یہ خیال بھی رکھنا چاہیے کہ معاشرتی ارتقاء نہ تو ریاست کا تابع ہوتا ہے نہ قوم پرستی کا۔ ریاست تسلط سے زبان کو تبدیل کر سکتی ہے بالکل بجا، تحریکیں زبان کا احیاء بھی کر سکتی ہیں یہ بھی درست ہے اور میں اس دوسری والی پوزیشن کا حامی بھی ہوں۔ لیکن پاکستان جیسے ملک جہاں زبان اور کلچر کا تنوع بہت زیادہ ہے وہاں اگر ریاست کا زبان مسلط کرنے کا جبر درست نہیں تو قومیت پسندوں کا ایک زبان کا نفاذ ہی درست ماننا بھی درست نہیں بلکہ اوپر بیان کیے گئے عوامل جیسے کہ معاشرے میں تنوع، ارتقاء، علم کی ترویج اور پیچیدہ معاشرتی ساخت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے اور ایک ترقی پسند اور ریشنل پوزیشن کو اپنانا چاہیے۔ کسی بھی زبان کی سیاست اچھی بری ہو سکتی ہے، افادیت بھی کم زیادہ ہو سکتی ہے لیکن کوئی زبان بحیثیت خود اچھی بری نہیں ہوتی۔

Thursday, February 16, 2023

سائنسی تھیوری کیا ہے؟

تحریر: ڈاکٹر عاکف خان

 ایک ہوتی ہے انگریزی والی تھیوری جس کو آپ سوچ یا نظریہ کہتے ہیں۔ ایک ہوتی ہے سائنٹیفک تھیوری۔ یہ الگ چیزیں ہیں۔ سائنٹیفک تھیوری فزیکل لاز کی وضاحت کو کہتے ہیں جو تجربات اور مشاہدات کے بعد وضع کی جاتی ہے۔ لاز اور پرنسپلز وہ مشاہدات ہیں جو ہم کائنات میں دیکھتے ہیں۔ جیسے ارتقاء، گریویٹی، وقت کی سمت ، تھرموڈائینیمکس، انرجی کی کنزرویشن، قانون بقائے مومینٹم، انرجی ماس کنورژن۔ اکثر لوگ تھیوری کی ان دو تعریفوں کو مدغم کرتے ہیں یا ان کو سائینٹفک تھیوری کا علم نہیں ہوتا۔   



 اب ان لاز میں سے کچھ ہر کوئی دیکھ اور سمجھ سکتا ہے۔ جیسے آپ کبھی بھی دسویں مالے سے چھلانگ نہیں لگائیں گے کیونکہ آپ کو علم ہے کہ نیچے گر کر کام ہو جانا ہے۔ آپ کو تھیوری آف گریویٹی کا کوئی علم نہ بھی ہو تب بھی آپ ایسا نہیں کریں گے۔ کیونکہ گریویٹی کا لاء سب کی سمجھ میں آتا ہے۔ مگر کچھ لاز تھوڑے کمپلیکیٹڈ ہوتے ہیں جیسے تھرموڈائینیکمس کا لاء یا انرجی کنزرویشن یا ارتقاء۔ ان کا مشاہدہ ہر کوئی نہیں کر سکتا یا جانچ نہیں سکتا۔ یا تو وہ سست ہوتے ہیں یا مبہم۔

 جیسے ارتقاء ایک لاکھوں کروڑوں اربوں صدیوں پر محیط مشاہدہ ہے جسے آپ اپنی زندگی میں نہیں کر سکتے۔ ہاں آپ چھوٹے جانداروں یا پھر ایک لمبے عرصے کے دوران کیے گئے مشاہدات جیسے فوسلز وغیرہ یا ڈی این اے کو دیکھ کر کر سکتے ہیں۔ اب اس کے لیے ہر بندے کے پاس وقت تو نہیں ہوتا لہذا سائنسدان ہی یہ کام کرتے ہیں۔ عام شخص کو سمجھ نہیں آتی وہ اسے جھوٹ یا سازش قرار دیتا ہے۔ اسی طرح تھرموڈائنیمکس یا انرجی کنزرویشن کے لاء اگرچہ مشاہداتی بھی ہیں۔ سب کو علم ہے کہ ٹھنڈی چیز سے گرم چیز کو مزید گرم نہیں کیا جا سکتا۔ مگر مبہم ہے۔ اسی لیے لوگ پانی سے چلانے والی گاڑیاں بنانے کے دعوے کرتے ہیں۔ 

اب تھیوری یہ کرتی ہے کہ ان مشاہدات یعنی لاز کی وضاحت کرتی ہے کہ یہ کیسے اور کیوں ہو رہا ہے۔ یہ کام تجربات اور سائنٹیفیک میٹھڈ سے کیا جاتا ہے۔ تھیوری کو وقت کے ساتھ ساتھ بہتر بھی بنایا جا سکتا ہے اور نئی تھیوری بھی لائی جا سکتی ہے جو اسی عمل کو کسی اور طرح واضح کرے۔ 

وضاحت کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ آپ اس علم سے فائدہ اٹھا کر ٹیکنالوجی یا انسانی استعمال میں لا سکیں اس قدرتی عمل، لاء یا پرنسپل کو۔ جیسے آگ ایک قدرتی عمل ہے۔ پرنسپل ہے فیول، آکسیڈنٹ اور حرارت آگ بنائیں گے۔ مگر کیا ہے کیسے لگتی ہے یہ سمجھ آ گیا تو آپ ایک حرارت کی تھیوری بنا لیں گے جس سے آپ کو علم ہو گا کہ آگ کیسے لگتی ہے خود کیسے لگائے جا سکتی ہے اس کو کنٹرول کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اس علم اور سائنسی تھیوری کی بنیاد پر آپ چولہا بنا سکتے ہیں ہیٹر بنا سکتے ہیں گھر اور اپنے بچوں کو گرم رکھ سکتے ہیں۔ کوئی اور شخص آ کر آگ لگنے کے عمل پر مزید تفصیلی وضاحت دے کر اس سے اور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اس نے نئی حرارت کی وضاحت دی جو آپ کی وضاحت سے بہتر ہے۔ اب اس وضاحت یا تھیوری کے نتیجے میں آپ آگ کو مزید اچھے طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں اور لوہے کو پگھلا سکتے ہیں جس سے آپ جہاز بنا کر اپنے بچوں کو سردی سے دور گرم علاقے میں لے جا سکتے ہیں۔

  اسی طرح نیوٹن نے گریویٹی کی ایک بنیادی تھیوری پیش کی۔ وہ اب بھی کام کرتی ہے۔ جب آئن سٹائن آیا اس نے بہتر تھیوری دی جو زیادہ بہتر کام کرتی ہے اور ان جگہوں تک کام کرتی ہے جہاں نیوٹن کی تھیوری کام نہیں کر سکتی۔ 

اسی طرح ارتقاء کا قانون ہے۔ جب سائنسدانوں کو ارتقاء کے قانون کی سمجھ آ گئی نیچرل سلیکشن وغیرہ تو میڈیکل سائنس نے ترقی کر لی۔ بیکٹیریا، پھپھوندی، وائرسز وغیرہ سے ہونے والی بیماریوں، جینیاتی بیماریوں پر قابو پا لیا گیا۔ اینٹی بائیوٹکس ایجاد ہوئیں۔ جانداروں کے درمیاں مشابہت کے باعث جانداروں پر تجربات کرنا ممکن ہوا۔ ویکسینز ایجاد ہوئیں۔ گھوڑے کے خون سے انسولین تیار کی جاتی ہے جو ذیابیطس کی بیماری کے علاج میں استعمال ہوتی ہے (اگرچہ اب دوسرے طریقوں سے بھی بنتی ہے)۔ اسی طرح ویکسینز بھی اسی علم کی بدولت ممکن ہوئیں، اناٹومی، فزیالوجی اور میڈیکل سائنس اتنا ترقی کر گئی کہ آج آپ ٹیسٹ ٹیوب بے بیز اور جانوروں کے اعضاء کی انسانوں میں پیوند کاری تک کر سکتے ہیں۔ 

یہ سب سائینٹیفک میٹھڈ اور سائنسی تھیوریز ہی کی بنیاد پر ہوا جو ان حقائق کی وضاحتیں ہیں اور یہ وضاحتیں مشاہدات، انفارمڈ مفروضوں اور پھر ان کی انتہائی باریک بینی سے کی گئے بار بار پڑتال اور تجربات کے نتائج سے آتی ہیں جنہیں پھر دوسرے سائنسدان دوبارہ آزادانہ طور پر جانچتے ہیں اور تب جا کر ان کو قابل عمل یا درست سمجھا جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ لاء تو وہی رہتے ہیں مگر تھیوریز میں مزید بہتری کی گنجائش ہوتی ہے۔ اگر آپ کسی قدرتی عمل کی بہتر سائنٹیفک تھیوری مشاہدات، انفارمڈ مفروضے، تجربات اور پھر اس کی آزادانہ جانچ سے لا سکتے ہیں تو سو بسم اللہ۔ آپ کو کوئی بھی نہیں روکے گا۔ بلکہ آپ کو شاید نوبیل کے لیے نامزد کر دیا جائے۔ مگر یاد رہے آپ کو پورے سائنٹیفک میٹھڈ کے پراسس سے اپنی تھیوری کو گزارنا ہو گا۔ 

تنبیہہ: اس ویب سائٹ پر موجود تمام کانٹینٹ اوریجنل اور ڈاکٹر عاکف خان کی ملکیت ہے۔ بغیر اجازت اس کانٹینٹ کو چھاپنے،  چوری اور سرقہ بازی کی صورت میں کاپی رائٹ لاز مجوزہ 1966/2000 حکومت پاکستان یا دائرہ کار کے قوانین کے مطابق کاروائی کی جا سکتی ہے۔ 

Sunday, February 12, 2023

Is the Fear of AI Legit?

 By Dr. Akif Khan

ChatGPT is just another Bitcoin with a hell lot of hype and even more instability - only causing two things: either making people extremely excited or giving them screaming abdabs.

Please, don’t get triggered on this blasphemy - let me explain. Yes, many people thought Bitcoin was a farce and apparently lost the opportunity to earn millions of dollars through investing in it on the onset. But remember, there are many who also couldn’t make any fortune but instead lost their lifesavings to Bitcoin. Let me tell you something and you can confirm this with any computer scientist privately (because they’re not gonna accept this publicly) that this has been an ongoing phenomenon in CS research community to make predictive and human-like algorithms from big data (such as Tweets and FB posts), which has been happening for more than a decade now. Big data and data science are not new research fields in computer sciences. For example, millions of posts and Tweets around a certain topic could be accessed by anyone via a simple code to be analysed and studied later. Although, Twitter and Facebook made it difficult now. There are restrictions and paywalls now as far as I know.


To be honest, I don’t know what’s so special about ChatGPT because these things have been around us for a long time now. We have Google search, Google Assistant, SEO, Siri, Alexa, XiaoAi TongXue and loads of other apps and softwares to write down longer sentences and even intelligent graphic tools within softwares like Photoshop, filters and whatnot. True, ChatGPT is unique in its pre-trained transformative text that it learns first and then generates a response. Many would argue that it is not based on search engine but learned data. That is also true. But isn’t everything pre-trained in one sense or another? There is another novelty of remembering the previous questions during a unique chat session unlike Siri or Google Assistant, where you ask them who is Newton and if you ask next where was he born, they would not know who is the “he” in the question. Sometimes, they do. But is that it? Now all these tools and algorithms are gathered at one place only to be given fancy names and “AI” tag (essentially a rebranding of existing packages), just like Tesla and SpaceX, to produce longer texts and pretty images, only to discover a lot of problems, instability and implementation issues later. 

Moreover, you can’t just ask these AI softwares anything only to get a perfect result. An ordinary user will definitely wonder that they’re not using the tool properly when they don’t get desired results. The beautiful images and interesting essays you see going viral are a result of cleverly crafted keywords. It’s just like using Google. You will always find a colleague in the office who can help you find your desired results from Google search. Even when everyone has Google search at their fingertips but not “the skill” to use it. 

You must also be wondering why and how a natural/physical scientist/engineer is able to comment on ChatGPT.  Humbly, yours truly has been into computers and coding for around 25 years now, having started using computers from 286/386, Windows 3.1, DOS, GWBasic, Fortran, Dbase and C and then seeing the whole evolution of coding, big data, computers and internet from Netscape, Yahoo/MSN messengers, Orkut and mIRC, birth of FB/Twitter to Snapchat and “TitTok.” We still use and analyse big data and codes as complex as FT, FEFFIT, WT, DFT, ab-initio, VASP etc. for our research projects related to chemistry, physics and materials engineering. 

Having said that, the point that I am trying to emphasise is that the fear of AI is completely unfounded. What we see around us is mostly off-the-shelf and custom AIs, which have already been around for a while. I don’t remember where but I heard Yuval Noah Harari making an interesting point that if these AI softwares enhance our intelligence, they also multiply our stupidity by equal proportions. Although, he himself has presented AI as something too futuristic and perfect at other places.

Some would argue that AIs have started passing difficult tests and beating grandmasters in chess. But look at it this way. Any smart person with an access to internet can pass any test today. Ever tried copying and pasting a riddle in Google search bar to find the answer? True, ChatGPT is pre-trained and is not working with research engines at the backend but the data it has been fed is the same that search engines use. 

Secondly, beating grandmasters in chess, a game based on chances and calculations, with skyrocketing internet and processing speeds, is great but not too impressive. IBM’s Deep Blue defeated a grandmaster in 1996 with a processing power of hardly around 3.8 GHz (and around 11 GFlops), less than a core 2 duo i3 system. With currently available computers, you are talking at least thousands of times more processing power. Throw in a GPU and imagine. The smartphones you’re holding in your hands are more powerful than Deep Blue, which could evaluate 200 million positions per second. Today’s iPhone 13 has a processing power of ~16 Teraflops (1 TFLOP = 1000 GFLOPs). Imagine how much processing powers desktop, gaming PCs, mining systems, mainframes and supercomputers hold right now. Yet, ask ChatGPT a dozen questions and you will only get 3 or 4 answers to your satisfaction.

Human minds and feelings are not very much predictable. They are more complex and dependent on too many different kinds of variables, many unknown. Human emotions and feelings are not analytical and rational. They don’t have patterns. Yes, you can manipulate them with the help of advertisements and traditional & social media and can predict and redirect shopping behaviours, dating preferences, porn choices and fashion trends but that’s about it. The cultural intricacies, religious beliefs, relationship dynamics, love and affection to their near ones and other aspects of social sphere such as poverty, politics, voting behaviours, tolerance, gender dynamics, cultural context etc. are kind of no-go areas for such analytically predictive and calculating algorithms atop the fact that most of our computer scientist and AI-enthusiasts and geeks don’t even understand or love to talk about these issues, let alone consider them. 

For example, can AIs accurately predict the stock market? To an extent, maybe, but not perfectly or accurately despite such a huge computer processing power at our disposal. Why? In any Sci-Fi movie with a time machine in it, what does the antagonists do on the onset? They go back in time and invest money in the companies like IBM, Facebook or Tesla, they know would be paying them back in millions, right? So why not (or can’t) we do the same? It is only because that AI/computers can only predict human element to an extent due to the unpredictable and complex nature of it. They could, maybe, in the future, know all the variables, dynamics and complexities of human behaviour and somehow all the data and computer scientists, neuroscientists, materials engineers and geneticists could work hands in hands to build fortune-teller AIs in the future but not now. And who is to say that those AIs sans human element won’t fail like the first matrix? Who is to say those AIs won’t turn into dreaming Sonny, evil VIKI (iRobot) or strategist Dolores (Westworld) with even more complex emotions? 


This is also human nature that we start thinking about worst-case scenarios and start panicking about new things instead of sitting back, asking questions from experts and realising the historicity of events. We tend to love sensationalism. Maybe there should be an AI studying this behaviour as well. 

A concern has heen raised by academics is that students might use ChatGPT to write essays and assignments. Apparently, ChatGPT passed difficult university exams. First off, there are now multiple tools that can detect the ChatGPT written content based on the same algorithms. Secondly, the university tests are mostly analytical and their answers are objective. The objectivity vs subjectivity is the key here. 

Don’t worry. If AI turned out to be Skynet at the end, some some white protagonist, the saviour of humanity, will come and crush it by finding some flaw in it.

And no, this blurb is not written by ChatGPT.