Showing posts with label Arabisation. Show all posts
Showing posts with label Arabisation. Show all posts

Wednesday, February 22, 2023

کچھ داستان مدرسے کے دنوں کی

نیچے ایک مولوی کے خلاف ایف آئی آر کی تصویر ہے۔ یہ مولوی ایک چھوٹی بچی کے ساتھ دس درازی کر رہا تھا قرآن پڑھاتے وقت۔ اس واقعے کی ویڈیوبھی موجود ہے۔ ہم نے مدرسے میں پانچ سال گزارے۔ ایسے کئی واقعات دیکھے مگر کوئی ہماری باتوں پر یقین نہیں کرتا تھا۔ موبائل، کیمرہ، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے اب بہت سے رازوں سے پردے اٹھا دیے ہیں مگر کچھ لوگ پھر بھی ماننے کو تیار نہیں۔ اکثر سمجھتے ہیں ہمارے بچوں کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ ہمارا قاری بہت اچھا ہے۔ 

مولوی دو ہی طرح کے ہوتے ہیں یا ایسے یا تشدد پسند۔ ہمارے مولوی صاحب تشدد پسند تھے۔ تشدد پسندوں کا قصہ سنیں جن سے ہمارا واسطہ پڑا۔ انہوں نے میرے کزن کی پسلی تک توڑ دی تھی۔ بلاوجہ مار دھاڑ روز کا معمول تھا۔ سیب کے درخت کی چھڑیاں رکھی ہوتی تھیں جن پر ٹیپ لپیٹی ہوتی تھی۔ جس پہلے مدرسے سے ناظرہ پڑھا وہاں کے قاری کے پاس بھی ایک چھوٹا بیس بال نما ڈنڈا ہوتا تھا جو وہ دور سے پھینکتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک بچے کی آنکھ میں جا لگا۔ اس کی آنکھ ضائع ہوتے بچی۔ 

ہمارا ایک ساتھی طالب ہوتا تھا حفظ اور ترجمہ تفسیر کے دنوں۔ اس کو فلمیں دیکھنے کا بہت شوق تھا سینما جا کر۔ ختمانے کے پیسے اکٹھے کر کے مہینے میں ایک آدھ بار تاج محل سینما جاتا تھا۔ فلم دیکھتا تھا۔ واپس آ کر کہانی سناتا تھا۔ مقیم طالب تھا۔ دس گیارہ بہن بھائی تھے ماں باپ نے پکا مدرسے میں ڈال دیا تھا۔ کوئی پوچھنے نہیں آتا تھا مہینوں۔ جس کا مطلب تھا قاری صاحب جیسے مرضی اس سے برتاو کریں۔ صبح فجر کے بعد قاری صاحب کے گھر دہی پہنچانے کا کام اس کا تھا۔ روزانہ مار پڑتی تھی اور حد سے زیادہ۔ اسے سبق یاد نہیں ہوتا تھا۔ کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔ قاری صاحب اس کی قمیض اوپر کر کے برہنہ کمر پر چھڑی سے مارتے تھے۔ بہت ترس آتا تھا۔ نیاز نام تھا۔ پتا نہیں اب کدھر ہو گا اور کیسا مولوی بنا ہو گا۔ 

نوے کی دہائی کے آخری سالوں میں جو شدت پسندی کی لہر آئی تھی، والد صاحب کو بہا لے گئی۔ ہم سب کو مدرسے میں ڈال دیا۔ پانچ سال رگڑا کھایا۔ ہم ڈے سکالر تھے اور تین بھائی، ایک فرسٹ کزن اور باقی کچھ دور کے کزنز۔ گروپ تھا لہذا بڑے شکاری طالبوں کے ہاتھوں جنسی تشدد سے بچ گئے۔ جو اکیلا لڑکا ہوتا تھا اس کی شامت ہوتی تھی۔ اس پر ان شکاریوں کی نظر ہوتی تھی۔ سامنے قرآن کھلا ہوتا تھا اور وہ کچھ ہوتا تھا کہ الامان الحفیظ۔ ہمارا ہال اوپر والی دوسری منزل پر ہوتا تھا۔ عصر کی نماز کے وقت نیچے نماز ہوتی تھی اوپر اندھیرا ہوتا تھا۔ اکثر اوقات اسی وقت وہ شکاری اس ہال پر قابض ہوتے تھے۔ انہی میں سے ایک ہماری قریبی مسجد کا امام بن گیا۔ ایک دن مجھے رستے میں پکڑا تم نماز پڑھنے کیوں نہیں آتے۔ تمہیں علم ہے جماعت کی نماز چھوڑنے پر کتنا عذاب ہے۔ میں نے کہا تمہارے پیچھے پڑھنے پر کتنا عذاب ہے۔ کھسیانا ہو گیا۔ 

صبح اذان سے پہلے پہنچنا ہوتا تھا۔ سردی، برف اور کہر میں منفی ڈگریز میں جرابوں کے تین تین جوڑے سویٹریں چادریں ٹوپیاں جیکٹیں پہنے آدھی نیند میں جاتے تھے۔ ظہر سے عصر دوسری شفٹ ہوتی تھی۔ عصر کے بعد ترجمہ تفسیر کا درس۔ ساتھ دن کو سکول۔ صبح نیا سبق اور سبقی پارہ جبکہ ظہر کے بعد منزل یعنی ایک پچھلا پارہ بالترتیب سنانا ہوتا تھا۔ 

میٹرک کے امتحانات آئے تو قاری صاحب سے چھٹی مانگی۔ نہیں دی۔ کہتے دینی تعلیم کو برتر نہ سمجھو۔ حالانکہ خود اپنے بیٹے کو مجھ سے مفت ٹیوشن پڑھاتے تھے۔ پرائیویٹ سکول میں پڑھتا تھا۔ اکلوتا تھا۔ بعد میں وہ بھی عالم بنا مگر ایک حادثے میں اپنی جان گنوا بیٹھا۔ میں جب کبھی اسے پڑھانے نہ جاتا تو شامت آ جاتی۔ بات بات پر مار پڑتی۔ خیر ایک وقت کی چھٹی مانگی وہ بھی نہیں دی۔ آخر اس بات پر راضی ہوئے کہ نیا سبق نہ سناو۔ انگریزی کے پرچے والے دن والد صاحب نے کہا آج نہ جاو، گھر دوہرائی کر لو۔ ظہر کے وقت جب مدرسے پہنچا تو قاری صاحب نے دو چھڑیاں تیار رکھی تھیں۔ ایک انہوں نے مجھے مار مار کر مجھ پر توڑی، دوسری میں نے ان پر اور مدرسے سے ننگے پاوں بھاگ گیا۔ 

والد صاحب کو بھی سمجھ آ گئی کہ یہ کام نہیں چلنا۔ آہستہ آہستہ سب نکل آئے مدرسے سے۔ تین مدرسوں میں وقت گزارا، تینوں میں یہی حال تھا۔ بڑے بڑے لڑکوں کو مرغا بنایا ہوتا تھا پانچ پانچ گھنٹے۔ غریب لڑکے مار کی پریکٹس مشینیں ہوتے تھے۔ ایک دفعہ ایک لڑکے کو اس لیے مار پڑی کیونکہ اس نے واری صاحب کو دو ماہ سے چائے نہیں ہلائی تھی۔ ایک اور کو قاری صاحب کے بڑے بیٹے نے مار مار کر ادھ موا کر دیا کیونکہ اس نے قاری صاحب کے چھوٹے بیٹے سے لڑائی کی تھی جو الگ سے مدرسے کا پھنے خان تھا۔ 

بھائی اور کزن کئی بار بھاگے مدرسے سے۔ ایک دفعہ کزن کو خانیوال اور ایک دفعہ کراچی سے واپس لائے۔ مدرسہ چھوڑنے کے بعد اپنی تعلیم پر توجہ دی۔ ایک بھائی نے کمپیوٹر انجینیئرنگ کی، ایک نے کیمسٹری، ایک نے سی اے۔ تینوں یو کے ہوتے ہیں۔ جبکہ ہم نے پی ایچ ڈی کی۔ باقی بھی جو جو اس وقت نکل گیا، کہیں پہنچ گیا مگر اس وقت کی مہر سب کے ذہنوں پر ثبت ہے۔ اب اس بچی کے ذہن پر کیسے ثبت ہو گی، خدا جانتا ہے۔ 

 

Tuesday, May 20, 2014

In reply to the Ignorance of Mubashar Lucman

The following verses are from chapter 1, poem 10 from Saadi's Gulistan (Bostan). They resemble a hadith. Somebody ask Mubashar Lucman to issue a fatwa on Saadi Shirazi. 

بنى آدم اعضای یک پیکرند
که در آفرینش ز یک گوهرند
چو عضوى به درد آورد روزگار
دگر عضوها را نماند قرار
تو کز محنت دیگران بی غمی
نشاید که نامت نهند آدمی

Human beings are members of a whole,
In creation of one essence and soul.
If one member is afflicted with pain,
Other members uneasy will remain.
If you have no sympathy for human pain,
The name of human you cannot retain.


Many folklores and metaphors are same in many cultures. Khalil Jibran has rewritten many such stories in his own words. Paulo Coelho has rewritten many. Many stories of Quran are already present in other previous cultures. In Zoroastrian religion of Persia dating back to 7th century BCE, even before Judaism and Christianity, one can find many similar stories. The concepts in Abrahamic religions of 7 heavens, God and Satan, Virgin Birth, Head covering, Renovation and judgment are highly influenced from this ancient persian pagan religion. There are many stories in Quran which are also present in Bible and old testament with great variations. Should a blasphemy case be filed against Zarathustra, St Paul and Rabbi Juda Hanasi? What an ignorant ass this Mubashar Lucman is!

(The above verses are displayed in the entrance of the United Nations Hall of Nations as Saadi's poetry and not as a Hadith. Charge UN for blasphemy too?)

Tuesday, May 6, 2014

Arabisation or Westernisation; what are we really victim of?


The problem with the critics who call Pakistani progressive thinkers desi liberals is that they ignore many dimensions of a single problem. They see things in black and white. When a progressive person speaks about the horrors of Arabisation, they suddenly come up with the pictures of Pakistani youth wearing jeans and using mobile phones and remind them of western imperialism.


Let us bust this myth today. First of all, let's define Imperialism. Edward Said, a famous anthropologist and academic defines imperialism as any system of domination and subordination organized with an imperial center and a periphery. There are two major types of Imperialism. Regressive and Progressive Imperialism. Then there is colonialism but let's not confuse it with imperialism because it is just for territorial control and/or commercial aims coupled or not with imperialism. Now there have been many kinds of imperialisms in the history. Ottoman/Turkish, German, British and Tsarist Russian and now this Arab. Arabia is a vast land comprised of multiple cultures from Morrocco to UAE including completely versatile cultures like Jordan and Oman. However, when we talk about Arabisation, we are talking about imperialism, centred in Saudi Arabia. A recent article written by Abdul Majeed Abid [1], one finds the summary of the events stating how Abdul Wahab convinced Al-Saud to declare Salafiism as a state religion. What followed next is more proof. Now this was the result of a pact signed between Al-Saud and Wahab where the king promised to expand that religion across Arabia and all over the Muslim world by whatever means necessary in 1744 [2]. Abdul Wahab was a Hanbali mufti and so was his father and he was largely influenced by the teachings of Ibn Taimiya, the same Imam who completely shut down the chapter of Ijtihad and declared that everything should be Islamised according to existing knowledge and no new knowledge will be incorporated in Islam. Does one see why we still fight over Tooth Brush and Miswak? I know many have a positivist view and they will dismiss this example and my argument on the grounds that there are many scholars who have no problem with toothbrush but this is not actually the case. They still are convinced otherwise and would tell you to prefer Miswak. Those who actually believe in the same like Dr. Farooq Khan and Javed Ghamidi are either murdered or in exile due to their “unorthodox” views. A friend of mine who is an MPhil in Biochemistry from a top university of Pakistan and a forensic scientist in ministry of defence keeps Miswak in his pocket and claims that it has more benefits than tooth paste.