عاکف خان
اس وقت ملک کی دگرگوں صورتحال میں مہنگائی، غربت، تعلیم، دہشت گردی، بھوک اور لوڈشیڈنگ سے بالاتر دو مسائل ہیں جن پر ساری قوم غوروغوض کرنے میں مصروف ہے۔ میںنے سوچا میں بھی موقع سے فائدہ اٹھاؤں۔ تمیزالدین رپورٹ کی گریٹ ڈیبیٹ "کون کافر ہے اور کون مسلمان" کو درمیان میں چھوڑ کر قوم اس وقت ایک تو اس قومی ڈیبیٹ میں مشغول ہے کہ کون شہید ہے اور دوسرا مسئلہ ہے اظہار ذاتی رائے کا۔
میری ذاتی رائے کے مطابق ذاتی رائے ایک انتہائی واضح معانی کا حامل ایک لفظ تھا۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے اس بے ضرر لفظ کا انتہائی جارحانہ استعمال شروع کر دیا گیا ہے۔ آپ کسی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اور آپ کوئی بھی بیان داغ دیں- اگر وہ موافق نہ آیا تو آپ کے اہلکار اسکو آپ کی ایک ذاتی رائے قرار دے کر آپ کی جان چھڑا دیں گے۔
آزادئ اظہار رائے کا حامی ہوتے ہوئے مجھے کسی کے بیان یا ذاتی رائے رکھنے پر قطعا" کوئی ذاتی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن اعتراض اس بات پر ہے کہ کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت کا سربراہ اس جماعت کے نظریاتی خدوخال پر پورے اترنے کے بعد ہی سربراہ بنایا جاتا ہے اور اگر اسکی ذاتی رائے جماعت کی رائے نہیں تو کس کی رائے کو جماعت کی رائے سمجھا جائے۔ چلیں کوئی ذیلی کارکن ایسا بیان دے دے کہ کالعدم مذہبی جماعتوں کو وزارتیں دی جائیں اور جماعت تردید کرے تو ہم مان بھی لیتے ہیں لیکن ایک سربراہ کو کم ازکم اس بات کا پاس تو ہونا چاہیے کہ اسکی ذاتی رائے پوری تنظیم کے لیئے درد سر کا باعث بن سکتی ہے۔ ایک معمولی سے ادارے کے معمولی سے ملازم سے بھی نوکری دیتے ہوئے حلف نامہ لیا جاتا ہے کہ وہ میڈیا کو کوئی بیان دینے کی کوشش نہیں کرے گا مبادا کہ ادارہ کسی قانونی پیچیدگی میں پڑ جائے۔
ابھی ایک بڑی سیاسی جماعت کو ہی لیجیئے، سربراہ نے بیان دیا کہ کالعدم تنظیم کو دفاتر کھولنے کی اجازت دی جائے۔ اب وہ سربراہ اس جماعت کے بانی بھی ہیں اور کرتا دھرتا بھی۔ انہوں نے کسی ذمہ داری کے تحت ہی ایسا بیان دیا ہو گا۔ لیکن عوام اور میڈیا کی طرف سے غیر متوقع ری ایکشن دیکھنے سننے کے بعد جماعت کے ایک اور سینیئر رھنما نے اس بیان کو ذاتی رائے قرار دے کر رفع دفع کرنے کی کوشش کی۔ جب کسی سیاسی جماعت کا سربراہ کوئی بیان اس وقت کے موجودہ حالات کے تناظر میں، خاص سیاسی دلچسپی کے تحت دیتا ہے تو وہ ذاتی رائے کیسے ہو گئی؟ ہاں اگر وہ کرکٹ ٹیم کو جنوبی افریقہ سے جیتنے کے لئیے کوئی مشورہ دے دیتے تو میں اسے ضرور ذاتی رائے تسلیم کرتا۔
ایک اور سیاسی کم مذہبی جماعت کے سربراہ بھی جلال میں آ گئے اور ایک ملک دشمن کالعدم تنظیم تحریک طالبان کے سربراہ کو شہید قرار دے دیا۔ ایک ہفتے تک تو جماعت کے کارکنان جنگ جمل اور جنگ صفیان کی مثالیں دیتے ہوئے دونوں اطراف کو شہید کہتے رہے لیکن مولانا نے آخر میں انہیں ایک اور دھچکے سے اس وقت نوازا جب انہوں نے کہا کہ اس جنگ میں فوت شدگان فوجی شہید نہیں ہیں۔ اس تنظیم کے بھی حالات عجب رہتے ہیں۔ تاریخ کے ایسے نازک موقعوں پر اس طرح کے بیان دے کے انہوں نے نہ صرف اپنی "اسٹریٹجک" پوزیشن پر ڈرون گرا کر اسے "سبوتاژ" کیا بلکہ جماعت کے دوسرے ممبران کو بھی ایک مشکل صورتحال میں ڈال دیا۔ پاک فوج کی طرف سے مذمتی بیان اور پوزیشن واضح کرنے کی "درخواست" پر تنظیم کے ایک سینیئر رھنما نے سربراہ کے بیان کو ذاتی رائے قرار دیا اور پاک فوج کے ری ایکشن کو عجلت پسندی قرار دیا۔ اب کون انہیں سمجھائے کے حضور تحریک طالبان کے سربراہ کو "شہید" ہوئے دس دن گزر چکے اور اس طرح کے بیان سے ایک لمحے میں آپکی سیاسی پوزیشن واضح ہو جاتی ہے۔
اس تمام پیش رفت کے تناظر میں کافی پیچیدہ لیکن دلچسپ صورتحال یہ بن گئی ہے کہ کیا اب سربراہ صاحب معافی مانگیں گے یا حورم سلطان کی طرح سلطان کے آگے ڈٹ جائیں گے یا تنظیم اپنی ساکھ بچانے کے لیئے ان سے استعفیٰ طلب کرے گی۔ لیکن تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ساری تنظیم نے حورم سلطان بننے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یادش بخیر، سلطان کے لئیے "پوٹینشل" ملکاؤں کی کمی نہیں ہے اور نہ ہی وہ اتنے ذیادہ بچوں کا خیال رکھے گا۔
This article has been published on Ibtidah website.
اس وقت ملک کی دگرگوں صورتحال میں مہنگائی، غربت، تعلیم، دہشت گردی، بھوک اور لوڈشیڈنگ سے بالاتر دو مسائل ہیں جن پر ساری قوم غوروغوض کرنے میں مصروف ہے۔ میںنے سوچا میں بھی موقع سے فائدہ اٹھاؤں۔ تمیزالدین رپورٹ کی گریٹ ڈیبیٹ "کون کافر ہے اور کون مسلمان" کو درمیان میں چھوڑ کر قوم اس وقت ایک تو اس قومی ڈیبیٹ میں مشغول ہے کہ کون شہید ہے اور دوسرا مسئلہ ہے اظہار ذاتی رائے کا۔
میری ذاتی رائے کے مطابق ذاتی رائے ایک انتہائی واضح معانی کا حامل ایک لفظ تھا۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے اس بے ضرر لفظ کا انتہائی جارحانہ استعمال شروع کر دیا گیا ہے۔ آپ کسی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اور آپ کوئی بھی بیان داغ دیں- اگر وہ موافق نہ آیا تو آپ کے اہلکار اسکو آپ کی ایک ذاتی رائے قرار دے کر آپ کی جان چھڑا دیں گے۔
آزادئ اظہار رائے کا حامی ہوتے ہوئے مجھے کسی کے بیان یا ذاتی رائے رکھنے پر قطعا" کوئی ذاتی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن اعتراض اس بات پر ہے کہ کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت کا سربراہ اس جماعت کے نظریاتی خدوخال پر پورے اترنے کے بعد ہی سربراہ بنایا جاتا ہے اور اگر اسکی ذاتی رائے جماعت کی رائے نہیں تو کس کی رائے کو جماعت کی رائے سمجھا جائے۔ چلیں کوئی ذیلی کارکن ایسا بیان دے دے کہ کالعدم مذہبی جماعتوں کو وزارتیں دی جائیں اور جماعت تردید کرے تو ہم مان بھی لیتے ہیں لیکن ایک سربراہ کو کم ازکم اس بات کا پاس تو ہونا چاہیے کہ اسکی ذاتی رائے پوری تنظیم کے لیئے درد سر کا باعث بن سکتی ہے۔ ایک معمولی سے ادارے کے معمولی سے ملازم سے بھی نوکری دیتے ہوئے حلف نامہ لیا جاتا ہے کہ وہ میڈیا کو کوئی بیان دینے کی کوشش نہیں کرے گا مبادا کہ ادارہ کسی قانونی پیچیدگی میں پڑ جائے۔
ابھی ایک بڑی سیاسی جماعت کو ہی لیجیئے، سربراہ نے بیان دیا کہ کالعدم تنظیم کو دفاتر کھولنے کی اجازت دی جائے۔ اب وہ سربراہ اس جماعت کے بانی بھی ہیں اور کرتا دھرتا بھی۔ انہوں نے کسی ذمہ داری کے تحت ہی ایسا بیان دیا ہو گا۔ لیکن عوام اور میڈیا کی طرف سے غیر متوقع ری ایکشن دیکھنے سننے کے بعد جماعت کے ایک اور سینیئر رھنما نے اس بیان کو ذاتی رائے قرار دے کر رفع دفع کرنے کی کوشش کی۔ جب کسی سیاسی جماعت کا سربراہ کوئی بیان اس وقت کے موجودہ حالات کے تناظر میں، خاص سیاسی دلچسپی کے تحت دیتا ہے تو وہ ذاتی رائے کیسے ہو گئی؟ ہاں اگر وہ کرکٹ ٹیم کو جنوبی افریقہ سے جیتنے کے لئیے کوئی مشورہ دے دیتے تو میں اسے ضرور ذاتی رائے تسلیم کرتا۔
ایک اور سیاسی کم مذہبی جماعت کے سربراہ بھی جلال میں آ گئے اور ایک ملک دشمن کالعدم تنظیم تحریک طالبان کے سربراہ کو شہید قرار دے دیا۔ ایک ہفتے تک تو جماعت کے کارکنان جنگ جمل اور جنگ صفیان کی مثالیں دیتے ہوئے دونوں اطراف کو شہید کہتے رہے لیکن مولانا نے آخر میں انہیں ایک اور دھچکے سے اس وقت نوازا جب انہوں نے کہا کہ اس جنگ میں فوت شدگان فوجی شہید نہیں ہیں۔ اس تنظیم کے بھی حالات عجب رہتے ہیں۔ تاریخ کے ایسے نازک موقعوں پر اس طرح کے بیان دے کے انہوں نے نہ صرف اپنی "اسٹریٹجک" پوزیشن پر ڈرون گرا کر اسے "سبوتاژ" کیا بلکہ جماعت کے دوسرے ممبران کو بھی ایک مشکل صورتحال میں ڈال دیا۔ پاک فوج کی طرف سے مذمتی بیان اور پوزیشن واضح کرنے کی "درخواست" پر تنظیم کے ایک سینیئر رھنما نے سربراہ کے بیان کو ذاتی رائے قرار دیا اور پاک فوج کے ری ایکشن کو عجلت پسندی قرار دیا۔ اب کون انہیں سمجھائے کے حضور تحریک طالبان کے سربراہ کو "شہید" ہوئے دس دن گزر چکے اور اس طرح کے بیان سے ایک لمحے میں آپکی سیاسی پوزیشن واضح ہو جاتی ہے۔
اس تمام پیش رفت کے تناظر میں کافی پیچیدہ لیکن دلچسپ صورتحال یہ بن گئی ہے کہ کیا اب سربراہ صاحب معافی مانگیں گے یا حورم سلطان کی طرح سلطان کے آگے ڈٹ جائیں گے یا تنظیم اپنی ساکھ بچانے کے لیئے ان سے استعفیٰ طلب کرے گی۔ لیکن تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ساری تنظیم نے حورم سلطان بننے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یادش بخیر، سلطان کے لئیے "پوٹینشل" ملکاؤں کی کمی نہیں ہے اور نہ ہی وہ اتنے ذیادہ بچوں کا خیال رکھے گا۔
This article has been published on Ibtidah website.
No comments:
Post a Comment