تحریر: چارلی کیمبل - ٹائم میگزین
ترجمہ: عاکف خان
Courtesy Time’s Magazine: Click here to read the original article.
سیاسی رہنما اکثر اپنے مضبوط اعصاب پر فخر کرتے ہیں مگر عمران خان اپنی دائیں ٹانگ سے نکلی ہوئی تین “گولیوں” کا ذکر کرتے پائےجاتے ہیں۔ پچھلے سال نومبر میں ایک تنہا بندوق بردار نے ایک ریلی کے دوران خان پر فائرنگ کی، جس سے 70 سالہ خان کے ساتھ ساتھ انکئی حامی بھی زخمی ہوئے، جبکہ ایک کی ہلاکت ہوئی۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور اپنے زمانے کے کرکٹ آئیکون کا کہنا ہے کہ "ایکگولی سے اعصابی رگ کو نقصان پہنچا ہے جس کے باعث میرا پاؤں ابھی تک ٹھیک کام نہیں کر رہا۔ مجھے زیادہ دیر تک چلنے سے تکلیف ہوتی ہے
اگر اس زخم نے خان کے حوصلے توڑے بھی ہیں تب بھی مارچ کے اواخر میں لیے گئے اس زوم انٹرویو میں ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا - وہی لمبی زلفیں، کھلکھلاہٹ اور بائیں کلائی سے لپٹی تسبیح۔ لیکن ہماری پانچ سال قبل ہوئی آخری گفتگو کے بعد شاید بہت کچھ بدل چکا ہے۔اقتدار
یا پھر اس اقتدار کے چھن جانے نے اپنے نقش چھوڑے ہیں۔ اپریل 2022 میں پارلیمانی عدم اعتماد کے ووٹ میں ان کی بے دخلی کےبعد، خان نے اپنے حامیوں اور چاہنے والوں کو اپنے "جہاد" کے لیے متحرک کیا ہے، جس میں وہ فوری انتخابات کا مطالبہ کرتے ہیں کیونکہ انکے مطابق انہیں ایک امریکی سازش کے ذریعے غیر منصفانہ طور پر اقتدار سے بیدخل کیا گیا ہے۔ (امریکی محکمہ خارجہ نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔)
اصل سازش خالصتاً پاکستانی ہے۔ خان پاکستانی فوج کی حمایت سے اس وقت محروم ہو گئے جب انہوں نے ان کی پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کی قیادت کے انتخاب کی توثیق کرنے سے انکار کیا، کیونکہ ان کے سابق عہدے دار (جنرل فیض) کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ اس کے ساتھ انہوں نے نئے چیف کو بھی ہری جھنڈی دکھائی تو اپوزیشن کو کمزوری کا احساس ہوا اور اس نے فوراً عدم اعتمادکی تحریک کے ساتھ خان کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کروا دیا۔ اس کے بعد خان اپنا غم و غصہ سڑکوں پر ریلیوں کی صورت لے آئے۔
نومبر میں خان کے اوپر ہونے والے ناکام قاتلانہ حملے نے ان کی پارٹی، پی ٹی آئی کے اراکین میں ناانصافی کے احساس کو مزید تیز کر دیا،جو اس کے بعد کئی بار سڑکوں پر پولیس کے ساتھ تصادم کر چکے ہیں۔ اگرچہ اس حملے کے نتیجے میں ایک مذہبی جنونی کو گرفتار کیا گیاتھا، مگر خان اس کا الزام اپنے حریفوں بشمول موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف جو کہ خان کے دیرینہ دشمن سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بھائی ہیں، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور میجر جنرل فیصل نصیر پر دھرتے ہیں (سب نے اس الزام کی تردید کی ہے۔)
گولیوں کے علاوہ، خان کو کرپشن، بغاوت، توہین رسالت اور دہشت گردی سمیت، پچھلے 11 مہینوں کے دوران 143 مقدمات میں بھی نامزد کیا گیا ہے۔ خان کے مطابق یہ سب انہیں سیاست سے نااہل قرار دینے کی کوشش میں گڑھے گئے خودساختہ الزامات ہیں۔ جب سے شریفکی کابینہ نے 20 مارچ کو اعلان کیا کہ پی ٹی آئی "عسکریت پسندوں کا ایک گروہ" ہے جس کی "ریاست کے خلاف دشمنی" کو برداشت نہیں کیا جا سکتا، پولیس خان کے سینکڑوں حامیوں کو گرفتار کر چکی ہے۔
وزیر داخلہ ثناء اللہ نے بھی 26 مارچ کو کہا کہ یا تو عمران خان موجود رہیں گے یا ہم۔ کبھی کبھار ایسا لگتا ہے کہ پاکستان ہمیشہ ایکگہری کھائی کے دہانے پر رہتا ہے۔ اس کا موجودہ سیاسی عدم استحکام تباہ کن سیلابوں، مہنگائی، اور ہمسایہ ملک افغانستان سے سرحدپار دہشت گردانہ حملوں کے درمیان آیا ہے جس نے تئیس کروڑ کے ملک کے تانے بانے کو مل کر خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں عصمت دری اور بدعنوانی عروج پر ہیں، اور معیشت کا دارومدار آئی ایم ایف کے رکے ہوئے بیل آؤٹ کو کھولنے پر ہے، جو کہ انیس سوسینتالیس میں آزادی کے بعد سے پاکستان کا 22 واں بیل آوٹ ہے۔ مہنگائی مارچ میں سالانہ 47 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ پیاز کی قیمتوں میں228 فیصد، گندم میں 120 فیصد اور کھانا پکانے والی گیس کی قیمتوں میں 108 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ اسی مدت کے دوران، روپیہ 54 فیصد تک گر چکا ہے۔
"دس سال پہلے، میں ماہانہ 10,000 روپے [$100] کماتا تھا مگر میں پریشان نہیں ہوتا تھا،" محمد غضنفر، راولپنڈی کے ایک گراؤنڈ میناور باغبان کہتے ہیں۔ "مہنگائی کی اس موجودہ لہر میں، اگرچہ میں اب 25,000 [$90 موجودہ] کماتا ہوں، مجھ سے اپنے اخراجات پورےنہیں ہو پاتے۔" دنیا کے پانچویں سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے پاس صرف 4.6 بلین ڈالر کے غیر ملکی ذخائر ہیں یعنی 20 ڈالر فیشہری۔ پاکستان میں امریکہ کے سابق سفیر، کیمرون منٹر کہتے ہیں، ’’اگر پاکستان ڈیفالٹ کرتا ہے، تیل نہیں ملتا، کمپنیاں تباہ ہوجاتی ہیں،اور لوگوں کے پاس نوکریاں نہیں ہوتیں، تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بالشویک انقلاب کے لیے تیار ملک ہے۔
‘‘
خان کہتے ہیں، ’’ہماری معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ "ہمارے معاشی انڈیکیٹر تاریخ کی بدترین سطح ہر ہیں۔" اس صورتحال میں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ملک کا چین کے چنگل میں مزید گرنے کا خطرہ ہے۔ اس کے باوجود مغرب پاکستان کے لیے ہمدردی بہت کم ہے جس کی وجہخان کی برسوں کی امریکہ مخالف بوکھلاہٹ اور طالبان سمیت مطلق العنان اور انتہاپسندوں کے ساتھ ہمدردی ہے۔ خان مطلق العنان ترکصدر رجب طیب اردگان کو "بھائی" کہتے ہیں اور یوکرین کے حملے کے عین موقع پر ماسکو میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات میںمشغول تھے جسے انہوں نے "بہت زیادہ گرم جوش اور خوش آئند" موقع قرار دیا۔ خان ایک ہی سانس میں اسامہ بن لادن کو "شہید" اوربیجنگ کی ایغور مسلم اقلیت کے کنٹرول کی تعریف کرتے ہیں۔ خان جو بائیڈن کے صدر بننے پر انہیں فون کرنے کے لیے بے تاب رہے مگر اس میں سخت ناکامی کا شکار ہوئے۔ ووڈرو ولسن سینٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ “خان اس ناکامی پر سخت بجز ہیں۔”
اس کے باوجود خان حقیقتا جمہوریت کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ پولز کے مطابق اگر وہ انتخابات کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ اقتدار میں واپس آسکتے ہیں۔ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں سنٹر فار مسلم سٹیٹس اینڈ سوسائٹیز کی ڈائریکٹر ثمینہ یاسمین کہتی ہیں، ’’ان کی مقبولیتآسمان کو چھو رہی ہے۔ "اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ کیا کہتے ہیں، یہاں تک کہ کوئی انتہائی غیر معقول بات بھی، حقیقت یہ ہےکہ لوگ ناراض ہیں اور ان کے پیغام کو تسلیم کرتے ہیں."
اسلام آباد میں ایک ٹیلی کمیونیکیشن انجینئر، 50 سالہ اسامہ رحمٰن کہتے ہیں، "عمران خان ہمارے پاس اس وقت سب سے بہترین آپشن ہیں۔اگر انہیں گرفتار کیا گیا یا نااہل قرار دیا گیا تو لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے۔" اس کے باوجود ریاست اس معاملے میں پیش رفت پر تجربات کر رہی ہے۔ مارچ کے اوائل میں صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں خان کےگھر پر پولیس کی آنسو گیس شیلنگ نے خان کا سانس لینا مشکل بنا دیا۔ اسی دوران ان کے لاٹھی بردار حامی ریت کی بوریوں کے عارضیمورچے بنا کر اور لوہے کی سلاخوں سے پولیس کے ساتھ مقابلے پر ڈٹے رہے۔ خان کہتے ہیں، ’’اس قسم کا کریک ڈاؤن پاکستان میں کبھی نہیں ہوا۔ میرا نہیں خیال کہ اتنے برے حالات کبھی کسی مارشل لاء میں بھی رہے ہوں۔"
جب خان 18 مارچ کو عدالت میں پیش ہونے کے لیے اپنے کمپاؤنڈ سے بلٹ پروف ایس یو وی میں جو کہ پھولوں کی پتیوں اور محافظوں سے اٹی ہوئی تھی رخصت ہوئے تو پولیس اس وقت ان کے گھر گھس گئی جہاں ان کی اہلیہ گھر میں “اکیلی” تھیں۔ خان کا کہنا ہے کہ نوکروں کو ماراپیٹا گیا اور باورچی کو پولیس حولات لے گئی۔ اسی دن خان کے مطابق اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس کے اندر ان پر ایک اور قاتلانہ حملے کامنصوبہ تیار تھا، جسے "خفیہ ایجنسیوں اور نیم فوجی دستوں نے ناکام بنا دیا۔"
(جاری ہے)
ای میل سبسکرپشن کے لیے ویب ورژن میں دائیں طرف سبسکرائب کریں تا کہ آپ کو اگلے حصوں اور مزید تحاریر کی بروقت ای میل اپڈیٹس مل سکیں۔
No comments:
Post a Comment