Friday, July 26, 2024

کیا آبادی ایک مسئلہ ہے؟ حصہ دوم

 


پچھلے ماہ ایک پوسٹ لگائی تھی کہ آبادی کوئی مسئلہ کیوں نہیں ہے۔ [1] حالانکہ اس مضمون میں فیکٹس اور فگرز، دلائل، ثبوت اور شواہد کے ساتھ ہر بات کی گئی تھی مگر پھر بھی بہت سے لوگوں کو یہ سب قبول کرنا مشکل لگا۔ کچھ نے اس کو سرخ سازش قرار دیا، کچھ نے ماننے سے انکار کر دیا اور یہ وہ لوگ ہیں جن کو پڑھا لکھا، سائنسی، علمی اور دانشور سمجھا جاتا ہے۔ 


آج یو این نے اپنی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق دنیا کی آبادی دو ہزار اسی کی دہائی میں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچے گی جو کہ دس اعشاریہ تین 10.3 بلین ہے۔ [2, 3] اس کے بعد وہ کم ہونا شروع ہو جائے گی۔ آج دنیا کی آبادی آٹھ اعشاریہ دو 8.2 بلین ہے۔ 


اس کی وجہ جو کہ میں نے پچھلے مضمون میں بھی بیان کی تھی فرٹیلیٹی ریٹ کا کم ہونا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کی فرٹیلیٹی کی شرح سن دو ہزار 2000 میں پانچ اعشاریہ تین 5.3 تھی جو اب کم ہو کر تین اعشاریہ چار 3.4 پر آ گئی ہے۔ اور اگر دو اعشاریہ ایک 2.1 سے نیچے چلی گئی تو پھر آبادی میں بتدریج کمی ہونا شروع ہو جائے گی۔ اگلی صدی میں ہیومن ریسورس ایک بہت بڑی انڈسٹری ہو گی۔ مغربی اور خلیجی ممالک میں آپ یہ دیکھ ہی رہے ہیں۔ جاپان کی شرح نمو دو کے عدد سے نیچے آ چکی ہے اور ان کو اپنے بقا کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ اسی طرح چین میں جنریشن گیپ کی وجہ سے کافی مسائل ہیں۔ مغرب کے حالات بھی آپ کو معلوم ہی ہوں گے جو کہ پچھلے مضمون میں تفصیلا لکھے بھی تھے۔ 


لہذا بجائے نیو مالتھوزین متھ اور پچھلی صدی کے فرسودہ اور متروک نظریات سے جلد سے جلد چھٹکارا حاصل کریں ورنہ غریبوں کو کنڈوم بانٹنے والی پوسٹیں کر کے اپنا مذاق اڑوائیں گے۔ 


(یو این کی رپورٹ اور مذکورہ مضمون کا لنک نیچے دیا گیا ہے)


ڈاکٹر عاکف خان

حوالہ جات

1. https://azkworld.blogspot.com/2024/04/blog-post.html

2. https://www.usatoday.com/story/news/nation/2024/07/13/world-population-growth-united-nations-report/74374319007/

3. https://population.un.org/wpp/Publications/


#ڈاکٹر_عاکف_خان #docakkh #drakifkhan

Friday, July 5, 2024

سازشی نظریات کیسے پھیلتے ہیں اور ان سے کیسے بچا جائے؟

 

تحریر: ڈاکٹر عاکف خان

‎ کوئی بھی واقعہ ہو ہم لوگ فورا اپنے سازشی دماغ لڑانا شروع کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ حال ہی میں ایک خاتون کا ٹی وی پر مکالمہ ہوا تو دو تین دن میں لوگوں نے اس میں بھی سازش تلاش کر لی کہ یہ سب سکرپٹڈ تھا۔ اسی طرح چاند پر جانا، فلیٹ ارتھ، کووڈ کے حوالے سے سازشی تھیوریاں وغیرہ۔ آئیے اس رویے کا سائنسی، نفسیاتی اور فسلسفیانہ رخ سمجھنے کی کوشش کریں کہ لوگ سازشی نظریات یا کانسپریسی تھیوریز کی طرف زیادہ رجحان کیوں رکھتے ہیں۔ 

‎سازشی تھیوریوں کے متعلق نفسیات دانوں کا خیال ہے کہ یہ سست ذہن کی پیداوار ہوتی ہیں۔ یعنی جو لوگ سوچنا نہیں چاہتے وہ اس طرح کی سہل پسندی والی توجیہات کو ماننا بہتر سمجھتے ہیں جو آسانی سے دستیاب بھی ہوتی ہیں اور جس کے لیے زیادہ علم یا مطالعہ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ 

‎کینٹ یونیورسٹی کی سوشل سائیکالوجی کی پروفیسر ڈگلس کینٹ کے مطابق سازشی نظریات یا کانسپریسی تھیوریز بنانے اور ماننے والے زیادہ تر کم پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ذہین نہیں ہوتے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کی تربیت ایسے نہیں کی گئی کہ وہ غلط اور درست معلومات میں فرق کر سکیں۔ اور کم پڑھا لکھا ہونے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان کے پاس ڈگریاں نہیں ہوں گی۔ پاکستان کے تعلیمی نظام میں مثال کے طورپر جیسے بنیادی سائنسی یا معاشرتی علوم کی تعلیم مفقود ہے وہاں آپ یہ سمجھ لیں کہ سوشل سائنسز یا معاشرتی علوم کے لوگ سائنسی علوم سے نابلد ہوتے ہیں اس لیے وہ سائنسی علوم سے متعلق مواد میں سازشی نظریات کا شکار بن جاتے ہیں جبکہ سائنسی علوم والے معاشرتی علوم جیسے عمرانیات، پولیٹیکل سائنس، تاریخ یا نفسیات سے نابلد ہوتے ہیں تو معاشرتی مسائل و معاملات جیسے جمہوریت، خواتین کے حقوق، مذہبی تقسیم اور رجعت پسندی، انٹرنیشنل ریلیشنز اور معاشیات وغیرہ کے معاملات میں سازشی نظریات پر یقین کر لیتے ہیں اگرچہ دونوں گروپس کے پاس اپنی فیلڈ میں پی ایچ ڈی تک کی ڈگریاں بھی موجود ہو سکتی ہیں۔ آپ نے اپنے اردگرد دیکھا ہو گا کہ سائنس میں پی ایچ ڈیز معاشی و معاشرتی معاملات میں جذباتیت اور جہالت کا مظاہرہ کرتے ہیں جبکہ معاشرتی علوم کے ایکسپرٹس اور ڈگری ہولڈرز میڈیکل سائنس کے بجائے جادو ٹونے پر یقین  رکھتے ہیں اور ویکسینز وغیرہ کو سازش سمجھتے ہیں۔ اگرچہ یہاں تو کایا ہی پلٹ ہے، میں نے کیمسٹری کے پی ایچ ڈیز کو ہومیوپیتھی جیسے فراڈ پر یقین کرتا اور ساشل سائنسز والوں کو بابوں سے دم کرواتا پایا ہے۔ 

‎اب لوگ سازشی تھیوریوں پر یقین کیوں کرتے ہیں اور کیا اب یہ رجحان ذیادہ ہو گیا ہے؟ ڈاکٹر ڈگلس کے مطابق ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ یہ رجحان بڑھا ہو، مگر چند بڑے واقعات کے دوران اس رویے میں اضافہ دیکھا جاتا ہے جیسے مون لینڈنگ یا کوووڈ کے وقت۔  اگرچہ سازشی نظریات پر یقین کرنے والے لوگ ہمیشہ معاشرے میں اسی تناسب سے اکثریت میں موجود رہے ہیں۔ چاہے سقراط کی سزا ہو، ہپاشیا کے جسم کی کھال کھینچنا، ابن رشد کو مسجد کے ستون سے باندھ کر اس کے منہ پر تھوکنے والے، برونو کو جلانے والے، گلیلیو سے معافی منگوانے والے یا ڈاکٹر عبدالسلام کے نوبیل کو جعلی قرار دینے والے۔ 

‎موٹیوز یا محرکات پر آئیں تو اس کے تین ‎نفسیاتی محرکات ہوتے ہیں۔ پہلا ہوتا ہے علمی محرک، یعنی کہ ہر انسان کے اندر موجود تجسس۔ چونکہ لوگوں کو یہ نہیں سکھایا جاتا کہ درست معلومات کہاں سے لینی ہیں یا ان کی درست معلومات تک رسائی مشکل بنائی جاتی ہے تو وہ آسانی سے دستیاب غلط معلومات جیسے سوشل میڈیا  کی وائرل ویڈیوز اور فیک نیوز جو کہ سمجھنے میں بھی آسان ہوتی ہے اور اس کے لیے زیادہ مطالعہ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، اس پر یقین کر لیتے ہیں۔ اور چونکہ اپنے ریشنل مائنڈ یا سوچنے والے ذہن کو بیوقوف بنا کر اور لاعلم رکھ کر خود کو سوچنے کی اذیت سے بچانا بھی ہوتا ہے جو کہ ہمیں دوسرے محرک پر لے کر جاتا ہے۔  

‎دوسرا نفسیاتی محرک وجودیت سے متعلق ہے۔ میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں۔ ہر انسان کو اپنے آپ کو محفوظ رکھنے اور سمجھنے کی طلب ہوتی ہے۔ یہ انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ جسے بچاو یا سروائیول بھی کہتے ہیں۔ اس کے لیے انسان کو اپنے ماحول میں ایک طاقت اور کنٹرول کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب کوئی شاکنگ یا انہونا واقعہ ہوتا ہے تو انسان کو اپنا وجود، طاقت اور معاملات پر گرفت یا کنٹرول خطرے میں لگتا ہے۔ لہٰذا وہ یا تو وہ کنٹرول واپس لینے کی سہی کرتا ہے یا یہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ کنٹرول اور طاقت اس کے ہاتھ سے کیسے اور کس نے چھینی اور کیا وہ اس کے بارے میں کچھ کر سکتا ہے؟  اگر کچھ نہیں کر سکتا تو کم از کم کوئی ایسی توجیح موجود ہے جو یہ بتائے کہ اس کے پاس کنٹرول کیوں نہیں ہے۔ یہاں پر سب سے آسان توجیح سازشی تھیوریوں کی شکل میں موجود ہوتی ہے۔ ریسرچ نے یہ ثابت کیا ہے کہ توہم پرست، یا عرف عام میں وہمی اور وہ لوگ جن کے اختیار محدود ہو سازشی نظریات کی طرف زیادہ جھکاو رکھتے ہیں۔ خیر سے مملکت خداداد میں دونوں خصوصیات کے حامل لوگ بدرجہ اتم موجود ہیں۔ 

تیسرا نفسیاتی محرک معاشرتی ہے۔ ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ اسے معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ ہر انسان اپنے آپ کو اچھا سمجھنا چاہتا ہے جسے عزت نفس بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی اپنے آپ کو بہتر سمجھنا، اپنے بارے میں بہتر گمان رکھنا۔ اس کا ایک طریقہ سب معلومات کا ہونا ہے اور خاص طور پر ان معلومات کا ہونا جو دوسروں کے پاس نہیں ہیں۔ سازشی معلومات بکثرت موجود ہوتی ہیں اور ہر کوئی سمجھ رہا ہوتا ہے کہ صرف اسی کو یہ والی خبر معلوم ہے۔ باقی سب بھیڑیں ہیں کھوتے ہیں ناسمجھ ہیں کم عقل ہیں یا جاہل ہیں۔ خودپرست یا نرگسیت کے شکار گروپ اور معاشرے سازشی نظریات پر زیادہ یقین کرتے ہیں۔ اسی طرح ریسرچ نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ کم عمر لوگوں کئ بہ نسبت بڑی عمر کے لوگ بھی سازشی نظریات پر زیادہ یقین کرتے ہیں۔ واٹس ایپ انکلز کی اصطلاح آپ نے یقینا سنی ہو گی جن کے علم کی سورس واٹس ایپ فارورڈڈ میسجز ہوتے ہیں جن کا کوئی سر پیر، سائنسی ساکھ یا حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا۔ اور یہ لوگ اپنی عمر کو ان معلومات کی ترویج اور منوانے کے لیے اتھارٹی اور طاقت کے طور پر استعمال کرتے ہیں جیسا کہ دوسرے محرک میں بیان کیا گیا۔ اور وپ لوگ جو ایک سازشی نظریے پر یقین کرتے ہوں ان کا دوسرے سازشی نظریات پر یقین کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ یعنی کہ وہ لوگ جو چاند کی لینڈنگ کو فیک سمجھتے ہیں انہی کی اکثریت ویکسینز کو غیرمحفوظ اور زمین کو فلیٹ سمجھتی ہے اور مستقبل میں بھی یہی لوگ باآسانی سازشی نظریات کا شکار ہوتے ہیں۔ یعنی یہ ایک نفسیاتی امر ہے۔ 

آپ نے اکثر لوگوں کو عام طور پر پھیلی ہوئی جھوٹی خبریں انتہائی وثوق سے بتاتے ہوئے سنا ہو گا۔ آپ نے اکثر سیاسی پارٹیوں کے لوگوں کو خاص بیانیے اس طرح بیان کرتے دیکھا ہو گا جیسے یہ ان کے اپنے ذہن کی اختراع یا سوچ کا نتیجہ ہیں۔ مثال کے طور پر اسی واقعہ کے تناظر میں میری ایک دوست سے بات ہو رہی تھی۔ موصوف مائیکروبیالوجی میں پی ایچ ڈی ہیں اور این آئی ایچ میں کئی برس سے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے فورا ایک ہی رٹ پکڑ لی کہ لڑکی بدتمیز تھی، میں ساحل عدیم کی پرواہ نہیں کرتا۔ پھر انہوں نے وہی مثال دی جو ساحل عدیم نے پروگرام میں دی تھی، ابوجہل والی۔ اور ایسے جیسے یہ مثال انہوں نے خود ان کے ذہن کی تخلیق ہو۔ اس کا ہرگز یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ جھوٹ بولنا چاہ رہے ہوں۔ بعض اوقات جب آپ کسی بات پر اندھا یقین کر لیتے ہیں تو وہ بات آپ کو اپنی ہی تخلیق لگنا شروع ہو جاتی ہے۔ آپ نے اکثر یہ بھی دیکھا ہو گا کہ آپ کسی کو کوئی بات بتاتے ہیں تو وہ شخص کچھ عرصے بعد وہی بات دوسروں کو حتی کہ آپ کو انتہائی اعتماد سے ایسے بتا رہا ہوتا ہے جیسے وہ اس کی اپنی سوچ کا نتیجہ ہو۔ ہو سکتا ہے جس بات کو آپ اپنی سوچ کا نتیجہ اور اس کی چوری سمجھ رہے ہوں وہ بات آپ نے بھی کسی سے ایسے ہی سنی ہو مگر آپ کے دماغ نے محض معلومات کو رجسٹر کیا ہو سورس کو نہیں۔ 

یہاں یہ بھی نوٹ کریں کہ سورس کی افادیت، اہمیت اور ساکھ کو نہ سمجھنے سے یہ رویہ جنم لیتا ہے۔ جب آپ سورس کو یاد رکھنا، اس کی ساکھ اور اہمیت کو پرکھنا سیکھیں گے تو آپ کا ذہن/دماغ اس طرح ہر بات/معلومات کو بغیر سوچے سمجھے آگے نہیں پھیلائے گا۔ اس سے آپ کے اند سیلف اوئیرنیس بھی آئے گی کہ میں کر کیا رہا ہوں اور کیوں کر رہا ہوں اور کیا یہ عقلی، سائنسی یا معاشرتی طور پر مناسب اور سودمند ہے یا نہیں؟ 

اب چلتے ہیں اس سوال پر کہ ان سازشیوں کا علاج کیسے کیا جائے؟ نفسیات دانوں کے مطابق اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو پہلے متنبہ یا وارن کیا جائے۔ کہ ڈس انفارمیشن یا مس انفارمیشن کا چانس ہے اور آپ اس پر یقین کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ پرکھ لیں۔ مگر بعض اوقات اس کام میں بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور لوگ اپنا ذہن بنا چکے ہوتے ہیں۔ اس صورتحال میں بہتر طریقہ لوگوں کے سامنے حقائق رکھنے کا ہے۔ چند لوگ جو علمی بددیانتی کے مرتکب ہوں، جن کے لیے اپنے اعتقادات سے ہٹنا مشکل ہو یا جو خودپسندی اور اناپرستی میں مبتلا ہوں، ان کے علاوہ باقی لوگ حقائق کو دیکھ سمجھ کر اصل بات مان لیتے ہیں اور سازشی نظریے کو مسترد کر دیتے ہیں، اگرچہ ایسے لوگ تعداد میں کم ہوتے ہیں۔ 

چنانچہ اگلی مرتبہ جب آپ کے سامنے کوئی سازشی نظریہ حتی کہ کوئی ببی بات کی جائے تو اس کو اچھی طرح سوچ سمجھ کر پرکھیں اور پھر تسلیم یا مسترد کریں۔ اگرچہ یہ مشکل کام ہے اور ہمیں بچپن سے کریٹیکل تھنکنگ نہیں سکھائی جاتی مگر انٹرنیٹ اور جی پی ٹی ماڈلز کے ٹول کو استعمال کر کے حقائق تک پہنچا جا سکتا ہے۔ یہاں پر اکثر لوگوں کے ذہن میں یہ سوال آئے گا کہ ہمیں کیسے علم ہو گا کہ کون سا سورس یا انفارمیشن درست ہے۔ انٹرنیٹ پر فیکٹ چیکنگ کے کئی کورسز موجود ہیں آپ ان سے استفادہ کر سکتے ہیں جیسا کہ رائٹرز کا جرنلزم کا بنیادی فیکٹ چیک کورس۔ اس کے علاوہ سائنسی طرز عمل اور سائنسی طریقہ کار کی سمجھ بوجھ بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ امید ہے کہ اس تحریر سے لوگوں کو سازشی نظریات سے بچنے میں مدد ملے گی۔ 


ہومیوپیتھی فراڈ کیوں ہے؟

 
Homeopathy is a pseudoscience

For English version of this article, click on the link at the end of this article.

ہومیوپیتھی، ایک ایسی پریکٹس جو 18ویں صدی میں وجود میں آئی، آج کی جدید طب میں تنازع کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ اس کے وسیع پیمانے پر استعمال کے باوجود، سائنسدان اور طبی ماہرین اسے جھوٹی سائنس تصور کرتے ہیں۔ یہاں ہم ہومیوپیتھی کے اصولوں کو پرکھیں گے اور یہ جانچنے کی کوشش کریں گے  کہ ہومیوپیتھی سائنسی معیاروں پر کیوں پورا نہیں اترتی۔


ہومیوپیتھی کا تاریخی پس منظر

ہومیوپیتھی کو پہلی بار جرمن ڈاکٹر سیموئیل ہانیمن نے 1700 کی دہائی میں ایجاد کیا۔ انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ وہ اشیاء جو صحت مند لوگوں میں بیماری کی علامات پیدا کرتی ہیں، وہ بیمار لوگوں میں انہی علامات کو ٹھیک کرسکتی ہیں — اس اصول کو انہوں نے "مثل علاج مثل" کہا۔ یہاں یہ یاد رہے کہ یہ نظریہ ہانیمن کے ذاتی مشاہدات پر مبنی تھا، جیسے کہ ان کا سنکونا درخت کی چھال کے ساتھ تجربہ، جس کے بارے میں انہوں نے سمجھا کہ چونکہ یہ چھال ملیریا جیسا بخار پیدا کرتی ہے اود اس کا علاج بھی کرتی ہے تو ایک بیماری جیسی علامات پیدا کرنے والی کوئی بھی چیز اس بیمادی کا علاج بھی کرے گی۔ یہ ایسے ہو گیا کہ اگر آگ سے چھالے بنتے ہیں تو چھالے آگ میں جلانے سے ٹھیک ہو جائیں گے۔ تاہم، یہ نظریہ تجرباتی تصدیق اور سائنسی توثیق سے عاری تھا۔ اود ان کی اپنی بغیر کسی علم مشاہدے یا تجربے کی بنیاد پر ایک گپ تھی۔   

ہومیوپیتھی کے اصولوں میں خامیاں

مثل علاج مثل

"مثل علاج مثل" کا اصول یہ تجویز کرتا ہے کہ جو اشیاء صحت مند افراد میں بیماری کی علامات پیدا کرتی ہیں، وہ بیمار افراد میں انہی علامات کو ٹھیک کرسکتی ہیں۔ یہ تصور بنیادی طور پر ناقص ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کسی کو زہریلی گیس سے زہر دیا جائے، تو یہ غیر منطقی ہے کہ اس گیس کو مزید داخل کرنے سے انہیں ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ اس خیال کی سائنسی ثبوت کی کمی ہے اور یہ بنیادی طبی اصولوں کی مخالفت کرتا ہے۔ اتنا کامن سینس ایک جانور میں بھی موجود ہوتا ہے کہ اگر اسے کسی چیز سے نقصان ہو تو وہ اس کے پاس نہیں جاتا  

ہومیوپیتھ اکثر اپنی اس پریکٹس کی توجیح ویکسینیشن سے موازنہ کر کے کرتے ہیں۔ تاہم، یہ موازنہ گمراہ کن ہے۔ ویکسینز مدافعتی نظام کو اینٹی باڈیز پیدا کرنے کے لئے متحرک کرتی ہیں، جو ایک مکمل طور پر مختلف عمل ہے اس غیر تصدیق شدہ دعویٰ سے کہ مشابہ اشیاء بیماریوں کا علاج کرسکتی ہیں۔ ویکسینز میں مخصوص حیاتیاتی مالیکیول ہوتے ہیں جو مدافعتی ردعمل کو متحرک کرتے ہیں، جب کہ ہومیوپیتھک حل میں یہ خصوصیات نہیں ہوتیں۔

ڈیلویشن کے ذریعے طاقتور بنانا

ہومیوپیتھی کا دوسرا اصول یہ ہے کہ کسی مادے کو ڈائیلوٹ یعنی لطیف بنانے سے اس کی طاقت بڑھ جاتی ہے۔ یعنی رنگ میں زیادہ تیل ڈالیں تو وہ گاڑھا ہو جائے گا۔ کیا اس کو عقل تسلیم کرتی ہے؟ ہومیوپیتھز مسلسل ڈائلوشین کے ذریعے دوائی کو اتنا لطیف بنا دیتے ہیں کہ اس میں پیچھے کچھ بھی نہیں بچتا۔ مثال کے طور پر، 20C  میں ایک مادے کو 1 حصے میں 100^20 میں ڈائیلوٹ کیا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس میں اصل مادے کا ایک بھی مالیکیول موجود ہونے کا امکان نہیں ہے۔

یہ اصول کیمسٹری اور فزکس کے قوانین کی مخالفت کرتا ہے۔ تصور کریں کہ تھوڑی مقدار میں چینی کو پانی کی ایک جگ میں ڈال کر اسے بار بار ڈیلویٹ کریں۔ نتیجے میں آنے والا محلول میٹھا نہیں ہوگا؛ یہ صرف زیادہ لطیف یا ڈائیلوٹ ہو جائے گا۔ اس طرح، ہومیوپیتھک علاجوں میں کوئی فعال اجزاء نہیں ہوتے اور ان سے علاج کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

واٹر میموری ایفیکٹ کی تردید

ہومیوپیتھی کے حامی اکثر اپنے دعووں کو جواز فراہم کرنے کے لئے "واٹر میموری" ایفیکٹ کا حوالہ دیتے ہیں۔ یہ تصور جیکس بین وینسٹ کی شائع شدہ ایک مطالعہ سے مشہور ہوا، جس نے تجویز کیا کہ پانی ایک خاص حد سے آگے ڈیلویٹ ہونے والے مادوں کی یاد رکھ سکتا ہے۔ تاہم، اس مطالعہ کو سائنسی کمیونٹی نے بڑے پیمانے پر اور عوامی طور پر مسترد کر دیا۔

بی بی سی کے پروگرام ہورائزن کے ایک قابل ذکر تجربے نے واٹر میموری ایفیکٹ کی حمایت میں کوئی ثبوت نہیں پایا۔ مطالعے نے ظاہر کیا کہ عام پانی اور ہومیوپیتھک محلول میں فزیولوجیکل اثرات کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں تھا۔ بین وینسٹ کے نتائج کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوششیں بھی ناکام ہوئیں، جس سے اس نظریے کو مزید بدنامی ملی۔ نیچر کے جس آرٹیکل کا حوالہ دیا جاتا ہے وہ بعد میں کافی متنازعہ ثابت ہوا اور اس کے رزلٹ دوبارہ حاصل نہیں کیے جا سکے  اسی طرح ایک جاپانی سائنسدان کے پانی پر کام کا حوالہ دیا جاتا ہے جو کہ مشکوک کام ہے اور اس کا بھی کوئی ثبوت  ریسرا ثبوت نوبیل لاریٹ لیوک مانٹنیئر کے کام کا دیا جاتا ہے۔ وہ کام لیوک کے اپنے جریدے میں شائع ہوا جس کا وہ ایڈیٹر تھا۔ اور یہ لیوک کی اپنی فیلڈ بھی نہیں ہے۔ نہ ہی اس کے کام سے کچھ وضع ہوتا ہے۔ لہذا یہ تیسرا کام جسے سائنسی سمجھا جاتا ہے بے بنیاد ہے۔  

پلیسیبو ایفیکٹ اور مؤثریت کی تصوراتی

بہت سے لوگ ہومیوپیتھک علاج سے مثبت نتائج کی گواہی دیتے ہیں، یہ اکثر پلیسیبو ایفیکٹ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جب لوگوں کو یقین ہوتا ہے کہ علاج کام کرے گا، ان کا دماغ کیمیائی اور ہارمونل عمل کو متحرک کرسکتا ہے جو عارضی طور پر علامات کو راحت پہنچاتا ہے۔ یہ نفسیاتی اثر کبھی کبھی لوگوں کو یہ یقین دلانے کا باعث بن سکتا ہے کہ ہومیوپیتھک علاج مؤثر ہیں، حالانکہ علاج میں خود کوئی فزیالوجیکل اثر نہیں ہوتا۔

مثال کے طور پر، ہومیوپیتھز گردے کی پتھریوں کا علاج کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، جو اکثر علاج کے بغیر قدرتی طور پر ہی نکل جاتی ہیں۔ مریضوں کو زیادہ پانی پینے کی ہدایت دے کر، ہومیوپیتھز غیر ارادی طور پر پتھریوں کے قدرتی گزرنے میں مدد کر سکتے ہیں، پھر غلط طور پر اس علاج کی کامیابی کا سہرا لوگ ہومیوپیتھوں کو دیتے ہیں۔

ہومیوپیتھی کے ممکنہ نقصانات

جبکہ ہومیوپیتھک علاج عام طور پر ان کی زیادہ ڈائیلوشن کی وجہ سے محفوظ سمجھے جاتے ہیں، کہ چلو فائدہ نہیں نقصان بھی تو نہیں، سائیڈ ایفیکٹ نہیں یہ وہ۔ مگر یہ یقین مزید اور اہم خطرات پیدا کرسکتا ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں، جہاں قوانین نرم ہوتے ہیں، ہومیوپیتھ عام دستیاب ادویات جیسے پیراسیٹامول یا اسپرین کو ہومیوپیتھک علاج کے طور پر فروخت کرتے ہیں۔ یہ خطرناک ہوسکتا ہے، خاص طور پر ان افراد کے لئے جنہیں معدے کے السر یا ذیابیطس جیسی بیماریاں ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہومیوپیتھ سٹیرائیڈز استعمال کرتے بھی پائے گئے ہیں۔ گلوکوز کی بنی گولیوں سے شوگر کے مریضوں کو ہائپرگلیسیمیا ہو سکتا ہے اور ان کی بینائی تک جا سکتی ہے جو کہ کئی دفعہ ہو بھی چکا ہے۔ بعض ہومیوپیتھ شوگر کے مکمل علاج جا دعوی کرتے ہیں اور وہ چینی کے محلولوں گولیوں اور پاؤڈر سے مریضوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ، سنگین طبی حالات کے لئے ہومیوپیتھی پر انحصار کرنا مؤثر علاج میں تاخیر کا سبب بن سکتا ہے، جس سے صحت کے نتائج خراب ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر ایک مریض ایک شدید انفیکشن کے ساتھ ہومیوپیتھی کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ ضروری اینٹی بایوٹکس کو چھوڑ سکتا ہے، جس کے نتیجے میں سنگین پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ اس طرح سرطان یا شوگر کے مریض ہومیوپیتھی کی ادویات لیتے لیتے اصل علاج میں بہت دیر کر دیتے ہیں  بعض اوقات ہومیوپیتھ لوگوں کو اصل ادویات بند کرنے کی بھی ترغیب دیتے ہیں کہ ہماری دوا کے ساتھ انگریزی یا جسے یہ ایلوپیتھک دوائی کہتے ہیں (جو کہ ان کا اپنا گڑھا ہوا لفظ ہے) مت لو ورنہ ہماری دوا اثر نہیں کرے گی۔ اس سے بھی مریض کو زیادہ نقصان پہنچنے کا احتمال ہوتا ہے۔


ہومیوپیتھی کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے اور یہ پلیسیبو ایفیکٹ سے زیادہ کبھی مؤثر ثابت نہیں ہوئی۔ طبی ماہرین، جو برسہا برس تعلیم، کئی سال ہاوس جاب، مریضوں کے علاج، تجربے اور مشائدات سے گزرے ہوتے ہیں، علاج ہمیشہ انہی سے کروانا چاہیے۔ اگرچہ پاکستان اور دوسرے تعقی پذیر ممالک میں میڈیکل سائنس اور ڈاکٹرز کی کوتاہیاں اود سسٹم کی خرابی موجود ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بالکل عطائیوں کے ہتھے چڑھ کر اپنی اور اپبے پیاروں کی زندگی خطرے میں ڈال دیں۔


About the Author: The author holds a PhD in Chemistry with over 18 years of experience in research, teaching, and pharmaceutical industry. For more about his background and credentials, please visit his Google Scholar and ResearchGate profiles.

References

  1. Luc Montagnier's Journal: Wikipedia
  2. French Nobelist Escapes 'Intellectual Terror' to Pursue Radical Ideas in China, Science
  3. Benveniste's Paper on Water Memory Effect, Wikipedia
  4. The Horizon Test, BBC
  5. The Horizon Homeopathic Dilution Experiment, Wiley
  6. A Talk with a Homeopathic Practitioner - Part 1, YouTube
  7. A Talk with a Homeopathic Practitioner - Part 2, YouTube

Further Readings:


Click here for English version of this article.