For English version of this article, click on the link at the end of this article.
ہومیوپیتھی، ایک ایسی پریکٹس جو 18ویں صدی میں وجود میں آئی، آج کی جدید طب میں تنازع کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ اس کے وسیع پیمانے پر استعمال کے باوجود، سائنسدان اور طبی ماہرین اسے جھوٹی سائنس تصور کرتے ہیں۔ یہاں ہم ہومیوپیتھی کے اصولوں کو پرکھیں گے اور یہ جانچنے کی کوشش کریں گے کہ ہومیوپیتھی سائنسی معیاروں پر کیوں پورا نہیں اترتی۔
ہومیوپیتھی کا تاریخی پس منظر
ہومیوپیتھی کو پہلی بار جرمن ڈاکٹر سیموئیل ہانیمن نے 1700 کی دہائی میں ایجاد کیا۔ انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ وہ اشیاء جو صحت مند لوگوں میں بیماری کی علامات پیدا کرتی ہیں، وہ بیمار لوگوں میں انہی علامات کو ٹھیک کرسکتی ہیں — اس اصول کو انہوں نے "مثل علاج مثل" کہا۔ یہاں یہ یاد رہے کہ یہ نظریہ ہانیمن کے ذاتی مشاہدات پر مبنی تھا، جیسے کہ ان کا سنکونا درخت کی چھال کے ساتھ تجربہ، جس کے بارے میں انہوں نے سمجھا کہ چونکہ یہ چھال ملیریا جیسا بخار پیدا کرتی ہے اود اس کا علاج بھی کرتی ہے تو ایک بیماری جیسی علامات پیدا کرنے والی کوئی بھی چیز اس بیمادی کا علاج بھی کرے گی۔ یہ ایسے ہو گیا کہ اگر آگ سے چھالے بنتے ہیں تو چھالے آگ میں جلانے سے ٹھیک ہو جائیں گے۔ تاہم، یہ نظریہ تجرباتی تصدیق اور سائنسی توثیق سے عاری تھا۔ اود ان کی اپنی بغیر کسی علم مشاہدے یا تجربے کی بنیاد پر ایک گپ تھی۔
ہومیوپیتھی کے اصولوں میں خامیاں
مثل علاج مثل
"مثل علاج مثل" کا اصول یہ تجویز کرتا ہے کہ جو اشیاء صحت مند افراد میں بیماری کی علامات پیدا کرتی ہیں، وہ بیمار افراد میں انہی علامات کو ٹھیک کرسکتی ہیں۔ یہ تصور بنیادی طور پر ناقص ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کسی کو زہریلی گیس سے زہر دیا جائے، تو یہ غیر منطقی ہے کہ اس گیس کو مزید داخل کرنے سے انہیں ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ اس خیال کی سائنسی ثبوت کی کمی ہے اور یہ بنیادی طبی اصولوں کی مخالفت کرتا ہے۔ اتنا کامن سینس ایک جانور میں بھی موجود ہوتا ہے کہ اگر اسے کسی چیز سے نقصان ہو تو وہ اس کے پاس نہیں جاتا
ہومیوپیتھ اکثر اپنی اس پریکٹس کی توجیح ویکسینیشن سے موازنہ کر کے کرتے ہیں۔ تاہم، یہ موازنہ گمراہ کن ہے۔ ویکسینز مدافعتی نظام کو اینٹی باڈیز پیدا کرنے کے لئے متحرک کرتی ہیں، جو ایک مکمل طور پر مختلف عمل ہے اس غیر تصدیق شدہ دعویٰ سے کہ مشابہ اشیاء بیماریوں کا علاج کرسکتی ہیں۔ ویکسینز میں مخصوص حیاتیاتی مالیکیول ہوتے ہیں جو مدافعتی ردعمل کو متحرک کرتے ہیں، جب کہ ہومیوپیتھک حل میں یہ خصوصیات نہیں ہوتیں۔
ڈیلویشن کے ذریعے طاقتور بنانا
ہومیوپیتھی کا دوسرا اصول یہ ہے کہ کسی مادے کو ڈائیلوٹ یعنی لطیف بنانے سے اس کی طاقت بڑھ جاتی ہے۔ یعنی رنگ میں زیادہ تیل ڈالیں تو وہ گاڑھا ہو جائے گا۔ کیا اس کو عقل تسلیم کرتی ہے؟ ہومیوپیتھز مسلسل ڈائلوشین کے ذریعے دوائی کو اتنا لطیف بنا دیتے ہیں کہ اس میں پیچھے کچھ بھی نہیں بچتا۔ مثال کے طور پر، 20C میں ایک مادے کو 1 حصے میں 100^20 میں ڈائیلوٹ کیا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس میں اصل مادے کا ایک بھی مالیکیول موجود ہونے کا امکان نہیں ہے۔
یہ اصول کیمسٹری اور فزکس کے قوانین کی مخالفت کرتا ہے۔ تصور کریں کہ تھوڑی مقدار میں چینی کو پانی کی ایک جگ میں ڈال کر اسے بار بار ڈیلویٹ کریں۔ نتیجے میں آنے والا محلول میٹھا نہیں ہوگا؛ یہ صرف زیادہ لطیف یا ڈائیلوٹ ہو جائے گا۔ اس طرح، ہومیوپیتھک علاجوں میں کوئی فعال اجزاء نہیں ہوتے اور ان سے علاج کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
واٹر میموری ایفیکٹ کی تردید
ہومیوپیتھی کے حامی اکثر اپنے دعووں کو جواز فراہم کرنے کے لئے "واٹر میموری" ایفیکٹ کا حوالہ دیتے ہیں۔ یہ تصور جیکس بین وینسٹ کی شائع شدہ ایک مطالعہ سے مشہور ہوا، جس نے تجویز کیا کہ پانی ایک خاص حد سے آگے ڈیلویٹ ہونے والے مادوں کی یاد رکھ سکتا ہے۔ تاہم، اس مطالعہ کو سائنسی کمیونٹی نے بڑے پیمانے پر اور عوامی طور پر مسترد کر دیا۔
بی بی سی کے پروگرام ہورائزن کے ایک قابل ذکر تجربے نے واٹر میموری ایفیکٹ کی حمایت میں کوئی ثبوت نہیں پایا۔ مطالعے نے ظاہر کیا کہ عام پانی اور ہومیوپیتھک محلول میں فزیولوجیکل اثرات کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں تھا۔ بین وینسٹ کے نتائج کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوششیں بھی ناکام ہوئیں، جس سے اس نظریے کو مزید بدنامی ملی۔ نیچر کے جس آرٹیکل کا حوالہ دیا جاتا ہے وہ بعد میں کافی متنازعہ ثابت ہوا اور اس کے رزلٹ دوبارہ حاصل نہیں کیے جا سکے اسی طرح ایک جاپانی سائنسدان کے پانی پر کام کا حوالہ دیا جاتا ہے جو کہ مشکوک کام ہے اور اس کا بھی کوئی ثبوت ریسرا ثبوت نوبیل لاریٹ لیوک مانٹنیئر کے کام کا دیا جاتا ہے۔ وہ کام لیوک کے اپنے جریدے میں شائع ہوا جس کا وہ ایڈیٹر تھا۔ اور یہ لیوک کی اپنی فیلڈ بھی نہیں ہے۔ نہ ہی اس کے کام سے کچھ وضع ہوتا ہے۔ لہذا یہ تیسرا کام جسے سائنسی سمجھا جاتا ہے بے بنیاد ہے۔
پلیسیبو ایفیکٹ اور مؤثریت کی تصوراتی
بہت سے لوگ ہومیوپیتھک علاج سے مثبت نتائج کی گواہی دیتے ہیں، یہ اکثر پلیسیبو ایفیکٹ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جب لوگوں کو یقین ہوتا ہے کہ علاج کام کرے گا، ان کا دماغ کیمیائی اور ہارمونل عمل کو متحرک کرسکتا ہے جو عارضی طور پر علامات کو راحت پہنچاتا ہے۔ یہ نفسیاتی اثر کبھی کبھی لوگوں کو یہ یقین دلانے کا باعث بن سکتا ہے کہ ہومیوپیتھک علاج مؤثر ہیں، حالانکہ علاج میں خود کوئی فزیالوجیکل اثر نہیں ہوتا۔
مثال کے طور پر، ہومیوپیتھز گردے کی پتھریوں کا علاج کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، جو اکثر علاج کے بغیر قدرتی طور پر ہی نکل جاتی ہیں۔ مریضوں کو زیادہ پانی پینے کی ہدایت دے کر، ہومیوپیتھز غیر ارادی طور پر پتھریوں کے قدرتی گزرنے میں مدد کر سکتے ہیں، پھر غلط طور پر اس علاج کی کامیابی کا سہرا لوگ ہومیوپیتھوں کو دیتے ہیں۔
ہومیوپیتھی کے ممکنہ نقصانات
جبکہ ہومیوپیتھک علاج عام طور پر ان کی زیادہ ڈائیلوشن کی وجہ سے محفوظ سمجھے جاتے ہیں، کہ چلو فائدہ نہیں نقصان بھی تو نہیں، سائیڈ ایفیکٹ نہیں یہ وہ۔ مگر یہ یقین مزید اور اہم خطرات پیدا کرسکتا ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں، جہاں قوانین نرم ہوتے ہیں، ہومیوپیتھ عام دستیاب ادویات جیسے پیراسیٹامول یا اسپرین کو ہومیوپیتھک علاج کے طور پر فروخت کرتے ہیں۔ یہ خطرناک ہوسکتا ہے، خاص طور پر ان افراد کے لئے جنہیں معدے کے السر یا ذیابیطس جیسی بیماریاں ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہومیوپیتھ سٹیرائیڈز استعمال کرتے بھی پائے گئے ہیں۔ گلوکوز کی بنی گولیوں سے شوگر کے مریضوں کو ہائپرگلیسیمیا ہو سکتا ہے اور ان کی بینائی تک جا سکتی ہے جو کہ کئی دفعہ ہو بھی چکا ہے۔ بعض ہومیوپیتھ شوگر کے مکمل علاج جا دعوی کرتے ہیں اور وہ چینی کے محلولوں گولیوں اور پاؤڈر سے مریضوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ، سنگین طبی حالات کے لئے ہومیوپیتھی پر انحصار کرنا مؤثر علاج میں تاخیر کا سبب بن سکتا ہے، جس سے صحت کے نتائج خراب ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر ایک مریض ایک شدید انفیکشن کے ساتھ ہومیوپیتھی کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ ضروری اینٹی بایوٹکس کو چھوڑ سکتا ہے، جس کے نتیجے میں سنگین پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ اس طرح سرطان یا شوگر کے مریض ہومیوپیتھی کی ادویات لیتے لیتے اصل علاج میں بہت دیر کر دیتے ہیں بعض اوقات ہومیوپیتھ لوگوں کو اصل ادویات بند کرنے کی بھی ترغیب دیتے ہیں کہ ہماری دوا کے ساتھ انگریزی یا جسے یہ ایلوپیتھک دوائی کہتے ہیں (جو کہ ان کا اپنا گڑھا ہوا لفظ ہے) مت لو ورنہ ہماری دوا اثر نہیں کرے گی۔ اس سے بھی مریض کو زیادہ نقصان پہنچنے کا احتمال ہوتا ہے۔
ہومیوپیتھی کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے اور یہ پلیسیبو ایفیکٹ سے زیادہ کبھی مؤثر ثابت نہیں ہوئی۔ طبی ماہرین، جو برسہا برس تعلیم، کئی سال ہاوس جاب، مریضوں کے علاج، تجربے اور مشائدات سے گزرے ہوتے ہیں، علاج ہمیشہ انہی سے کروانا چاہیے۔ اگرچہ پاکستان اور دوسرے تعقی پذیر ممالک میں میڈیکل سائنس اور ڈاکٹرز کی کوتاہیاں اود سسٹم کی خرابی موجود ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بالکل عطائیوں کے ہتھے چڑھ کر اپنی اور اپبے پیاروں کی زندگی خطرے میں ڈال دیں۔
About the Author: The author holds a PhD in Chemistry with over 18 years of
experience in research, teaching, and pharmaceutical industry. For more about his background
and credentials, please visit his Google Scholar and ResearchGate
profiles.
References
- Luc
Montagnier's Journal: Wikipedia
- French Nobelist
Escapes 'Intellectual Terror' to Pursue Radical Ideas in China, Science
- Benveniste's
Paper on Water Memory Effect, Wikipedia
- The Horizon
Test, BBC
- The Horizon
Homeopathic Dilution Experiment, Wiley
- A Talk with a
Homeopathic Practitioner - Part 1, YouTube
- A Talk with a
Homeopathic Practitioner - Part 2, YouTube
Further Readings:
Click here for English version of this article.