فیسبکی دانشور کے خدشات - ایک نظم
(پارٹ تھری: منظوم، امجد اسلام امجد سے معذرت کے ساتھ)
دانشور کی طبیعت میں
یہ کیسا بچپنا فیسبک نے رکھا ہے
کہ یہ جتنا بڑا، جتنا بھی مضبوط ہو جائے
اسے تائیدِ تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے
یقیں کی آخری حد تک دلوں میں لہلہائے
نگاہوں سے ٹپکتا ہو، لہو میں جگمگائے
ہزاروں طرح سے دلکش، حسیں حالے بنائے
اسے اظہار کے ریئکٹس کی حاجت پھر بھی رہتی ہے !
دانشور مانگتا ہے یوں گواہی اپنے ہونے کی
کہ جیسے طفلِ سادہ شام کو اک پوسٹ کرے
اور شب میں بارہا اٹھے
فیسبک کو کھول کر دیکھے
کہ لائیکس اب کہاں تک پہنچے !
دانشور کی طبیعیت میں عجب تکرار کی خو ہے
کہ یہ اقرار کے لفظوں کو سننے سے نہیں تھکتا
پوسٹ کرنے کی گھڑی ہو یا کوئی انٹرویو کی ساعت ہو
اسے بس ایک ہی دھن ہے
"کہو میں دانشور ہوں !"
"کہو مجھ سے میں دانشور ہوں !"
"تمہیں مجھ میں دانشور دکھتا ہے !"
کچھ ایسی بے سکونی ہے دانشوری کی سر زمینوں میں
کہ جو اہلِ دانش کو سدا بے چین رکھتی ہے
کہ جیسے پھول میں خوشبو، کہ جیسے ہاتھ میں پارہ،
کہ جیسے شام کا تارہ !
دانش کرنے والوں کی سحر راتوں میں رہتی ہے
گماں کی شاخ پر پوسٹ بنتا ہے دانش والی
یہ عین وصل میں بھی ارریلیونٹ ہونے کے خدشوں میں رہتے ہیں
دانش کے مسافر زندگی جب کاٹ چکتے ہیں
تھکن کی لائیکیں چنتے، دانشوری کے ریئکٹ سمیٹتے
سمے کی راہگزر کی آخری سرحد پہ رکتے ہیں
تو کوئی ڈوبتی سانسوں کی ڈوری تھام کر
دھیرے سے کہتا ہے
" یہ سچ ہے ناں !
ہماری زندگی فالوورز کے نام لکھی تھی
یہ دھندلکا سا جو نگاہوں سے قریب و دور پھیلا ہے
اسی کا نام دانشوری ہے !
تمہیں مجھ میں دانشور دکھتا تھا !
تمہیں مجھ میں دانشور دکھتا ہے !"
دانشور کی طبیعت میں یہ کیسا بچپنا فیسبک نے رکھا ہے !
(ڈاکٹر عاکف خان)
یہ نظم پہلی مرتبہ فیسبک پر چھبیس اکتوبر دو ہزار بائیس کو چھپی۔ لنک درج ذیل ہے۔